سورۃ الانبیاء (21): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Anbiyaa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنبياء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانبیاء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Anbiyaa
سُورَةُ الأَنبِيَاءِ
صفحہ 331 (آیات 102 سے 112 تک)

لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا ۖ وَهُمْ فِى مَا ٱشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَٰلِدُونَ لَا يَحْزُنُهُمُ ٱلْفَزَعُ ٱلْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّىٰهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ هَٰذَا يَوْمُكُمُ ٱلَّذِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِى ٱلزَّبُورِ مِنۢ بَعْدِ ٱلذِّكْرِ أَنَّ ٱلْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ ٱلصَّٰلِحُونَ إِنَّ فِى هَٰذَا لَبَلَٰغًا لِّقَوْمٍ عَٰبِدِينَ وَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَٰلَمِينَ قُلْ إِنَّمَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَقُلْ ءَاذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَآءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِىٓ أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ إِنَّهُۥ يَعْلَمُ ٱلْجَهْرَ مِنَ ٱلْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ وَإِنْ أَدْرِى لَعَلَّهُۥ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ قَٰلَ رَبِّ ٱحْكُم بِٱلْحَقِّ ۗ وَرَبُّنَا ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
331

سورۃ الانبیاء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانبیاء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yasmaAAoona haseesaha wahum fee ma ishtahat anfusuhum khalidoona

اردو ترجمہ

وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ "یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yahzunuhumu alfazaAAu alakbaru watatalaqqahumu almalaikatu hatha yawmukumu allathee kuntum tooAAadoona

لایحزنھم الفزع الاکبر و تتلقھم الملئکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون (21 : 103) ” وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں میں لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ “

ان منظر کو اس کائنات کے خاتمے کے منظر پر ختم کیا جاتا ہے ، یہ کائنات اس دن کی طرف لوٹتی ہے۔ اس دن کے خوفناک منظر میں جس طرح تمام لوگوں کے دل اس خوف کی گرفت میں ہیں اس طرح پوری کائنات بھی اس خوف و ہراس کی گرفت میں ہے۔

اردو ترجمہ

وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma natwee alssamaa katayyi alssijlli lilkutubi kama badana awwala khalqin nuAAeeduhu waAAdan AAalayna inna kunna faAAileena

یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب (21 : 103) ” وہ دن جب آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں۔ آسمان اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس طرح ریکارڈ کی پر ریکارڈ کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اب یہ منظر ختم ہوتا ہے اور یہ کائنات اس طرح لپیٹ دی جاتی ہے جس طرح ہمارے کاغذات اب کیا ہے ایک نئی دنیا اور ایک نئی کائنات اور نیا جہاں۔

کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فعلین (21 : 103) ” جس طر ہم نے پہلے تخلیق کی ابتداء کی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ “

کائنات کے خاتمہ کے اس خوبصورت منظر کو پیش کرنے کے بعد اور آخرت میں دوبارہ جہاں کو پیدا کرنے کے لئے ، روئے سخن پھر اس زمین کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اللہ کی آل سنت بیان کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے اقتدار اعلیٰ کی وراثت کا حق میرے صالح بندوں کا ہے اور یہ حق ان کو اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی بندگی کر کے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرچکے ہیں ان دونوں مناظر کے درمیان پورا ربط ہے۔ آخرت بھی نیک بندوں کی اور دنیا بھی نیک بندوں کی۔

اردو ترجمہ

اور زَبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad katabna fee alzzaboori min baAAdi alththikri anna alarda yarithuha AAibadiya alssalihoona

ولقد………الصلحون (105)

زبور ایک الہامی کتاب تھی جو دائود (علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔ اس سورة میں ذکر سے مراد تو رات ہوگی۔ جو زبور سے پہلے نازل ہوئی۔ یہ کتاب کی صفت ہے یعنی کتاب کا ایک ٹکڑا۔ اصل کتاب کا حصہ بمعنی لوح محفوظ ، جو ایک مکمل نظام ہے ، جو ایک مکمل مرجع ہے او اس کائنات کے ساتھ متعلق تمام قوانین اس کے اندر محفوظ ہیں۔ اس کا حصہ ہیں۔

بہرحال اصل زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مراد کیا ہے۔

ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (21 : 105) ” اور زبور میں نصیحت کے بعد ہم نے لکھ دیا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ “ وراثت کیا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمین کی وراثت اور اقتدار اعلیٰ کے بارے میں سنت الہیہ کیا ہے ؟ یہ کہ یہاں اقتدار میرے صالح بندوں کو ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ صالح بندے کون ہیں ؟

اللہ نے زمین پر آدم کو خلیفہ بنایا تاکہ وہ اس زمین کی تعمیر کرے او اس کی اصلاح کرے۔ اس کو ترقی دے اور اس سے تو جو خزانے ودیعت کئے ہوئے ہیں ، ان سے استفادہ کرے ، اس کے اندر جو طبیعی قوتیں ہیں ان کو کام میں لائے او اس ترقی کو اپنی انتہا تک پہنچائے جہاں تک اللہ چاہے۔

اس خلافت فی الارض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک منہاج بھی انسان کو دے دیا ، جس کے مطابق انسان نے زمین پر کام کرنا ہے۔ یہ منہاج نبی ﷺ نے اپنی آخری رسالت میں مکمل و مفصل کردیا ہے اور اس کے لئے قوانین اور ضوابط مقرر کردیئے ہیں۔ اس کے لئے ان قوانین میں مکمل ضمانت ہے۔

اس نظام کے مقاصد میں صرف یہ بات ہی شامل نہیں ہے کہ انسان زمین کے اندر موجود ذخائر کو کام میں لا کر مادی ترقی پر زور دیتا ہے بلکہ انسانی عقل اور انسانی ضمیر اور اس کی روح کو بھی ترقی دے۔ تاکہ اس دنیا میں انسان نے جس قدر مادی اور روحانی ترقی کرنی ہے وہ اس کے آخر تک پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا میں مادی ترقی کرتے کرتے وہ خود محض حیوان بن کر تنزل کا شکار نہ ہوجائے۔ مادی ترقیات تو آسمانوں کو چھو رہی ہوں اور انسان کی انسانیت پستیوں کی آخری حدوں پر (……) میں ہو۔

جب انسان اسلامی نظام زندگی کے مطابق منصب خلافت کے فرائض ادا کرتے ہوئے راہ ترقی پر گامزن ہو ، تو اس راہ میں مادی ترقی اور روحانی ترقی کا توازن کبھی کبھی بگڑ بھی جاتا ہے۔ کبھی ایک پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ اور توازن باقی نہیں رہتا۔ بعض اوقات اقتدار کے سرچشموں پر ڈکٹیٹر ، ظالم اور سرکش لوگ قابض ہوجاتے ہیں۔ کبھی ان مناصب پر سخت جاہل ، اجڈ اور مہم جو قابض ہوجاتے ہیں ، کبھی ان مناصب پر کفار اور فجار خالص ہوجاتے ہیں جو پوری دنیا کا مادی اور اخلاقی استحصال کرتے ہیں لیکن یہ صرف راستے کے تجربے ہوتے ہیں۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ زمین کے مناصب کی وراثت اللہ کے صالح بندوں کے لئے ہے۔ جن کا ایمان بھی مکمل ہو اور عمل بھی درست ہو۔ ان کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے ہوں۔

امت میں جب بھی ایمان اور عمل اسلامی معیار کے مطابق جمع ہوئے ہیں ، تاریخ کے کسی بھی موڑ میں ، تو زمین صالح بندوں کی وراثت بنی ہے لیکن جب ایمان و عمل میں جدائی ہوئی ہے یعنی ایمان نہیں رہا یا عمل نہیں رہا ، تو یہ وراثت ان کے ہاتھ سے چلی گئی ہے۔ بعض اوقات ایسے لوگوں کو غلبہ مل جاتا ہے جو محض مادی وسائل پر تکیہ کرتے ہیں۔ جو لوگ محض زبانی کلامی مومن ہوتے ہیں وہ پیچھے رہ جات یہیں۔ نیز بعض اوقات اہل ایمان کے اندر رسمی ایمان تو وہتا مگر وہ صحیح ایمان نہیں ہوتا جو انسان کو صحیح عمل پر آمادہ کرے اور دنیاوی ترقی کرے تو ایسی صورت میں بھی محض مادی ترقی کرنے والے لوگ زمین کے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ اہل ایمان ، ایمان کے ان تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہوتے جو خلافت فی الارض کے اونچے مقام کے لئے اسلامی نظام کی شکل میں اللہ نے اہل ایمان کے لئے وضع کئے ہیں۔

تحریک اسلامی کے کارکنوں پر اس وقت ایک ہی فرض ہے ، وہ یہ کہ وہ اپنے دلوں میں ایمان کا حقیقی مفہوم پیدا کریں۔ ایمان کا حقیقی مفہوم عمل صالح ہے۔ پھر خلافت فی الارض کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ کی سنت اپنے ظہور میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرتی۔

ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (21 : 105) ” زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ “ اب آخر میں عقل و خرد کی تاروں پر اسی مضراب کی ضربات لگتی ہیں جن کے نغمات سورة کے آغاز میں سنے گئے تھے۔

اردو ترجمہ

اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee hatha labalaghan liqawmin AAabideena

ان فی ھذا لبلغا لقوم عبدین (21 : 106) ” اس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لئے۔ “ یعنی قرآن کی تعلیمات میں اس پوری کائنات اور انسانی زندگی کے لئے جو اصول وضع کئے گئے ہیں اور پھر لوگوں کے لئے دنیا (آیت 105) اور آخرت میں جو فطری انجام بتائے گئے ہیں ، جو اصول عمل اور مکافات عمل رکھے گئے ہیں ان سب میں ان لوگوں کے لئے بڑی خوشخبری ہے۔ صرف ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی ہدایات کے مطابق کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ نے لفظ ” عابدین “ استعمال کیا ہے کیونکہ عبادت کرنے والا ، بندگی کرنے والا شخص ہر بھلائی کو قبول کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہوتا ہے اور تدبر کر کے اس سے نفع اٹھا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو تمام انسانیت کے لئے ایک ہادی بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اللہ کی راہ کی طرف لے آئیں۔ لیکن ہدایت تو وہی پاتے ہیں جو ہدایت پانے کے لئے تایر ہوں ، ارادہ کریں ، اگرچہ اللہ کی رحمت مومنین اور غیر مومنین دونوں کیل ئے عام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ جو نظام اور جو مناج لے کر آئے ہیں وہ اس دنیا میں بھی پوری انسانیت کے لئے سعادت مندی کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت اس دور میں آئی جس دور میں انسانیت سن رشد اور بلوغ کو پہنچ گئی تھی۔ یہ رسالت ایک کھلی کتاب کی صورت میں آئی اور یہ کتاب اور یہ رسالت تمام آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسا نظام زندگی پیش کرتی ہے جس میں کسی تبدیلی کی آئندہ بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ نظام انسان کی ان تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے جو قیامت تک اسے پیش آسکتی ہیں۔ یہ نظام اس خالق کا ارسال کردہ ہے ، جو انسانوں کی ضروریات کو خود انسانوں سے زیادہ جانتا ہے ، کیونکہ وہ لطیف وخبیر ہے۔

اللہ نے قرآن مجید کے اندر ایسے اصول وضع کئے ہیں جو قیامت تک آنے والی انسانی زندگی کی نئی نئی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ فروع اور جزئیات خود انسان پر چھوڑ دی ہیں کہ وہ ان اصولوں کی روشنی میں قیامت تک آنے والی انسان کی ترقی یافتہ زندگی کی ضروریات کے لئے خود قانون وضع کریں۔ ہر دور کی ظروف و احوال کے مطابق جزوی مسائل کو اجتہاد کر کے اس کے لئے قانون بنائیں بشرطیکہ وہ قوانین قرآن کے اصولوں سے متصادم نہ ہوں جو دائمی ہیں۔

قرآن انسان کو عقل اور سوچ کی پوری آزادی دیتا ہے وہ ایک ایسا معاشرہ اٹھاتا ہے جس میں لوگوں کے دماغوں پر تالے نہ پڑے ہوں۔ لیکن آزادی فکر و عمل اس دائرے کے اندر ہے جو اسلامی منہاج نے کھینچ دیا ہے تاکہ انسان اس دنیا کی زندگی میں نشو و نما پائے ، ترقی کے عمل کو جاری رکھے اور اسے دائرہ کمال تک پہنچائے۔

آج تک کے انسانی تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اسلام نے جو نظام زندگی وضع کیا ہے وہ تمام انسانیت کے فکر و عمل کے نظاموں سے آگے ہے۔ وہ اس قابل ہے کہ اس کی روشنی میں انسان مسلسل ترقی کرسکے۔ یہ نظام انسان کو ہر لمحہ آگے ہی بڑھاتا ہے ، نہ اسے جامد کرتا ہے اور نہ اسے پیچھے کی طرف لے جاتا ہے ، کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کا مقصد ہی خلافت فی الارض ہے۔ اس دنیا کو ترقی دیتا ہے ، ہمیشہ آگے ہی بڑھتا ہے اور اس کے قدم آگے ہی جاتے ہیں۔

یہ نظام انسان کے داعیہ ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، اور اس کے آگے بڑھنے کے شوق کو پورا کرتا ہے۔ کسی انسان کی انفرادی یا اجتماعی صلاحیتوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ نہ یہ نظام انسان کو اس کی جدوجہد کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے سے محروم کرتا ہے اور نہ یہ پابندی لگاتا ہے کہ وہ زندگی کی پاک چیزوں سے استفادہ نہ کرے۔

اس نظام کا مقام یہ ہے کہ یہ تموازن اور ہم آہنگ ہے۔ یہ جسم کو اس لئے نہیں کچلتا کہ روح کو بالیدگی نصیب ہو اور روح کو اس لئے نہیں دباتا کہ جسم موٹا ہو۔ انسان کی صحت مند جسمانی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرتا ہے ، اس طرح کہ وہ انفرادی اور اجتماعی ترجیحات کے مطابق ہوں۔ فرد کو پانی ذاتی خواہشات کو اس قدر آزاد ، اور بےلگام چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا جن سے سوسائٹی کے حقوق متاثر ہوں ، یا کسی فرد یا افراد کے مفاد میں سوسائٹی کے مفادات کو قربان کیا جائے۔

یہ نظام انسان پر جو فرائض اور ذمہ داریاں عائد کرتا ہے ان میں یہ بات پیش نظر ہوتی ہے کہ انسان ان کو برداشت کرسکتا ہے۔ یہ اس کی وسعت اور طاقت کے حدود میں ہیں ، اس کے مفاد میں ہیں اور اس کے اندر ان فرائض کو ادا کرنے کی استعداد موجود ہے۔ پھر یہ فرائض ایسے ہوتے ہیں کہ یہ فرد ان کی ادائیگی پر آمادہ ہو ، بلکہ یہ ایسے فرائض ہیں کہ لوگ نہ صرف یہ کہ دل و جان سے انہیں قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں بلکہ لوگ ان کے لئے جان دینے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ یہ فرائض ان کے خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی رسالت تمام انسانوں کے لئے ایک رحمت ہے۔ یہ رسالت جن اصولوں کو لے کر آئی تھی ابتداء میں لوگوں نے اسے عجیب و غریب سمجھا اور یہ اصول لوگوں کے لئے بوجھ سمجھے گئے کیونکہ ابتداء میں اسلامی اصولوں اور لوگوں کی روحانی اور عملی زندگی کے درمیان بہت بعد تھا۔ لیکن اسلام کے آنے کے بعد انسانیت پوری کی پوری روز بروز اسلامی نظام کے قریب آتی گئی۔ انسانیت اسلامی نظام سے مانوس ہوگئی اور پھر ان اصولوں کو انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے ہاں رائج کیا مگر دوسرے عنوانات سے ، اسلامی عنوان سے نہیں۔

اس آخری رسالت نے انسانیت کے راستے میں حائل ، لسانی ، قومی اور جغرافیائی حدود کو مٹا دیتا تاکہ تمام لوگ ایک ہی عقیدے ، ایک ہی نظام میں ، خالص انسانی نظام میں ایک ہوجائیں۔ اس وقت لوگوں کیلئے یہ ایک عجیب و غریب دعوت تھی۔ اس دور میں اشراف اور بڑے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کو اس مٹی سے نہیں پیدا کیا گیا جس سے غرباء کو پیدا کیا گیا ہے لیکن آج سے چودہ سو سال قبل اسلام نے جو انسانی اصول وضع کئے تھے ان کی طرف انسانیت آج بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اس عرصہ میں انسانیت نے بہت بڑی ٹھوکریں کھائیں اس لئے کہ وہ نور اسلام سے محروم تھی ، آج اسے اسلامی اصولوں میں روشنی نظر آتی ہے اور کم از کم زبانی طور پر وہ اسلام کے انسانی اصولوں کی بات بہرحال کرتی ہے اگر چہ یورپ و امریکہ اب بھی قومی ، لسانی اور جغرافیائی لعنتوں میں گرفتار ہیں۔

اسلام جب آیا تو اس نے تمام انسانوں کو قانون اور عدالت کے سامنے مساوی درجہ دیا۔ اس وقت دنیا کی صورت حالات یہ تھی کہ انسانیت کو طبقات میں بانٹ دیا گیا تھا اور ہر طبقے کے لئے جدا قانون تھا۔ بلکہ غلامی ، اور جاگیرداری کے دور میں تو مالک کا ارادہ ہی قانون ہوا کرتا تھا۔ اسلئے اس دور میں لوگوں کو یہ بات عجیب و غریب لگی کہ اسلام میں بندہ و آقا ، امیر و غریب سب ایک ہی قانون اور ایک ہی عدالت کے ماتحت ہیں۔ لیکن اسلام نے قانونی مساوات اور عدالتی چارہ جوئی کی مساوات کا جو اصول آج سے چودہ سو سال پہلے دیا ، انسانیت آج بھی اسی اصول کی طرف بوجھل قدموں کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔

ان باتوں کے علاوہ بھی بیشمار اجتماعی اور سماجی امور ایسے ہیں جن میں حضرت محمد ﷺ کی رسالت لوگوں کے لئے ایک عظیم رحمت ثابت ہوئی ہے۔ آپ ﷺ انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں چاہے کوئی آپ ﷺ پر ایمان لایا ہو یا نہ لایا ہو کیونکہ جو نظام آپ ﷺ لے کر آئے تھے تمام انسان اس سے متاثر ہوئے چاہے خوشی سے چاہے مجبور ہو کر ، دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر۔ اس رحمت کا سایہ اب بھی پھیلا ہوا ہے ، جو چاہے اس کے نیچے آ کر سستائے۔ اس میں سمادی باد نسیم کے خوشگوار جھونکے ہیں۔ اس کے شجر طیبہ کی گہرئی چھائوں ہے جبکہ اس کے اردگرد کی دنیا اس طرح ہے جس طرح سخت گرمی کے موسم میں کوئی چٹیل میدان میں سرگرداں ہو اور گرمی سے جھلس رہا ہو۔

واقعہ یہ ہے کہ انسانیت جس طرح آج رحمت اسلام کی محتاج ہے اس طرح کبھی نہ تھی۔ وہ اذیت ناک قلق میں مبتلا ہے۔ وہ مادیت کے بےآب وگیاہ میدان میں سرگرداں و پریشان ہے۔ وہ اسلحہ کے ڈھیروں اور جنگل کے قانون جنگ میں گرفتار ہے اور مادیت نے لوگوں کے دلوں کو خشک کردیا ہے۔ لوگوں کی روح خوفناک حد تک اذیت میں ہے او ان کے دل پریشان ہیں۔

چناچہ یہ بتانے کے بعد کہ حضور ﷺ کی رسالت تمام انسانیت کے لئے رحمت ہے۔ حضور ﷺ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ ؐ مذاق کرنے والوں اور تکذیب کرنے والوں کو بتا دیں کہ آپ ؐ کی رسالت کے رحمت ہونے کا خلاصہ کیا ہے۔

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama arsalnaka illa rahmatan lilAAalameena

اردو ترجمہ

اِن سے کہو "میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا خدا صرف ایک خدا ہے، پھر کیا تم سرِ اطاعت جھکاتے ہو؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama yooha ilayya annama ilahukum ilahun wahidun fahal antum muslimoona

قل انما یوحی الی انما الھکم الہ واحد فھل انتم مسلمون (21 : 108)

ترجمہ :۔

” ان سے کہو ، میریپ اس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا خدا صرف ایک خدا ہے ، پھر کیا تم سر اطاعت جھکاتے ہو ؟ “ اس رسالت میں رحمت ہونے کا حقیقی عنصر ہی یہ کلمہ ہے۔ عقیدہ توحید جو انسانیتک و جاہلیت کے ادہام ، بت پرستی کے بوجھ اور خرافات اور رسومات کے بوجھ سے نجات دلاتا ہے۔ اس رسالت میں پوری زندگی کو اس مضبوط عقیدے کی بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے۔ یوں یہ زندگی اس پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ انسانیت اپنی زندگی انہی فطری قوانین پر استوار کرتی ہے جو ایک طرف اس کائنات میں جاری وساری ہیں اور دوسری طرف اسلامی نظام اور رسالت رحمت میں جاری ہیں۔ اس نظام کی روشنی میں ہر انسان کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر سر اٹھا کے چلے۔ اگر اس کا سر جھکے تو صرف خدائے واحد قہار و جبار کے آگے۔ نہ دنیا کے کسی قہار کے آگے۔ یہی ہے صحیح طریق زندگی۔

فھل انتم مسلمون (21 : 108) ” کیا تم سر تسلیم خم کرتے ہو۔ “

یہی ایک سوال ہے جو رسول اللہ ﷺ کو مذاق کرنے والے مکذبین سے کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ "میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دُور

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain tawallaw faqul athantukum AAala sawain wain adree aqareebun am baAAeedun ma tooAAadoona

فان تولو افقل اذئتکم علی سوآء (21 : 109) ” اگر وہ منہ پھیریں تو پھر کہو کہ میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کردیا ہے۔ “ یعنی میں نے اپنا مدعا پورا پورا تمہارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب میں اور تم برابر ہیں۔ ” ایذان “ تو دراصل اس اعلان اور الٹی میٹم کو کہتے ہیں جو امن کا زمانہ ختم ہونے کے وقت کیا جاتا ہے اور فریق دوئم سے کہا جاتا ہے کہ اب دونوں فریقوں کے درمیان جنگ ہے۔ یہ سورة مکی ہے ، اس وقت قتال فرض نہ ہوا تھا ، تو یہاں اعلان کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جو کچھ کہنا تھا ، کہہ دیا ہے۔ اب تم جانور اور تمہارا انجام۔ یعنی اب یہ آخری اعلان آگیا ہے اور آئندہ تمہارے لئے عذر و معذرت کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ اگر وہ جانتے بوجھتے اپنے راستے پر چلتے رہیں تو اس کا وبال بھی ان پر ہوگا کیونکہ ان کو علم ہے۔

و ان ادری اقریب ام بعیدماتوعدون (21 : 109) ” اب میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دور۔ “ میں نے تمہیں اعلانیہ کہہ دیا ہے۔ لیکن میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ جس عذاب کے تم مستحق ہو وہ کب آئے گا۔ کیونکہ یہ تو اللہ کے مخفی علوم میں سے ایک غیبی علم ہے۔ اس کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے۔ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پکڑتا ہے یا آخرت میں۔ وہ تمہارے راز سے بھی واقف ہے اور کھلی باتوں سے بھی۔ تمہاری کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو با آواز بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھپا کر کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu yaAAlamu aljahra mina alqawli wayaAAlamu ma taktumoona

انہ یعلم الجھر من القول ویعلم ماتکتمون (21 : 110) ” اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو با آواز بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھپا کر کرتے ہو۔ “ تمہارے سب معاملات اس کے سامنے کھلے ہیں۔ وہ اگر تمہیں سزا دے گا تو اس لئے دے گا کہ تمہارے ظاہری اور خفیہ سب معاملات سے وہ باخبر ہے اور اگر وہ عذاب کو مئوخر کرتا ہے تو پھر بھی کوئی حکمت اس کے پیش نظر ہوگی۔

وان ادری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الی حین (21 : 111) ” میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ تمہارے لئے ایک فتنہ ہے اور تمہیں ایک وقت تک کے لئے مزے کرنے کا موقعہ دیا جا رہا ہے۔ “ یعنی تمہاری سزا میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے ؟ یہ میرے علم کے مطابق تمہارے لئے مزید آزمائش ہے۔ تمہیں مزید مہلت دی جا رہی ہے اور اس کے بعد تمہیں بڑی سختی سے پکڑا جائے گا۔

وقت عذاب کے عدم تعین میں بھی ان کے لئے احساس کرنے کا ایک موقع ہے۔ جب کسی وقت کا تعین نہ ہو تو اس امر کے واقع ہونے کا احتمال ہر وقت رہتا ہے اور ایک عقلمند اس سے ڈر سکتا ہے کہ کہیں اچانک ہی سر پر نہ آجائے۔ یہ بھی امکان ہے کہ ان کے دل غفلت کے پردوں سے باہر نکل آئیں اور یہ سمجھ لیں کہ اس آزمائش اور مہلت کے بعد کہیں مصیبت نہ آجائے۔ اگر کسی مصیبت کو آنا ہو اور وقت معلوم نہ ہو تو ایک سمجھدار انسان کو ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ابھی پردہ گرتا ہے اور یہ مصیبت سامنے آتی ہے۔

بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان ان امور سے غافل ہوتا ہے جو پردہ غیب کے پیچھے سے اس کے انتظار میں ہوتے ہیں اور دنیا کا ساز و سامان و عیش و طرب انسان کو مزید دھوکہ دیتا ہے۔ انسان ان امور کو بھول جاتا ہے جو پردے کے پیچھے ہوتے ہیں ، لہٰذا وہ عدم علم کی وجہ سے غافل ہوجاتا ہے اس لئے اللہ نے لوگوں کو اور ایسے غافلوں کو متنبہ کرنا ضروری سمجھا ہے تاکہ وہ وقت آنے سے پہلے ہی خبردار ہوجائیں اور اپنے لئے کوئی بندوبست کریں۔

حضور نے امانت پہنچا دی ، پیغام لوگوں کو دے دیا اور علی اعلان دے دیا۔ ان کو اچانک عذاب الٰہی سے بھی خبردار کردیا۔ اب آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اللہ سے یہ درخواست کریں کہ وہ سچا فیصلہ کر دے اور ان لوگوں کی سازشوں ، ان کی تکذیب اور ان کے مذاق کا صلہ خود ان کو دیں۔

اردو ترجمہ

میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر) تمہارے لیے ایک فتنہ ہے اور تمہیں ایک وقت خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain adree laAAallahu fitnatun lakum wamataAAun ila heenin

اردو ترجمہ

(آخرکار) رسولؐ نے کہا کہ "اے میرے رب، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمان ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi ohkum bialhaqqi warabbuna alrrahmanu almustaAAanu AAala ma tasifoona

قال رب احکم بالحق و ربنا الرحمٰن المستعان علی ماتصفون (21 : 112)

ترجمہ :۔

” آخر کار رسول نے کہا کہ اے رب حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور لوگو ! تم جو باتیں بناتے ہو ، ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمٰن ہی ہمارے لئے مدد کا سہارا ہے۔ “ آخر میں صفت رحمت کا ذکر خاص قابل توجہ ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔ لیکن لوگوں نے آپ کی تکذیب کی ، مذاق کیا ، اس لئے اللہ ہی رسول پر رحم کرسکتا ہے اور رحم و کرم کا ضامن ہے۔ اس طرح سورة کا آغاز اور انجام دونوں ایک ہی مضمون سے مملو ہوجاتے ہیں ، نہایت ہی موثر انداز میں۔

331