اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 119 وَمَا لَکُمْ اَلاَّ تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ یہ بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام وغیرہ بحوالہ المائدۃ : 103 کے بارے میں تمہارے تمام عقیدے من گھڑت ہیں۔ اللہ نے ایسی کوئی پابندیاں اپنے بندوں پر نہیں لگائیں۔ لہٰذا حلال جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا کرو اور بلا کراہت ان کا گوشت کھایا کرو۔وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ یہ تفصیل سورة النحل کے اندر آئی ہے۔ سورة النحل چونکہ سورة الانعام سے پہلے نازل ہوئی ہے اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ حلال چیزوں کی تفصیل تمہارے لیے پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے۔اِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ ط۔اس میں بھی تمہارے لیے گنجائش ہے کہ اگر اضطرار ہے ‘ جان پر بنی ہوئی ہے ‘ بھوک سے جان نکل رہی ہے تو ان حرام چیزوں میں سے بھی کچھ کھا کر جان بچائی جاسکتی ہے۔
آیت 121 وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ ط۔ اس آیت کا تعلق بھی مشرکین عرب کے خود ساختہ اعتقادات اور توہمات سے ہے۔ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام سرے سے لینا ہی نہیں چاہیے۔ یہ حکم ایک خاص مسئلے کے حوالے سے ہے ‘ جس کی وضاحت آگے آیت 138 میں آئے گی۔وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ ۔مشرکین مکہ اپنے غلط اعتقادات کی حمایت میں طرح طرح کی حجت بازی کرتے رہتے تھے ‘ مثلاً یہ کیا بات ہوئی کہ جو جانور اللہ نے مارا ہے یعنی ازخود مرگیا ہے وہ تو حرام قرار دے دیاجائے اور جس کو تم خود مارتے ہو یعنی ذبح کرتے ہو اس کو حلال مانا جائے ؟ اسی طرح وہ سود کے بارے میں بھی دلیل دیتے تھے کہ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا 7 البقرۃ : 275 کہ یہ بیع بھی تو ربا سود ہی کی طرح ہے۔ جیسے تجارت میں نفع ہوتا ہے ایسے ہی سودی لین دین میں بھی نفع ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دس لاکھ کسی کو قرض دیے ‘ اس سے چار ہزار روپے ماہانہ منافع لے لیا تو وہ ناجائز اور دس لاکھ کا مکان کسی کو کرائے پردے کر چار ہزار روپے ماہانہ اس سے کرایہ لیا جائے تو وہ جائز ! اس طرح کے اشکالات بظاہر بڑے دلنشین ہوتے ہیں ‘ جن کے بارے میں یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اس طرح کی باتیں ان کے شیاطین انہیں سکھاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے مجادلہ کریں ‘ تاکہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گمراہی کے راستے پر لے چلیں۔ لہٰذا تم ان کی اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہا کرو۔
آیت 122 اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ اس سے معنوی حیات و ممات مراد ہے ‘ یعنی ایک شخص جو اللہ سے واقف نہیں تھا ‘ صرف دنیا کا بندہ بنا ہوا تھا ‘ اس کی انسانیت در حقیقت مردہ تھی ‘ وہ حیوان کی حیثیت سے تو زندہ تھا لیکن بحیثیت انسان وہ مردہ تھا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی ہدایت دی تو اب گویا وہ زندہ ہوگیا۔وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ مثال کے طور پر ایک وہ شخص تھا جسے پہلے ہوش نہیں تھا ‘ کبھی اس نے نظریاتی معاملات کی پیچیدگیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی ‘ لیکن پھر اس کو اللہ نے ہدایت دے دی ‘ نور قرآن سے اس کے سینے کو منور کردیا ‘ اب وہ اس نور میں آگے بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ جیسے حضرت عمر رض کو حق کی طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت حمزہ رض بھی چھ سال بعد ایمان لائے۔ لیکن اب انہوں نے قرآن کو مشعل راہ بنایا اور اللہ کے راستے میں سرفروشی کی مثالیں پیش کیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو ساری عمر انہی اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہے اور اسی حالت میں انہیں موت آئی۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟
آیت 123 وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا ط یہ وہی فلسفہ ہے جو قبل ازیں آیت 112 میں بیان ہوا ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ شیاطین انس و جن کو ہم خودہی انبیاء کی دشمنی کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ یہاں پر اس سے ملتی جلتی بات کہی گئی کہ ہم ہر بستی کے اندر وہاں کے سرداروں اور بڑے بڑے چودھریوں کو ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ حق کے مقابلے میں کھڑے ہوں ‘ لوگوں کو سیدھے راستے سے روکیں ‘ اپنی چالبازیوں اور مکاریوں سے حق پرستوں کو آزمائش میں ڈالیں تاکہ اس عمل سے صاحب صلاحیت لوگوں کی صلاحیتیں مزید اجاگر ہوں ‘ ان کے جوہر کھلیں اور ان کی غیرت ایمانی کو جلا ملے۔ وَمَا یَمْکُرُوْنَ الاَّ بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ انہیں یہ شعور ہی نہیں کہ ان کی چالبازیوں کا سارا وبال تو بآلاخر خود انہی پر پڑے گا۔ جیسے حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رض کے ساتھ ابو جہل نے جو کچھ کیا تھا اس کا وبال جب اس کے سامنے آئے گا تب اس کی آنکھ کھلے گی اور اس وقت تو یہ عالم ہوگا کہ ع جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا !
آیت 124 وَاِذَا جَآءَ تْہُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ط۔آیات قرآنیہ مختلف انداز سے ان کے سامنے حقائق و رموز پیش کرتی ہیں مگر ان دلائل اور براہین کا تجزیہ کرنے اور انہیں مان لینے کے بجائے یہ لوگ پھر وہی بات دہراتے ہیں کہ جیسے پہلے انبیاء کی قوموں کو معجزے دکھائے گئے تھے ہمیں بھی ویسے ہی معجزات دکھائے جائیں تو تب ہم ایمان لائیں گے۔ اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق جیسے مناسب سمجھا ہر قوم اور امت کے ساتھ معاملہ فرمایا۔ پرانی امتوں کو حسّی معجزے دکھائے گئے تھے ‘ اس لیے کہ وہ نوع انسانیت کا دور طفولیّت تھا۔ جب تک انسانیت کا مجموعی فہم و شعور حد بلوغت کو نہیں پہنچا تھا تب تک حسّی معجزات کا ظہور ہی مناسب تھا۔ جیسے بچے کو بہلانے کے لیے کھلونے دیے جاتے ہیں ‘ لیکن شعور کی عمر کو پہنچ کر اس کے لیے عقل اور حکمت کی تعلیم ضروری ہوتی ہے۔ لہٰذا اب جبکہ بنی نوع انسان بحیثیت مجموعی سنجیدگی اور شعور کی عمر کو پہنچ چکی ہے ‘ اس کو حسّی اور وقتی معجزوں کے بجائے ایک ایسا معجزہ دیا جا رہا ہے جو دائمی بھی ہے اور علم و حکمت کا منبع و شاہکار بھی۔