اسی طرح یہاں حضرت نوح کی طرف بھی ایک سرسری اشارہ کردیا جاتا ہے۔
ونوحا اذ نادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجمعین (67 : 77) ”
حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف بھی یہ مختصر اشارہ ہے ‘ جس میں کوئی تفصیل نہیں ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے رب کو پکارا اور رب نے ان کی دعا کو قبول کیا یہاں ” من قبل “۔ کا لفظ آیا ہے یعنی ” سب سے پہلے “ اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہما السلام) سے ان کا دور پہلے گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے ہل و عیال کو بچالیا اور ان کی پوری قوم نذر طوفان ہوگئی کرب عظیم سے مراد وہ مشکلات ہیں جو ان کو پیش آئیں۔ سورة ہود میں تفصیلات موجود ہیں۔
آیت 76 وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ”یہ اس دعا کی طرف اشارہ ہے جو سورة القمر میں نقل ہوئی ہے : فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ کہ پروردگار میں تو مغلوب ہوگیا ہوں ‘ اب تو میری مدد فرما اور تو ہی ان کافروں سے انتقام لے۔ آپ علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرمائی گئی اور اس نافرمان قوم کو غرق کردیا گیا۔
نوح ؑ کی دعا نوح نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ان کی قوم نے ستایا تکلیفیں دیں تو آپ نے اللہ کو پکارا کہ باری تعالیٰ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ زمین پر ان کافروں میں کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر کافر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی۔ قوم کی سختی، ایذاء دہی، اور تکلیف سے اللہ عالم نے اپنے نبی کو بچالیا۔ ساڑھے نوسو سال تک آپ ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک وکفر سے باز نہ آئے بلکہ آپ کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔ اور نوح ؑ کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا سب ڈبودئے گئے۔