سورۃ الانعام: آیت 97 - وهو الذي جعل لكم النجوم... - اردو

آیت 97 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلنُّجُومَ لِتَهْتَدُوا۟ بِهَا فِى ظُلُمَٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْءَايَٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee jaAAala lakumu alnnujooma litahtadoo biha fee thulumati albarri waalbahri qad fassalna alayati liqawmin yaAAlamoona

آیت 97 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 97۔

یہ نظام فلکی کے منظر کا تتمہ ہے جس کے اندر سورج چاند اور ستارے سرگرداں اور یہ پوری کائنات کے منظر کا حصہ ہے جو نہایت ہی وسیع ‘ نہایت ہی حیران کن ہے اور جس کی تمام حرکات و سکنات انسانی زندگی اور اس کے مفادات اور ضروریات کے ساتھ وابستہ ہیں ۔

(آیت) ” لِتَہْتَدُواْ بِہَا فِیْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ “۔ (6 : 97) ‘

” تاکہ تم ان کے ذریعے صحرا اور سمندروں کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرو۔ “

صحراؤں اور سمندروں کی دوریوں میں انسان ہمیشہ ستاروں کے زریعے راستہ معلوم کرتا آیا ہے اور آج بھی وہی نظام ہے ۔ اصول وہی ہیں اگرچہ دور جدید کے اکتشافات کی وجہ سے وسائل بدل گئے ہیں ۔ سمندری سفر کے لئے جدید آلات تیار ہوگئے ہیں لیکن اصل الاصول یہی ہے ان سفروں میں قطب شمالی اور ستاروں سے ہدایت لی جاتی ہے ۔ ظلمات البر والبحر میں حسی اور حقیقی اندھیرا بھی شامل ہے اور فکری اور تصوراتی اندھیرا بھی ۔ لہذا نص قرآن جس طرح آج سے صدیوں پہلے بامقصد تھی اسی طرح آج بھی بامقصد ار بامصداق ہے ۔ آج کی بحری زندگی میں بھی اسی اصول کے مطابق ہے۔ آج بھی قرآن انسانوں سے اسی طرح مخاطب ہے جس طرح آج سے پہلے تھا حالانکہ آج کے دور میں انسانی انفس اور آفاق میں اللہ نے انسان کو وسیع علم سے نوازا ہے لیکن آج بھی ہماری بحری سفری زندگی اسی آیت کی مصداق ہے ۔

قرآن آج بھی فطری انداز میں انسانوں کو خطاب کرتا ہے اور تکوینی حقائق انکے سامنے رکھتا ہے ۔ محض نظریاتی بنیادوں پر خطاب نہیں کرتا بلکہ ” واقعی “ صورت انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو آج تک قائم ہے اس صورت میں خطاب کے نتیجے میں صانع کائنات کی کارفرمائی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ اللہ کی تقدیر اس کی تدبیر اور اس کی شان رحیمی عقل ونظر سے بالکل روشن نظر آتی ہے ۔ انسان بصیرت حاصل کرتا ہے ‘ اس کے ادراک کو جلا ملتی ہے اور وہ کائنات پر تدبر بھی کرتا ہے ۔ اس سے نصیحت بھی حاصل کرتا ہے اور اپنے علم ‘ اپنی معرفت اور ترقی کو اس کائنات میں کار فرما حقیقت کبری کے ادراک کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حقیقت انسان کے سامنے رکھنے کے بعد کہ اللہ بحر وبر کے اندھیروں میں ان کی راہنمائی کا انتظام کرتا ہے یہ تعقیب آتی ہے ۔

(آیت) ” قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (97)

” دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ‘ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں “۔

اس لئے کہ صحرا کی پہنائیوں اور سمندر کی تاریکیوں میں ستاروں سے ہدایت تب ہی لی جاسکتی ہے جب انسان کو ستاروں کے مداروں ‘ ان کے دوروں اور مختلف اوقات میں ان کے مواقع کے بارے میں علم حاصل ہو اور معنوی اندھیروں میں ہدایت وہ لوگ لے سکتے ہیں جنہیں علم ہو کہ یہ کائنات صانع حکیم کی بنائی ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے کہا یہاں ہدایت سے مراد دونوں قسم کی ہدایات ہیں ‘ حسی اور بحری سفر کی ہدایات بھی اور معنوی اور گمراہی قلب ونظر کی ہدایات بھی ۔ وہ لوگ جو ستاروں کو حسی رہبری کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس رہبری سے اپنے خالق تک پہنچنے کی ہدایت وبصیرت اخذ نہیں کرتے وہ گویا علم سے محروم ہیں کیونکہ انہوں نے ان چیزوں سے جھوٹی اور حقیر ہدایت تولی لیکن ہدایت کبری اخذ نہ کی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کا تعلق رب کائنات سے کاٹنا چاہتے ہیں اور اس کائنات کے ان دلائل سے وہ ہدایت اخذ نہیں کرتے جو مبدع عظیم پر دال ہیں ۔ صدق اللہ العظیم ۔

آیت 97 وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط اندھیری راتوں میں قافلے چلتے تھے تو وہ ستاروں سے سمت متعین کر کے چلتے تھے۔ اسی طرح سمندر میں جہاز رانی کے لیے بھی ستاروں کی مدد سے ہی رخ متعین کیا جاتا تھا۔

آیت 97 - سورۃ الانعام: (وهو الذي جعل لكم النجوم لتهتدوا بها في ظلمات البر والبحر ۗ قد فصلنا الآيات لقوم يعلمون...) - اردو