سورۃ الانعام: آیت 122 - أومن كان ميتا فأحييناه وجعلنا... - اردو

آیت 122 کی تفسیر, سورۃ الانعام

أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَٰهُ وَجَعَلْنَا لَهُۥ نُورًا يَمْشِى بِهِۦ فِى ٱلنَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُۥ فِى ٱلظُّلُمَٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَٰفِرِينَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ

اردو ترجمہ

کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awa man kana maytan faahyaynahu wajaAAalna lahu nooran yamshee bihi fee alnnasi kaman mathaluhu fee alththulumati laysa bikharijin minha kathalika zuyyina lilkafireena ma kanoo yaAAmaloona

آیت 122 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 122 تا 125۔

ان آیات میں ہدایت وضلالت کی ماہیت کی تصویر کشی کی گئی ہے اور حقیقت ہدایت وضلالت پر حقیقت ضلالت کی نہایت ہی حقیقت پسندانہ تعبیر کی گئی ہے ۔ اس کے اندر جو تشبیہات اور جو مجاز استعمال کیا گیا ہے وہ اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ تصویر پرتاثیر بن جائے ۔ تشبہیات اور مجاز بھی نہایت ہی واقعیت پسندانہ ہیں۔

ہدایت وضلالت کے حقائق اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسے ہیں جن کو سمجھانے کے لئے اس قسم کی تصویر کشی اور موثر انداز بیان نہایت ہی ضروری ہے ۔ اگرچہ بلاشبہ ہدایت وضلالت حقائق ہیں ۔ لیکن یہ روحانی اور نظریاتی حقائق ہیں اور ایسے حائق میں جنہیں تجربات اور عمل کے ذریعے چکھا جاسکتا ہے ۔ رہی کسی روحانی حقیقت کی تعبیر یا حسن تعبیر تو اس سے لطف اندوز صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے ان حقائق کو عملا برتا ہو ۔

یہ ایسے حقائق ہیں جو مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو تاریک قلب ونظر کو روشن کرتے ہیں ۔ یہ حقائق انسان کو ایسی زندگی دیتے ہیں ۔ جس کے ذریعے انسان ہر چیز کا مزہ لیتا ہے ۔ ہر چیز کے بارے میں درست نقطہ نظر اپناتا ہے ‘ ہر چیز کی صحیح قدروقیمت متعین کرتا ہے ۔ انسان کا احساس تمام محسوسات کے بارے میں یکسر بدل جاتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں اس قدر روشنی پیدا ہوجاتی ہے جس میں انسان ایک نئے جہان کو دریافت کرلیتا ہے ‘ جس کے بارے میں پہلے اسے کچھ احساس بھی نہیں ہوتا ۔

ایک ایسا تجربہ ہے جو عام انسان کے حس وادراک میں نہیں آسکتا ۔ نہ انسان اسے الفاظ کا جامہ پہنا سکتا ہے ۔ اس کا ادراک صرف وہ شخص کرسکتا ہے جس نے اس حقیقت کو چکھا ہو ، قرآن کریم کا اسلوب بیان اس قدر زور دار ہے کہ صرف وہی اسے ہمارے ادارک کے قریب ترک کرسکتا ہے ۔ کیونکہ یہ قرآن کا کمال ہے کہ وہ ہر حقیقت کے لئے حسب حال الفاظ لے کر آتا ہے جو مفہوم کی حقیقت کے ساتھ ہم رنگ ہوتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ کفر انسان کو ازلی اور ابدی حقیقت سے دور کردیتا ہے ۔ یہ ازلی اور ابدلی حقیقت ایسی ہوتی ہے جس کے لئے فنا نہیں ہے ۔ جو اوجھل نہیں ہوتی اور نہ گہرائی تک اترتی ہے ۔ ابدی اور ازلی حقیقت سے قطع تعلق ہی درحقیقت موت ہے ‘ کسی انسان کے لئے ۔ ایسا انسان کبھی بھی فعال نہیں ہوسکتا ‘ موثر نہیں ہو سکتا اور اس کائنات پر اسے کنٹرول نہیں حاصل ہو سکتا ۔ چناچہ ایسا شخص مردہ شخص ہے ۔ اس کی قوتیں اور صلاحیتیں مر جاتی ہیں ۔ اور وہ فطرتا مردہ انسان ہوتا ہے ۔ یہی ہے موت کی حقیقت ۔

اس کے مقابلے میں ایمان نام ہے اس ابدی قوت کے ساتھ اتحادواتصال کا ۔ ایمان اس قوت سے مدد لیتا ہے اور یہ قوت اس کی دعا کو قبول کرتی ہے لہذا ایمان حیات ہے اور کفر موت ہے ۔

پھر کفر کی حالت میں روح انسانی شرف اور علم سے محروم ہوتی ہے ۔ وہ تاریکی میں گھر جاتی ہے ۔ انسان کے اعضاء اور اس کے شعور پر تالے پڑجاتے ہیں ۔ انسان تاریکی میں کھو جاتا ہے اور گمراہ ہوجاتا ہے ۔ ایمان ہی درحقیقت آنکھیں کھول دیتا ہے ۔ وہ ادراک کا بہترین وسیلہ ہے ۔ اس سے استقامت نصیب ہوتی ہے ۔ وہ ایک نور ہے ‘ نور کے ہر مفہوم کے اعتبار سے ۔

کفر سے انسان سکڑ جاتا ہے ‘ اور بالاخر پتھر بن جاتا ہے ‘ اس کی سوچ تنگ ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان فطری راستے سے بےراہ ہوجاتا ہے ۔ لہذا کفر ایک قسم کی تنگی ہے جس میں ہر شخص اطمینان سے محروم ہوجاتا ہے ۔ اور ہر وقت دل تنگ رہتا ہے جبکہ ایمان سے شرح صدر ‘ خوشی ‘ سہولت حاصل ہوتی ہے اور اس کے خوشگوار سائے میں اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔

کافر کی حیثیت اس طرح ہوتی ہے جس طرح کوئی خودروگھاس اور پودا ہوتا ہے جس کا اس کرہ ارض پر کوئی مضبوط وجود نہیں ہوتا اور نہ اس کی پختہ جڑیں ہوتی ہیں ‘ وہ ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو اپنے خالق سے منقطع ہوتا ہے اور تنہا تنہا نظر آتا ہے ۔ اس کائنات سے بھی وہ مربوط نہیں ہوتا ‘ اس کائنات کے ساتھ اس کا روحانی ربط نہیں ہوتا ۔ فقط مادی ربط ہوتا ہے جو نہایت ہی محدود تعلق ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح کسی بھی حیوان کا اس کائنات کے ساتھ فطری ربط ہوتا ہے ۔ محض محسوس ربط اور دائرہ ۔

اس کے مقابلے میں للہ فی للہ جو تعلق ہوتا ہے وہ انسان فانی کو حقیقت ابدیہ اور حقیقت ازلیہ کے ساتھ مربوط کردیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اس کائنات ظاہری کے ساتھ بھی موصول اور مربوط کردیتا ہے ۔

اس کے بعد ایک مومن کا گہرا تعلق اس قافلہ ایمان کے ساتھ اور ایک ایسی امت کے ساتھ ہوتا ہے جس کی جڑیں انسان تاریخ میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ لہذا مومن روابط کے ایک بڑے خزانے کا مالک ہوتا ہے ۔ وہ تعلقات کا ایک عظیم اور وسیع سرمایہ رکھتا ہے ۔ وہ ایک نہایت ہی بھرپور اور وسیع شخصیت رکھتا ہے ۔ اس کا وجود اور اس کی شخصیت اس کی عمر کے اختتام کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی ۔

جب انسان ایمان لاتا ہے تو وہ اپنے دل میں ایک روشنی پاتا ہے اور اس روشنی کے ذریعے پھر اسے دین کے حقائق معلوم ہوتے ہیں اور اسے اس دین کے منہاج عمل اور طرز تحریک کا بھی علم ہوجاتا ہے ۔ اس کے قلب پر عجیب انکشافات ہوتے ہیں ۔ جب ایک مومن اپنے دل میں یہ نور پاتا ہے تو اسے عجیب و غریب مناظر ومقامات نظر آتے ہیں ۔ اسے نظر آتا ہے کہ اس دین کے تمام اجزاء کے اندر ایک گہراربط پایا جاتا ہے ۔ اسے حقائق واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ اسے نظر آتا ہے کہ اس دین کا منہاج عمل نہایت ہی گہرا اور نہایت ہی خوبصورت ہے ۔ یہ دین متفرق عقائد اور متفرق عبادات کا کوئی بےربط مجموعہ نہیں ہے جس میں کچھ قوانین بھی ہوں اور کچھ ہدایات بھی ‘ بلکہ یہ دین ایک مکمل منصوبہ ہے ‘ اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے میں داخل اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہیں ‘ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی گہرا عشق رکھتے ہیں ۔ یہ تمام اجزاء ایک جسم کی طرح زندہ اور اس کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم سفر ہیں اور یہ سفر نہایت ہی دوستانہ ‘ باہم محبت اور گہری الفت کے ساتھ جاری وساری ہے ‘ نہایت ہی جوش و محبت کے ساتھ ۔

انسان اپنے دل میں یہ نور پاتا ہے ‘ اس کے ذریعے اس پر اپنی ذات کے حقائق اپنی حیات کے حقائق ‘ کرہ ارض پر رونما ہونے والے حقائق لوگوں کے حقائق اور لوگوں کے احوال کے حقائق منکشف ہوتے ہیں ۔ ان کی نظروں کے سامنے نہایت ہی روشن اور خیرہ کن مناظر آتے ہیں وہ اس کائنات کے اندر جاری وساری سنت الہیہ اور اس کے ضوابط کو بھی پالیتا ہے ‘ جو نہایت ہی محکم اور فطری اور خوشگوار انداز میں جاری ہیں ۔ پھر وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ ان سنن و ضوابط کے پیچھے اللہ کی مشیت بھی کام کررہی ہے اور یہ اللہ کی مشیت ہی ہے جس نے اس کائنات میں سنن الہیہ اور اس کے ضوابط کے پیچھے اللہ کی مشیت بھی کام کر رہی ہے اور یہ اللہ کی مشیت ہی ہے جس نے اس کائنات میں سنن الہیہ کو آزادی کے ساتھ جاری وساری کیا ہے اور کام کے مواقع فراہم کئے ہیں ۔ ایسا شخص پھر اس کائنات کے انسانوں کو دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح سنن الہیہ کے مطابق چلتے پھرتے ہیں لیکن سنن الہیہ کے حدود کے اندر ۔

جب کسی انسان کے دل میں یہ نور ایمانی پیدا ہوجاتا ہے تو ہر معاملے ‘ ہر واقعہ اور ہر مسئلے میں سچائی کی راہ واضح طور پر پالیتا ہے ۔ اب وہ اپنے اردگرد جاری سنن الہیہ اور واقعات اچھی طرح دیکھ سکتا ہے ۔ خواہ وہ اس کے نفس سے متعلق ہوں ‘ اس کے خیالات سے متعلق ہوں یا اس کے اردگرد مختلف لوگوں کی طرف سے جاری منصوبوں سے متعلق ہوں ۔ وہ اپنے ماحول کے ارادوں کو بھی معلوم کرلیتا ہے چاہے یہ ارادے ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ واقعات کی تعبیر و توضیح وہ اپنی عقل اور اپنے نفس کے اندر واضح طور پر پاتا ہے ۔ وہ رونما ہونے والے تمام واقعات کی تعبیر اچھی طرح کرسکتا ہے گویا وہ ہر معاملے کا جواب کتاب اللہ اخذ کررہا ہے ۔

جسے یہ نور حاصل ہوتا ہے اس کے خیالات ‘ اس کا شعور اور اس کے خدوخال بھی روشن نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے دل میں مسرور ‘ اپنے حالات پر خوش اور اپنے انجام سے مطمئن ہوتا ہے ۔ وہ حکم دیتے وقت نرم اور خوشگوار رویہ اپناتا ہے ۔ وہ واقعات و حالات کا سامنا بھی نہایت ہی سنجیدگی سے کرتا ہے اور ہر حال میں مطمئن پرامید پر یقین ہوتا ہے ۔ یہ ہے وہ حقیقت جس کی تصویر کشی قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا ہے اور کتنی خوبصورتی سے اور کس پیارے انداز میں۔

(آیت) ” أَوَ مَن کَانَ مَیْْتاً فَأَحْیَیْْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہُ نُوراً یَمْشِیْ بِہِ فِیْ النَّاسِ کَمَن مَّثَلُہُ فِیْ الظُّلُمَاتِ لَیْْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا (122)

” کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اس سے نہ نکلتا ہو۔ “

اس دین سے قبل مسلمان ایسے ہی تھے ‘ وہ مردہ تھے ‘ یہ اسلام ہی ہے جس نے ان کی روح کو وسعت دی اور انہیں زندگی بخشی ۔ ان کو ترقی جستجو ‘ حرکت اور حیات جاوداں عطا کی جبکہ اس سے پہلے ان کے دل بجھے بجھے تھے ۔ ان کی روح تاریک تھی ‘ لیکن جب ان کے دلوں کے اوپر ایمان کی بارش ہوئی تو وہ سرسبز اور لہلہاتے ہوئے کھیت کی طرح ہوگئے ۔ ان کی روح سے نور کے چشمے پھوٹنے لگے ‘ روشنی اور نور کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ وہ گمراہوں کو راہ بتلانے لگے ۔ وہ حران وپریشان لوگوں کو راہ دکھاتے ‘ خوفزدہ انسانیت کو اطمینان دلاتے ‘ غلاموں کو رہائی دلاتے ‘ وہ لوگوں کے لئے زندگی کے سفر کی سمت متعین کرنے لگے اور یہ اعلان کرنے لگے کہ انسان کو از سر نو زندگی عطا ہوگئی ہے ۔ اب وہ صرف اللہ کا غلام ہے اور دنیا کی تمام غلاموں سے اس نے رہائی پالی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ جس کی روح میں اللہ نے زندگی بھر دی ہو ‘ کیا وہ شخص اس آدمی کی طرح ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں گھرا ہوا ہے اور ان سے اس کے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ یقینا ان دونوں افراد کے حالات ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف ہیں ۔ اور اس کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ لہذا کون ہے جو اس ظلمت کدے میں دھرنا مار کر بیٹھ جائے جبکہ اس کے اردگرد ونور کا فیضان ہو رہا ہو۔

(آیت) ” کَذَلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِیْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ “۔ (6 : 122)

” کافروں کے لئے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیئے گئے ہیں۔ “ یہ ہے حقیقی راز ۔ یہاں کفر کی تعبیر تاریکی اور موت سے کی گئی ہے اور کفر کے اندر یہ صفات مشیت الہی نے ودیعت کی ہیں ۔ پھر اللہ نے انسانوں کے اندر ایسی اقسام پیدا کی ہیں کہ ان میں سے بعض لوگ نور کو پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ ظلمت کو پسند کرتے ہیں ۔ جب کوئی ظلمت کو پسند کرنے لگتا ہے تو اس کے لئے ظلمت محبوب کردی جاتی ہے اور وہ گمراہی میں دور تک نکل جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے واپس آنے کا کوئی راستہ ہی نہیں رہتا ۔ اس کے بعد جنوں اور انسانوں میں سے شیاطین کا ایک لشکر سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے سامنے بدنما اور گمراہ کن باتوں کو اچھا بنا کر پیش کرتا ہے ۔ اور پھر وہ کافروں کے لئے ان کے اعمال کو مزید خوشنما بنادیتے ہیں ۔ جس دل میں نور ایمان نہیں ہوتا وہ ان شیاطین کی باتوں پر توجہ سے کان دھرتا ہے ۔ وہ ان کے وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے اب وہ ہدایت وضلالت کی بھی کوئی تمیز نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوتا ہے ۔ یوں اللہ کافروں کے لئے ان کے اعمال کو خوشنما بنا دیتا ہے ۔

اس اصول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر گاؤں میں کچھ و ڈیرے مجرم بنا دیئے ہیں اور وہ ان بستیوں میں اپنی مکاریوں کے جال پھیلاتے ہیں ۔ یوں اللہ کی جانب سے انسانوں کے ابتلاء کی یہ اسکیم مکمل ہوتی ہے اور اللہ کی تقدیر اپنا کام کرتی ہے ۔ اس کی حکمت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور ہر شخص اس دنیا میں وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے لئے ساز گار بنا دیا گیا ہوتا ہے اور آخر کار ہر شخص اپنے مقرر انجام تک جا پہنچتا ہے ۔

آیت 122 اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ اس سے معنوی حیات و ممات مراد ہے ‘ یعنی ایک شخص جو اللہ سے واقف نہیں تھا ‘ صرف دنیا کا بندہ بنا ہوا تھا ‘ اس کی انسانیت در حقیقت مردہ تھی ‘ وہ حیوان کی حیثیت سے تو زندہ تھا لیکن بحیثیت انسان وہ مردہ تھا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی ہدایت دی تو اب گویا وہ زندہ ہوگیا۔وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ مثال کے طور پر ایک وہ شخص تھا جسے پہلے ہوش نہیں تھا ‘ کبھی اس نے نظریاتی معاملات کی پیچیدگیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی ‘ لیکن پھر اس کو اللہ نے ہدایت دے دی ‘ نور قرآن سے اس کے سینے کو منور کردیا ‘ اب وہ اس نور میں آگے بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ جیسے حضرت عمر رض کو حق کی طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت حمزہ رض بھی چھ سال بعد ایمان لائے۔ لیکن اب انہوں نے قرآن کو مشعل راہ بنایا اور اللہ کے راستے میں سرفروشی کی مثالیں پیش کیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو ساری عمر انہی اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہے اور اسی حالت میں انہیں موت آئی۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟

مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے، دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے اور آیت میں ہے (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ) 2۔ البقرۃ :257) ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں اور آیت میں ہے (افمن یمشی مکبا علی وجھہ) یعنی خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے ؟ اور آیت میں ہے ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے اور جگہ فرمان ہے اندھا اور بینا، اندھیرا اور روشنی، سایہ اور دوپ، زندے اور مردے برابر نہیں۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کردینے والا ہے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب ؓ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر ؓ ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابو جہل ہے۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا، جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے اور جیسے فرمان ہے اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں۔

آیت 122 - سورۃ الانعام: (أومن كان ميتا فأحييناه وجعلنا له نورا يمشي به في الناس كمن مثله في الظلمات ليس بخارج منها ۚ كذلك...) - اردو