سورۃ الانبیاء: آیت 26 - وقالوا اتخذ الرحمن ولدا ۗ... - اردو

آیت 26 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

وَقَالُوا۟ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَٰنَهُۥ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ

اردو ترجمہ

یہ کہتے ہیں "رحمان اولاد رکھتا ہے" سبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزّت دی گئی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo ittakhatha alrrahmanu waladan subhanahu bal AAibadun mukramoona

آیت 26 کی تفسیر

وقالوا اتخذالرحمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجزی الظلمین ”

اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا تصور زمانہ جاہلیت میں مختلف لوگوں کے درمیان مختلف تھا۔ مشرکین عرب خیال کرتے تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین یہود کہتے تھے کہ عزیز ابن اللہ ہیں اور مشرکین نصاریٰ کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب شرکیہ عقائد ہیں اور دوسری اقوام مشرک کے ہاں اور طرح کے ہیں۔

یہاں اشارہ عربوں کے عقیدہ کی طرف ہے جو ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ یہاں ان کے عقیدے کی تردید فرشتوں کی نوعیت اور حقیقت کے بیان سے کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں نہیں ‘ جس طرح ان لوگوں کا زعم ہے بلکہ یہ اللہ کے ہاں مکرم بندے ہیں۔ یہ ایسی مخلوق ہے کہ اللہ کے سامنے جذبہ اطاعت ‘ ادب اور خوف خدا کی وجہ سے بات ہی نہیں کرتے۔ پس جو ان کو حکم دیا جاتا ہے ‘ بےچون و چرا اس پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ کا علم پوری طرح ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ لوگ کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے الا یہ کہ اللہ کسی کی سفارش پر راضی ہوجائے۔ وہ مزاجا اللہ سیڈرتے ہیں اور اللہ کے خوف سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کے قریب تر ہیں ‘ پاکباز ہیں ‘ پوری طرح مطیع فرمان ہیں اور ان کے اندر کوئی انحراف نہیں ہے۔ پھر ان کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ وہ الہٰ ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کوئی دعویٰ کر بھی بیٹھیں ‘ بفرض محال ‘ تو وہ بھی ایسی ہی سزا کے مستحق ہوں گے جس کا اعلان دوسروں کے لیے ہے ‘ یعنی جہنم اور یہ سب ظالم مشرکین کے لیے ہے۔ یہ اس لیے کہ الوہیت کا حق صرف اللہ کا ہے۔۔ اس طرح مشرکین عرب کا یہ دعویٰ غلط ‘ خلاف عقل اور مکروہ ہے ‘ کوئی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا اور اگر کرے گا تو مقررہ سزا پائے گا۔ جو بھی ہو یہ مدعی۔۔۔۔ یہاں فرشتوں کی اطاعت شعاری کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے خلاف میں ڈوبے رہتے ہیں جبکہ مشرکین مکہ جسارت کرتے ہیں۔

یہاں تک انسان کے سامنے توحید کے تکوینی دلائل رکھے گئے ‘ نیز تمام شرائع کے نقلی دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ سب کی تعلیم توحید ہے اور بعض وجدانی دلائل بھی دیئے گئے جو دلوں میں قدرتاً اتر جاتے ہیں۔ اب قرآن مجید انسان کو اس عظیم کائنات کی سیر کراتا ہے ‘ وہ کائنات جسے اللہ کا وست قدرت نہایت ہی حکیمانہ انداز میں چلاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ اس کائنات میں پھیلے ہوئے آیات و معجزات پر غور نہیں کرتے۔

آیت 26 وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗط بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ”جس کسی کو بھی یہ لوگ اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں ‘ وہ فرشتے ہوں ‘ انبیاء ہوں یا اولیاء اللہ ‘ سب اس کے مقرب بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے بندوں کی حیثیت سے اپنے ہاں با عزت مقام عطا کیا ہے : اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْط یونس : 2 ”یقیناً ان کے لیے ہے سچائی کا مرتبہ ان کے رب کے پاس۔“

خشیت الٰہی۔ کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے، فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں، بڑے بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں قولاً اور فعلاً ہر وقت اطاعت الہٰی میں مشغول ہیں۔ نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں آکے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ذرے ذرے کا وہ دانا ہے۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لئے لب ہلا سکیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ02505) 2۔ البقرة :255) وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جاسکے ؟ اور آیت میں ہے (وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ 23؀) 34۔ سبأ :23)۔ یعنی اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الہٰی سے، ہیبت رب سے لرزاں وترساں رہا کرتے ہیں۔ ان میں سے جو بھی خدائی کا دعوی کرے ہم اسے جہنم واصل کردیں ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے۔ اسی طرح کی آیت (قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀) 43۔ الزخرف :81) اور (لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 65؀) 39۔ الزمر :65) ہے۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد نہ نبی کریم ﷺ سے شرک ممکن۔

آیت 26 - سورۃ الانبیاء: (وقالوا اتخذ الرحمن ولدا ۗ سبحانه ۚ بل عباد مكرمون...) - اردو