اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 53 وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ یہ اللہ کی آزمائش کا ایک طریقہ ہے۔ مثلاً ایک شخص مفلس اور نادار ہے ‘ اگر وہ کسی دولت مند اور صاحب منصب و حیثیت شخص کو حق کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس پر حقارت بھری نظر ڈال کر مسکرائے گا کہ اس کو دیکھو اور اس کی اوقات کو دیکھو ‘ یہ سمجھانے چلا ہے مجھ کو ! حالانکہ اصولی طور پر اس صاحب حیثیت شخص کو غور کرنا چاہیے کہ جو بات اس سے کہی جا رہی ہے وہ صحیح ہے یا غلط ‘ نہ کہ بات کہنے والے کے مرتبہ و منصب کو دیکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس طرح ہم لوگوں کی آزمائش کرتے ہیں۔لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْم بَیْنِنَاط اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ صاحب حیثیت لوگ تو دعویٰ رکھتے ہیں کہ اللہ کا انعام اور احسان تو ہم پر ہوا ہے ‘ دولت مند تو ہم ہیں ‘ چودھراہٹیں تو ہماری ہیں۔ یہ جو گرے پڑے طبقات کے لوگ ہیں ان کو ہم پر فضیلت کیسے مل سکتی ہے ؟ مکہ کے لوگ بھی اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے اپنی کتاب نازل کرنی تھی ‘ کسی کو نبوت دینی ہی تھی تو اس کے لیے کوئی رَجُل مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْم منتخب کیا جاتا۔ یعنی یہ مکہ اور طائف جو دو بڑے شہر ہیں ان میں بڑے بڑے سردار ہیں ‘ سرمایہ دار ہیں ‘ بڑی بڑی شخصیات ہیں ‘ ان میں سے کسی کو نبوت ملتی تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ کیا ہوا کہ مکہ کا ایک یتیم جس کا بچپن مفلسی میں گزرا ہے ‘ جوانی مشقت میں کٹی ہے ‘ جس کے پاس کوئی دولت ہے نہ کوئی منصب ‘ وہ نبوت کا دعویدار بن گیا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات کا ایک اور مسکت جواب اسی سورة کی آیت 124 میں ان الفاظ میں آئے گا : اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ط ’ ’ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا منصب کس کو دینا چاہیے۔ اور کس میں اس منصب کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے۔ جیسے طالوت کے بارے میں لوگوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ کیسے بادشاہ بن سکتا ہے جبکہ اسے تو مال و دولت کی وسعت بھی نہیں دی گئی : وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ط البقرۃ : 247 ہم دولت مند ہیں ‘ ہمارے مقابلے میں اس کی کوئی مالی حیثیت نہیں۔ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ طالوت کو جسم اور علم کے اندر کشادگی بَسْطَۃً فِی الْْعِلْمِ وَالْجِسْمِ عطا فرمائی گئی ہے۔ لہٰذا اس میں بادشاہ بننے کی اہلیت تم لوگوں سے زیادہ ہے۔یہاں رسول اللہ ﷺ کو بتایا جا رہا ہے کہ ان غریب و نادار مؤمنین کے ساتھ آپ کا معاملہ کیسا ہونا چاہیے۔
آیت 55 وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ ۔یہاں پرنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ کے بعد لِیَتَفَکَّرُوْا بِھَا محذوف مانا جائے گا۔ یعنی ہم آیات کی تفصیل اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ ان پر غور و فکر کریں۔ اگر وہ ان پر غور کریں گے ‘ تفکر کریں گے تو مجرموں کا راستہ ان کے سامنے کھل کر واضح ہوجائے گا۔
آیت 56 قُلْ اِنِّیْ نُہِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط۔ یہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ جن کو تم لوگ اللہ کے علاوہ معبود مانتے ہو ‘ ان کو میں نہیں پکار سکتا۔ مجھے اس سے منع کردیا گیا ہے۔ مجھے تو حکم دیا گیا ہے : لَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا الجن کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔
آیت 57 قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ یہ بیّنہ ہے کیا ؟ اس کی وضاحت سورة ھود میں آئے گی۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے بَیِّنَہ دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے ‘ انسان کی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی۔ فطرت سلیمہ اور عقل سلیم انسان کے اندر اللہ کی طرف سے ودیعت کردی گئی ہے جس کی بنا پر اس کو نیکی بدی اور اچھے برے کی تمیز فطری طور پر مل گئی ہے۔ اس کے بعد اگر کسی انسان تک نبی یا رسول کے ذریعے سے اللہ کی وحی بھی پہنچ گئی اور اس وحی نے بھی ان حقائق کی تصدیق کردی جن تک وہ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں پہنچ چکا تھا ‘ تو اس پر حجت تمام ہوگئی۔ اس طرح یہ دونوں چیزیں یعنی فطرت سلیمہ اور وحی الٰہی مل کر اس شخص کے لیے بیّنہ بن گئیں۔ پھر اللہ کا رسول اور وحی الٰہی دونوں مل کر بھی لوگوں کے حق میں بَیِّنَہبن جاتے ہیں۔ خود رسول ﷺ کے حق میں بَیِّنَہیہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں جن حقائق تک پہنچ چکے تھے وحی الٰہی نے آکر ان حقائق کو اجاگر کردیا۔ چناچہ حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ آپ ان کو بتائیں کہ میں کوئی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ‘ میں تو اپنے رب کی طرف سے بیّنہ پر ہوں۔ میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ بہت واضح اور روشن راستہ ہے ‘ اور مجھ پر اس کی باطنی حقیقت بھی منکشف ہے۔وَکَذَّبْتُمْ بِہٖط مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ ط۔وہ لوگ جلدی مچا رہے تھے کہ لے آئیے ہمارے اوپر عذاب۔ دس برس سے آپ ہمیں عذاب کی دھمکیاں دے رہے ہیں ‘ اب جب کہ ہم نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا ہے تو وہ عذاب ہم پر آکیوں نہیں جاتا ؟ جواب میں حضور ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ انہیں صاف الفاظ میں بتادیں کہ عذاب کا فیصلہ میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ وہ عذاب جب آئے گا ‘ جیسا آئے گا ‘ اللہ کے فیصلے سے آئے گا اور جب وہ چاہے گا ضرور آئے گا۔
آیت 58 قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالظّٰلِمِیْنَ۔ ۔ان الفاظ سے ایک حد تک تلخی اور بیزاری ظاہر ہو رہی ہے کہ اگر یہ فیصلہ کرنا میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہیں مزید مہلت نہ دیتا۔ اب میں بھی تمہارے رویے سے تنگ آچکا ہوں ‘ میرے بھی صبر کا پیمانہ آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔
آیت 59 وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَآ اِلاَّ ہُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ الاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَ یَابِسٍ الاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ۔ یہ کتاب مبین اللہ کا علم قدیم ہے ‘ جس میں ہر شے مَا کَانَ وَ مَایَکُوْن آن واحد کی طرح موجود ہے۔