سورۃ الانبیاء (21): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anbiyaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنبياء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانبیاء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anbiyaa
سُورَةُ الأَنبِيَاءِ
صفحہ 327 (آیات 58 سے 72 تک)

فَجَعَلَهُمْ جُذَٰذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ قَالُوا۟ مَن فَعَلَ هَٰذَا بِـَٔالِهَتِنَآ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ قَالُوا۟ سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُۥٓ إِبْرَٰهِيمُ قَالُوا۟ فَأْتُوا۟ بِهِۦ عَلَىٰٓ أَعْيُنِ ٱلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ قَالُوٓا۟ ءَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِـَٔالِهَتِنَا يَٰٓإِبْرَٰهِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُۥ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَسْـَٔلُوهُمْ إِن كَانُوا۟ يَنطِقُونَ فَرَجَعُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوٓا۟ إِنَّكُمْ أَنتُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا۟ عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰٓؤُلَآءِ يَنطِقُونَ قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْـًٔا وَلَا يَضُرُّكُمْ أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ قَالُوا۟ حَرِّقُوهُ وَٱنصُرُوٓا۟ ءَالِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَٰعِلِينَ قُلْنَا يَٰنَارُ كُونِى بَرْدًا وَسَلَٰمًا عَلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَ وَأَرَادُوا۟ بِهِۦ كَيْدًا فَجَعَلْنَٰهُمُ ٱلْأَخْسَرِينَ وَنَجَّيْنَٰهُ وَلُوطًا إِلَى ٱلْأَرْضِ ٱلَّتِى بَٰرَكْنَا فِيهَا لِلْعَٰلَمِينَ وَوَهَبْنَا لَهُۥٓ إِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَٰلِحِينَ
327

سورۃ الانبیاء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانبیاء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FajaAAalahum juthathan illa kabeeran lahum laAAallahum ilayhi yarjiAAoona

فجعلھم۔۔۔۔ یرجعون (85) ” ‘۔ ہوا کیا ؟ تمام بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کا ڈھیر بنا دیئے گئے اور جو لکڑی کے تھے وہ توڑی ہوئی لکڑیوں کی شکل میں رہ گئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے بڑے بت کو رہنے دیا۔

لعلھم الیہ یرجعون (12 : 85) ” شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں “۔ اور اس سے پوچھیں کہ یہ واقعہ کس طرح رونما ہوا اور وہ کیوں ان چھوٹے بتوں کی مدافعت کے لیے نہ اٹھا۔ شاید اس طرح وہ اس پورے مسئلے پر از سرنو غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور راہ راست پر آجائیں۔ انہیں معلوم ہوجائے کہ بتوں کی پرستش ایک لغوا مر ہے۔

جب لوگ آئے ‘ انہوں نے دیکھا کہ ان کے بت ریزہ ریزہ زمین پر پڑے ہیں۔ صرف بڑا بت بت کی طرح کھڑا ہے لیکن انہوں نے اس سے کچھ نہ پوچھا۔ خود بھی انہوں نے غور نہ کیا کہ اگر ہی خدا تھے تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کیسے ہوگیا اور یہ جو کھڑا ہے اگر بڑا خدا ہے تو اس نے ان چھوٹے خدائوں کی مدافعت کیوں نہ کی ؟ انہوں نے اپنے ذہنوں میں یہ سوال پیدا وہنے نہ دیا پیدا ہی نہ ہوا کیونکہ جب عقل میں خرافات بیٹھ جائیں تو عقل معطل ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اصل کام چھوڑدیتی ہے۔ جب لوگ جامد تقلید کرنے لگیں تو بھی ان کی عقلوں پر تالے پڑجاتے ہیں اور وہ کسی معاملے پر غور و فکر اور تامل و تدبر نہیں کرتے۔

اردو ترجمہ

(اُنہوں نے آ کر بتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے "ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo man faAAala hatha bialihatina innahu lamina alththalimeena

قالوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہ لمن الظلمین (95) ” ۔ اب ان لوگوں کو بات یاد آئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کے بارے میں اپنے باپ سے بھی جھگڑا کیا ہے۔ باپ کے سوا دوسرے لوگوں سے بھی انہوں نے کہا ہے کہ ان مورتیوں کی پرستش تم کیوں کرتے ہو اور پھر انہوں نے بتایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ جب لوگ چلے جائیں گے تو میں ان کی خبر لوں گا۔

اردو ترجمہ

(بعض لوگ) بولے "ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo samiAAna fatan yathkuruhum yuqalu lahu ibraheemu

قالوا سمعنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابرھیم (06) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جواں سال تھے۔ ان کو اللہ نے جوانی ہی میں ہدایت دے دی تھی۔ اس لیے انہوں نے ان بتوں کی عبادت کو ایک قبیح فعل سمجھتے ہوئے ان کے بت توڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ان کو اس بات کا حکم بذریعہ رسالت اور وحی دے دیا گیا تھا یا نہیں ؟ یا یہ کہ یہ ان پر قبل رسالت الہام ہوا تھا۔ اس نے اس الہام کی بنا پر اپنے باپ اور دوسرے لوگوں کو دعوت حق دینا شروع کردی تھی۔ یہ تو راجح بات ہے البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے ان کے لیے سمعنا فتی (12 : 06) کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے۔ ایک تو ان کی تحقیر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتے تھے۔

یقال لہ ابرھیم (12 : 06) ” جسے ابراہیم کہتے ہیں “۔ اور یہ تصغیر اور مجہول کا صیغہ وہ اس لیے استعمال کررہے تھے کہ یہ کوئی اہم آدمی نہیں ہے نہ اس سے کوئی خطرہ ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں پہلی رائے ہی قابل ترجیح ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جواں سال تھے۔

اردو ترجمہ

انہوں نے کہا "تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں (اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo fatoo bihi AAala aAAyuni alnnasi laAAallahum yashhadoona

اردو ترجمہ

(ابراہیمؑ کے آنے پر) اُنہوں نے پوچھا "کیوں ابراہیمؑ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo aanta faAAalta hatha bialihatina ya ibraheemu

قالوآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یابرھیم (26) تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ان کے یہ بت ریزہ ریزہ تھے لیکن پھر بھی ان کو اصرار تھا کہ یہ ہمارے الہٰ ہیں۔ جب ابراہیم ان کے ساتھ یہ مذاق کررہے تھے وہ اکیلے تھے اور یہ لوگ بہت زیادہ تھے ۔ لیکن وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ معاملات کو دیکھتے تھے۔ اس لیے وہ ان بےعقلوں کے سامنے مذاق ہی کرسکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ان کو ایسا جواب دیا جوان جیسے لوگوں کے مناسب حال تھا۔

اردو ترجمہ

اُس نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala bal faAAalahu kabeeruhum hatha faisaloohum in kanoo yantiqoona

قال بل۔۔۔۔۔۔۔ ان کانوا ینطقون (36) ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس جواب میں چھنا ہوا مذاق تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس سنجیدہ مذاق کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے یہ جھوٹی بات کی۔ مفسرین نے اس فقرے کے اسباب اور توجیہات میں جو طویل کلام کیا ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ معاملہ تو بہت ہی سادہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ لوگوں کو بتائیں کہ یہ مورتیاں اتنا بھی نہیں جانتیں کہ ان کو توڑا کس نے ہے ؟ میں نے توڑا ہے یا اس بڑے بت نے توڑا ہے ؟ جو کوئی حرکت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ تو محض جمادات ہیں اور ان کے اندر تو قوت مدر کہ ہے ہی نہیں۔ تم آدمی ہوتے ہوئے بھی ایسے ہو کہ تمہاری قوائے مدر کہ جامد ہوچکی ہیں۔ تم کسی ممکن الوقوع اور جائز کام میں اور ایک ایسے امر میں فرق نہیں کرسکتے جو ناممکن الوقوع ہے۔ تم یہ انکوائری اس لیے کررہے ہو کہ میں نے ان کو توڑا ہے یا اس بڑے بت نے تو پھر ان سے پوچھو اگر یہ بات کرسکتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس عجیب مذاق نے ان کو ایک لمحے کے لیے تو ہلاکررکھ دیا ہے۔ وہ سوچنے لگے ‘ کچھ غور کرنے لگے۔

اردو ترجمہ

یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے "واقعی تم خود ہی ظالم ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FarajaAAoo ila anfusihim faqaloo innakum antumu alththalimoona

فرجعوآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکم انتم الظلمون (46) ” یہ ان کے اندر ایک اچھی سوچ کا آغاز تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے موقف میں بنیادی کمزوری ہے۔ وہ جو بتوں اور مورتیوں کی پوجا کررہے ہیں یہ دراصل ظلم ہے۔ پہلی مرتبہ یوں لگتا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ جس راہ پر وہ بغیر سوچے سمجھے چل رہے ہیں وہ بہت ہی غلط ہے۔

لیکن یہ ان کے فکر و نظر کی دنیا میں ایک چمک ہی تھی۔ اندھیرا حسب سابق پھر غالب آگیا۔ ان کے مردہ دلوں کے اندر ایک دھڑکن سی پیداہوئی مگر جلد ہی وہ پھر خاموش ہو کر جمود کا شکار ہوگئے۔

اردو ترجمہ

مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی اور بولے "تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma nukisoo AAala ruoosihim laqad AAalimta ma haolai yantiqoona

ثم نکسوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ینطقون (56) ’ واقعی پہلے فقرے میں وہ اپنے دلوں اور دماغوں کی طرف لوٹ آئے تھے اور دوسرے فقرے میں جو ہے کہ وہ اپنے سروں کو چھوڑ کر الٹے پھرے تو گویا الٹے پائوں پھرے اور اپنے سروں سے سوچ کا کام لینا بھی انہوں نے چھوڑدیا۔ پہلی حرکت اپنے ضمیر کی طرف تھی کہ سوچیں اور تدبیر کریں اور دوسری حرکت واپسی کی تھی اور سوچ اور تدبر کو ترک کر کے پھر واپس ہوئے اور ان کے منہ سے جو بےعقلی کی بات نکلی وہی ان کے خلاف حجت تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل ہی یہ تھی کہ دیکھو یہ بات بھی نہیں کرسکتے۔

جب وہ یہاں تک آگئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیساحلیم الطبع شخص بھی ان پر قدرے غصہ کرتا ہے کیونکہ ان کی یہ کم عقلی اس قدر واضح ہے کہ اس پر آدمی کے لیے صبر کرنا مشکل ہے۔

اردو ترجمہ

ابراہیمؑ نے کہا "پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala afataAAbudoona min dooni Allahi ma la yanfaAAukum shayan wala yadurrukum

قال افتعبدون۔۔۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون (66 : 76) ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات سے ان کی دل تنگی کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ قدرے غصے میں نظر آتے ہیں اور ان کو سخت تعجب ہے کہ یہ لوگ اس قدر پوچ اور غیر معقول فکر و عمل میں پڑے ہوئے ہیں۔

اب ان لوگوں کا رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔ ان کی ہٹ دھرمی اب انہیں سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ ان کا حال اس شخص جیسا ہوگیا جس کے پاس دلیل کچھ نہ ہو ‘ اور دلیل کی کمزوری اور کمی وہ تشدد کے ذریعہ پوری کررہا ہے۔ چناچہ یہ لوگ بھی اب تشدد پر اتر آئے اور یہ فیصلہ کیا۔

اردو ترجمہ

تف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Offin lakum walima taAAbudoona min dooni Allahi afala taAAqiloona

اردو ترجمہ

انہوں نے کہا "جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo harriqoohu waonsuroo alihatakum in kuntum faAAileena

قالوا۔۔۔۔۔۔۔ فعلین (86) ” ‘۔

کیا ہی زبردست خدا ہیں کہ بیچاروں کی نصرت ان کے پجاری کررہے ہیں ‘ وہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک ہی نہیں۔ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں ‘ نہ اپنے بندوں کی۔ انہوں نے تو یہ حکم دیا کہ اسے جلا دو لیکن دوسری جانب سے بھی ایک حکم صادر ہوا ‘ یہ اصل حاکم مطلق کا حکم تھا ‘ اس نے پہلے حکم کو باطل کردیا۔

قلنا ینار کونی بردا وسلم ا علی ابرھیم (96) ” ہم نے کہا ” اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر “۔

چناچہ ان کا جلایا وہا الائو ابراہیم کے لیے ٹھنڈا بھی ہوگیا اور ان کے لیے سلامتی کا موجب بنا ‘ یہ کیسے ؟ یہ سوال صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) والے الائو کے بارے میں کیوں پیدا ہو رہا ہے ؟ لفظ کن اور کونی سے یہ کائنات وجود میں آگئی ‘ بڑے بڑے جہاں پیداہو گئے۔

انما امرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیکون (63 : 28) ” اس کا حکم یہ ہے کہ اس نے جب کسی چیز کا ارادہ کیا تو صرف یہ کہتا ہے کن تو ہوجاتی ہے “۔ اس لیے ہم یہ سوال کرتے ہی نہیں کی آگ نے کس طرح نہ جلایا ‘ حالانکہ مشہور اور معروف اور زیر مشاہدہ طریقہ تو یہ ہے کہ آگ زندہ جسموں کو جلا دیتی ہے۔ جب ذات باری نے آگ سے کہا کہ جلائو تو وہ جلانے لگی۔ اس ذات نے اسے کہا کہ نہ جلائو اور سرد ہو جائو تو وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی۔ دونوں کلمات کا فرق صرف یہ ہے کہ ایک نتیجے کے ہم عادی ہیں اور دوسرے نتیجے کے ہم عادی نہیں۔

جو لوگ اللہ کے افعال کو انسانی افعال پر قیاس کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ اور کیسے ممکن ہوا ؟ لیکن جو لوگ اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ اللہ میں اور انسانوں میں فرق ہے ‘ تو ان کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہ ایسے واقعات کی علتیں تلاش نہیں کرتے۔ خواہ یہ علت سائنسی ہو یا غیر سائنسی ہو۔ کیونکہ یہ مسئلہ امر الہٰی کا ہے علت اور اسباب کا نہیں ہے ‘ خصوصاً انسانی پیمانوں کے مطابق سبب و مسبب کی تلاش کا نہیں ہے۔ معجزات کے سلسلے میں جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر سائنسی پیمانوں یعنی علت و معلول (Cause and Effect) کے زاویہ سے کرتے ہیں وہ غلط لائن پر جاتے ہیں۔ معجزات کی تفسیر یہی ہے کہ ان کو امر الہٰی کے حوالے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے افعال کو ان پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا جن سے ہم انسانی پیمانوں کو ناپتے ہیں۔

ہمیں چاہیے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے کہ ہم ان واقعات پر ایمان لائیں ‘ کیونکہ اللہ خالق اور صانع ہے اور ایک صانع اپنی مصنوعات کو جس طرح چاہے بنا سکتا ہے۔ یہ کیونکر ہوا کہ آگ سرد ہوگئی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صحیح و سلامت رہ گئے۔ قرآن کریم نے اس کی کوئی تشریح و تعلیل نہیں کی ہے کیونکہ ہم اپنے انسانی قوائے مدرکہ کے ساتھ اس چیز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا نص قرآن کے سوا ہمارے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو ٹھنڈا کردیا گیا اس کی مثالیں اس دنیا میں بھی واقعہ ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کا ہم نوٹس نہیں لیتے جس طرح اس اہم واقعہ کا نوٹس تاریخ نے لے لیا۔ تاریخ انسانی میں افراد پر اور جماعتوں پر اس سے بھی بڑے بڑے مظالم ہوتے رہے ہیں۔ اتنے ہولناک اور خوفناک مظالم کہ ان سے زندہ بچنے اور صحیح سلامت باہر آنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی لوگ نکل آتے ہیں۔ مظالم اور تشدد کی بڑے بڑے الائو جلائے جاتے ہیں اور ان میں ان لوگوں کو ڈالا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ زندہ بچ نکلتے ہیں اور مظالم اور تشدد کا یہ الائو ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ یہ الائو بظاہر تو بہت بڑا شر ہوتا ہے لیکن ان مظلوموں کے لیے وہ بہت بڑا خیر بن جاتا ہے۔

یہ معجزہ ہے کہ ” اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے “۔ افراد ‘ جماعتوں اور قوموں کی زندگی میں بار بار دہرای جاتا ہے ‘ خصوصاً افکار ‘ عقائد اور تحریکات کے زاویہ سے جب امرالہٰی آتا ہے تو انسانی اقوال باطل ہوجاتے ہیں۔ تمام سازشیں ختم ہوجاتی ہیں کیونکہ امرا لہٰی برتر حکم ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے کہا "اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qulna ya naru koonee bardan wasalaman AAala ibraheema

اردو ترجمہ

وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں مگر ہم نے ان کو بُری طرح ناکام کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaradoo bihi kaydan fajaAAalnahumu alakhsareena

وارا دوا بہ کیدا فجعلنہم الاخسرین (07) ” ‘۔

روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معاصر بادشاہ کا نام نمرود تھا۔ وہ عراق کے آرامیوں کا بادشاہ تھا۔ وہ اور اس کے سردار عذاب الہی سے ہلاک کردیئے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات میں روایات کا اختلاف ہے اور ہمارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے ہم حقیقت کو پاسکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس سازش سے بچا لیا جو انہوں نے ان کے خلاف تیار کی تھی اور سازش کرنے والے خسارے میں رہے۔ ان کو کیا خسارہ ہوا اس کا ذکر یہاں نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

اور ہم نے اُسے اور لوطؑ کو بچا کر اُس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanajjaynahu walootan ila alardi allatee barakna feeha lilAAalameena

ونجینہ۔۔۔۔۔۔۔ فیھا للعلمین (17) ” ‘۔

یہ شام کی سرزمین ہے جس کی طرف آپ اور آپ کے بھتیجے لوط نے ہجرت کی۔ چناچہ یہ سرزمین ایک عرصے تک وحی کے نزول کا علاقہ بنی رہی۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل کے کئی رسول اس علاقے میں مبعوث ہوتے رہے۔ اس علاقے میں ارض مقدسہ اور مسلمانوں کا دو سرا حرم ہے۔ اور یہی علاقہ ہے جو سرسبز و شاداب علاقہ ہے اور اس میں بڑی برکات ہیں یعنی اس علاقے میں روحانی اور مادی برکات نسلاً بعد نسل موجودر ہیں۔

اردو ترجمہ

اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، اور ہر ایک کو صالح بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawahabna lahu ishaqa wayaAAqooba nafilatan wakullan jaAAalna saliheena

ووھبنا لہ۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدین (27 : 37) ”

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وطن ‘ اہل وطن اور قوم کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ارض مبارکہ بطور وطن عنایت فرمائی ‘ جو ان کے وطن سے زیادہ بہتر تھی ‘ اور ان کو حضرت اسحاق جیسا بیٹا اور حضرت یعقوب جیسا پوتا دیا جو بہترین ہل و عیال ثابت ہوئے۔ اور پھر ان کی اولاد سے ایک نسل کثرت سے بڑھی کہ وہ دنیا میں ایک مستقل امت بن گئی تو یہ قومچھوڑنے کا صلہ تھا اور پھر آپ کی نسل میں بڑے بڑے ائمہ پیدا ہوئے جو اللہ کے حکم سے لوگوں کو ہدایت دیتے تھے اور اللہ نے ان کی طرف وحی کی کہ وہ بھلائی کے مختلف کام کریں۔ نماز قائم کریں ‘ زکوۃ دیں اور اللہ کی اطاعت اور بندگی کریں۔ چناچہ اللہ نے ان کو اس کا بہترین معاوضہ دیا اور اس کے ساتھ بہترین انعام دیا۔ ان کا خاتمہ بھی بہت اچھا ہوا کہ اللہ نے ان کو آزمایا اور انہوں نے صبر کیا اور اللہ نے ان کو صبر جمیل کا اجر دیا۔

327