سورۃ الانبیاء: آیت 104 - يوم نطوي السماء كطي السجل... - اردو

آیت 104 کی تفسیر, سورۃ الانبیاء

يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ

اردو ترجمہ

وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma natwee alssamaa katayyi alssijlli lilkutubi kama badana awwala khalqin nuAAeeduhu waAAdan AAalayna inna kunna faAAileena

آیت 104 کی تفسیر

یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب (21 : 103) ” وہ دن جب آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں۔ آسمان اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس طرح ریکارڈ کی پر ریکارڈ کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اب یہ منظر ختم ہوتا ہے اور یہ کائنات اس طرح لپیٹ دی جاتی ہے جس طرح ہمارے کاغذات اب کیا ہے ایک نئی دنیا اور ایک نئی کائنات اور نیا جہاں۔

کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فعلین (21 : 103) ” جس طر ہم نے پہلے تخلیق کی ابتداء کی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ “

کائنات کے خاتمہ کے اس خوبصورت منظر کو پیش کرنے کے بعد اور آخرت میں دوبارہ جہاں کو پیدا کرنے کے لئے ، روئے سخن پھر اس زمین کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اللہ کی آل سنت بیان کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے اقتدار اعلیٰ کی وراثت کا حق میرے صالح بندوں کا ہے اور یہ حق ان کو اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی بندگی کر کے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرچکے ہیں ان دونوں مناظر کے درمیان پورا ربط ہے۔ آخرت بھی نیک بندوں کی اور دنیا بھی نیک بندوں کی۔

آیت 104 یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط ”یہاں پر ”السَّمَوٰت“ جمع کے بجائے صرف السَّمَآء واحد استعمال ہوا ہے ‘ جس سے اس رائے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ یہ صرف آسمان دنیا کے لپیٹے جانے کی خبر ہے اور یہ کہ قیامت کے زلزلے کا عظیم واقعہ : اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ الح ج صرف ہمارے نظام شمسی کے اندر ہی وقوع پذیر ہوگا۔ اسی نظام کے اندر موجودُ کرّے آپس میں ٹکرائیں گے : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ القیامہ اور یوں یہ پورا نظام تہہ وبالا ہوجائے گا۔ فرمایا کہ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے کتابوں کے طومار scrolls لپیٹے جاتے ہیں۔ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ط ”اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے Theory of the Expanding Universe کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس نظریہ Theory کے مطابق یہ کائنات مسلسل وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ اس میں موجود ہر کہکشاں مسلسل چکر لگا رہی ہے اور یوں ہر کہکشاں کا دائرہ ہر لحظہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے آیت زیر نظر کے الفاظ سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے لیے کائنات کے پھیلنے کے اس عمل کو الٹا دیا جائے گا ‘ اور اس طرح یہ پھر سے اسی حالت میں آجائے گی جہاں سے اس کے پھیلنے کے عمل کا آغاز ہوا تھا۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے گھڑی کے ”فَنّر“ کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے ‘ جس کا دائرہ اپنے نقطۂ ارتکاز کے گرد مسلسل پھیلتا رہتا ہے ‘ لیکن جب اس میں چابی بھری جاتی ہے تو یہ پھر سے اسی نقطۂ ارتکاز کے گرد لپٹ کر اپنی پہلی حالت پر واپس آجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں تمام کائنات یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے جیسے فرمایا آیت (وما قدروا اللہ حق قدرہ الخ) ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی، جانا ہی نہیں۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں۔ بخاری شریف میں ہے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ سجل سے مراد کتاب ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے۔ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لئے رکھ دیتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو حضور ﷺ کا کاتب وحی تھا۔ لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصا ہمارے استاد حافظ کبیر ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ نے۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے امام جعفر بن جریر ؒ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ سجل نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں۔ حضور ﷺ کے تمام کاتبوں کے نام مشہور و معروف ہیں کسی کا نام سجل نہیں۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کرکے ذکر کیا ہے اور لغتا بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے تلہ للجبین میں لام معنی میں علیٰ ہے۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں۔ واللہ اعلم۔ یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں، وہ کبھی بدلتے نہیں، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کرکے ہی رہے گا۔ حضور ﷺ نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو۔ ننگے پیر ننگے بدن بےختنے جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے رہیں گے۔ الخ (بخاری) سب چیزیں نیست ونابود ہوجائیں گی پھر بنائی جائیں گی۔

آیت 104 - سورۃ الانبیاء: (يوم نطوي السماء كطي السجل للكتب ۚ كما بدأنا أول خلق نعيده ۚ وعدا علينا ۚ إنا كنا فاعلين...) - اردو