سورۃ الانعام: آیت 91 - وما قدروا الله حق قدره... - اردو

آیت 91 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَمَا قَدَرُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦٓ إِذْ قَالُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَىْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ ٱلْكِتَٰبَ ٱلَّذِى جَآءَ بِهِۦ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُۥ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوٓا۟ أَنتُمْ وَلَآ ءَابَآؤُكُمْ ۖ قُلِ ٱللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِى خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ

اردو ترجمہ

ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے ان سے پوچھو، پھر وہ کتاب جسے موسیٰؑ لایا تھا، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو، اور جس کے ذریعہ سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو، آخر اُس کا نازل کرنے والا کون تھا؟ بس اتنا کہہ دو کہ اللہ، پھر اُنہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لیے چھوڑ دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama qadaroo Allaha haqqa qadrihi ith qaloo ma anzala Allahu AAala basharin min shayin qul man anzala alkitaba allathee jaa bihi moosa nooran wahudan lilnnasi tajAAaloonahu qarateesa tubdoonaha watukhfoona katheeran waAAullimtum ma lam taAAlamoo antum wala abaokum quli Allahu thumma tharhum fee khawdihim yalAAaboona

آیت 91 کی تفسیر

مشرکین اپنی کج بحثی اور عناد کی وجہ سے یہ کہتی تھے کہ اللہ نے تو انسانوں میں سے کسی فرد کو رسول بنا کر بھیجا ہی نہیں ہے ۔ نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب بھیجی ہے جو اللہ کی وحی پر مبنی ہو حالانکہ مشرکین کے پڑوس ہی میں یہودی اہل کتاب رہتے تھے اور ان مشرکین کے کبھی اس امر کا انکار نہ کیا تھا کہ وہ اہل کتاب ہیں ۔ نہ انہوں نے اس بات کا انکار کیا تھا کہ تورات اللہ کی جانب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اتری ۔ یہ بات وہ عناد اور محض کٹ حجتی کی خاطر کرتے تھے ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اس بہانے وہ حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا انکار کرسکیں ۔ اسی لئے قرآن مجید یہاں ان پر تنقید کرتا ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ اللہ نے کوئی کتاب کسی انسان پر نہیں اتاری تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بات تم کیوں نہ کہتے تھے ۔

(آیت) ” وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّہُ عَلَی بَشَرٍ مِّن شَیْْء ٍ “ (6 : 91)

” ان لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ “

یہ نظریہ مشرکین مکہ دور جاہلیت میں رکھتے تھے ۔ ہر دور میں اس قسم کے لوگ ہمیشہ رہے ہیں ۔ آج دور جدید میں بھی بعض لوگوں کا یہی نظریہ ہے ۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تمام ادیان سماوی انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان ادیان نے بھی درجہ بدرجہ ترقی کی جس طرح انسان نے بتدریج ترقی کی ۔ یہ لوگ اس معاملے میں ان ادیان کے درمیان جو خود لوگوں نے بنائے مثلا قدیم وجدیدیت پرستیاں اور ان ادیان کے درمیان فرق نہیں کرتے جو اللہ کے فرستادہ رسول لے کر آئے اور جواب تک اپنے حقیقی اصولوں پر قائم ہیں ۔ تمام رسول پے درپے انہی ادیان پر قائم رہے ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے ان ادیان کو قبول کیا اور بعض نے انکار کیا ۔ بعد کے زمانوں میں ان کے اصول و فروع کے درمیان تحریف واقع ہوگئی اور لوگ اس تحریف کی وجہ سے دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے ۔ اس کے بعد اللہ نے ان قوموں کے اندر رسول بھیجنے کی ضرورت محسوس کی ۔ آخر کار دین اسلام آیا ۔ ان لوگوں کا نظریہ فقط یہ ہے کہ جس طرح انسان نے ترقی کی اسی طرح ادیان نے بھی ساتھ ساتھ ترقی کی ۔

یہ بات قدیم لوگوں نے کی یا جدید لوگوں نے ان لوگوں نے فی الحقیقت اللہ کی ذات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے فضل ‘ اس کی رحمت اور اس کے عدل کو صحیح طرح نہیں پہنچانا ۔ ان لوگوں کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو رسول بنا کر نہیں بھیجتا ۔ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتا جس طرح بعض عرب یہ کہتے تھے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کے عظیم خالق کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اپنی مخلوقات میں سے ایک چھوٹے سے ذرے جس کا نام کرہ ارض ہے ‘ کے اوپر بسنے والی اس حقیر مخلوق کی اس قدر فکر کرے جس طرح اہل ادیان کہتے ہیں کہ اس نے رسول بھیجے ‘ رسولوں پر کتابیں بھیجیں تاکہ ان کے ذریعے ان حقیر اہل ارض کو صحیح راستے پر لایا جائے یا جس طرح بعض قدیم اور جدید فلاسفر یہ کہتے آئے ہیں کہ نہ کوئی الہ ہے ‘ نہ کوئی وحی ہے اور نہ رسول ہیں ۔ یہ لوگوں کے ادہام ہیں اور دین کے نام پر بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جس طرح آج کے جدید ملحد اور مادہ پرست لوگ کہتے ہیں ۔

یہ تمام لوگ دراصل اللہ کی ذات کے بارے میں اندازہ لگانے میں غلطی کرتے ہیں ۔ ایک عظیم وکریم ذات ‘ ایک رحیم اور عادل پروردگار اور ایک علیم و حکیم خالق کس طرح انسان کو بلاہدایت اور بلاحکمت وبصیرت چھوڑ سکتا ہے حالانکہ اللہ نے اس انسان کو پیدا کیا ۔ وہ اس کی خفیہ اور ظاہر ہر جبلت سے واقف ہے ۔ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں سے باخبر ہے ۔ وہ اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے بھی واقف ہے ‘ وہ اس کی ضروریات اور اقدار کے بارے میں بھی خوب جانتا ہے ۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ اس کے لئے کچھ اصول اور پیمانے وضع نہ کرے جس کے مطابق اس کے اعمال وافعال کو جانچا جائے اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی جائے ۔ اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ اس انسان کو جو عقل دی گئی ہے وہ محدود القوت ہے اور اس پر کئی فیکٹر اثر انداز ہوجاتے ہیں ۔ خواہشات نفس اور ذاتی میلانات کے وہ تابع ہوتی ہے ‘ ۔ وہ لالچ اور مفادات سے بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ عقل کے ذمہ از جانب اللہ یہ فریضہ بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس زندگی کے لئے کوئی مستحکم نظام اور اصول تجویز کرے اس لئے کہ زندگی کا نظام تجویز کرنا اس کا کام نہیں ہے ‘ یہ نظام اس کے لئے منجانب اللہ آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کا نظام تجویز کرنے کا کام صرف عقل انسانی پر نہیں چھوڑا ہے اور نہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی اس فطری قوت کے حوالے کیا ہے جس کی رو سے اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سلسلے میں اجمالی معفرت حاصل کرے ۔ مصیبت کے وقت وہ اس رب ہی کو پکارتا ہے اس لئے کہ انسان کی اس فطری قوت کے حوالے کیا ہے جس کی رو سے اس پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سلسلے میں اجمالی معرفت حاصل کرے ۔ مصیبت کے وقت وہ اس رب ہی کو پکارتا ہے اس لئے انسان کی اس فطرت سلیمہ پر بھی بعض فیکٹر دباؤ ڈال کر اسے فساد میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ یہ فیکٹر داخلی بھی اور خارجی بھی ہو سکتے ہیں ۔ نیز انسان کو بدی کی طرف انسانوں اور جنوں کے تمام ذرائع اختیار کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نظام زندگی کے بارے میں انسان کو صرف وحی اور رسالت کے حوالے کرتے ہیں ۔ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اس کی ان ہدایات کی پیروی کرے جو اس نے کتابوں میں اتاری ہیں تاکہ اس کی فطرت درست اور صاف رہ سکے ۔ انکی عقل اور سوچ صحیح سمت میں کام کرسکے ۔ اور ان پر وہ عوامل نہ اندر سے اثر انداز ہو سکیں اور نہ باہر سے جو انسان کو گمراہ کرتے ہیں ۔ یہی پالیسی اللہ کی شان اور اس کے فضل وکرم اور اس کی رحمت اور عدالت اور اس کی حکمت اور علم کے شایان شان ہے ۔ اللہ کے لئے یہ بات کیسے مناسب ہو سکتی ہے کہ وہ انسان کو پیدا کرکے یونہی چھوڑ دے ۔ قیامت کے دن ان سے حساب و کتاب تو لے لیکن ان کی ہدایات کے لئے کوئی رسول نہ بھیجے حالانکہ اللہ کا اعلان ہے :

(آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ اور ہم کسی قوم کو اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں جب تک ان کے لئے رسول نہ بھیجیں “ ۔ اس لئے اللہ کی الوہیت کا صحیح اندازہ لگانے اور اس کی قدروقیمت کا اقرار کرنے کے لئے لازم ہے کہ یہ اعتراف کیا جائے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے رسول بھیجے ہیں۔ ان رسولوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ لوگوں کی فطرت کو تمام آلودگیوں سے پاک کرکے ‘ اور ان کی عقل وادراک کو تمام مؤثرات سے نکال کر خالص اور آزادنہ غوروفکر کرنے کے لئے آزاد کردیں ۔ اللہ نے ان رسولوں کو دعوت کا منہاج اور طریقہ کار بھی سکھایا اور ان میں سے بعض کو کتابیں بھی دیں جو آج تک موجود ہیں جیسا کہ داؤد اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ نبی آخرالزمان کو قرآن کریم دیا گیا جو آج تک تمام تحریفات سے پاک ہے ۔

چونکہ ساکنان جزیرہ عرب کے ہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت معروف ومشہور تھی اور عرب اہل کتاب کو بھی جانتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کو حکم دیا کہ وہ انکے سامنے اہل کتاب اور کتاب موسیٰ کو بطور مثال پیش کریں کہ اس کا تو کبھی تم نے انکار نہیں کیا ۔

(آیت) ” قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِیْ جَاء بِہِ مُوسَی نُوراً وَہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیْسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیْراً وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ آبَاؤُکُم (6 : 91)

” ان سے پوچھو ‘ پھر وہ کتاب جسے موسیٰ (علیہ السلام) لایا تھا ‘ جو تمام انسانوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی ‘ جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ‘ کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو ‘ اور جس کے ذریعے سے تم کو وہ علم دیا گیا جو نہ تمہیں حاصل تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو ‘ آخر اس کا نازل کرنے والا کون تھا ؟ ۔ “

اس سورة پر تبصرے کے وقت ہم نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا قول درست نہیں ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ انہوں نے یہ قول اس لئے اختیار کیا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں :” جسے تم پارہ پارہ کر کے رکھتے ہو ‘ کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپاتے ہو۔ “ ہم نے اس موقعہ پر بتایا تھا کہ ابن جریر کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور اس میں ایک قرات یجعلونہ یبدونھا “ اور یخفون بھی ہے اس صورت میں ضمیر غائب اہل کتاب کی طرف راجع ہے ۔ اگرچہ مخاطب مشرکین مکہ ہیں لیکن بات اہل کتاب کے متعلق ہے ۔ جس طرح انہوں نے عملا کر رکھا تھا کہ تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بعض حصوںٗ کو چھپاتے تھے اور بعض کو اپنے منصوبے اور مقاصد کے مطابق ظاہر کرتے تھے ۔ یوں وہ عوام کو دھوکہ دیتے تھے اور احکام وفرائض کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ان کارناموں سے بعض عرب بھی واقف تھے ‘ جس طرح قرآن کریم بھی ان کا انکشاف کر رہا ہے تو گویا یہ آیت اخبار عن الیھود ہے جو مشرکین مکہ سے ہونے والی بات چیت کے اندر بطور جملہ معترضہ آئی ہے ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ آیت بھی مکی ہے ‘ مدنی نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں ابن جریر کی رائے درست ہے ۔

اب مضمون ومفہوم یہ ہوگا : ” اے محمد ﷺ ان سے کہو وہ کتاب جو موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جس میں نئی روشنی انسان کو دی گئی تاکہ لوگ راہ ہدایت پائیں جبکہ یہود نے اسے پارہ پارہ کیا ‘ جس میں سے بعض حصوں کو وہ چھپاتے تھے اور بعض کو ظاہر کرتے تھے اور کتاب الہی کے ساتھ یہ مذاق وہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے کرتے تھے ۔ “ ذرا غور تو کرو کہ اللہ تمہیں وہ حقائق بتا رہا ہے جن کے بارے میں تم نہ جانتے تھے ‘ اس لئے تم پر یہ فرض ہے کہ اللہ کے اس فضل وکرم کا شکر ادا کرو اور سرے سے تم اس بات کے منکر نہ بن جاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے نہ وحی بھیجی ہے اور نہ کوئی کتاب نازل کی ہے ۔

یہ سوال کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں موقعہ ہی نہ دیا کہ وہ جواب دیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیں اور فیصلہ کن اور دو ٹوک بات کردیں تاکہ کوئی تنازعہ ہی نہ رہے اور نہ ہی مزید قیل وقال کرنے کے ضرورت رہے ۔

(آیت) ” قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون “۔ (6 : 91) ” بس اتنا کہہ دو کہ اللہ ‘ پھر انہیں اپنی دلیل بازیوں سے کھیلنے کے لئے چھوڑ دو ۔ “ اللہ نے اسے نازل کیا ہے ۔ بس یہ کہہ دیں اور اس کے بعد ان کے ساتھ مزید بات چیت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کی کٹ حجتی اور لجاجت اور ظاہر داری کو خاطر میں نہ لائیں اور پھر ان کو چھوڑ دیں کہ وہ اپنی کٹ حجتی میں مگن رہیں ۔ یہ انداز کلام نہایت ہی تہدید آمیز ہے اور اس میں ان کے لئے ایک قسم کی توہین بھی ہے۔ اس سے حق پرستی اور سنجیدگی کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ جب لوگوں کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہوجائے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگیں تو مناسب یہی ہے کہ دو ٹوک انداز میں کہہ دیا جائے کہ ہماری تو یہ راہ ہے تمہاری مرضی ہے ‘ کرو۔

آگے اس کتاب جدید کے بارے میں ایک مختصر تبصرہ آتا ہے ‘ جس کے بارے میں منکرین یہ کہتے تھے کہ اللہ سرے سے کتاب نازل ہی نہیں کرتا ۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ‘ یہ تو کتاب سماوی کا آخری حلقہ ہے ۔ اللہ اس سے قبل بھی رسول بھیجتا رہا ہے ۔ اور ان میں سے جسے چاہتا ہے کتاب عطا کرتا رہا ہے ۔

اب اس ردّو قدح کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مکہ کے لوگ یہودیوں کے سکھانے پڑھانے پر حضور ﷺ سے کر رہے تھے۔ اب تک اس سورة میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ خالص مکہ کے مشرکین کی طرف سے تھی اور انہی کے ساتھ سارا مکالمہ اور مناظرہ تھا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ دونوں سورتیں سورۃ الانعام اور سورة الاعراف مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔ اس وقت تک حضور ﷺ کی رسالت اور نبوت کے دعوے کا چرچا مدینہ منورہ میں بھی پہنچ چکا تھا اور اہل کتاب یہود نے خطرے کو بھانپ کر وہیں بیٹھے بیٹھے آپ ﷺ کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کردی تھیں۔ وہ ضد اور ہٹ دھرمی میں یہاں تک کہہ بیٹھے تھے کہ ان مسلمانوں سے تو یہ مشرک بہتر ہیں جو بتوں کو پوجتے ہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کی ایک بات وہ ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے۔آیت 91 وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ ط وحی الٰہی کے بارے میں یہ صاف انکار denial categorical ان لوگوں کا تھا جو خود کو الہامی کتاب کے وارث سمجھتے تھے۔ اہل مکہ تو چونکہ آسمانی کتابوں سے واقف ہی نہیں تھے اس لیے انہوں نے حضور ﷺ کی نبوت اور وحی کا ذکر یہود سے کیا اور ان سے رائے پوچھی۔ اس پر یہودیوں کا جواب یہ تھا کہ یہ سب خیال اور وہم ہے ‘ اللہ نے کسی انسان پر کبھی کوئی چیز اتاری ہی نہیں۔ اب اہل مکہ نے یہودیوں کے پڑھانے پر قرآن مجید پر جب یہ اعتراض کیا تو اس کے جواب میں مشرکین مکہ سے خطاب نہیں کیا گیا ‘ بلکہ برا ہِ راست یہود کو مخاطب کیا گیا جن کی طرف سے یہ اعتراض آیا تھا ‘ اور ان سے پوچھا گیا کہ اگر اللہ نے کسی انسان پر کبھی کچھ نازل ہی نہیں کیا تو :قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ تو کیا تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے من گھڑت تھی ؟ کیا انہوں نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیا تھا ؟ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا ج یہود اپنی الہامی کتاب کے ساتھ جو سلوک کرتے رہے تھے وہ بھی انہیں جتلا دیا۔ یہودی علماء نے تورات کے احکام کو نہ صرف پسند اور ناپسند کے خانوں میں تقسیم کردیا تھا بلکہ اپنی من مانی فتویٰ فروشیوں کے لیے اس کو اس طرح چھپا کر رکھا تھا کہ عام لوگوں کی دسترس اس تک ناممکن ہو کر رہ گئی تھی۔ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلاآ اٰبَآؤُکُمْ ط قُلِ اللّٰہُلا یعنی پھر خود ہی جواب دیجیے کہ تمہاری اپنی الہامی کتابیں تورات اور انجیل بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور اب یہ قرآن بھی اللہ ہی نے نازل فرمایا ہے۔

تمام رسول انسان ہی ہیں اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لئے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور کی رسالت کے قائیل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا جیسے قرآن ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت (اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ) 10۔ یونس :2) یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور آیت میں ہے آیت (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17۔ الاسراء :94) لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے۔ یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کر کے فرماتا ہے کہ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی، کفر کے اندھیروں کو جھانٹنے، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو، قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے، پجھلی سچی خبریں اس میں موجود، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں۔ پھر حکم دیتا ہے کہ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری ؟ تو خود کہہ دے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جھالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ یہ کتاب یعنی قرآن کریم ہمارا اتارا ہوا ہے، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لئے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دے دے۔ من حولھا سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) 7۔ الاعراف :158) یعنی اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں اور آیت میں ہے (ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ) 6۔ الانعام :19) تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں اور فرمان ہے آیت (وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ) 11۔ ہود :17) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور آیت میں فرمایا گیا آیت (تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا) 25۔ الفرقان :1) یعنی اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے اور آیت میں ارشاد ہے آیت (وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ) 3۔ آل عمران :20) یعنی اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ اگر قبول کرلیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے۔

آیت 91 - سورۃ الانعام: (وما قدروا الله حق قدره إذ قالوا ما أنزل الله على بشر من شيء ۗ قل من أنزل الكتاب الذي...) - اردو