سورۃ الانبیاء (21): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anbiyaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنبياء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانبیاء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anbiyaa
سُورَةُ الأَنبِيَاءِ
صفحہ 324 (آیات 25 سے 35 تک)

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ وَقَالُوا۟ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَٰنَهُۥ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ لَا يَسْبِقُونَهُۥ بِٱلْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِۦ يَعْمَلُونَ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ٱرْتَضَىٰ وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِۦ مُشْفِقُونَ ۞ وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّىٓ إِلَٰهٌ مِّن دُونِهِۦ فَذَٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلظَّٰلِمِينَ أَوَلَمْ يَرَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَنَّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَٰهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ ٱلْمَآءِ كُلَّ شَىْءٍ حَىٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ وَجَعَلْنَا فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٰسِىَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ وَجَعَلْنَا ٱلسَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ ءَايَٰتِهَا مُعْرِضُونَ وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ ٱلْخُلْدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِّتَّ فَهُمُ ٱلْخَٰلِدُونَ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِٱلشَّرِّ وَٱلْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
324

سورۃ الانبیاء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانبیاء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ہم نے تُم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama arsalna min qablika min rasoolin illa noohee ilayhi annahu la ilaha illa ana faoAAbudooni

ومآ ارسلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعبدون (12 : 52) ” ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو “۔ اللہ نے جب سے لوگوں کی ہدایات کے لیے رسول بھیجے ہیں ان کی دعوت اور تعلیمات کا قاعدہ اساسی عقیدہ توحید رہا ہے۔ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یعنی الہٰ اور معبود ایک ہی ہے۔ وہی رب ہے ‘ الوہیت اور ربوبیت کے درمیان جدائی ممکن نہیں ہے جو الہٰ ہے وہی رب ہے۔ لہٰذا ان تعلیمات میں الوہیت حاکمیت اور بندگی میں کوئی شرک نہیں اور یہ عقیدہ اسی طرح مستحکم ہے جس طرح اس کائنات کا نظام مستحکم ہے۔ یاد رہے کہ رسولوں کی تعلیمات بھی دراصل اس کائنات کے قوانین فطرت کا ایک حصہ ہیں۔

اب روئے سخن ایک دوسرے شرکیہ عقیدے کی طرف مڑجاتا ہے۔ عقائد جاہلیت میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد پید کررکھی ہے۔

اردو ترجمہ

یہ کہتے ہیں "رحمان اولاد رکھتا ہے" سبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزّت دی گئی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo ittakhatha alrrahmanu waladan subhanahu bal AAibadun mukramoona

وقالوا اتخذالرحمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نجزی الظلمین ”

اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا تصور زمانہ جاہلیت میں مختلف لوگوں کے درمیان مختلف تھا۔ مشرکین عرب خیال کرتے تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین یہود کہتے تھے کہ عزیز ابن اللہ ہیں اور مشرکین نصاریٰ کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب شرکیہ عقائد ہیں اور دوسری اقوام مشرک کے ہاں اور طرح کے ہیں۔

یہاں اشارہ عربوں کے عقیدہ کی طرف ہے جو ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ یہاں ان کے عقیدے کی تردید فرشتوں کی نوعیت اور حقیقت کے بیان سے کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں نہیں ‘ جس طرح ان لوگوں کا زعم ہے بلکہ یہ اللہ کے ہاں مکرم بندے ہیں۔ یہ ایسی مخلوق ہے کہ اللہ کے سامنے جذبہ اطاعت ‘ ادب اور خوف خدا کی وجہ سے بات ہی نہیں کرتے۔ پس جو ان کو حکم دیا جاتا ہے ‘ بےچون و چرا اس پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ کا علم پوری طرح ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ لوگ کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے الا یہ کہ اللہ کسی کی سفارش پر راضی ہوجائے۔ وہ مزاجا اللہ سیڈرتے ہیں اور اللہ کے خوف سے بھی ڈرتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کے قریب تر ہیں ‘ پاکباز ہیں ‘ پوری طرح مطیع فرمان ہیں اور ان کے اندر کوئی انحراف نہیں ہے۔ پھر ان کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ وہ الہٰ ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کوئی دعویٰ کر بھی بیٹھیں ‘ بفرض محال ‘ تو وہ بھی ایسی ہی سزا کے مستحق ہوں گے جس کا اعلان دوسروں کے لیے ہے ‘ یعنی جہنم اور یہ سب ظالم مشرکین کے لیے ہے۔ یہ اس لیے کہ الوہیت کا حق صرف اللہ کا ہے۔۔ اس طرح مشرکین عرب کا یہ دعویٰ غلط ‘ خلاف عقل اور مکروہ ہے ‘ کوئی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا اور اگر کرے گا تو مقررہ سزا پائے گا۔ جو بھی ہو یہ مدعی۔۔۔۔ یہاں فرشتوں کی اطاعت شعاری کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے خلاف میں ڈوبے رہتے ہیں جبکہ مشرکین مکہ جسارت کرتے ہیں۔

یہاں تک انسان کے سامنے توحید کے تکوینی دلائل رکھے گئے ‘ نیز تمام شرائع کے نقلی دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ سب کی تعلیم توحید ہے اور بعض وجدانی دلائل بھی دیئے گئے جو دلوں میں قدرتاً اتر جاتے ہیں۔ اب قرآن مجید انسان کو اس عظیم کائنات کی سیر کراتا ہے ‘ وہ کائنات جسے اللہ کا وست قدرت نہایت ہی حکیمانہ انداز میں چلاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ لوگ اس کائنات میں پھیلے ہوئے آیات و معجزات پر غور نہیں کرتے۔

اردو ترجمہ

اُس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yasbiqoonahu bialqawli wahum biamrihi yaAAmaloona

اردو ترجمہ

جو کچھ اُن کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ باخبر ہے وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YaAAlamu ma bayna aydeehim wama khalfahum wala yashfaAAoona illa limani irtada wahum min khashyatihi mushfiqoona

اردو ترجمہ

اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman yaqul minhum innee ilahun min doonihi fathalika najzeehi jahannama kathalika najzee alththalimeena

اردو ترجمہ

کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yara allatheena kafaroo anna alssamawati waalarda kanata ratqan fafataqnahuma wajaAAalna mina almai kulla shayin hayyin afala yuminoona

اولم یرالذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل فی فلک یسبحون ”

یہ اس نظر آنے والی کائنات کی سیر ہے ‘ جبکہ انسانوں کے دل و دماغ اس میں موجود دلائل و شواہد سے بالکل غافل ہیں۔ اگر کھلے دل و دماغ سے اس پر غور کیا جائے تو اس میں ایسے شواہد ہیں جو عقل و خرو کے دامن گیر ہوجاتے ہیں ‘ صرف چشم بینا چاہیے۔

یہ بات کہ زمین و آسمان پہلے ملے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو بعد میں جدا کردیا ‘ قابل غور ہے۔ فلکیات کے شعبے میں انسانی علم جس قدر آگے بڑھتا ہے وہ قرآن کے اس فرمان کی توثیق کرتا ہے جو قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کہی۔ آج تک انسانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج کی کہکشاں جس میں سورج ‘ چاند ‘ زمین اور ان کے تابع دوسرے سیارے ہیں وہ پہلے ایک “ سدیم “ تھے بعد میں جدا ہو کر ان اجرام نے موجودہ شکل اختیار کرلی۔ اور یہ کہ زمین سروج ہی کا ایک حصہ تھی جس سے وہ جدا ہوئی اور ٹھنڈی ہوگئی۔

لیکن یہ تو فلکی نظریات میں سے ایک نظریہ ہے۔ آج یہ قائم ہے ‘ کل پھر اڑ جائے گا اور اس کی جگہ ایک دوسرا زیادہ مضبوط نظریہ لے لے گا۔ مسلمانوں کا طریقہ کار یہ نہیں ہے کہ وہ یقینی آیت پر ماہرین فلکیات کا کوئی غیر یقینی نظر یہ تھوپ دیں اور پھر اس کی تفسیر اس کے مطابق کریں۔ آج ہم اسے قبول کریں اور کل مسترد کردیں۔ اس لیے قرآن مجید کی اس تفسیر میں ہم نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ہم قرآن کریم اور جدید سائنسی نظریات کے درمیان تطبیق کریں۔ لیکن سائنسی نظریات اور چیز ہیں اور سائنسی حقائق اور چیز۔ سائنسی حقائق وہ ہوتے ہیں جو تجربے سے ثابت ہوں مثلا۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ مادہ گرمی سے بڑھ جاتا ہے اور پانی گرم ہونے سے بخارات میں بدل جاتا ہے اور برودت سے پانی جم جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے تجربات دراصل سائنسی حقائق ہوتے ہیں۔ یہ سائنسی حقائق علمی اور فلکی نظریات سے مختلف چیز ہے۔

قرآن کریم علمی نظریات کی کتاب نہیں ہے۔ نہ قرآن کریم اس لیے نازل ہوا ہے کہ سائنس کی طرح اس کے تجربے کیے جائیں۔ دراصل قرآن زندگی کا ایک پورا نظام ہے ‘ نیز اسلام عقل کے لیے بھی حدود متعین کرتا ہے تاکہ وہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ اسلام معاشرے کے لیے بھی ایک ضابطہ مقرر کرتا ہے تاکہ وہ عقل کو کام کرنے کی آزادی دے۔ لیکن اسلام سائنسی جزئیات میں مداخلت نہیں کرتا۔ نہ جزئیات میں جاتا ہے۔ عقل کی سمت درست کرکے اسلام ان باتوں کو عقل پر چھوڑ دیتا ہے۔

قرآن کریم کبھی کبھار کائناتی حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے مثلا ان السموات والارض کانتا رتقا ۔۔۔ (12 : 03) ” آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان دونوں کو جدا کیا “۔ ہم اس حقیقت پر محض اس لیے یقین کرتے ہیں کہ یہ قرآن میں مذکور ہے ‘ اگرچہ تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے کہ یہ کیونکر ہوا ؟ زمین آسمان سے کیسے جدا ہوئی یا آسمان زمین سے کیسے جدا ہوئے۔ ہم ان سائنسی نظریات کو بھی اس مجھمل حد تک قبول کرتے ہیں جو حقیقت مذکورہ در قرآن کے خلاف نہ ہوں۔ لیکن ہم یہ نہیں کرتے کہ فلکیاتی نظریات کو سامنے رکھ کر آیات قرآنیہ کو ان کے پیچھے دوڑائیں اور قرآن کی صداقت کا سرٹیفکیٹ ان نظریات سے لیں کیونکہ یقینی حقیقت قرآن ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکت ہیں کہ آج کے فلیکاتی نظریات اس آیت کے اس مجمل مضمون کے خلاف نہیں ہیں جو آیت میں آج سے صدیوں پہلے بیان کردیا گیا تھا۔

اب ہم اس آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس میں کہا گیا ہے۔

وجعلنا من المآء کل شیء حی (12 : 03) ” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی “۔ یہ آیت بھی نہایت ہی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس دان اس کے انکشاف اور ثبوت کو ایک عظیم با تخیال کرتے ہیں اور ڈارون کی اس بات پر تعریف کرتے ہیں جس نے کہ یہ دریافت کیا کہ پانی حیات کا بنیادی گہوارہ ہے اور اس حقیقت کو تجربے سے ثابت کیا۔

اس میں شک نہیں کہ سائنس دان جب اس حقیقت تک پہنچے تو یہ بہت بڑا انکشاف تھا لیکن قرآن مجید میں جو بات آئی ہے یہ ہمارے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے اور نہ سائنس دانوں کے انکشاف اور تجربے سے قرآن پر ایک مسلمان کے عقیدے میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن پر ہمارے اعتقاد کی بنیاد یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بنیاد نہیں ہے کہ جدید سائنسی نظریات قرآن کریم میں دیئے گئے حقائق کو ثابت کرتے ہیں۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈارون کا نظہ یہ ارتقاء اور نشوونما اس حد تک درست اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کس حدتک وہ زندگی کے لیے پانی کو ضروری خیال کرتا ہے۔

قرآن کریم نے تو آج سے چودہ سو سال قبل کفار کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ ذرا اس کائنات پر غور کرو ‘ اس کے عجائبات کو دیکھو ‘ قرآن نے تو ان کی جانب سے کائنات کا مشاہدہ نہ کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور یہ کہا تھا۔

افلا یو منون (12 : 03) ” کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ حالانکہ ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات یہ پکاررہی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو۔

اور ذرا مزید کائناتی مناظر : وجعلنا فی الارض رواسی ان تمید بھم ” اور زمین پر پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ یہاں جو بات ثابت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین پر بڑے بڑے پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انسانوں کو لے کر ایک طرف ڈھلک نہ جائے اور اس کے اندر اضطراب نہ ہو۔ توازن مختلف صورتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً بعض اوقات داخلی دبائو جو زمین کے اندر ہوتا ہے ‘ توازن پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات خارجی دبائو توازن پیدا کرتا ہے اور یہ دبائو مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک جگہ پہاڑ بلند ہوں ‘ دوسری جگہ زمین میں گہرے کھدے کے ساتھ متوازن ہوتا ہے۔ جو بھی ہو ‘ بہر حال اس آیت سے اجمالاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کے توازن کا پہاڑوں کے ساتھ تعلق ہے اس لیے ہم عقلی علوم اور تجربات کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ قرآن نے ایک حقیقت کے بارے حقیقت ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اسے ثابت کریں ‘ سائنسی تجربات سے اور یہ ہے عقل انسانی اور سائنسی موضوع کے لیے کام کرنے کا اصل میدان۔ ہمیں قرآن کریم کے اس اعلان پر وجدانی یقین رکھنا چاہیے اور اس کے ثبوت کے لیے اس کائنات میں مزید تحقیقات کرنا چاہئیں۔

اردو ترجمہ

اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna fee alardi rawasiya an tameeda bihim wajaAAalna feeha fijajan subulan laAAallahum yahtadoona

اردو ترجمہ

اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف توجّہ ہی نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAalna alssamaa saqfan mahfoothan wahum AAan ayatiha muAAridoona

وجعلنا فیھا ۔۔۔۔۔۔۔ یھتدون (12 : 13) ” اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کریں “۔ پہاڑروں کے درمیان کشادہ راہیں اور وادیاں ہیں تاکہ لوگ انمیں اپنے راستے متعین کریں۔ یہاں وادیوں اور شاہراہوں کا پہلا مفہوم تو یہ ہے کہ لوگ اس میں چلنے پھرنے کے راستے معلوم کریں لیکن اس میں ایک خفیہ سا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ ان ظاہری راستوں سے وہ راہ ہدایت بھی معلوم کریں کیونکہ یہ پوری کائنات انسان کے لیے راہ ہدایت فراہم کرتی ہے۔

وجعلنا السمآء سقفا محفوظا (12 : 23) ” اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنادیا “۔ آسمان سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اوپر نظر آئے۔ ہم جب سر کی سمت دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے اوپر نیلی چھت نظر آتی ہے۔ قرآن کریم اسے سقف محفوظ کہتا ہے۔ یہ سقف اس کائنات کے نہایت ہی حساس نظام کی حفاظت کررہا ہے اور یہ سقف ان ناپاکیوں سے بھی محفوظ ہے اور ان کمزوریوں سے بھی محفوظ ہے جو زمین میں ہیں۔ اوپر کا نظام اس طرح محفوظ ہے کہ آیات قرآنی نہایت ہی حفاظت سے اترتی ہیں۔

وھم عن ایتھا معرضون (12 : 23) ” مگر یہ لوگ کائنات کی نشانیوں کی طرف توجہ نہیں دیتے “۔ حالانکہ عقل کے لیے یہ ایک وسیع میدان ہے کہ کائنات میں آیات الہیہ تلاش کرے۔

اردو ترجمہ

اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee khalaqa allayla waalnnahara waalshshamsa waalqamara kullun fee falakin yasbahoona

وھوالذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یسبحون (12 : 33) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ‘ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ رات اور دن اس کائنات کے دو اہم رنگ ہیں اور شمس و قمر دو بڑے اجرام ہیں۔ ان دونوں کا اس کرئہ ارض پر انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے ‘ بلکہ نفس حیات سے ان کا گہرا تعلق ہے ‘ پھر گردش لیل و نہار اور حرکت شمس و قمر کو اگر غور سے دیکھا جائے تو زمانہ دراز سے یہ نہایت ہی دقیق ٹائم کے مطابق چل رہے ہیں۔ کبھی بھی اس ٹائم ٹیبل میں خلل نہیں پڑا اور مسلسل حرکت ہے بلا کسی معمولی وقفے کے۔ یہ امور اس قابل ہیں کہ انسان ان پر غور کرے اور معلوم کرے کہ اس کائنات کے لیے ایک ہی ضابطہ ‘ ایک مدبر اور ضابطہ نے مقرر کیا ہے اور وہی الہٰ خالق ہے اور وہی مدبر کائنات ہے۔

اب اس سبق کے آخر میں قرآن کریم ان قوانین اور ضوابط کو جو خالق نے اس کائنات میں جاری کر رکھے ہیں اور جن کے مطابق خالق اس کائنات میں تصرفات کرتا ہے ‘ ان اخلاقی اور شرعی اور دینی ضوابط سے مربوط کردیتا جو انسانی زندگی کے اختیاری حصے میں جاری کی جارہے ہیں۔ یہ ضوابط تمہارے لیے آزمائش ہیں جس طرح تمہاری طبعی زندگی کا ایک انجام ہے ‘ اسی طرح تمہاری اخلاقی زندگی کا بھی ا کی انجام ہے۔

اردو ترجمہ

اور اے محمدؐ، ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama jaAAalna libasharin min qablika alkhulda afain mitta fahumu alkhalidoona

وما جعلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والینا ترجعون ”

کل نفس ذائقۃ الموت (12 : 53) ” ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے “۔ یہ قانون قدرت اس کرئہ ارض پر حیات پر لاگو ہی اور اس قاعدے میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ لہٰذا تمام زندوں کو ‘ تمام عقلمند زندوں کو اس مذاق کا خیال رکھنا چاہیے۔

موت ہر زندہ چیزکا انجام ہے۔ زمین میں انسان کا ایک مختصر سفر ہے۔ سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہاں سفر کے دوران انسان کو جو حالات پیش آتے ہیں یہ تو اس کے لیے آزمائش ہے ‘ ایک امتحان ہے۔

ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ (12 : 53) ” اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کررہے ہیں “۔ شر میں مبتلا کر کے آزمائش سمجھ میں آتی ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون کس قدر صبر کرتا ہے ‘ کس قدر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اسے کس قدر رحمت خداوندی پر یقین ہے لیکن بھلائی اور خیر میں آزمائش کیسی ؟ اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ بھلائی اور خیر میں آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اگرچہ لوگ اسے شر کی آزمائش سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اکثر لوگ شر میں آزمائش کا مقابلہ تو کرلیتے ہیں لیکن خیر میں ان سے آزمائش کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ بیماری اور ضعف میں لوگ شر کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن صحت اور عافیت میں کم لوگ آزمائش کا مقابلہ کر ست کے ہیں۔ ان کے پاس اختیارات کی اندھی قوت ہوتی ہے یا جسمانی اندھی قوت ہوتی ہے۔ اس کے استعمال میں وہ فیل ہوجاتے ہیں۔ بیشمار لوگ ایسے ہوں گے جو فقرو فاقہ برداشت کریں گے اور ان کے نفوس کبھی بھی ان کو ذلت اور برے طریقوں پر رزق حرام پر آمادہ نہ کرسکیں گے لیکن کم ہیں جو دولتمندی کی آزمائش میں پورے اتریں۔ دولت کا حق ادا کریں ‘ تکبرو غرور نہ کریں اور عیش و عشرت سے بچیں۔

بہت لوگ ہوں گے جو تشدد کو برداشت کریں گے اور ڈراوے اور دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہ کریں گے لیکن کم لوگ ہوں جو امن و عافیت کے دور میں مرغوبات ‘ منصب اور سازو سامان کی کشش کا مقابلہ کرسکیں۔

بہت لوگ ایسے ملیں گے جو مارپیٹ اور جسمانی اذیت اور زخموں کا مقابلہ کریں گے لیکن کم ایسے ہوں گے جو عیش و عشرت سے صبر کرسکیں یا طمع و لالچ کے مقابلے میں سیدھے کھڑے ہو سکیں کیونکہ دنیا کا لالچ بڑے بڑوں کی گردنیں جھکا دیتا ہے اور لوگ اس قدر سست پڑجاتے ہیں کہ ان کی ہمتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور روحانی طور پر وہ ذلت اختیار کرلیتے ہیں۔

تشدد اور جسمانی تعذیب کے نتیجے میں انسان کی خودی بیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے اعصاب میں قوت برداشت پیدا ہوجاتی ہے اور جسم کی تمام قوتیں تشدد برداشت کرنے کے لیے صف آرا ہوجاتی ہیں۔ لیکن خو شحالی ! یہ بہت ہی خطرناک ابتلاء ہے۔ اس سے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ جسمانی قوت مدافعت پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے اور بیداری اور جدوجہد کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے تجربے کئے ہیں کہ تشدد اور جسمانی تعذیب میں ایک کارکن بہت ہی کامیاب رہا ‘ مقابلہ کرتارہا لیکن جب خوشحالی آگئی ‘ تو خوشحالی اور فراوانی کی آزمائش میں وہ فیل ہوگیا ۔

یہ ہے انسان یک کہانی۔ الا وہ لوگ جنہیں اللہ بچالے اور جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :” مومن کی شان بھی عجیب ہے کہ اس کا کام ہر حال میں کامیابی ہے۔ اور یہ سہولت صرف اہل ایمان کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ اگر اسے خوشحالی مل جئے تو وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے ‘ تو وہ اس کے لیے خیر ہوجاتی ہے ‘ اگر اس پر مشکل دن آجاتے ہیں توہ صبر کرتا ہے ‘ تو یہ برے دن بھی اس کے لیے اچھے ہوجاتے ہیں “۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔

لہٰذا انسان کو عموماً اور تحریک اسلامی کے کارکن کو خصوصاً برے دنوں کے مقابلے میں اچھے دنوں میں زیادہ چوکنارہنا چاہیے البتہ دونوں حالات میں رب تعالیٰ کے ساتھ حقیقی تعلق ہی کامیابی کی اصل ضمانت ہے۔

اردو ترجمہ

ہر جاندار کو مَوت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں آخرکار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kullu nafsin thaiqatu almawti wanablookum bialshsharri waalkhayri fitnatan wailayna turjaAAoona
324