سورۃ الانعام: آیت 33 - قد نعلم إنه ليحزنك الذي... - اردو

آیت 33 کی تفسیر, سورۃ الانعام

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُۥ لَيَحْزُنُكَ ٱلَّذِى يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad naAAlamu innahu layahzunuka allathee yaqooloona fainnahum la yukaththiboonaka walakinna alththalimeena biayati Allahi yajhadoona

آیت 33 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 33۔

مشرکین عرب عموما اور قریش کا وہ طبقہ خصوصا جو دعوت اسلامی کے مقابلے میں ڈٹا ہوا تھا اور جاہلیت میں گرفتار تھا ‘ وہ حضرت محمد ﷺ کی صداقت میں شک نہ کرتا تھا ۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ کہ آپ صادق اور امین ہیں ۔ ان کے علم میں کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ بھی نہ تھا جس میں آپ نے جھوٹ بولا ہو کیونکہ آپ رسالت سے قبل ان میں ایک طویل زمانہ رہ چکے تھے ۔ اسی طرح جو طبقات آپ کی دعوت کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے انہیں اس بات میں بھی شک نہ تھا کہ آپ بالکل سچے رسول ہیں ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے اور یہ کہ انسان اس قسم کا کلام پیش نہیں کرسکتا ۔ لیکن اس کے باوجود اپنے اس علم اور یقین کے اظہار سے انکار کر رہے تھے اور اس دین جدید میں داخل ہونے سے مسلسل انکار کرتے چلے جاتے تھے ۔ وہ یہ انکار اس لئے نہ کرتے تھے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی تکذیب کرتے تھے بلکہ وہ اس لئے یہ انکار کرتے تھے کہ اس طرح ان کے اپنے اثر ورسوخ اور ان کی معاشرتی پوزیشن پر زد پڑتی تھی ۔ یہ تھی وہ اصل بات جس کی وجہ سے انہوں نے انکار اور کفر کی راہ کو اپنا لیا تھا اور اپنے باطل شرکیہ انکار پر جمے ہوئے تھے ۔

اسلامی تاریخ اور ذخیرہ احادیث میں متعدد ایسی روایات موجود ہیں جن سے قریش اور دوسرے عربوں کی اس پالیسی کا اچھی طرح اظہار ہوتا ہے ۔ وہ لوگ قرآن کے بارے میں اپنی حقیقی رائے کو چھپاتے تھے ۔

ابن اسحاق نے ابن شہاب زہری سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو سفیان ابن حرب ‘ ابو جہل ابن ہشام اور بنی زہرہ کے حلیف اخنس ابن شریق ابن عمر ابن وہب ثقفی ایک رات خفیہ طور پر نکلے تاکہ حضور اکرم ﷺ سے قرآن سنیں ۔ آپ رات کو اپنے گھر میں نماز میں قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ ہر ایک کسی خفیہ جگہ بیٹھ گیا اور تلاوت سنتا رہا ۔ ان تین افراد میں سے کوئی شخص دوسرے کے بارے میں نہ جاننا تھا ۔ یہ لوگ ساری رات قرآن کریم سنتے رہے جب صبح ہوئی تو بکھر گئے ۔ راستے میں اتفاقا ایک دوسرے کو انہوں نے دیکھ لیا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور ایک دوسرے سے کہا کہ دوبارہ کوئی یہ حرکت نہ کرے کیونکہ اگر ہمیں عام نادان لوگوں نے دیکھ لیا تو ان کے دل میں تم اچھا تاثر نہ چھوڑو گے ۔ اس قرار داد کے بعد یہ لوگ چلے گئے ۔ جب دوسری رات آئی تو ان میں سے ہر ایک پھر آکر اپنی جگہ چھپ گیا ساری رات سنتے رہے ۔ جب صبح ہوئی تو یہ لوگ پھر بکھر گئے ۔ اتفاقا راستے میں پھر ان کی ملاقات ہوگئی ۔ انہوں نے پھر پہلی رات کی طرح ایک دوسرے کو سخت وسست کہا اور چلے گئے ۔ جب تیسری رات ہوئی تو یہ پھر اپنی اپنی جگہ آکر بیٹھ گئے اور ساری رات کلام الہی سنتے رہے ۔ جب صبح ہوئی تو پھرجانے لگے اور راستے میں انہوں نے پھر ایک دوسرے کو دیکھ لیا ۔ انہوں نے کہا ‘ ہم ایک دوسرے کو نہ چھوڑیں گے جب تک کہ ہم پختہ عہد نہ کرلیں کہ پھر اس طرف نہ آئیں گے ۔ چناچہ انہوں نے پھر نہ آنے کا باقاعدہ معاہدہ کرلیا اور چلے گئے دوسرے دن صبح ہوتے ہیں اخنس ابن شریق نے اپنا عصا لیا اور ابو سفیان ابن حرب سے ان کے گھر آ کر ملا ۔ اس نے ابو سفیان سے کہا : بتاؤ ابو حنظلہ رات کو تم نے محمد سے جو کلام سنا اس کے بارے میں تمہاری حقیقی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا : ” ابو ثعلبہ ! خدا کی قسم میں نے اس سے بعض ایسی باتیں سنیں جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھتا ہوں اور بعض باتیں میں نے ایسی بھی سنی ہیں کہ جن کے معنی و مراد کو میں نہیں سمجھا ہوں ۔ “ اخنس نے کہا : ” اس خدا کی قسم جس کے نام پر میں نے حلف لیا ۔ میرا بھی یہی حال ہے ۔ اب اخنس ان کے ہاں سے نکلا اور ابوجہل کے پاس آیا ‘ اس کے گھر گیا ۔ اور اسے کہا ابو الحکم ! تم بتاؤ محمد سے تم نے جو کلام سنا اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابو جہل نے کہا : ” میں نے کہا سنا ؟ “ اور پھر کہا : ” ہمارا اور عبد مناف کا ہمیشہ مقابلہ رہا ۔ انہوں نے لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کیا۔ ہم نے بھی لوگوں کو مقابلے میں خوب کھلایا ‘ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی سواریاں دینا شروع کردیں۔ انہوں نے عطیے دیئے تو ہم نے بھی عطایا کی بارش کردی یہاں تک کہ ہم گھوڑوں کے اوپر بیٹھ کر بھی گھٹنے سے گھٹنا ملا کر چلے اور ہم ایک دوسرے سے اس طرح آگے بڑھے جس طرح مقابلے کے دو گھوڑے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوگیا ہے اور اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے ۔ ہم ان کے مقابلے میں نبی کہاں سے لائیں گے ؟ خدا کی قسم ہم کبھی بھی اس پر ایمان نہ لائیں گے ۔ اور کبھی بھی اس کی تصدیق نہ کریں گے ۔ راوی کہتے ہیں کہ اخنس اسے چھوڑ کر اٹھ گیا ۔

ابن جریر نے آیت (قد نعلم ۔۔۔۔۔ (6 : 33) الخ کے بارے میں سدی سے بواسطہ اسباط یہ روایت نقل کی ہے کہ بدر کے موقعہ پر اخنس ابن شریق نے بنی زہرہ سے کہا : اے بنی زہرہ ‘ محمد تمہارا بھانجا ہے ‘ تمہارا حق تو یہ ہے کہ تم اپنے بھانجے کی مدافعت کرو۔ اگر وہ فی الحقیقت نبی ہے تو تم ایک نبی کے ساتھ مقاتلہ کرنے کے گناہ سے بچ جاؤ گے ۔ اگر وہ جھوٹا ہوا تو تمہارا حق تو یہ ہے کہ تم اپنے بھانجے پر دست درازی نہ کرو۔ تم رک جاؤ حتی کہ اس کی مڈبھیڑ ابوجہل سے ہوجائے ۔ اگر محمد غالب ہوا تو تم صحیح و سلامت واپس ہوجاؤ گے اور اگر محمد مغلوب ہوگیا تو بھی تمہاری قوم تم سے کوئی مواخذہ نہ کرے گی ۔ چناچہ بدر کے واقعہ کے بعد اس کا نام اخنس (علیحدہ ہونے والا ‘ چھپنے والا) پڑگیا حالانکہ پہلے اس کا نام ابی تھا ۔ اس کے بعد اخنس نے ابوجہل سے ملاقات کی ۔ یہ ملاقات تنہائی میں ہوئی ۔ اخنس نے کہا : ” ابو الحکم ‘ مجھے محمد کے بارے میں بتاؤ کہ وہ سچے ہیں یا جھوٹے ؟ یہاں قریش کا میرے اور تمہارے سوا کوئی نہیں ہے جو ہماری بات سنتا ہو ‘ ابو جہل نے کہا : ” تم برباد ہوجاؤ ‘ وہ تو سچے ہیں خدا کی قسم ۔ “ محمد نے تو کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر قصی کی اولاد لواء ‘ سقایہ اور حجابہ کے مناصب کے ساتھ ساتھ نبوت کا مرتبہ بھی لے جائے تو قریش کے باقی قبائل کے پاس کیا رہ جائے گا ۔ “ یہی مفہوم ہے اس آیت کا ” یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ “

یہاں یہ بات نوٹ کرلی جائے کہ یہ سورة مکی ہے اور یہ آیت بھی بیشک مکی ہے لیکن بدر کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا ‘ لیکن جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کسی آیت میں یہ کہتے (ذلک قولہ) اور اس کے بعد کسی واقعہ کا ذکر کرتے تو مطلب یہ نہ ہوتا تھا کہ اس واقعہ کی بابت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس واقعہ پر یہ آیت صادق آتی ہے اور اس واقعہ پر اس سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ چاہے یہ آیت اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں نازل ہوئی ہو لہذا یہ روایت اس لحاظ سے غریب نہ ہوگی ۔

ابن اسحاق (رح) نے یزید ابن زیادہ سے روایت کی ہے ‘ انہوں نے محمد ابن کعب قرظی سے روایت کی ہے ۔ محمد نے کہا کہ مجھے یہ بتا گیا ہے عتبہ ابن ربیعہ سرداران قریش سے تھا ‘ ایک دن قریش کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ۔ حضور اکرم ﷺ بھی مسجد حرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے ۔ عتبہ نے قریش سے کہا کیا یہ مناسب ہے کہ میں محمد ﷺ کے پاس جا کر ان کے سامنے کچھ تجاویز پیش کروں ؟ اور جو مطالبے کرے ہم انہیں پورا کردیں اور وہ ہم پر تنقید بند کر دے ‘ شاید کہ وہ مان جائے ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب حضرت حمزہ مسلمان ہوگئے تھے اور آپ کے ساتھی روز بروز بڑھ رہے تھے ۔ مجلس نے بالاتفاق کہا کہ تجویز بالکل درست ہے ۔ ابو الولید اٹھو اور ان سے بات کرو ۔ عتبہ اٹھا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اور بولا : ” بھتیجے ! تم جانتے ہو کہ ہم میں تمہارا بلند مقام ہے ‘ افراد قبیلہ بھی کافی ہیں اور آپ کا نسب بھی بلند مرتبت ہے لیکن تم نے اپنی قوم کو ایک عظیم مصیبت میں ڈال دیا ہے ۔ قوم کا اتحاد واتفاق ختم ہوگیا ہے ‘ تم نے قوم کے افکار و عقائد کی تضحیک کی ۔ ان کے دین اور الہوں کو برا بھلا کہا اور قوم کے آباؤ اجداد جو فوت ہوگئے ہیں ان کو تم کافر اور جہنمی قرار دیتے ہو ۔ میں تمہارے سامنے کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں تم انہیں ذرا غور سے سنو ۔ ممکن ہے کہ یہ تمہارے لئے قابل قبول ہوں ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا : ” ابو الولید کہو ‘ میں سنتا ہوں ۔ “ اس پر عتبہ نے کہا : ” بھتیجے ! تم نے جو تحریک برپا کر رکھی ہے اگر اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ تم مال و دولت جمع کرلو تو ہم تمہارے لئے اس قدرمال جمع کردیتے ہیں کہ ہم میں تم سب سے زیادہ مالدار بن جاؤ گے ۔ اگر تم لیڈر شپ چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا اتنا بڑا لیڈر بنا دیتے ہیں کہ تمہارے بغیر ہم کوئی فیصلہ نہ کریں گے ۔ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں اور اگر صورت حال یہ ہے کہ جو خیالات تم پر نازل ہوتے ہیں یہ کوئی ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں تم مجبور ہو اور تم ان خیالات کو نرک نہیں کرسکتے تو ہم تمہارے لئے بڑے بڑے اطباء کا انتظام کرتے ہیں اور اس قدر خرچ کرتے ہیں کہ تم صحیح اور تندرست ہوجاؤ اس لئے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا تابع اس پر غالب آجاتا ہے اور اس کا علاج کرنا پڑتا ہے ۔ (یہ تھے تقریبا اس کے الفاظ) عتبہ نے یہ بات کی اور فارغ ہوگیا ۔ اور حضور اکرم ﷺ اس کی باتوں کو اچھی طرح سنتے رہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس سے پوچھا ابو الولید تمہاری بات ختم ہوگئی ۔ “ تو اس نے کہا ‘ ہاں ۔ حضور ﷺ نے ان سے کہا ” اب تم میری بات توجہ سے سنو ‘ تو عتبہ نے کہا فرمائیے ! آپ نے پڑھنا شروع کیا ۔

(آیت) ” حم (1) تنزیل من الرحمن الرحیم (2) کتب فصلت ایتہ قرانا عربیا لقوم یعلمون (3) بشیرا ونذیرا فاعرض اکثرھم فھم لا یسمعون (4) (41 : 1 تا 4)

” آپ نے سورة حم السجدہ کی یہ آیات ‘ آیت سجدہ تک تلاوت کیں اور پھر سجدہ فرمایا ۔ عتبہ خاموشی سے سنتا رہا ۔ اپنے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے زمین پر رکھے اور ان پر ٹیک لگائی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ” ابولولید تم نے سن لیا ‘ یہ ہے میرا جواب ۔ “ عتبہ اٹھا اور اپنی محفل میں گیا ۔ انہوں نے جب عتبہ کو آتے دیکھا تو ایک دوسرے سے کہا :” خدا کی قسم ابو الولید جو چہرہ لے کر گیا تھا اب اس کا وہ چہرہ نہیں ہے ۔ “ لیکن جب وہ ان کے پاس بیٹھا تو انہوں نے پوچھا ابو الولید تم کیا لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس یہ بات ہے کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے کہ خدا کی قسم میں نے پہلے کبھی ایسا کلام نہیں سنا ۔ خدا کی قسم نہ وہ جادو ہے ‘ نہ شعر ہے ‘ نہ کہانت ہے ۔ اے اہل قریش ! تمہیں میرا مشورہ یہ ہے کہ تم میری بات مانو اور اس معاملے کو مجھ پر چھوڑ دو ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اس شخص سے تعرض نہ کرو اور اس کی راہ نہ روکو ‘ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ‘ خدا کی قسم میں نے اس کی جو بات سنی ہے اس کے بارے میں ایک دن تم کوئی عظیم خبر سنو گے ۔ اگر اس کو عربوں نے ختم کردیا تو وہ تمہارا یہ مسئلہ حل کردیں گے ۔ اور اگر یہ شخص عربوں پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی ۔ اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور تم اس کی وجہ سے نہایت ہی خوشحال قوم بن جاؤ گے ۔ “ اس پر اہل محفل نے یک زبان ہو کر کہا : ” ابو الولید خدا کی قسم اس نے اپنی باتوں سے تم اپنی باتوں سے تم پر جادو کردیا ہے ۔ “

علامہ بغوی نے اپنی تفسیر میں حضرت جابر ؓ کی روایت نقل فرمائی ہے کہ جب حضور ﷺ سورة حم السجدہ پڑھتے پڑھتے اس آیت تک پہنچے (آیت) ” فان اعرضوا فقل انذرتکم صعقۃ مثل صعقۃ عاد وثمود “۔ (41 : 13) تو عتبہ نے حضور ﷺ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ ﷺ کو صلہ رحمی کا واسطہ دیا کہ ایسا نہ کہیں ‘ اس کے بعد عتبہ اپنے خاندان کے پاس چلا گیا اور قریش کی طرف نہ آیا اور اس نے اپنے آپ کو بند کرلیا ۔

اس کے بعد جب عتبہ سے اس بارے میں گفتگو کی جاتی تو وہ کہتا : ” میں نے حضور ﷺ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ ﷺ کو صلہ رحمی کا واسطہ دیا کہ وہ آگے نہ بڑھیں اور کیا تمہیں علم نہیں ہے جب محمد کوئی بات کہتا ہے تو وہ ہو کر رہتی ہے ‘ اس لئے میں ڈر گیا تھا کہ کہیں تم پر بھی عذاب نازل نہ ہوجائے ۔

ابن اسحاق نے یہ روایت کی ہے ولید ابن مغیرہ کے پاس قریش کے کچھ زعماء جمع ہوئے ۔ ولید ابن مغیرہ ان میں ایک معمر دانشور تھا ۔ زمانہ حج کا تھا ۔ اس نے ان زعماء سے کہا ‘ اہل قریش موسم حج آرہا ہے اور تمام عرب وفود کی شکل میں آئیں گے اور انہوں نے تمہارے ساتھی کے بارے میں سن رکھا ہے ‘ لہذا اس کے بارے میں تم ایک رائے پر متفق ہوجاؤ اور اگر تم مختلف باتیں کرو گے تو اس طرح تم خود ایک دوسرے کی تکذیب کرو گے ۔ خود تمہاری اپنی باتیں تمہاری تردید کردیں گی ۔ انہوں نے کہا ‘ ابو شمس ! تم ہی خود تجاویز دو ‘ میں سنتا ہوں۔ انہوں نے کہا : ” ہم اسے کاہن کہیں گے ۔ “ اس نے کہا : ” یہ بات بالکل غلط ہے ‘ اس لئے کہ وہ ہر گزکاہن نہیں ہے ۔ ہم نے کاہن بہت دیکھے ہیں ‘ نہ وہ کاہنوں کی طرح گاتا گنگناتا ہے ہے اور نہ سجع ملاتا ہے ۔ “ پھر انہوں نے یہ تجویز دی کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں نہ اس کا گلا گھونٹا ہوا ہے ‘ نہ اس کے دل میں وسوسے آتے ہیں ‘ نہ اس کے دل میں شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر انہوں نے تجویز کیا کہ اسے شاعر کہنا چاہئے تو اس نے کہا : کہ آپ ﷺ شاعر بھی نہیں ہیں ۔ ہم اشعار کو اچھی جانتے ہیں ‘ رجز ‘ ہزج ‘ قریضہ ‘ مقبوضہ اور مبسوطہ اس کی اقسام ہیں لہذا قرآن شعر کے زمرے میں نہیں آتا ۔ تو پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں انہیں ساحر کہنا چاہیے ۔ اس پر اس نے کہا : کہ حضور ﷺ ساحر بھی نہیں ہیں ۔ ہم نے جادوگروں اور ان کے جادوگرانہ کرتبوں کو دیکھا ہے ۔ وہ نہ پھونک جھاڑ کا کام کرتا ہے اور نہ تعویذ گنڈوں کا ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ابو شمس پھر تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کہیں ۔ انہوں نے کہا : خدا کی قسم ‘ ان کی باتوں میں بڑی مٹھاس ہے اس کا اصل پھل دار ہے اور اس کی شاخیں بار آور ہیں اور ان باتوں میں سے جس کا بھی تم اظہار کرو گے لوگ انہیں غلط سمجھیں گے ۔ میرے خیال میں اگر اس کلام کے بارے میں کوئی معقول بات کہی جاسکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ تم محمد پر ساحر ہونے کا الزام عائد کرو کہ وہ ایسی جادو بھری باتیں کرتا ہے جن کی وجہ سے باپ اور بیٹے کے درمیان تفرقہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ بھائی اور بھائی کے درمیان دشمنی پیدا ہوجاتی ہے ۔ میاں اور بیوی کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور ایک شخص اپنے خاندان سے کٹ جاتا ہے ۔ چناچہ یہ لوگ یہ بات لے کر پھیل گئے اور موسم حج میں تمام راستوں پر بیٹھ گئے ‘ جو شخص بھی آتا یہ لوگ اسے ڈراتے اور خبردار کرتے اور حضور ﷺ کے کام سے لوگوں کو باخبر کرتے ۔

ابن جریر نے عبدالاعلی ‘ محمد ابن ثورہ ‘ معمر عبادہ ابن منصور کے واسطوں سے عکرمہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ولید ابن مغیرہ نبی ﷺ کے پاس آئے ۔ آپ نے اسے قرآن کریم سنایا ۔ اس پر قرآن کریم کا بہت ہی اثر ہوا ۔ اس واقعہ سے جب ابو جہل ابن ہشام خبردار ہوا تو وہ ولید کے پاس آیا اور اسے کہا کہ تمہاری قوم یہ چاہتی ہے کہ وہ تمہارے لئے دولت جمع کرے تو ولید نے کہا یہ کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ آپ کے لئے بطور چندہ وہ جمع کر رہے ہیں اس لئے کہ تم محمد ﷺ کے پاس گئے تھے اور اس کی جانب سے عطیے کے خواہاں تھے ۔ (یہ خبیث اس کی عزت نفس پر چوٹ لگانا چاہتا تھا کیونکہ یہ شخص اپنے آپ کو مالدار سمجھتا تھا اور اپنے مال پر فخر کرتا تھا) اس نے کہا کہ آیا قریش کو معلوم نہیں ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ؟ تو اس پر ابو جہل نے کہا ‘ پھر آپ کے لئے مناسب ہے کہ محمد کے بارے میں کوئی ایسی بات کہیں جس سے معلوم ہو کہ تم اسے سخت ناپسند کرتے ہو اور اس کے خلاف ہو ۔ تو ولید نے کہا : کہ ” تم بتاؤ میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ خدا کی قسم تم میں کوئی ایک بھی میرے مقابلے میں اصناف شعر سے زیادہ واقف نہیں ہے ‘ نہ مجھ سے زیادہ رجزیہ اشعار کو جانتا ہے ‘ نہ قصائد کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے ۔ نہ کوئی جنات کے اشعار کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔ خدا کی قسم محمد کی کوئی بات شعر کے زمرے میں نہیں آتی ۔ خدا کی قسم وہ جو بات کرتا ہے وہ بہت ہی میٹھی بات ہے ‘ اس کی ظاہری شکل نہایت ہی پالش شدہ ہے ۔ اس کے سامنے جو چیز آتی ہے وہ اسے توڑ دیتی ہے ۔ الغرض اس کی بات برتر اور بلند رہتی ہے اور اس پر کوئی بات بلندی حاصل نہیں کرسکتی ۔ ابو جہل نے کہا ‘ خدا کی قسم لوگ تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے ۔ تمہیں بہرحال کچھ کہنا ہی پڑے گا ۔

اس نے کہا ” پھر مجھے سوچنے دیجئے جب اس نے اچھی طرح سوچا تو پھر کہا : ” یہ ایک جادو ہے جو پر اثر ہے اور کسی اور ذریعے سے آتا ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” ذرنی ومن خلقت وحیدا۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علیھا تسعۃ عشر) ایک دوسری روایت میں ہے کہ قریش نے کہا کہ اگر ولید صابی بن گیا تو تمام قریش صابی بن جائیں گے ۔ ابو جہل نے کہا : ” اس کا بندوبست میں کرلوں گا ۔ فکر مت کرو “۔ اس کے بعد وہ اس سے ملا اور اس نے بڑے غور وفکر کے بعد یہ بات کہی کہ ” یہ جادو بھرا کلام ہے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس کے نتیجے میں ایک شخص اور اس کی اولاد اور اس کے ملازمین کے درمیان تفرقہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ “

ان تمام باتوں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کے مخالفین کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ آپ ان تک جو پیغام پہنچا رہے ہیں اس میں آپ ﷺ ان سے کوئی جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ وہ ان روایات کے مطابق بعض دوسری وجوہات واسباب کی وجہ سے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے ۔ ان اسباب میں سے سب سے بڑا سبب یہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس دعوت وتحریک کے نتیجے میں ان سے ان کی موجود سیادت و قیادت چھن جائے گی ‘ جس پر وہ غاصبانہ طور پر فائز تھے ۔

حالانکہ سیادت و قیادت اور حاکمیت کا مقام خاصہ خدا تھا اور یہی مفہوم ہے ۔ (لا الہ الا اللہ) کا جو دعوت اسلامی کی اساس ہے ۔ یہ لوگ بہرحال عربی زبان اور اس کے مفہومات سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ کلمہ شہادت کے اس مفہوم کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ اس لئے کہ کلمہ شہادت تمام حاکمیتوں اور قیادتوں کے خلاف ایک انقلابی دعوت تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کی زندگی سے غیر اللہ کی بندگی کا قلع قمع کردیا جائے ۔

(آیت) ” قَدْ نَعْلَمُ إِنَّہُ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُولُونَ فَإِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِآیَاتِ اللّہِ یَجْحَدُونَ (33) وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِکَ فَصَبَرُواْ عَلَی مَا کُذِّبُواْ وَأُوذُوا (34) (6 : 33 : 34)

” اے نبی ﷺ ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا۔ “

یہاں الظالمون سے مراد المشرکون ہے اور قرآن کریم کے بیشتر مقامات میں الظالمون سے مراد المشرکون ہی ہوتا ہے حضور اکرم ﷺ کے طیب خاطر کے لئے بات آگے بڑھتی ہے اور وہ حقیقی اسباب بیان کردیئے جاتے ہیں جن کی بناء پر جھٹلانے والے حضور ﷺ کی دعوت کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں۔ حالانکہ آیات الہیہ کی صداقت اور سچائی بالکل بدیہی ہے ۔ پھر اس سے آگے یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے ہم منصب رسولوں کے ساتھ پوری انسانی تاریخ میں مکذبین نے یہی رویہ اختیار کیا ہے ‘ جن کے کچھ حالات قرآن نے بھی بیان کیے ہیں کہ رسولوں نے کن کن مشکل حالات میں اپنا کام جاری رکھا ۔ انہوں نے مشکلات پر صبر کیا یہاں تک کہ اللہ کی مدد آپہنچی ۔ یہ اشارہ اس لئے کیا گیا کہ سنت الہیہ کی یہی شان ہے ۔ سنت الہیہ کبھی نہیں بدلتی اور کسی کی تجاویز اور کسی کی خواہشات کے بدلے اللہ کی سنت نہیں بدلتی ۔ نیز کسی کے جھٹلانے کی وجہ سے ‘ کسی کی تکالیف کی وجہ سے اور کسی کی ذاتی مشکلات کی وجہ سے سنت الہیہ میں کبھی فیصلے قبل بر وقت نہیں کیے جاتے ۔

آیت 33 قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ ہم جانتے ہیں کہ جو مطالبات یہ لوگ کر رہے ہیں ‘ آپ سے جو معجزات کا تقاضاکر رہے ہیں اس سے آپ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی ذات گویا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آگئی ہے۔ ایک طرف اللہ کی مشیت ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کے تقاضے۔ اب اس کا پہلا جواب تو یہ ہے :فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ ۔یہ لوگ قرآن کا انکار کر رہے ہیں ‘ ہمارا انکار کر رہے ہیں ‘ آپ ﷺ کا انکار انہوں نے کب کیا ہے ؟ یہاں سمجھانے کے اس انداز پر غور کیجیے ! کیا انہوں نے آپ ﷺ کو جھوٹا کہا ؟ نہیں کہا ! آپ ﷺ پر کوئی تہمت انہوں نے لگائی ؟ نہیں لگائی ! لہٰذا یہ لوگ جو تکذیب کر رہے ہیں ‘ یہ آپ ﷺ کی تکذیب تو نہیں ہو رہی ‘ تکذیب تو ہماری ہو رہی ہے ‘ غصہ تو ہمیں آنا چاہیے ‘ ناراض تو ہمیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا کلام ہے اور یہ لوگ ہمارے کلام کو جھٹلا رہے ہیں۔ آپ ﷺ کا کام تو ہمارے کلام کو ان تک پہنچا دینا ہے۔ یہ سمجھانے کا ایک بڑا پیارا انداز ہے ‘ جیسے کوئی شفیق استاد اپنے شاگرد کو سمجھا رہا ہو۔ لیکن اب یہ بات درجہ بدرجہ آگے بڑھے گی۔ لہٰذا ان آیات کو پڑھتے ہوئے یہ اصول ذہن میں ضرور رکھئے کہ الرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی۔ اب اس ضمن میں دوسرا جواب ملاحظہ ہو :

حق کے دشمن کو اس کے حال پر چھوڑئیے آپ ﷺ سچے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ آپ اپنی قوم کو جھٹلانے نہ ماننے اور ایذائیں پہنچانے سے تنگ دل نہ ہوں، فرماتا ہے کہ ہمیں ان کی حرکت خوب معلوم ہے، آپ ان کی اس لغویت پر ملال نہ کرو، کیا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ لگا لیں گے ؟ کہاں تک ان کے لئے حسرت و افسوس کریں گے ؟ سمجھا دیجئے اور ان کا معاملہ سپرد الہ کیجئے۔ یہ لوگ دراصل آپ کو جھوٹا نہیں جانتے بلکہ یہ تو حق کے دشمن ہیں۔ چنانجہ ابو جہل نے صاف کہا تھا کہ ہم تجھے نہیں جھٹلاتے لیکن تو جو لے کر آیا ہے اسے نہیں مانتے، حکم کی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جہل کو حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھ کر کسی نے اس سے کہا کہ اس بےدین سے تو مصافحہ کرتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے خوب علم ہے اور کامل یقین ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ ہم صرف خاندانی بنا پر ان کی نبوت کے ماتحت نہیں ہوتے۔ ہم نے آج تک نبی عبد عناف کی تابعداری نہیں کی۔ الغرض حضور کو رسول اللہ مانتے ہوئے آپ کی فرمانبرداری سے بھاگتے تھے، امام محمد بن اسحاق ؒ نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت زہری ؒ اس قصے کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابو جہل، ابو سفیان، صحر بن حرب، اخنس بن شریق کا رات کے وقت پوشیدہ طور پر آن کر ایک دوسرے کی بیخبر ی میں رسول اللہ ﷺ کا زبانی قرآن سننا ہے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صبح تک قرآن سنا روشنی ذرا سی نمودار ہوئی تھی تو یہ واپس چلے۔ اتفاقاً ایک چوک میں ایک دوسرے سے ملاقات ہوگئی حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس وقت یہاں کہاں ؟ پھر ہر ایک دوسرے سے صاف صاف کہہ دیتا ہے کہ حضور سے قرآن سننے کے لئے چپ چاپ آگئے تھے۔ اب تینوں بیٹھ کر معاہدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ اگر اوروں کو خبر ہوئی اور وہ آئے تو وہ تو سچے پکے مسلمان ہوجائیں گے۔ دوسری رات کو ہر ایک نے اپنے طور یہ گمان کر کے کہ کل رات کے وعدے کے مطابق وہ دونوں تو آئیں گے نہیں میں تنہا کیوں نہ جاؤں ؟ میرے جانے کی کسے خبر ہوگی ؟ اپنے گھر سے پچھلی رات کے اندھیرے اور سوفتے میں ہر ایک چلا اور ایک کونے میں دب کر اللہ کے نبی کی زبانی تلاوت قرآن کا مزہ لیتا رہا اور صبح کے وقت واپس چلا۔ اتفاقاً آج بھی اسی جگہ تینوں کا میل ہوگیا۔ ہر ایک نے ایک دوسرے کو بڑی ملامت کی بہت طعن ملامت کی اور نئے سرے سے عہد کیا کہ اب ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ لیکن تیسری شب پھر صبر نہ ہوسکا اور ہر ایک اسی طرح پوشیدہ طور پر پہنچا اور ہر ایک کو دوسرے کے آنے کا علم بھی ہوگیا، پھر جمع ہو کر اپنے تئیں برا بھلا کہنے لگے اور بڑی سخت قسمیں کھا کر قول قرار کئے کہ اب ایسا نہیں کریں گے۔ صبح ہوتے ہی اخنس بن شریق کپڑے پہن کر تیار ہو کر ابو سفیان بن حرب کے پاس اس کے گھر میں گیا اور کہنے لگا اے ابو حنظلہ ایمان سے بتاؤ سچ سچ کہو جو قرآن تم نے محمد ﷺ کی زبانی سنا اس کی بابت تمہاری اپنی ذاتی رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ سنو ! واللہ بہت سی آیتوں کے الفاظ معنی اور مطلب تو میں سمجھ گیا اور بہت سی آیتوں کو ان کی مراد کو میں جانتا ہی نہیں۔ اخنس نے کہا واللہ یہی حال میرا بھی ہے، اب یہاں سے اٹھ کر اخنس سیدھا ابو جہل کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ابو الحکم تم سچ بتاؤ جو کچھ تم حضور سے سنتے ہو اس میں تمہارا خیال کیا ہے ؟ اس نے کہا سن جو سنا ہے اسے تو ایک طرف رکھ دے بات یہ یہ کہ بنو عبد مناف اور ہم میں چشمک ہے وہ ہم سے اور ہم ان سے بڑھنا اور سبقت کرنا چاہتے ہیں اور مدت سے یہ رسہ کسی ہو رہی ہے، انہوں نے مہمانداریاں اور دعوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے عوام الناس کے ساتھ احسان و سلوک کئے تو ہم نے بھی اپنی تھیلیوں کے منہ کھول ڈالے گویا ہم کسی معاملہ میں ان سے کم نہیں رہے، اب جبکہ برابر کی ٹکر چلی جا رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم میں ایک نبی ہے، سنو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہوجائے نہ تو ہم اس کی تصدیق کریں گے نہ مانیں گے۔ اخنس مایوس ہوگیا اور اٹھ کر چل دیا۔ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر میں ہے کہ بدر والے دن اخنس بن شریق نے قبیلہ بنو زہرہ سے کہا کہ محمد ﷺ تمہاری قرابت کے ہیں تم ان کی ننہیال میں ہو تمہیں چاہئیے کہ اپنے بھانجے کی مدد کرو، اگر وہ واقعی نبی ہے تو مقابلہ بےسود ہی نہیں بلکہ سراسر نقصان دہ ہے اور بالفرض نہ بھی ہو تو بھی وہ تمہارا ہے، اچھا ٹھہرو دیکھو میں ابو الحکم (یعنی ابو جہل) سے بھی ملتا ہوں سنو ! اگر محمد ﷺ غالب آگئے تو وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم سلامتی کے ساتھ واپس چلے جاؤ گے اور اگر تمہاری قوم غالب آگئی تو ان میں تو تم ہی ہو، اسی دن سے اس کا نام اخنس ہوا اصل نام ابی تھا، اب خنس تنہائی میں ابو جہل سے ملا اور کہنے لگا سچ بتا محمد ﷺ تمہارے نزدیک سچے ہیں یا جھوٹے ؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی اور نہیں دل کی بات مجھ سے نہ چھپانا، اس نے کہا جب یہی بات ہے تو سو اللہ کی قسم محمد ﷺ بالکل سچے اور یقینا صادق ہیں عمر بھر میں کسی چھوٹی سی چھوٹی بات میں کبھی بھی آپ نے جھوٹ نہیں بولا۔ ہمارا رکنے اور مخالفت کرنے کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے وہ یہ کہ جب بنو قصی کے خاندان میں جھنڈے اور پھر یرے چلے گئے جب حج کے حاجیوں کے اور بیت اللہ شریف کے مہتمم و منتظم یہی ہوگئے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ نبوت بھی اسی قبیلے میں چلی گئی تو اب اور قریشیوں کے لئے کون سی فضیلت باقی رہ گئی ؟ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے، پس آیات اللہ سے مراد ذات حضرت محمد ﷺ ہے۔ پھر دوبارہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب ایذاء رسانی وغیرہ پر صبر کیجئے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا اور یقین مانئے کہ جس طرح انجام کار گزشہ نبیوں کا غلبہ رہا اور ان کے مخالفین تباہ و برباد ہوئے اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کرے گا اور آپ کے مخالفین مغلوب ہوں گے۔ دونوں جہان میں حقیقی بلندی آپ کی ہی ہوگی۔ رب تو یہ بات فرما چکا ہے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ) 37۔ الصافات :171) یعنی ہم تو پہلے سے ہی یہ فرما چکے ہیں کہ ہمارے رسولوں کو مدد دی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا اور آیت میں فرماتا ہے آیت (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ) 58۔ المجادلہ :21) اللہ تعالیٰ یہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ قوت ولا اور غلبہ والا ہے، ان نبیوں کے اکثر قصے آپ کے سامنے بیان ہوچکے ہیں ان کے حالات آپ کو پہنچ چکے ہیں، آپ خوب جانتے ہیں کہ کس طرح ان کی نصرت و تائید ہوئی اور مخالفین پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی، پھر فرماتا ہے اگر ان کی یہ بےرخی تجھ پر گراں گزرتی ہے اگر تجھ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ کھو دلے اور جو معجزہ یہ تجھ سے مانگتے ہیں لا دے یا تیرے بس میں ہو تو کوئی زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جا اور وہاں سے ان کی چاہت کی کوئی نشانی لے آ۔ میں نے تجھے اتنی نشانیاں اس قدر معجزے دیئے ہیں کہ ایک اندھا بھی شک نہ کرسکے۔ اب ان کی طلب معجزات محض مذاق ہے اور عناد و ضد ہے کوئی ضرورت نہیں کہ تو انہیں ان کی چاہت کے معجزے ہر وقت دیکھتا پھرے، یا اگر وہ تیرے بس کے نہ ہوں تو غم کر کے رہو، اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر متفق کردیتا، تجھے نادانوں میں نہ ملنا چاہیے جیسے اور روایت میں ہے کہ اگر رب چاہتا تو روئے زمین کی مخلوق کو مومن بنا دیتا، آپ کی حرص تھی کہ سب لوگ ایماندار بن کر آپ کی تابعداری کریں تو رب نے فرما دیا کہ یہ سعادت جس کے حصے میں ہے توفیق کی اسی رفیق ہوگئی۔ پھر فرمایا کہ آپ کی دعوت پر لبیک کہنا اسے نصیب ہوگی جو کان لگا کر آپ کے کام کو سنے سمجھے یاد رکھے اور دل میں جگہ دے، جیسے اور آیت میں ہے کہ یہ اسے آگاہ کرتا ہے جو زندگی ہو، کفار پر تو کلمہ عذاب ثابت ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھا کر بٹھائے گا پھر اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جائیں گے۔ مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں کیونکہ وہ مردہ دل ہیں تو انہیں مردہ جسموں سے تشبیہ دی۔ جس میں ان کی ذلت و خواری ظاہر ہوتی ہے۔

آیت 33 - سورۃ الانعام: (قد نعلم إنه ليحزنك الذي يقولون ۖ فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون...) - اردو