سورۃ الانعام: آیت 34 - ولقد كذبت رسل من قبلك... - اردو

آیت 34 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا۟ عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا۟ وَأُوذُوا۟ حَتَّىٰٓ أَتَىٰهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَٰتِ ٱللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَآءَكَ مِن نَّبَإِى۟ ٱلْمُرْسَلِينَ

اردو ترجمہ

تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad kuththibat rusulun min qablika fasabaroo AAala ma kuththiboo waoothoo hatta atahum nasruna wala mubaddila likalimati Allahi walaqad jaaka min nabai almursaleena

آیت 34 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 34۔

خدا پرستی کی دعوت ایک قدیم دعوت ہے ۔ تاریخ قدیم کی دور دراز وادیوں تک پھیلی ہوئی ہے ۔ یہ راہ بالکل سیدھی ہے اور بالکل واضح ہے ۔ اس کے خطوط بالکل سیدھے ہیں ۔ اس پر چلنے والے پاؤں ہمیشہ ثابت قدم رہے ہیں ۔ مختلف قسم کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس راہ کو روکنے کی کوشش کی ہے ۔ نیز گمراہوں اور ان کے شدید ترین پیروکاروں نے اس دعوت کی راہ ہمیشہ روکی ہے ۔ اس راہ میں کئی داعیوں کو سخت مشکلات سے دو چار ہونا پڑا ۔ خون دینا پڑا اور جان دینی پڑی لیکن قافلہ داعیان حق نے ہمیشہ اپنا سفر بالکل سیدھی سمت میں جاری رکھا ۔ یہ قافلہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس سیدھی راہ سے ادھر ادھر نہ ہوا ۔ نہ اس نے اس راہ کو چھوڑ کر روگردانی اختیار کی ۔ لیکن انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے اور آخر کار اللہ کی نصرت صرف اللہ کے اصولوں اور فیصلوں کے مطابق آتی ہے ۔

” تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں ‘ مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں ‘ انہوں نے صبر کیا ‘ یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی ۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ۔ “

یہ وہ الفاظ ہیں جو اللہ کی جانب سے اپنے رسول کو کہے جارہے ہیں ۔ یہ ایک یاد دہانی ہے اور ایک گونہ تسلی ہے ۔ ہمدردی اور تسلی کا ہاتھ آپ کے سرپر پھیرا جارہا ہے ۔ اور ان الفاظ کے اندر حضور اکرم ﷺ کے بعد آنے والے داعیوں کے بھی نقوش راہ واضح ہیں ۔ ایک واضح راستہ دکھایا جاتا ہے ‘ ان کا کردار بھی ان کے لئے متعین کردیا جاتا ہے اور آگاہ کردیا جاتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے سے مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ سکتے ہیں اور جو مشکلات پہلے لوگوں کو پیش آئیں وہ ہر داعی حق کی راہ میں آتی ہیں ۔

یہ الفاظ داعیان حق کو بتاتے ہیں کہ دعوت حق کے لئے سنت الہیہ ایک ہی ہے اور دعوت حق بھی ایک ہی ہے ۔ اس میں تعدد ممکن نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسی دعوت ہے کہ اکثر لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں اور مکذبین کی روش ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے ‘ اس دعوت کے حاملین کو ہمیشہ اذیت دی جاتی رہی ہے اور اس تکذیب اور ایذا رسانی پر داعیوں کو صبر کرنا پڑتا ہے اور پھر صبر کے مرحلے کے بعد آخر کار داعیوں کو فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے ۔ لیکن نصرت اللہ کے طے کردہ اصولوں کے مطابق اور اپنے وقت پر آتی ہے ۔ یہ نصرت محض اس لئے قبل از وقت نہیں آجاتی کہ کچھ پاک طینت اور بےگناہ داعیوں کو جھٹلایا جاتا ہے اور انہیں اذیت دی جاتی ہے ۔ یا یہ کہ گمراہ لوگ اور گمراہی کے لیڈر ان پاک طینت لوگوں کو اذیت دینے پر قادر ہیں ۔ نیز یہ امر بھی سنت الہیہ کی رفتار کو تیز نہیں کرسکتا کہ ایک مخلص ‘ ذاتی خواہشات سے پاک وصاف ‘ نہایت ہی پاک طینت کارکن اور داعی اپنے دل کے اندر شدید خواہش رکھتا ہے کہ اس کی قوم راہ راست پر آجائے اور وہ اس حقیقت پر بہت ہی فکر مند اور دل گرفتہ ہے کہ اس کی قوم ضلالت میں گری ہوئی ہے اور یہ کہ اس کی قوم دنیا کی تباہی اور آخرت کے عذاب کی راہ پر چل پڑی ہے ۔ یہ تمام امور سنت الہیہ کو قبل از وقت ظاہر نہیں کرسکتے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی جلد بازی کی وجہ سے اپنے کسی کام میں جلد بازی نہیں کرتا ۔ اور اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے ۔ چاہے ان کلمات کا تعلق عباد صالحین کی آخری فتح سے ہو یا ان کے متعلق کسی طے شدہ تقدیر سے ہو ۔

یہ ایک فیصلہ کن دو ٹوک اور سنجیدہ فیصلہ ہے ۔ اس کا مقصد حضور ﷺ کو تسلی اور اطمینان دلانا ہے اور مشکلات راہ پر آپ کے ساتھ ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار ہے ۔

اب یہ سنجیدہ فیصلہ اپنے اثرات کو اپنی آخری ممکن حدوں تک پہنچاتا ہے ۔ ان خدشات کی راہ بھی روک دی جاتی ہے جو ممکن تھا کہ حضور ﷺ کے دل میں پیدا ہوجائیں ۔ اس لئے کہ فطری طور پر ایک انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی قوم سدھر جائے اور ایک رسول تو پوری بشریت کی ہدایت کا مشتاق ہوتا ہے ۔ وہ خواہش مند ہوتا ہے اور انتظار میں ہوتا ہے کہ کب اس کی قوم اس کی دعوت پر لبیک کہتی ہے اور کب ہدایت پذیرہو جاتی ہے ؟ اس قسم کی خواہشات نزول قرآن کے وقت بعض مسلمانوں کے دل میں بھی جوش مارتی تھیں جن کی طرف اسی سورة کی دوسری آیات میں اشارت موجود ہیں ۔ اس قسم کی خواہشات انسانوں کے اندر نہایت ہی قدرتی اور فطری ہوتی ہیں ۔ لیکن اس دعوت اسلامی کے فیصلہ کن انداز ‘ اس کے حقیقی مزاج اس کے بارے میں رسولوں کے کردار اور پھر عوام الناس کے کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم ذار سخت لہجے میں یوں مخاطب ہوتا ہے : ۔

آیت 34 وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج ہمارا ایک قانون ‘ ایک طریقہ اور ایک ضابطہ ہے ‘ اس لیے آپ ﷺ کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ آپ کو جس منصب پر فائز کیا گیا ہے اس کے بارے میں ہم نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ بہت بھاری بوجھ ہے : اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا المزمل بیشک ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری بوجھ ڈالنے والے ہیں۔وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ۔آپ ﷺ کے علم میں ہے کہ ہمارے بندے نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک صبر کیا۔ اب اس کے بعد تلخ ترین بات آرہی ہے۔

آیت 34 - سورۃ الانعام: (ولقد كذبت رسل من قبلك فصبروا على ما كذبوا وأوذوا حتى أتاهم نصرنا ۚ ولا مبدل لكلمات الله ۚ ولقد...) - اردو