سورۃ الانعام: آیت 74 - ۞ وإذ قال إبراهيم لأبيه... - اردو

آیت 74 کی تفسیر, سورۃ الانعام

۞ وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ لِأَبِيهِ ءَازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا ءَالِهَةً ۖ إِنِّىٓ أَرَىٰكَ وَقَوْمَكَ فِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ

اردو ترجمہ

ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا "کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala ibraheemu liabeehi azara atattakhithu asnaman alihatan innee araka waqawmaka fee dalalin mubeenin

آیت 74 کی تفسیر

(آیت) ” 74 تا 79۔

ان آیات میں قرآن کریم نے جس منظر کی تصویر کشی کی ہے وہ ایک عجیب منظر ہے ۔ یہ فطرت انسانی کا مظاہرہ ہے ۔ فطرت انسانی دیکھتے ہیں تمام جاہلی تصورات اور شرکیہ بت پرستانہ عقائد کو رد کردیتی ہے ۔ ان غلط تصورات کو دیکھتے ہیں فطرت دامن جھاڑنی ہے اور تلاش الہ حق کی راہ میں نکل کھڑی ہوتی ہے ۔ یہ حقیقی سچائی خود اس کے ضمیر میں موجود ہے لیکن انسان کو اس کا ادراک نہیں ہے اور فطرت اس پر متنبہ نہیں ہے ۔ لیکن یہ فطرت تلاش حق میں ہر اس چیز سے ربط قائم کرتی ہے جو بظاہر الہ ہو سکتی ہو ‘ لیکن جب ملاحظہ عمیق کرتی ہے تو وہ کھوٹے خداؤں کو رد کردیتی ہے کیونکہ فطرت کے اندر حقیقی الہ کی جو ذات وصفات ودیعت ہیں وہ چیز اس کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتی ۔ جب تلاش کرتے کرتے یہ فطرت کے اندر حقیقی الہ کی جو ذات وصفات ودیعت ہیں وہ چیز اس کے ساتھ ٹیلی نہیں کرتی ۔ جب تلاش کرتے کرتے یہ فطرت اللہ کی ذات تک جا پہنچتی ہے ۔ تو وہ حقیقت اسے واضح نظر آرہی ہوتی ہے جس سے اسے بےحد خوشی ہوتی ہے ۔ اس کے جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس منزل تک بدلائل پہنچ جاتی ہے وہ خود اس کے اندر پنہاں ہوتی ہے ۔ یہ ہے وہ فطری منظر جو قلب ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھایا جاتا ہے ۔ وہ جس تجربے سے گزرے اسے ان مختصر آیات میں بیان کردیا جاتا ہے ۔ حق و باطل کے بارے میں فطری سوچ کی یہ عجیب کہانی ہے جسے یہاں اس اسلوب میں لایا گیا ہے ۔ یہ ایک نظریہ حیات کا معاملہ ہے جس کا اظہار ایک مومن ببانگ دہل کرتا ہے اور اس معاملے میں وہ کوئی رکھ رکھاؤ نہیں کرتا ۔ اس راہ میں وہ باپ ‘ خاندان اور قوم کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرتا جیسا کہ ایسا ہی رویہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے معاملے میں اختیار کیا انہوں نے ناقابل تغیر اور بالکل غیر لچک دار اختیار کیا اور اپنے موقف کو بالکل واضح کر کے بیان کیا ۔

(آیت) ” وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ لأَبِیْہِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَاماً آلِہَۃً إِنِّیْ أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ (74)

یہ وہ فطری پکار ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبانی ظاہر ہوتی ہے ۔ اگرچہ اپنی فہم و فراست کے ذریعے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو الہ حقیقی تک رسائی حاصل نہ ہوئی تھی لیکن آپ کی فطرت سلیمہ ابتدا ہی سے اس بات کا انکار کر رہی تھی کہ اس کی قوم جن بتوں کی پوجا کرتی ہے وہ حقیقی الہ ہوسکتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم عراق کے کلدانی تھے ۔ وہ بتوں ‘ ستاروں اور سیاروں کے پجاری تھے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت یہ جانتی تھی کہ وہ رب ‘ معبود اور وہ ذات باری جس کی طرف لوگ خوشحالی اور بدحالی میں متوجہ ہوتے ہیں اور جس نے تمام لوگوں اور تمام زندہ مخلوق کو پیدا کیا ہے ۔ وہ ذات یہ بت نہیں ہیں ۔ بتوں کی ظاہری حالت ہی بتا رہی تھی کہ نہ وہ خالق ہیں ‘ نہ رازق ہیں ‘ نہ سنتے ہیں اور نہ جواب دیتے ہیں لہذا یہ حقیقی الہ نہیں ہو سکتے ۔ اس لئے ان کی فطرت تلاش حق کی راہ پر نکل پڑی اور فیصلہ دے دیا کہ یہ الہ جن کی تم پوجا کرتے ہو نہ یہ الہ حقیقی ہیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ انہیں الہ حقیقی تک رسائی کا واسطہ اور ذریعہ بنایا جائے ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فطرت اس صورت حال کو واضح طور پر گمراہی کی صورت حال پاتی ہے اور انہیں صحیح فیصلے تک پہنچنے میں کوئی دیر نہیں لگتی ۔ یہ ہے اس فطرت کا نمونہ کامل جس پر اللہ نے اپنی تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے ۔ پھر یہ وہ رد عمل ہے فطرت سلیمہ کا جب اس کا مقابلہ کسی واضح گمراہی کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہ فورا اس کا انکار کردیتی ہے اور اسے اس سے نفرت ہوجاتی ہے ۔ اس باطل بین کے معاملے میں پھر فطرت سلیمہ اعلان حق کرنے میں ذرہ بھر دیر نہیں کرتی ‘ خصوصا جب معاملہ عقیدے اور نظریات کا ہو۔

” کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔ “ یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ کے سامنے کرتے ہیں ‘ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مزاج کے اعتبار سے نہایت ہی نرم مزاج ‘ بردبار اور حلیم الطبع تھے اور پھر وہ تھے بھی ایک بیٹے کی پوزیشن میں لیکن نظریہ حیات کی قدروقیمت باپ بیٹے کے تعلق اور صبر اور برداشت کی صفات کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وہ نشان راہ تھے ۔ جس کے بارے میں ان کی اولاد کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس کی پیروی کریں اور یہ قصہ بھی بطور مثال اور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی فطرت کی صفائی اور اپنے خلوص نیت کی بنا پر اس بات کے مستحق ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی بادشاہت کے کچھ مخصوص راز منکشف فرمائیں اور ان کو وہ دلائل عطا کریں جو زمین و آسمان کے اندر اللہ کی بادشاہت کے دلائل ہیں ۔

آیت 74 وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً ج یہاں پر خصوصی طور پر لفظ آزر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے نام کے طور پر آیا ہے ‘ یہ میرے نزدیک تورات میں مندرج نام کی نفی کرنے کے لیے آیا ہے۔ تورات میں آپ علیہ السلام کے والد کا نام تارخ لکھا گیا ہے اور اس کی یہاں تصحیح کی گئی ہے ‘ ورنہ یہاں یہ فقرہ لفظ آزر کے بغیر بھی کافی تھا۔ اس واضح نشاندہی کے باوجود بھی بعض لوگ مغالطے میں پڑگئے ہیں اور انہوں نے تورات میں مذکور نام ہی اختیار کیا ہے۔ جیسے اہل تشیع حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارخ ہی کہتے ہیں اور آزر جس کا ذکر یہاں آیا ہے اس کو آپ علیہ السلام کا چچا کہتے ہیں۔ انہوں نے یہ موقف کیوں اختیار کیا ہے ‘ اس کی ایک خاص وجہ ہے ‘ جو پھر کسی موقع پر بیان ہوگی۔

ابراہیم ؑ اور آزر میں مکالمہ حضرت عباس کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہم السلام) کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا۔ آزر سے مراد بت ہے۔ آپ کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا۔ حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام ہاجرہ تھا یہ حضرت ابراہیم کی سریہ تھیں۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ کے والد کا نام تارخ تھا۔ مجاہد اور سدی فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم حضرت ابراہیم ؑ کے والد تھے ہوسکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہوگیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے۔ سلیمان کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ کی زبان سے نکلا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے واللہ اعلم۔ آزَر اور آزُر دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت لابیہ سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود۔ بعض اسے اتتخذ کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں۔ گویا حضرت ابراہیم یوں فرماتے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور نے فرمایا تمہاری طرف ہی آ رہا ہے اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا حضور نے ان سے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو ؟ اس نے کہا اپنے گھر سے، اپنے بال بچوں میں سے، اپنے کنبے قبیلے میں سے۔ دریافت فرمایا کیا ارادہ ہے ؟ کیسے نکلے ہو ؟ جواب دیا اللہ کے رسول ﷺ کی جستجو میں۔ آپ نے فرمایا پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے میں ہی اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمصان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں، اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گرپڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکالے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کرگئی حضور نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ دیکھو انہیں سنبھالو اسی وقت حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہوچکی ہے حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہوگئے آپ نے منہ پھیرلیا پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہوگا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لئے امن وامان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں۔ اجھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو چناچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے آنحضرت ﷺ قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لئے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لئے ہے، لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا۔ یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بجوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لئے اور صرف اس لئے الگ ہوا ہوں کہ آپ کی ہدایت کو قبول کروں آپ کی سنتوں پر علم کروں آپ کی حدیثیں لوں۔ یا رسول اللہ ﷺ میں گھاس پھوس کھاتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں۔ آپ مجھ اسلام سکھائیے حضور نے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑگیا یہ گرپڑے اور گردن ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے۔ تم نے سنا ہوگا کہ باری تعالیٰ فرماتا ہے جو ایمان لائیں اور ظلم نہ کریں وہ امن و ہدایت والے ہیں یہ انہی میں سے تھے ؓ پھر فرمایا ابراہیم ؑ کو یہ دلیلیں ہم نے سکھائیں جن سے وہ اپنی قوم پر غالب آگئے جیسے انہوں نے ایک اللہ کے پرستار کا امن اور اس کی ہدایت بیان فرمائی اور خود اللہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی آیت (نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ) 6۔ الانعام :83) کی یہی ایک قرأت ہے، اضافت کے ساتھ اور بےاضافت دونوں طرح پڑھا یا گیا ہے جیسے سورة یوسف میں ہے اور معنی دونوں قرأتوں کے قریب قریب برابر ہیں۔ تیرے رب کے اقوال رحمت والے اور اس کے کام بھی حکمت والے ہیں۔ وہ صحیح راستے والوں کو اور گمراہوں کو بخوبی جانتا ہے جیسے فرمان ہے جن پر تیرے کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا ولیکون کا واؤ زائدہ ہے۔ جیسے ولتستبین میں اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر ہے یعنی اس لئے کہ وہ عالم اور یقین والے ہوجائیں، رات کے اندھیرے میں خلیل اللہ ستارے کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ میرا رب ہے جب وہ غروب ہوجاتا ہے تو آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ پروردگار نہیں کیونکہ رب دوام والا ہوتا ہے وہ زوال اور انقلاب سے پاک ہوتا ہے۔ پھر جب چاند چڑھتا ہے تو یہی فرماتے ہیں جب وہ بھی غروب ہوجاتا ہے تو اس سے بھی یکسوئی کرلیتے ہیں۔ پھر سورج کے طلوع ہونے پر اسے سب سے بڑا پا کر سب سے زیادہ روشن دیکھ کر یہی کہتے ہیں جب وہ بھی ڈھل جاتا ہے تو اللہ کے سوا تمام معبودوں سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ اور پکار اٹھتے ہیں کہ میں تو اپنی عبادت کے لئے اللہ کی ذات کو مخصوص کرتا ہوں جس نے ابتداء میں بغیر کسی نمونے کے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے میں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف لوٹتا ہوں اور میں مشرکوں میں شامل رہنا نہیں چاہتا، مفسرین ان آیتوں کی بابت دو خیال ظاہر کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ بطور نظر اور غور و فکر کے تھا دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا۔ ابن عباس سے دوسری بات ہی مروی ہے ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے اس کی دلیل میں آپ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہوجاتا۔ امام محمد بن اسہاق ؒ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے کہ نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہوگا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کردیئے جائیں حضرت ابراہیم ؑ کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں، وہیں حضرت خلیل اللہ پیدا ہوئے، تو جب آپ اس غار سے باہر نکلے تب آپ نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم ؑ کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارے میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری، زحل۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے آدنیٰ سے شروع کیا اور اعلی تک لے گئے۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں۔ یہ مقررہ جال سے چلتا۔ مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا۔ تو جبکہ وہ خود بیشمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہے پھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے ؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کرلو۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے جیسے قرآنی ارشاد ہے کہ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے، یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسللام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ) 21۔ الانبیآء :51) یعنی ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو ؟ اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ) 16۔ النحل :120) ابراہیم تو بڑے خلوص والے اللہ کے سچے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں پسند فرما لیا تھا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی دنیا کی بھلائیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی انہیں صالح لوگوں میں ملا دیا تھا اب ہم تیری طرف وحی کر رہے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کا تابعدار رہ وہ مشرک نہ تھا، بخاری و مسلم میں ہے،حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے۔ کتاب اللہ میں ہے آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ) 30۔ الروم :30) اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں اور آیت میں ہے تیرے رب نے آدم کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکال کر انہیں ان کی جانوں پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا سب کا رب نہیں ہوں ؟ سب نے اقرار کیا کہ ہاں بیشک تو ہمارا رب ہے پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا انشاء اللہ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ ؑ جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمان ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے۔

آیت 74 - سورۃ الانعام: (۞ وإذ قال إبراهيم لأبيه آزر أتتخذ أصناما آلهة ۖ إني أراك وقومك في ضلال مبين...) - اردو