سورۃ الانبیاء: آیت 109 - فإن تولوا فقل آذنتكم على... - اردو

آیت 109 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَقُلْ ءَاذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَآءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِىٓ أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ

اردو ترجمہ

اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ "میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دُور

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain tawallaw faqul athantukum AAala sawain wain adree aqareebun am baAAeedun ma tooAAadoona

آیت 109 کی تفسیر

فان تولو افقل اذئتکم علی سوآء (21 : 109) ” اگر وہ منہ پھیریں تو پھر کہو کہ میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کردیا ہے۔ “ یعنی میں نے اپنا مدعا پورا پورا تمہارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب میں اور تم برابر ہیں۔ ” ایذان “ تو دراصل اس اعلان اور الٹی میٹم کو کہتے ہیں جو امن کا زمانہ ختم ہونے کے وقت کیا جاتا ہے اور فریق دوئم سے کہا جاتا ہے کہ اب دونوں فریقوں کے درمیان جنگ ہے۔ یہ سورة مکی ہے ، اس وقت قتال فرض نہ ہوا تھا ، تو یہاں اعلان کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جو کچھ کہنا تھا ، کہہ دیا ہے۔ اب تم جانور اور تمہارا انجام۔ یعنی اب یہ آخری اعلان آگیا ہے اور آئندہ تمہارے لئے عذر و معذرت کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ اگر وہ جانتے بوجھتے اپنے راستے پر چلتے رہیں تو اس کا وبال بھی ان پر ہوگا کیونکہ ان کو علم ہے۔

و ان ادری اقریب ام بعیدماتوعدون (21 : 109) ” اب میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دور۔ “ میں نے تمہیں اعلانیہ کہہ دیا ہے۔ لیکن میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ جس عذاب کے تم مستحق ہو وہ کب آئے گا۔ کیونکہ یہ تو اللہ کے مخفی علوم میں سے ایک غیبی علم ہے۔ اس کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے۔ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پکڑتا ہے یا آخرت میں۔ وہ تمہارے راز سے بھی واقف ہے اور کھلی باتوں سے بھی۔ تمہاری کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔

آیت 109 فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُکُمْ عَلٰی سَوَآءٍ ط ”میں نے تم سب لوگوں تک برابر اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ میں نے تمہارے سرداروں پر بھی اتمام حجت کردیا ہے اور عوام کے سامنے بھی حق واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ الغرض تمہارے معاشرے کا کوئی چھوٹا ‘ کوئی بڑا ‘ کوئی امیر اور کوئی غریب فرد ایسا نہیں جس تک میری یہ دعوت نہ پہنچی ہو۔ لہٰذا جو کام اللہ نے میرے ذمے لگایا تھا میں نے اپنی طرف سے اس کا حق ادا کردیا ہے۔وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ”تم لوگوں کو جو وعید سنائی جا رہی ہے ‘ جس عذاب یا قیامت کے وقوع پذیر ہونے سے متعلق تم لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے ‘ اس کے بارے میں کوئی ”ٹائم ٹیبل“ میں تم لوگوں کو نہیں دے سکتا۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا وہ وعدہ کب پورا ہوگا ‘ البتہ یہ بات طے ہے کہ اپنے کرتوتوں کے نتائج و عواقب بہر حال تم لوگوں کو بھگتنے ہوں گے۔قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں قطعی علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ‘ البتہ قرآن میں جابجا قیامت اور آثار قیامت کے بارے میں اشارے ملتے ہیں۔ احادیث نبویہ ﷺ کی کتاب الملاحم ‘ کتاب اشراط الساعۃ اور کتاب الفتن کے اندر بھی قرب قیامت کے زمانہ کے حالات و واقعات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سابقہ الہامی کتب کے اندر بھی بہت سی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ اگرچہ ان کتب میں بڑی حد تک ردّ و بدل کردیا گیا ہے ‘ لیکن ان کی بعض عبارات اپنی اصلی حالت میں آج بھی موجود ہیں۔ ان پیشین گوئیوں کے حوالے سے بائبل کی آخری کتاب Book of Revelation بھی بہت اہم ہے جو حضرت یوحنا John کے مکاشفات پر مشتمل ہے ‘ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے اور حضرت یحییٰ علیہ السلام پیغمبر یوحنا : John the Baptist کے ہم نام تھے۔ ماضی قریب کی شخصیات میں Nostradamous ‘ نعمت شاہ ولی ‘ گاندھی جی ان کی ذاتی ڈائری کی دریافت کے بعد یہ پیشین گوئیاں سامنے آئی ہیں اور وائن برگر کی پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ اس سب کچھ کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اس دنیا پر بہت مشکل حالات آنے والے ہیں۔ آثار وقرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ‘ لیکن اس کے وقوع کے بارے میں قطعی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔

آیت 109 - سورۃ الانبیاء: (فإن تولوا فقل آذنتكم على سواء ۖ وإن أدري أقريب أم بعيد ما توعدون...) - اردو