سورۃ الانبیاء: آیت 69 - قلنا يا نار كوني بردا... - اردو

آیت 69 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

قُلْنَا يَٰنَارُ كُونِى بَرْدًا وَسَلَٰمًا عَلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَ

اردو ترجمہ

ہم نے کہا "اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qulna ya naru koonee bardan wasalaman AAala ibraheema

آیت 69 کی تفسیر

آیت 69 قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَآٰی اِبْرٰہِیْمَ ”یہاں یہ نکتہ ذہنوں میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ فطرت کے قوانین اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ جب چاہے انہیں تبدیل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیت ان قوانین سے بالاتر ہے ‘ ان کی پابند نہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قوانین بہت محکم ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں روز روز تبدیل نہیں کرتا۔ اگر یہ محکم اور مستقل نہ ہوتے تو نہ سائنس کا کوئی تصور ہوتا ‘ نہ کوئی ٹیکنالوجی وجود میں آسکتی۔ تمام سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجیز طبیعی اور کیمیائی تبدیلیوں Physical and Chemical Changes کے قوانین کے محکم اور مستقل ہونے کے باعث ہی وجود میں آئی ہیں۔ البتہ یہ سمجھنا کہ اللہ خود بھی ان قوانین کو نہیں توڑ سکتا ایک کھلی حماقت ہے ‘ اور پچھلی صدی میں ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اسی حماقت کا شکار ہوا۔ سر سید احمد خان نے اسی سوچ کے تحت ہر معجزے کی کوئی نہ کوئی سائنٹفک توجیہہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ معجزے کے بجائے فطری عمل کا حصہ natural phenomenon نظر آئے۔ مثلاً انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر کے پھٹنے کا انکار کرتے ہوئے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ یہ سب کچھ مدو جزر کے عمل کے سبب ہوا تھا۔ ’ جزر ‘ کے سبب جب سمندر کا پانی پیچھے ہٹا ہوا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کر نکل گئے ‘ مگر جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ گزررہا تھا تو اس وقت سمندر ’ مد ‘ پر آگیا جس کی وجہ سے وہ سب غرق ہوگئے۔ اس سوچ کے پس منظر میں بہر حال یہ غلط عقیدہ کارفرما ہے کہ قوانین فطرت اٹل ہیں اور وہ تبدیل نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں درست عقیدہ یہ ہے کہ قوانین فطرت محکم ‘ مستقل اور مضبوط ہیں مگر اٹل نہیں ہیں۔ اللہ جب چاہے کسی قانون کو ختم کر دے یا تبدیل کر دے۔۔ اور اسی کا نام معجزہ ہے۔

آیت 69 - سورۃ الانبیاء: (قلنا يا نار كوني بردا وسلاما على إبراهيم...) - اردو