سورۃ الانعام (6): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانعام کے بارے میں معلومات

Surah Al-An'aam
سُورَةُ الأَنۡعَامِ
صفحہ 137 (آیات 74 سے 81 تک)

۞ وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ لِأَبِيهِ ءَازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا ءَالِهَةً ۖ إِنِّىٓ أَرَىٰكَ وَقَوْمَكَ فِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ وَكَذَٰلِكَ نُرِىٓ إِبْرَٰهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ ٱلْمُوقِنِينَ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ ٱلَّيْلُ رَءَا كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّى ۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَآ أُحِبُّ ٱلْءَافِلِينَ فَلَمَّا رَءَا ٱلْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّى ۖ فَلَمَّآ أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِى رَبِّى لَأَكُونَنَّ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلضَّآلِّينَ فَلَمَّا رَءَا ٱلشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّى هَٰذَآ أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّآ أَفَلَتْ قَالَ يَٰقَوْمِ إِنِّى بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ وَحَآجَّهُۥ قَوْمُهُۥ ۚ قَالَ أَتُحَٰٓجُّوٓنِّى فِى ٱللَّهِ وَقَدْ هَدَىٰنِ ۚ وَلَآ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِۦٓ إِلَّآ أَن يَشَآءَ رَبِّى شَيْـًٔا ۗ وَسِعَ رَبِّى كُلَّ شَىْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَآ أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِٱللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِۦ عَلَيْكُمْ سُلْطَٰنًا ۚ فَأَىُّ ٱلْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِٱلْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
137

سورۃ الانعام کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانعام کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا "کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala ibraheemu liabeehi azara atattakhithu asnaman alihatan innee araka waqawmaka fee dalalin mubeenin

ابراہیم ؑ اور آزر میں مکالمہ حضرت عباس کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہم السلام) کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا۔ آزر سے مراد بت ہے۔ آپ کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا۔ حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام ہاجرہ تھا یہ حضرت ابراہیم کی سریہ تھیں۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ کے والد کا نام تارخ تھا۔ مجاہد اور سدی فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم حضرت ابراہیم ؑ کے والد تھے ہوسکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہوگیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے۔ سلیمان کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ کی زبان سے نکلا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے واللہ اعلم۔ آزَر اور آزُر دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت لابیہ سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود۔ بعض اسے اتتخذ کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں۔ گویا حضرت ابراہیم یوں فرماتے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور نے فرمایا تمہاری طرف ہی آ رہا ہے اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا حضور نے ان سے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو ؟ اس نے کہا اپنے گھر سے، اپنے بال بچوں میں سے، اپنے کنبے قبیلے میں سے۔ دریافت فرمایا کیا ارادہ ہے ؟ کیسے نکلے ہو ؟ جواب دیا اللہ کے رسول ﷺ کی جستجو میں۔ آپ نے فرمایا پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے میں ہی اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمصان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں، اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گرپڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکالے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کرگئی حضور نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ دیکھو انہیں سنبھالو اسی وقت حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہوچکی ہے حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہوگئے آپ نے منہ پھیرلیا پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہوگا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لئے امن وامان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں۔ اجھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو چناچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے آنحضرت ﷺ قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لئے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لئے ہے، لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا۔ یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بجوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لئے اور صرف اس لئے الگ ہوا ہوں کہ آپ کی ہدایت کو قبول کروں آپ کی سنتوں پر علم کروں آپ کی حدیثیں لوں۔ یا رسول اللہ ﷺ میں گھاس پھوس کھاتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں۔ آپ مجھ اسلام سکھائیے حضور نے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑگیا یہ گرپڑے اور گردن ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے۔ تم نے سنا ہوگا کہ باری تعالیٰ فرماتا ہے جو ایمان لائیں اور ظلم نہ کریں وہ امن و ہدایت والے ہیں یہ انہی میں سے تھے ؓ پھر فرمایا ابراہیم ؑ کو یہ دلیلیں ہم نے سکھائیں جن سے وہ اپنی قوم پر غالب آگئے جیسے انہوں نے ایک اللہ کے پرستار کا امن اور اس کی ہدایت بیان فرمائی اور خود اللہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی آیت (نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ) 6۔ الانعام :83) کی یہی ایک قرأت ہے، اضافت کے ساتھ اور بےاضافت دونوں طرح پڑھا یا گیا ہے جیسے سورة یوسف میں ہے اور معنی دونوں قرأتوں کے قریب قریب برابر ہیں۔ تیرے رب کے اقوال رحمت والے اور اس کے کام بھی حکمت والے ہیں۔ وہ صحیح راستے والوں کو اور گمراہوں کو بخوبی جانتا ہے جیسے فرمان ہے جن پر تیرے کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا ولیکون کا واؤ زائدہ ہے۔ جیسے ولتستبین میں اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر ہے یعنی اس لئے کہ وہ عالم اور یقین والے ہوجائیں، رات کے اندھیرے میں خلیل اللہ ستارے کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ میرا رب ہے جب وہ غروب ہوجاتا ہے تو آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ پروردگار نہیں کیونکہ رب دوام والا ہوتا ہے وہ زوال اور انقلاب سے پاک ہوتا ہے۔ پھر جب چاند چڑھتا ہے تو یہی فرماتے ہیں جب وہ بھی غروب ہوجاتا ہے تو اس سے بھی یکسوئی کرلیتے ہیں۔ پھر سورج کے طلوع ہونے پر اسے سب سے بڑا پا کر سب سے زیادہ روشن دیکھ کر یہی کہتے ہیں جب وہ بھی ڈھل جاتا ہے تو اللہ کے سوا تمام معبودوں سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ اور پکار اٹھتے ہیں کہ میں تو اپنی عبادت کے لئے اللہ کی ذات کو مخصوص کرتا ہوں جس نے ابتداء میں بغیر کسی نمونے کے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے میں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف لوٹتا ہوں اور میں مشرکوں میں شامل رہنا نہیں چاہتا، مفسرین ان آیتوں کی بابت دو خیال ظاہر کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ بطور نظر اور غور و فکر کے تھا دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا۔ ابن عباس سے دوسری بات ہی مروی ہے ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے اس کی دلیل میں آپ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہوجاتا۔ امام محمد بن اسہاق ؒ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے کہ نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہوگا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کردیئے جائیں حضرت ابراہیم ؑ کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں، وہیں حضرت خلیل اللہ پیدا ہوئے، تو جب آپ اس غار سے باہر نکلے تب آپ نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم ؑ کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارے میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری، زحل۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے آدنیٰ سے شروع کیا اور اعلی تک لے گئے۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں۔ یہ مقررہ جال سے چلتا۔ مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا۔ تو جبکہ وہ خود بیشمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہے پھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے ؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کرلو۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے جیسے قرآنی ارشاد ہے کہ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے، یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسللام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ) 21۔ الانبیآء :51) یعنی ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو ؟ اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ) 16۔ النحل :120) ابراہیم تو بڑے خلوص والے اللہ کے سچے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں پسند فرما لیا تھا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی دنیا کی بھلائیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی انہیں صالح لوگوں میں ملا دیا تھا اب ہم تیری طرف وحی کر رہے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کا تابعدار رہ وہ مشرک نہ تھا، بخاری و مسلم میں ہے،حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے۔ کتاب اللہ میں ہے آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ) 30۔ الروم :30) اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں اور آیت میں ہے تیرے رب نے آدم کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکال کر انہیں ان کی جانوں پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا سب کا رب نہیں ہوں ؟ سب نے اقرار کیا کہ ہاں بیشک تو ہمارا رب ہے پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا انشاء اللہ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ ؑ جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمان ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے۔

اردو ترجمہ

ابراہیمؑ کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika nuree ibraheema malakoota alssamawati waalardi waliyakoona mina almooqineena

اردو ترجمہ

چنانچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اُس نے ایک تار ا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma janna AAalayhi allaylu raa kawkaban qala hatha rabbee falamma afala qala la ohibbu alafileena

اردو ترجمہ

پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میر ی رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا ہوتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma raa alqamara bazighan qala hatha rabbee falamma afala qala lain lam yahdinee rabbee laakoonanna mina alqawmi alddalleena

اردو ترجمہ

پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیمؑ پکار اٹھا "اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma raa alshshamsa bazighatan qala hatha rabbee hatha akbaru falamma afalat qala ya qawmi innee bareeon mimma tushrikoona

اردو ترجمہ

میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innee wajjahtu wajhiya lillathee fatara alssamawati waalarda haneefan wama ana mina almushrikeena

اردو ترجمہ

اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا "کیا تم لوگ اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہو سکتا ہے میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahajjahu qawmuhu qala atuhajjoonnee fee Allahi waqad hadani wala akhafu ma tushrikoona bihi illa an yashaa rabbee shayan wasiAAa rabbee kulla shayin AAilman afala tatathakkaroona

مشرکین کا توحید سے فرار ابراہیم ؑ کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ سے بحث جاری رکھتے ہیں تو آپ ان سے فرماتے ہیں تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو ؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے میں یقینا جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بےبس اور بےطاقت ہیں، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کرلو۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو۔ میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے جھوتی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ حضور ہود ؑ نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی۔ قرآن میں موجود ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا اے ہود تم کوئی دلیل تو لائے نہیں ہو اور صرف تمہارے قول سے ہم اپنے معبودوں سے دست بردار نہیں ہوسکتے نہ ہم تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہمارا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے تجھے کچھ کردیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جن کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو، میں سب سے بیزار ہوں۔ جاؤ تم سب مل کر جو کچھ مکر میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو وہ کرلو اور مجھے مہلت بھی نہ دو ، میں نے تو اس رب پر توکل کرلیا ہے جو تمہارا میرا سب کا پالنہار ہے۔ تمام جانداروں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈراؤں گا ؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو۔ تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ دلیل میں اعلی کون ہے ؟ یہ آیت مثل آیت (اَمْ لَهُمْ شُرَكَاۗءُ ڔ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ) 68۔ القلم :41) اور آیت (اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ) 53۔ النجم :23) کے ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیرو شر، کا نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بےبس اور بےقدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا پھر جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن وامان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں جب یہ آیت اتری تو صحابہ ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو ؟ اس پر آیت (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31۔ لقمان :13) نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے (بخاری شریف) اور روایت میں ہے کہ حضور نے ان کے اس سوال پر فرمایا کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا کہ اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے اور روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں اور حدیث میں آپ کا خود لظلم کی تفسیر بشرک سے کرنا مروی ہے۔ بہت سے صحابیوں سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے۔ ایک روایت میں حضور کا فرمان ہے کہ مجھ سے کہا گیا کہ تو ان ہی لوگوں میں سے ہے۔ مسند احمد میں زاذان اور جریر ؓ سے مروی ہے کہ اے باپ کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں ؟ لیکن یہ دور کی بات ہے خلاف لغت ہے کیونکہ حرف استفہام کے بعد والا اپنے سے پہلے والے میں عامل نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کے لئے ابتداء کلام کا حق ہے، عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے، الغرض حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو۔ جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے یقینا اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں اور آیت میں ہے کہ صدیق نبی ابراہیم خلیل نے اپنے والد سے فرمایا ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں، ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی، آپ میری بات مان لیجئے میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا، ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے، وہ تو رحمان کا نافرمان ہے، ابا مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آجائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں۔ باپ نے جواب دیا کہ ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے ؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، پس اب تو مجھ سے الگ ہوجا۔ آپ نے فرمایا اچھا میرا سلام لو میں تو اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے، میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں چھوڑتا ہوں اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بےنصیب اور خالی ہاتھ رہوں چناچہ حسب وعدہ خلیل اللہ اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ نے استغفار بند کردیا اور بیزار ہوگئے، چناچہ قرآن کریم میں ہے حضرت ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے استغفار کرنا ایک وعدے کی بنا پر تھا جب آپ پر یہ کھل گیا کہ وہ دشمن اللہ ہے تو آپ اس سے بیزار اور بری ہوگئے، ابراہیم بڑے ہی اللہ سے ڈرنے والے نرم دل حلیم الطبع تھے، حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے آزر آپ کو دیکھ کر کہے گا بیٹا آج میں تیری کسی بات کی مخالفت نہ کروں گا، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن تو مجھے رسوانہ کرے گا اس سے زیادہ سوائی کیا ہوگی کہ میرا باپ رحمت سے دور کردیا جائے، آپ سے فرمایا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے کی طرف دیکھو، دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا کھڑا ہے اس کے پاؤں پکڑے جائیں گے اور آگ میں ڈال دیا جائے گا، مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آجائے اس لئے ہم نے ابراہیم کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھا دی جیسے اور آیت میں ہے آیت (اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ) 7۔ الاعراف :185) اور جگہ ہے آیت (اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭاِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ) 34۔ سبأ :9) یعنی لوگوں کو آسمان و زمین کی مخلوق پر عبرت کی نظریں ڈالنی چاہئیں انہیں اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھنا چاہیے اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں اگر چاہیں آسمان کا ٹکڑا ان پر گرا دیں رغبت و رجو والے بندوں کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔ مجاہد وغیرہ سے منقول ہے کہ آسمان حضرت ابراہیم کے سامنے کھول دیئے گئے عرش تک آپ کی نظریں پہنچیں۔ حجاب اٹھا دیئے گئے اور آپ نے سب کچھ دیکھا، بندوں کو گناہوں میں دیکھ کر ان کے لئے بد دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ سے زیادہ میں ان پر رحیم ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے ہٹ جائیں۔ پس یہ دکھلانا موقوف کردیا گیا ممکن ہے یہ کشف کے طور پر ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد معلوم کرانا اور حقائق سے متعارف کرا دینا ہو۔ چناچہ مسند احمد اور ترمذی کی ایک حدیث میں حضور کے خواب کا ذکر ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آیا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ اونچی جماعت کے فرشتے اس وقت کس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ؟ میں نے اپنی لا علمی ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میری دونوں بازوؤں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ اس کی پوریوں رب کی بات صادق آگئی ہے ان کے پاس چاہے تم تمام نشانیاں لے آؤ پھر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیں۔ پس رب کی حکمت اور اس کے علم میں کوئی شبہ نہیں۔

اردو ترجمہ

اور آخر میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakayfa akhafu ma ashraktum wala takhafoona annakum ashraktum biAllahi ma lam yunazzil bihi AAalaykum sultanan faayyu alfareeqayni ahaqqu bialamni in kuntum taAAlamoona
137