سورۃ الانعام: آیت 30 - ولو ترى إذ وقفوا على... - اردو

آیت 30 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذْ وُقِفُوا۟ عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِٱلْحَقِّ ۚ قَالُوا۟ بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا۟ ٱلْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ

اردو ترجمہ

کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا "کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟" یہ کہیں گے "ہاں اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے" وہ فرمائے گا "اچھا! تو اب اپنے انکار حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw tara ith wuqifoo AAala rabbihim qala alaysa hatha bialhaqqi qaloo bala warabbina qala fathooqoo alAAathaba bima kuntum takfuroona

آیت 30 کی تفسیر

(آیت) ” وَلَوْ تَرَی إِذْ وُقِفُواْ عَلَی رَبِّہِمْ قَالَ أَلَیْْسَ ہَذَا بِالْحَقِّ قَالُواْ بَلَی وَرَبِّنَا قَالَ فَذُوقُواْ العَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ (30) ۔

” کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ” کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ “ یہ کہیں گے ” ہاں اے ہمارے رب ‘ یہ حقیقت ہی ہے ۔ “ وہ فرمائے گا ” اچھا تو اب اپنے انکار حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو ۔ “ یہ ہے ان لوگوں کا انجام جو کہتے تھے : ۔

” جو کچھ ہے بس ہماری دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ “ یہ ایک نہایت ہی برا ‘ توہین آمیز اور شرمسار کنندہ منظر ہے ۔ یہ لوگ بارگاہ الہی میں کھڑے ہیں ‘ وہ یہاں پیش ہونے کی تکذیب کرتے تھے ۔ اب وہ اس موقف سے بھی نہیں سکتے ۔ یوں کھڑے ہیں جس طرح باندھے ہوئے ہیں اور سامنے خوفناک انجام ہے ۔ ان سے پوچھا جاتا ہے ۔ ” کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ “۔

یہ سوال ہی نہایت شرمسار کرنے والا ہے ۔ سوال سنتے ہی مارے شرم کے انسان پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے ۔ اب وہ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟ ” ہاں ہمارے رب یہ حقیقت ہے “ اس حقیقت کو وہ ایسے وقت تسلیم کرتے ہیں جبکہ وہ باری تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور ایک ایسی جگہ کھڑے ہیں جس کا وہ بڑی سختی سے انکار کرتے تھے ۔ اب نہایت ہی شاہانہ انداز میں اور نہایت ہی مختصر فیصلے میں اور نہایت ہی خوفناک انداز میں ان کا انجام بتا دیا جاتا ہے ۔ عالم بالا سے نہایت ہی سمری فیصلہ آجاتا ہے لیکن فائنل ! ” اچھا تو اب اپنے انکار حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو۔ “ یہ انجام ان لوگوں کا بالکل مناسب انجام ہے جنہوں نے اپنے اوپر اسلام کے وسیع تصور حیات کے دروازے بند کرلیے ہیں اور اس تصور کی وسعتوں کو چھوڑ کر وہ محسوسات کے تنگ دائرے میں بند ہوچکے ہیں ‘ جو گوشت و پوست کی دنیا سے بلند ہو کر انسانیت کے مقام بلند تک پہنچنا نہیں چاہتے اور زمین اور مادے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کے نظام کو ایک گرے پڑے اور کمزور تصور پر استوار کرلیا ہے ۔ یہ لوگ اس قدر گر گئے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو اس عذاب کا مستحق بنا لیا جو ان لوگوں کی طبیعت اور مزاج سے زیادہ مناسب ہے جو قیام قیامت کے منکر ہیں ‘ جنہوں نے اس قدر گھٹیا زندگی کو اختیار کرلیا ہے اور جو اس قدر گرے ہوئے خیالات کے حامل ہیں ۔ اس فیصلے پر جس منظر کا خاتمہ ہوتا ہے اس کی تکمیل ان خوفناک ریمارکس کے ساتھ ہوتی ہے ‘ جو رعب وداب میں شان باری کے شایان شان ہیں ۔ فرماتے ہیں :

آیت 30 - سورۃ الانعام: (ولو ترى إذ وقفوا على ربهم ۚ قال أليس هذا بالحق ۚ قالوا بلى وربنا ۚ قال فذوقوا العذاب بما...) - اردو