سورۃ الانعام: آیت 55 - وكذلك نفصل الآيات ولتستبين سبيل... - اردو

آیت 55 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ ٱلْمُجْرِمِينَ

اردو ترجمہ

اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika nufassilu alayati walitastabeena sabeelu almujrimeena

آیت 55 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 55۔

یہ اس لہر کا خاتمہ ہے ۔ اس میں حقیقت رسالت اور مزاج رسول کی بڑی خوبی سے وضاحت کی گئی ہے اور اسلامی نظریہ حیات کو بھی کسی بغیر لاگ ولپیٹ کے بتایا گیا ہے ۔ ان اقدار حیات کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ جن کے غلبے کے لئے اسلام اس جہان میں آیا اور ان کو بھی جدا کردیا گیا جن کی بیخ کنی کے لئے اسلام اٹھا ۔

(آیت) ” وکذلک نفصل الایت “۔ (6 : 55) (اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں)

کیوں اس لئے کہ (آیت) ” لتستبین سبیل المجرمین “۔ (6 : 55) (تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے) یعنی اس انداز ‘ اس منہاج اور اس طرز کلام کے ساتھ ہم بیان مدعا کرتے ہیں ۔ بڑی تفصیلات کے ساتھ جن کے بعد سچائی کی پہچان میں کسی شک کی گنجائش نہی رہتی ۔ بات میں کوئی اجماع یا پیچیدگی نہیں رہتی اور اس فصاحت کے بعد سچائی کو تسلیم کرنے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ سچائی واضح ہوجاتی ہے ‘ بات کھل جاتی ہے اور قرآنی انداز کلام کے مطابق ۔ اس پوری سورة کے اندر بیان ہونے والے شواہد و دلائل کے مطابق حقائق وواقعات کی روشنی میں یہ امور تفصیل آیات کے مفہوم میں شامل ہیں۔

مقصد مجرموں کی راہوں کو جدا کرنا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات اور اس کی اساس پر تحریک برپا کرنے کے لئے قرآن کا منہاج کیا ہے ؟ (لتستبین) قرآن کا منہاج وانداز یہ نہیں ہے کہ وہ فقط مومنین وصالحین کی راہوں کی نشاندہی کر دے ‘ بلکہ قرآن کا منہاج تحریک یہ ہے کہ قرآن کریم گمراہوں اور مجرموں کے طور طریقوں کی وضاحت بھی کرتا ہے ۔ مجرموں کی راہوں کی وضاحت بذریعہ تنقید باطل بےحد ضروری ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ اہل حق کے راستے کی وضاحت ہو ۔ یہ دعوت اسلامی کے واضح خطوط ہیں جن پر ہمیں چلنا ہے ۔ حق و باطل کا طریقہ کار یہاں سے جدا ہوجاتا ہے ۔

اسلام کا منہاج عمل اللہ نے متعین کیا ہے اور یہ اس لئے متعین کیا گیا ہے کہ اس منہاج کے مطابق نفوس انسانی کا علاج کیا جائے ۔ اللہ کو اس بات کا خوب علم تھا کہ سچائی وبھلائی پر پختہ یقین اس وقت حاصل ہوتا ہے کہ جب بھلائی کے مقابلے میں شر اور سچائی کے مقابلے میں جھوٹ پر بھی نظر رکھی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ یہ باطل خالص جھوٹ اور شر محض ہے جس کے مقابلے میں حق خالص سچائی اور خیر محض ہے ۔ نیز حق وصداقت کی حمایت پر انسان اس وقت آمادہ ہوتا ہے جب وہ یہ یقین کرلے کہ اس سچائی کا مقابلہ جو قوت کر رہی ہے وہ باطل ہے ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قوت باطلہ مجرموں کی راہوں کی مسافر ہے اور مجرمین وہ قوت ہیں جن کے بارے میں ایک دوسری جگہ قرآن کریم یہ تصریح کرتا ہے کہ ہر نبی کا کوئی دشمن ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین ) (اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے ایک دشمن پیدا کیا) یہ اس لئے تاکہ نبی اور مومنین کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ ان کا دشمن مجرم ہے اور ان کا یہ عقیدہ پختہ یقین ‘ اعتماد اور شرح صدر پر مبنی ہو۔

کفر ‘ شر اور مجرمانہ حرکات کی وضاحت ‘ ایمان ‘ بھلائی اور اصلاح کے لئے نہایت ضروری ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ مجرمین کے راستوں کی وضاحت آیات الہیہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے ‘ مجرمین کے موقف اور ان کے طرز عمل کے بارے میں کوئی بھی شعبہ یا معمولی التباس خود مومنین کے موقف ‘ ان کے طرز عمل اور ان کی راہ میں شبہات پیدا کردیتا ہے ‘ اس لئے کہ دونوں تصویر کے دو رخ ہیں ‘ کتاب کے صفحات متقابل ہیں اور دو جدا جدا راستے ہیں ۔ دونوں کے الگ الگ رنگ ہیں جن کے درمیان امتیاز ضروری ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ تحریک اسلامی کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کے کارکنوں کے فکر ونظر مومنین اور مجرمین کا راستہ ممتاز ہو۔ ہر تحریک کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے راستے کو متعارف کرائے اور اس کے بالمقابل مجرمین کے جو راستے ہیں ان پر تنقید کرکے ان کی کمزوریاں واضح کرے اور دونوں کے درمیان جو فرق و امتیاز ہے اسے کھول کر بیان کرے ۔ یہ فرق و امتیاز عالم واقعہ میں بھی ہو ‘ حقیقی ہو ‘ محض نظریاتی نہ ہو ‘ اس لئے کہ داعیوں اور ان کے کارکنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس ماحول میں وہ کام کر رہے ہیں ان میں مومنین کون ہیں اور مجرمین کون ہیں ؟ نیز ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان مجرمین کا طریق کار کیا ہے ‘ ان کا منہاج کار کیا ہے اور ان کی علامات کیا کیا ہیں ۔ تاکہ ان کے ذہن میں دونوں راستوں اور منہاج کے اندر کوئی شبہ والتباس نہ ہو ۔ نہ عنوان ایک ہو اور نہ صفات اور خدوخال ایک ہوں ۔ مومنین اور مجرمین ان کے تصور میں ایک دوسرے سے اچھی طرح ممتاز ہوں ۔

جس وقت جزیزۃ العرب میں سب سے پہلے اسلام اور شرک کی مڈبھیڑ ہوئی ‘ اہل ایمان اور مجرمین کے درمیان یہ فرق و امتیاز بالکل واضح تھا ۔ دونوں کے راستے اچھی طرح ممتاز اور جدا تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کا راستہ مومنین کا راستہ تھا اور یہی آپ کے ساتھیوں کا راستہ تھا اور مجرمین کا راستہ ان لوگوں کا راستہ تھا جو تحریک اسلامی میں آپ کے ساتھ شامل نہ ہوئے تھے اور ایمان نہ لائے تھے ۔ اس حد بندی اور اس وضاحت کے ساتھ قرآن کریم نازل ہو رہا تھا اور آیات الہیہ تفصیلات دے رہی تھیں ۔ جس کے نمونے اس سورة میں آپ نے دیکھے ۔ یہ آخری نمونہ تو سبیل المجرمین کی اچھی طرح نشاندہی کر رہا ہے ۔

جب اسلام نے شرک ‘ بت پرستی ‘ الحاد اور ان ادیان کا سامنا کیا جو اپنی اصل کے اعتبار سے ادیان سماوی تھے لیکن ان کے اندر بعد میں آنے والے انسانوں نے اپنی خواہشات کے مطابق تحریفات کردی تھیں ‘ تو اسلام نے ان ادیان ونظریات کے مقابلے میں مومنین کو ایک واضح موقف اور ایک صاف وسیدھا راستہ دیا ۔ جس طرح ان کافروں اور مشرکوں کی راہ واضح اور متعین تھی ‘ اور ان کے اندر کوئی بیس اور شک نہ تھا۔

لیکن آج عالم اسلام میں چلنے والی تحریکات اور انکے مخالفین کے درمیان راستے کی صفائی اور اس کا تعین نہیں ہے ۔ اور یہی بہت بڑی مشکل ہے ۔ یہ اسلامی تحریکات ایسے لوگوں کے درمیان چل رہی ہیں جو نسلی اعتبار سے مسلمان ہیں اور ایسے علاقوں میں چل رہی ہیں جو کسی وقت دارالاسلام میں شامل تھے ۔ کسی وقت ان علاقوں پر دین اسلام کی حکمرانی تھی اور شریعت ان علاقوں کا بنیادی قانون تھی ۔ پھر ان علاقوں نے اور ان اقوام نے حقیقی اعتبار سے اسلام کو چھوڑ دیا ‘ صرف نام کے مسلمان رہ گئے اور انہوں نے اسلام کے بنیادی عناصر کو عملا اور اعتقادا ترک کردیا ۔ اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلا رہے کہ انہوں نے عقیدے کے اعتبار سے اسلام کو اپنایا ہوا ہے ۔ حالانکہ اسلام کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ اور حاکم نہیں ہے ۔ اس شہادت کے اندر یہ مفہوم شامل ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ‘ وہ اس کائنات کا خالق اور اس میں متصرف ہے ۔ انسان صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اسی کے احکام کے مطابق پوری زندگی بسر کریں گے ۔ انسانوں کا یہ فرض ہوگا کہ صرف اللہ سے اپنے قوانین اخذ کریں اور اپنی پوری زندگی میں اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔ جو شخص اس مفہوم کے ساتھ اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتا تو اس نے نہ کلمہ شہادت پڑھا اور نہ وہ اسلام میں داخل ہوا ۔ چاہے اس کا نام اور اس کا لقب اور اس کی نسل اور نسب جو بھی ہو ۔ جس سرزمین پر بھی کلمہ شہادت اپنے اس مدلول کے ساتھ جاری نہ ہو تو اس سرزمین کو ہم دارالاسلام نہیں کہہ سکتے اور نہ وہ سرزمین سرزمین اسلام ہے ۔

اس کرہ ارض پر لوگوں کی بڑی بڑی قومیں آباد ہیں جن کے نام مسلمانوں کے ناموں جیسے ہیں اور یہ لوگ ہیں بھی مسلمانوں کی نسلوں سے ۔ ان لوگوں کے علاقے بھی کسی وقت دارالاسلام تھے لیکن ان میں سے آج کوئی قوم بھی لا الہ الا اللہ کی شہادت اس مفہوم کے مطابق نہیں دیتی اور نہ کسی ملک میں لوگ اس مفہوم کے مطابق نظام حکومت چلاتے ہیں۔

یہ ایک نہایت ہی تکلیف دہ صورت حال ہے ‘ جس کا مقابلہ آج ان ملکوں میں اسلامی تحریکات کر رہی ہیں ۔ ایسے لوگوں سے ان کا رابطہ ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ۔ ان تحریکات کو یہ مشکل درپیش ہے کہ نام نہاد مسلمانوں کے اندر لا الہ الا اللہ کا مفہوم نہیں سمجھا جاتا ۔ اور نہ لوگ لفظ اسلام کو اس کے صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ نہ تو جاہلیت کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور نہ ہی شرک کی حقیقت سے ۔

اس کے علاوہ اسلامی تحریکات کو یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ خود صالح مسلمانوں کے سامنے صحیح راستہ متعین نہیں ہے ۔ ان کا راستہ مجرموں اور مشرکوں کے راستہ سے جدا نہیں ہے ۔ دونوں کے نشانات وعنوانات ایک ہیں ۔ دونوں کے نام اور اوصاف ایک جیسے ہیں اور دونوں ایک ناپیدا کنار صحرا میں گم گشتہ راہ ہیں ۔

اسلامی تحریکات ‘ اس کمزوری کو اچھی طرح جانتی ہیں ‘ لیکن وہ اس عظیم کوتاہی کے بارے میں خاموش ہیں ۔ یہ خاموشی محض وسعت قلبی ‘ بےراہ روی ‘ منافقت اور حق و باطل کے درمیان ملاوٹ کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اس پوائنٹ پر جو شخص سچی اور فیصلہ کن بات کرتا ہے وہی الٹا مجرم بن جاتا ہے ۔ اس کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے اور اس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کے نزدیک مسلمان وہ نہیں ہوتا جو اقوال خدا اور اقوال رسول کے مطابق مسلمان ہو بلکہ مسلمان وہ ہوتا ہے جو ان کی اپنی اصطلاحات اور ان کے رسم و رواج کے مطابق مسلمان ہو ۔ یہ ہے وہ عظیم مشکل جو اسلامی تحریکات کی راہ میں مائل ہے ۔ لیکن تمام اہل دعوت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس مشکل مسئلے کو حل کر کے آگے بڑھیں ‘ وہ جہاں بھی ہوں اور جس دور میں بھی ہوں ۔

مناسب یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی تحریک کا آغاز یوں کی جائے کہ ابتداء ہی سے مومنین اور مجرمین کی راہیں بالکل علیحدہ اور متعین ہوجائیں ۔ اہل دعوت جب کام کا آغاز کریں تو حق اور صداقت کا اظہار بغیر کسی مداہنت کے دو ٹوک الفاظ میں کریں ۔ وہ بغیر کسی خوف اور لاگ لپیٹ کے بات کریں ۔ ان کی بات میں کوئی پیچیدگی نہ ہو اور وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ ان کے دل میں کوئی خوف اور ڈر نہ ہو ۔ نہ وہ اپنے دل میں اس بات کا خوف پیدا ہونے دیں کہ ان کے خلاف کوئی مخالفانہ آواز اٹھے گی اور یہ کہا جائے گا ” دیکھو یہ لوگ تو مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔

اسلام کا موقف یہ نہیں ہے جو ان بےراہ رو لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے ۔ اسلام کا راستہ واضح ہے ‘ جس طرح کفر کی راہ بالکل واضح ہے ۔ اسلام یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا اقرار درج بالا مفہوم کے ساتھ کیا جائے ۔ جو شخص اس مفہوم کے ساتھ کلمہ طیبہ کا اقرار نہیں کرتا اور جو شخص اپنی زندگی میں کلمہ طیبہ کو اس مفہوم کے اندر قائم نہیں کرتا تو اس کے بارے میں اللہ اور رسول اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ ظالم ‘ فاسق اور کافر ہے اور مجرم ہے ۔

ذرا پھر پڑھیے (آیت) ” وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (55)

” اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔ “ یاد رکھیے دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس گھاٹی کو سر کریں ۔ اپنی راہ سے اس رکاوٹ کو ہٹائیں ۔ وہ اپنے نظریات کے اندر خلوص اور للہیت پیدا کریں تاکہ وہ اپنی پوری قوتوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوں ۔ کوئی شبہ ان کی راہ نہ روک سکے ‘ کوئی التباس ‘ کوئی مداہنت اور کوئی بےراہ روی ان کی راہ میں حائل نہ ہو ‘ اس لئے کہ ان کی قوتیں اس وقت تک کھل کر کام نہ کرسکیں گی جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو کہ وہ سچے مسلمان ہیں اور یہ کہ جو لوگ ان کی راہ روکے کھڑے ہیں اور ان کو اور تمام دوسرے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکے ہوئے ہیں وہ مجرمین ہیں ۔ یہ بات بھی تحریک اسلامی کے حاملین کے پیش نظر رہے کہ اقامت دین کے مسئلے کو جب تک کفر و ایمان کا مسئلہ نہ تصور کیا جائے گا اس وقت تک کوئی بھی اس راہ کی مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا ۔ جب تک ایک مسلمان یہ یقین نہ کرلے کہ اس کی راہ اور اس کی قوم کی راہ بالکل جدا ہے ‘ یہ کہ اس کی ملت اور اس کی قوم کی ملت جدا ہے اور یہ کہ ان کا دین اور ان کی قوم کا دین جدا ہے ۔ ذرا پھر دہرائیے ۔

(آیت) ” وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (55)

” اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔ “ صدق اللہ العظیم ۔

درس نمبر 62 ایک نظر میں :

حقیقت رسول ﷺ اور حقیقت رسالت کے بیان کے بعد اب روئے سخن دو بار حقیقت الوہیت کی طرف پھر گیا ہے ۔ ان حقائق پر سابقہ لہر میں بحث کی گئی تھی ۔ ان تمام لہروں کا باہم گہرا ربط ہے ۔ حقیقت رسول اور حقیقت رسالت کے بعد یہ بھی واضح کیا گیا کہ رسول کا راستہ مومنین کا راستہ ہے اور اس کے مقابلے میں تمام راستے مجرمین کے راستے ہیں ۔

اس لہر میں شان کبریائی کا اظہار کئی رنگوں اور کئی میدانوں میں ہوتا ہے ۔ ان کی تفصیلات تو ہم تشریح آیات کے ضمن میں دیں گے البتہ یہاں ہم ان کی طرف اجمالی اشارات کریں گے ۔

حقیقت الوہیت کا چراغ قلب رسول میں روشن ہے ۔ رسول کا دل اعتماد اور یقین کی شراب طہور سے بھر پور ہوتا ہے ۔ اگر پوری دنیا بھی اس حقیقت کو جھٹلا دے تو رسول ثابت قدم رہتا ہے اس کے پائے یقین میں کوئی لغزش نہیں آتی ۔ اس لئے رسول اللہ اعلان کردیتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے ہوگئے ہیں اور وہ اس معاملے میں ان لوگوں سے مکمل علیحدہ راہ اپنا لیتے ہیں جو اس بارے میں متزلزل ہوتے ہیں اور یہ جدائی رسول کے پختہ یقین اور عزم کی وجہ سے ہے ۔

(آیت) ” قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَہْوَاء کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (56) قُلْ إِنِّیْ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُم بِہِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57) (6 : 56۔ 57)

” اے نبی ﷺ ان سے کہو ” تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ “ کہو : ” میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا ‘ اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا ‘ راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا ۔ “ کہو ” میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے ۔ اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔

شان کبریائی کا اظہار اس حلم اور برداشت سے بھی ہوتا جس کا برتاؤ اللہ تعالیٰ ان مکذبین کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ وہ تو مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر خارق عادت معجزے کا وقوع ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس مطالبے کے جواب میں نہایت ہی بردباری کا عمل اختیار فرماتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اگر کسی خارق عادت معجزے کا ظہور ہوجائے اور پھر وہ تکذیب کریں تو سنت الہیہ کے مطابق پھر ان پر نزول عذاب لازم ہوجائے گا اور ہر قسم کا عذاب نازل کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر نزول عذاب کو خود حضرت نبی کریم ﷺ کے اختیار میں دے دیا جاتا تو ان لوگوں نے جو رویہ اختیار کیا اس کے پیش نظر یہ خطرہ تھا کہ حضور ﷺ ان پر یہ عذاب نازل ہی کردیتے کیونکہ انہوں نے بار بار حق جھٹلا کر آپ کو دل تنگ کردیا تھا اور آپ کی قوت برداشت سے یہ صورت حال باہر ہوگئی تھی ۔ لہذا ایسے حالات میں بھی ان کو مہلت دے دینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی حلیم و حکیم ہے اور اس سے شان کبریائی کا ظہور بھی ہوتا ہے ۔

(آیت) ” قُل لَّوْ أَنَّ عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الأَمْرُ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58)

” کہو : اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔ شان کبریائی کا ظہور اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور اس کائنات کے اندر جو واقعہ بھی ہوتا ہے ‘ اس کا علم اسے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور یہ علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے ۔ اس غیب کا یہ نقش اور یہ صورت صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔

(آیت) ” وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (59) ۔

” اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بحروبر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے ‘ درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں ہے جس کا اسے علم نہ ہو ‘ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ‘ خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ “

اس کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں پر مکمل گرفت حاصل ہے ۔ وہ ہر حال میں اللہ کے کنٹرول میں ہیں ‘ سوتے ہوں یا جاگتے ‘ زندہ ہوں یا مردہ اور دنیا میں ہو یا آخرت میں ہوں۔

(آیت) ” وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُم بِاللَّیْْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضَی أَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ إِلَیْْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (60) وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ (61) ثُمَّ رُدُّواْ إِلَی اللّہِ مَوْلاَہُمُ الْحَقِّ أَلاَ لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ (62) (6 : 60 : 62)

” وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے ۔ پھر دوسرے روز وہ تمہیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو ‘ آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے ‘ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔ ؟ اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ پھر سب کے سب اللہ اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس جاتے ہیں ۔ خبردار ہوجاؤ کہ سارے اختیارات اس کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے “۔

یہ شان کبریائی خود ان لوگوں کے اس فطری ردعمل کے وقت بھی ظاہر ہوتی ہے جب یہ جھٹلانے والے کسی خطرے سے دو چار ہوتے ہیں ۔ اس وقت یہ لوگ دوسرے شرکاء کو چھوڑ کر صرف اللہ کو پکارتے ہیں کہ وہ اس خطرے کو ٹال دے لیکن اس کے باوجود پھر شرک کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس خطرے کو ٹالنے کے لئے وہ جس خدا کو پکارتے تھے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں کسی دوسرے ایسے عذاب سے دوچار کر دے جس کے بعد ان میں سے کوئی زندہ نہ بچے ۔

(آیت) ” قُلْ مَن یُنَجِّیْکُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَہُ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ ہَـذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ (63) قُلِ اللّہُ یُنَجِّیْکُم مِّنْہَا وَمِن کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِکُونَ (64) قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَن یَبْعَثَ عَلَیْْکُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِکُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَیُذِیْقَ بَعْضَکُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (65) ۔ (6 : 63 تا 65)

(اے نبی ﷺ ان سے پوچھو ‘ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ‘ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ؟ کہو ‘ اللہ تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے ۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ کہو ” وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے ‘ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے ‘ یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ “ )

آیت 55 وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ۔یہاں پرنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ کے بعد لِیَتَفَکَّرُوْا بِھَا محذوف مانا جائے گا۔ یعنی ہم آیات کی تفصیل اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ ان پر غور و فکر کریں۔ اگر وہ ان پر غور کریں گے ‘ تفکر کریں گے تو مجرموں کا راستہ ان کے سامنے کھل کر واضح ہوجائے گا۔

نیک و بد کی وضاحت کے بعد ؟ یعنی جس طرح ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی باتیں اور بھلائی کی راہیں واضح کردیں نیکی بدی کھول کھول کر بیان کردی اسی طرح ہم ہر اس چیز کا تفصیلی بیان کرتے ہیں جس کی تمہیں ضرورت پیش آنے والی ہے۔ اس میں علاوہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کا راستہ نیکوں پر عیاں ہوجائے۔ ایک اور قرأت کے اعتبار سے یہ مطلب ہے تاکہ تو گنہگاروں کا طریقہ واردات لوگوں کے سامنے کھول دے۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اے نبی ﷺ لوگوں میں اعلان کردو کہ میرے پاس الٰہی دلیل ہے میں اپنے رب کی دی ہوئی سچی شریعت پر قائم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس وحی آتی ہے، افسوس کہ تم اس حق کو جھٹلا رہے ہو، تم اگرچہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہو لیکن عذاب کا لانا میرے اختیار کی چیز نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے۔ اس کی مصلحت وہی جانتا ہے اگر چاہے دیر سے لائے اگر چاہے تو جلدی لائے، وہ حق بیان فرمانے والا اور اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلے کرنے والا ہے، سنو اگر میرا ہی حکم چلتا میرے ہی اختیار میں ثواب و عذاب ہوتا، میرے بس میں بقا اور فنا ہوتی تو میں جو چاہتا ہوجایا کرتا اور میں تو ابھی اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرلیتا اور تم پر وہ عذاب برس پڑتے جن سے میں تمہیں ڈرا رہا ہوں، بات یہ ہے کہ میرے بس میں کوئی بات نہیں، اختیار والا اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے، وہ ظالموں کو بخوبی جانتا ہے، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک بار رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ احد سے زیادہ سختی کا تو آپ پر کوئی دن نہ آیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا عائشہ کیا پوچھتی ہو کہ مجھے اس قوم نے کیا کیا ایذائیں پہنچیں ؟ سب سے زیادہ بھاری دن مجھ پر عقبہ کا دن تھا جبکہ میں عبدالیل بن عبد کلال کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے آرزو کی کہ وہ میرا ساتھ دے مگر اس نے میری بات نہ مانی، واللہ میں سخت غمگین ہو کر وہاں سے چلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں، قرن ثعالب میں آ کر میرے حواس ٹھیک ہوئے تو میں نے دیکھا کہ اوپر سے ایک بادل نے مجھے ڈھک لیا ہے، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو حضرت جبرائیل ؑ مجھے آواز دے کر فرما رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کی باتیں سنیں اور جو جواب انہوں نے تجھے دیا وہ بھی سنا۔ اب پہاڑوں کے داروغہ فرشتے کو اس نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں انہیں حکم دیجئے یہ بجا لائیں گے، اسی وقت اس فرشتے نے مجھے پکارا سلام کیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ان کے بارے میں جو ارشاد آپ فرمائیں میں بجا لاؤں، اگر آپ حکم دیں تو مکہ شریف کے ان دونوں پہاڑوں کو جو جنوب شمال میں ہیں میں اکٹھے کر دوں اور ان تمام کو ان دونوں کے درمیان پیس دوں۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں جواب دیا کہ نہیں میں یہ نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو امید ہے کہ کیا عجب ان کی نسل میں آگے جا کر ہی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، ہاں یہاں یہ بات خیال میں رہے کہ کوئی اس شبہ میں نہ پڑے کہ قرآن کی اس آیت میں تو ہے کہ اگر میرے بس میں عذاب ہوتے تو ابھی ہی فیصلہ کردیا جاتا اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بس میں کردیئے پھر بھی آپ نے ان کیلئے تاخیر طلب کی۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ عذاب طلب کرتے اس وقت اگر آپ کے بس میں ہوتا تو اسی وقت ان پر عذاب آجاتا اور حدیث میں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے کوئی عذاب مانگا تھا۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو یہ بتلایا کہ بحکم الہ میں یہ کرسکتا ہوں صرف آپ کی زبان مبارک کے ہلنے کا منتظر ہوں لیکن رحمتہ للعالمین کو رحم آگیا اور نرمی برتی، پس آیت و حدیث میں کوئی معارضہ نہیں۔ واللہ اعلم۔ حضور کا فرمان ہے غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31۔ لقمان :34) پڑھی، یعنی قیامت کا علم، بارش کا علم، پیٹ کے بچے کا علم، کل کے کام کا علم، موت کی جگہ کا علم۔ اس حدیث میں جس میں حضرت جبرائیل ؑ کا بصورت انسان آ کر حضور سے ایمان اسلام احسان کی تفصیل پوچھنا بھی مروی ہے یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے صحیح وقت کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ پھر آپ نے آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31۔ لقمان :34) تلاوت فرمائی۔ پھر فرماتا ہے اس کا علم تمام موجودات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ بری بحری کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ اس پر پوشیدہ نہیں۔ صرصری کا کیا ہی اچھا شعر ہے۔ فلا یحفی علیہ الذراما یترای للنواظر او تواری یعنی کسی کو کچھ دکھائی دے نہ دے رب پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں، وہ سب کی حرکات سے بھی واقف ہے، جمادات کا ہلنا جلنا یہاں تک کہ پتے کا جھڑنا بھی اس کے وسیع علم سے باہر نہیں۔ پھر بھلا جنات اور انسان کا کونسا علم اس پر مخفی رہ سکتا ہے ؟ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت (يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ) 40۔ غافر :19) آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ بھید بھی اس پر عیاں ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ خشکی تری کا کوئی درخت ایسا نہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو اس کے جھڑ جانے والے پتوں کو بھی لکھ لے، پھر فرماتا ہے زمین کے اندھیروں کے دانوں کا بھی اس اللہ کو علم ہے۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں، تیسری زمین کے اوپر اور چوتھی کے نیچے اتنے جن بستے ہیں کہ اگر وہ اس زمین پر آجائیں تو ان کی وجہ سے کوئی روشنی نظر نہ پڑے، زمین کے ہر کونے پر اللہ کی مہروں میں سے ایک مہر اور ہر مہر پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر دن اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس ایک اور فرشتے کے ذریعہ سے حکم پہنچتا ہے کہ تیرے پاس جو ہے اس کی بخوبی حفاظت کر۔ حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ زمین کے ہر ایک درخت وغیرہ پر فرشتے مقرر ہیں جو ان کی خشکی تری وغیرہ کی بابت اللہ کی جناب میں عرض کردیتے ہیں۔ ابن عباس سے مروی ہے اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور تختیاں بنائیں اور اس میں دنیا کے تمام ہونے والے اموار لکھے۔ کل مخلوق کی روزیاں، حلال حرام نیکی بدی سب کچھ لکھ دیا ہے پھر یہی آیت پڑھی۔

آیت 55 - سورۃ الانعام: (وكذلك نفصل الآيات ولتستبين سبيل المجرمين...) - اردو