سورۃ الانعام: آیت 96 - فالق الإصباح وجعل الليل سكنا... - اردو

آیت 96 کی تفسیر, سورۃ الانعام

فَالِقُ ٱلْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ ٱلَّيْلَ سَكَنًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ

اردو ترجمہ

پردہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faliqu alisbahi wajaAAala allayla sakanan waalshshamsa waalqamara husbanan thalika taqdeeru alAAazeezi alAAaleemi

آیت 96 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 96۔

دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے ۔ پردہ شب کو چاک کرکے وہی صبح کو نکالتا ہے ۔ وہی ہے جس نے سکون کے لئے رات بنائی ہے ‘ اور وہی ہے جس نے چاند ستاروں کی گردش کے لئے صحیح اوقات مقرر کئے ہیں ۔ ان کی گردش کے لئے ایک مقرر نظام تجویز کیا ہے اور اس نظام کو اس قدر موثر اور کنٹرول میں رکھا ہے جس سے اس کے مکمل قبضے کا ثبوت ملتا ہے اور جس سے اس کے وسیع اور محیط علم کا ثبوت ملتا ہے ۔

رات کی تاریکیوں سے سپیدہ صبح نکالنا ایک ایسا ہی عمل ہے جس طرح گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر اس سے پودا اور درخت نکالا جاتا ہے ۔ ایک حرکت میں صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے ۔ اور دوسری حرکت میں پودے کی سوئی برآمد ہوتی ہے ۔ ان دونوں مثالوں میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ دونوں میں حرکت ‘ زندگی خوبصورتی اور جمال ہے جبکہ دونوں حقیقتیں اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک جیسی بھی ہیں ۔

گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر اس سے پودوں کا اخراج جبکہ یہ جامد تھے اور رات کو تاریکیوں سے اور سکون سے صبح کی روشنی نکالنا یہ بھی وجہ مماثلت ہے ۔ گٹھلی اور رات دونوں کے اندر سکون موجود ہے ۔ اس کائنات میں صبح وشام اور وقت و سکون کاموجودہ نظام زندگی اور ہر چیز کے اگنے اور بڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے ۔

زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا ‘ اور سورج کے سامنے ایک فاصلے اور متعین فاصلے پر رہنا ‘ چاند کا موجودہ حجم اور موجودہ فاصلہ اور موجودہ درجہ حرارت ‘ یہ وہ اندازے اور تقدیرات ہیں جن کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی ممکن ہوسکی ہے اور انہی اندازوں اور تدابیر تکوینی کی وجہ سے انسانی اور نباتاتی زندگی ممکن ہو سکتی ہے ۔ انہی کی وجہ سے گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر نباتات اگ سکے ہیں ۔

یہ ایک کائنات ہے جسے دقیق حسابی اور ریاضی اصولوں پر استوار کیا گیا ہے ۔ اس کے اندر ہر قسم کے ذی حیات کی زندگی کا بھی پہلے سے حساب موجود ہے ۔ اس زندگی کا مقام اور اس کی نوعیت ایک ایسی کائنات ہے جس کے اندر بخت واتفاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ نیز یہاں اس نظریے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہاں وجود بخت واتفاق سے ہے لیکن اس بخت واتفاق کے لئے حساب و کتاب اور ضابطہ مقرر ہے ۔

جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ زندگی اس کائنات میں جاری ہے لیکن اس کائنات کو زندگی کے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ کائنات زندگی کی مخالف اور دشمن ہے ۔ یہ چھوٹا ساسیارہ یعنی کرہ ارض جس کے اوپر یہ زندگی موجود ہے ‘ بتا رہا ہے کہ وہ اس زندگی کا مخالف ہے ۔ ایسے لوگوں میں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کائنات کا کوئی الہ ہوتا تو وہ اس چھوٹے سے کرہ ارض اور اس پر موجود زندگی کے جھمیلوں میں نہ پڑتا اور اس قسم کے دوسرے خرافات یہ لوگ بکتے ہیں ۔ کبھی اسے علم اور سائنس کا نام دیتے ہیں کبھی اسے فلسفہ کہتے ہیں اور یہ خرافات ایسے ہیں کہ ان کی طرف کسی سنجیدہ نگاہ کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔

یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں جو ان کے نفوس پر حاوی ہیں اور ان سائنسی نتائج کو بھی تسلیم نہیں کرتے جن کا استخراج خود انہیں نے کیا ہے ۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دین میں جو فیصلے کر لئے وہ ان کے خلاف کسی واضح ترین حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ۔ وہ اپنے فیصلوں کو سینے سے لگا کر بھاگ رہے ہیں ۔ وہ لوگ ذات باری سے بھاگ رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت کے دلائل ان کے سامنے منکشف کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کی قدرت کے نظارے ہر طرف عام ہیں اور دعوت نظارہ دے رہے ہیں ‘ وہ ذات باری سے فرار کرتے ہوئے جو راہ بھی لیتے ہیں اس کے آخری سرے پر ذات باری پھر کھڑی ہوتی ہے ۔ یوں وہ پریشان ہو کر دوسری گلی سے بھاگتے ہیں لیکن وہاں بھی انہیں ذات باری کی حقیقت کبری نظر آتی ہے۔

یہ علمی اور عقلی دونوں لحاظ سے یتیم ہیں ‘ علمی لحاظ سے تہی دامن ہیں اور نہایت ہی بدبخت ہیں ۔ یہ لوگ کینسہ اور اس کے الہ سے بہت پہلے بھاگے تھے ‘ اس لئے کہ کینسہ نے انہیں اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ وہ اس طرح بھاگے تھے جس طرح کسی شیر کی آمد پر گدھے بدکتے ہیں اور وہ آج تک بھاگے ہی رہے ہیں ۔ اس صدی کے اوائل تک وہ بھاگتے رہے اور آج تک سرپٹ بھاگ رہے ہیں لیکن پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ آیا کلیسا اب بھی ان کا پیچھا کر رہا ہے یا نہیں یا خود کلیسا نے اپنا غلط موقف ترک کردیا ہے یا ابھی تک اسی موقف پر قائم ہے ۔ ان لوگوں کا سانس ابھی تک پھولا ہوا ہے لیکن بھاگ رہے ہیں ۔

یہ بدبخت خستہ حال لوگ ہیں اور ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے سائنس کے میدان میں جو دریافتیں کی ہیں ان کے نتائج ان کا پیچھا کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں تک بھاگتے رہیں گے ۔ فرانک ایلن جس کی تحریروں سے اس سے قبل ہم اقتباسات دیکھ آئے ہیں دنیا میں زندگی کی نمود کے بارے میں کہتے ہیں :

” زندگی کے لئے زمین کی سازگاری نے ‘ یہاں زندگی کو مختلف شکلوں میں ترقی دی ہے ۔ زندگی کی ان بوقلمونیوں کی توجیہ سے ہم محض ” اتفاق “ نہیں کرسکتے اور نہ لاادریت سے اس کی کوئی تعبیر کرسکتے ہیں اس لئے کہ یہ زمین ایک کرہ ہے جو ہوا میں معلق ہے ۔ یہ اپنے اردگرد چکر لگا رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں رات اور دن پیدا ہوتے ہیں اور فضاؤں میں یہ زمین سال میں ایک بار سورج کے اردگرد بھی گھومتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں مختلف موسم آگے پیچھے آتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمارے اس کرے کا زیادہ سے زیادہ حصہ قابل رہائش بن جاتا ہے ۔ مختلف قسم کے نباتات اگ آتے ہیں ۔ اگر یہ زمین ایک ہی جگہ رہتی تو اس قدر اقسام کے نباتات نہ ہوتے ۔ اس کرہ ارض کے اردگرد ایک گیس اوزون کا پردہ ہے جس میں ایسی قسم کی گیسیں پائی جاتی ہیں جو زندگی کے لئے اہم ہیں ۔ ان گیسوں کا یہ خول بہت بلندی تک گیا ہوا ہے ۔ “

” یہ گیس اس قدر کثیف ہے کہ آسمانوں سے ہزاروں شہاب جو زمین کی طرف آتے ہیں وہ اس سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ تیس میل ایک سیکنڈ کے حساب سے ٹوٹتے ہیں ۔ ان گیسوں کا خول اس کرہ ارض کے درجہ حرارت کو بھی کنٹرول کرتا ہے اور اسے زندگی کے لئے مناسب حدود میں رکھتا ہے ۔ ان گیسوں کی وجہ سے آبی بخارات فضاؤں میں دور تک چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بارش میں بدل کر زمین کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کردیتے ہیں ۔ بارش کی وجہ سے ہمیں میٹھا پانی ملتا ہے ‘ اور اگر بارشیں نہ ہوتیں تو یہ زمین ایک چٹیل میدان ہوتی اور اس میں کوئی اگنے والی چیز یا دوسری حیوانی زندگی کا کوئی نام ونشان نہ ہوتا ۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فضا اور سطح زمین کے گرد دوسرے خول نظام طبیعی کے اندر ایک توازن پیدا کرتے ہیں ۔ “

غرض اب ایسے علمی اور سائنسی دلائل کا انبار لگ گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کرہ ارض پر آثار حیات اور اقسام حیات کی کوئی تعبیر دل لگتی تعبیر نہیں کہی جاسکتی ۔ اس زندگی کے آغاز ‘ نشوونما اور اس کے قیام دوام کے لئے جو عوامل کار فرما ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک منصوبے کے تحت وجود میں آتی ہے ۔ ان دلائل میں سے بعض وہ ہٰن جن کا ذکر علم طبیعیات کے مذکورہ بالا ماہرین نے کیا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی بیشمار آثار و دلائل ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ۔ اور یہ اللہ ہی کی ذات ہے ۔

(آیت) ” الذی اعطی کل شی خلقہ ثم ھدی “۔ ” جس نے زندگی دی اور پھر ہدایت دی اور جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا لیکن اندازے اور منصوبے کے ساتھ ۔ “

آیت 96 فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج۔یہ فلق کی دوسری قسم ہے کہ اللہ ہی رات کی سیاہی کا پردہ چاک کر کے سپیدۂ سحر کو نمودار کرتا ہے۔ بظاہریہ بھی خود بخود زمین کی گردش کے تحت ہوتا نظر آتا ہے ‘ لیکن یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کے تصرف اور اس کی تدبیر کے بغیر ہو رہا ہے۔ یہ سب بھی ان ہی قوانین کے تحت ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے زمین ‘ چاند ‘ سورج اور دوسرے اجرام فلکی کے بارے میں بنا دیے ہیں۔ اس سب کچھ کا فاعل حقیقی بھی وہی ہے۔وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ط یہ التّذکیر بِآ لَاء اللّٰہ کی مثالیں ہیں ‘ جن کے حوالے سے اللہ کی عظمت ‘ اس کی صفات اور اس کی قدرت کو نمایاں کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک لگا بندھا نظام ہے جس کے تحت سورج اور چاند چل رہے ہیں۔ اسی نظام سے دن اور رات بنتے ہیں اور اسی سے مہینے اور سال وجود میں آ رہے ہیں۔

آیت 96 - سورۃ الانعام: (فالق الإصباح وجعل الليل سكنا والشمس والقمر حسبانا ۚ ذلك تقدير العزيز العليم...) - اردو