سورۃ الانعام: آیت 100 - وجعلوا لله شركاء الجن وخلقهم... - اردو

آیت 100 کی تفسیر, سورۃ الانعام

وَجَعَلُوا۟ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا۟ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَٰتٍۭ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ

اردو ترجمہ

اِس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں، حالانکہ وہ پاک اور بالا تر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WajaAAaloo lillahi shurakaa aljinna wakhalaqahum wakharaqoo lahu baneena wabanatin bighayri AAilmin subhanahu wataAAala AAamma yasifoona

آیت 100 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 100 تا 101۔

عرب کے بعض مشرکین جنوں کی عبادت کرتے تھے ‘ لیکن ان کو علم نہیں تھا کہ جن ہیں کیا ۔ البتہ یہ انہیں ایک وہمی سی مخلوق سمجھتے تھے اور یہ بتوں کے پیچھے کوئی مخلوق تھی ۔ انسان جب ایک بالشت کے برابر بھی عقیدہ توحید سے ہٹ جائے تو وہ اس قدر ہٹتا چلا جاتا ہے کہ راہ حق سے کوسوں دور ہوجاتا ہے لیکن آخر کار انسان دیکھتا ہے کہ نقطہ آغاز کا انحراف اگرچہ تھوڑا سا اور ناقابل لحاظ تھا لیکن آگے جا کر دونوں راہوں کے درمیان بہت بڑی خلیج واقع ہوجاتی ہے ۔ یہ مشرکین مکہ آغاز میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا دین وہی دین توحید تھا جسے اس علاقے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا۔ لیکن یہ لوگ اس عقیدہ توحید سے انکار کر بیٹھے ۔ اگرچہ یہ انحراف آغاز کار میں بہت ہی معمولی ہوگا لیکن وہ بت پرستی کے فعل شنیع پر منتج ہوا اور وہ یہاں تک آپہنچے کہ جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے لگے حالانکہ جن اللہ کی مخلوق ہیں ۔

(آیت) ” وَجَعَلُواْ لِلّہِ شُرَکَاء الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ (6 : 100)

” اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا حالانکہ وہ ان کا خالق ہے “۔

دنیا میں جس قدر بت پرست مذاہب گزرے ہیں اور جن کی نوعیت مختلف جاہلیتوں میں مختلف رہی ہے ان سب میں ایک شریر مخلوق کا تصور رہا ہے اور اس شریر مخلوق کا تصور ایسا ہی رہا ہے جس طرح شیطان کا تصور ہے ۔ تمام بت پرست ہمیشہ اس شریر مخلوق سے ڈرتے رہے ہیں ۔ چاہے یہ شریر مخلوق ارواح شریرہ ہوں یا اشخاص شریرہ ۔ ان بت پرست مذاہب میں یہ رواج رہا ہے کہ وہ اس شریر مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے کچھ قربانیاں دیں ۔ ہوتے ہوتے یہ شرکیہ مذاہب ان کی پوجا کرنے لگے ۔

عرب بت پرستی میں بھی ایسے ہی تصورات پائے جاتے تھے مثلا وہ جنوں کی پوجا کرتے تھے ۔ ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے حالانکہ اللہ کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان کے ان عقائد کی کمزوری ان کو بتاتا ہے اور بالکل ایک لفظ میں بات کو ختم کردیتا ہے۔ (خلقھم) اللہ نے تو ان کو خود پیدا کیا۔ یہ ہے تو صرف ایک لفظ لیکن ان کے عقائد کو مذاق بنا دینے کے لئے یہ ایک لفظ ہی کافی ہے ۔ جب پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور اس نے ان کی تخلیق کی ہے تو اللہ کی مخلوق اس کے ساتھ شریک کیسے ہوجائے گی اور اس مخلوق کو الوہیت اور ربوبیت کے حقوق کیسے حاصل ہوجائیں گے ۔

ان لوگوں نے صرف اس دعوے پر ہی اکتفا نہ کیا ‘ کیونکہ بت پرستانہ ادہام جب شروع ہوتے ہیں تو پھر کسی حد پر جا کر نہیں رکتے اور یہ انحراف آگے ہی بڑھتا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ اس سے بھی آگے بڑھے اور یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں بھی ہیں۔

(آیت) ” ْ وَخَرَقُواْ لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْْرِ عِلْمٍ “ (6 : 100)

” اور بےجانے بوجھے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں ‘ ‘۔

خرقوا کا مفہوم ہے کہ انہوں نے جعلی طور پر یہ عقیدہ تصنیف کرلیا ۔ خرقوا کے معنے ہوتے ہیں اپنی جانب سے جھوٹ گھڑنا ۔ خرق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں مثلا کوئی جھوٹی خبر لے کر آتا ہے ۔ یہودیوں کے نزدیک حضرت عزیر ابن اللہ تھے ۔ نصاری حضرت مسیح کو ابن اللہ کہتے تھے ۔ مشرکین مکہ کے نزدیک ملائکہ اللہ کی بیٹیاں تھیں ۔ وہ فرشتوں کو مادہ تصور کرتے تھے لیکن وہ کوئی معقول بات نہ کرتے تھے کہ وہ کیوں مؤنث ہیں ۔ کیونکہ جھوٹے دعوے ہمیشہ بغیر علم کے ہوا کرتے ہیں لہذا ان لوگوں کے دعوے بھی بغیر علم کے ہیں۔

(آیت) ” ٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ (100)

” حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔ “

اس کے بعد اب اللہ تعالیٰ ان کے ان افتراؤں کے جواب میں اصل حقیقت سامنے لاتے ہیں ۔ ان کے غلط تصورات کی تردید فرماتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ان میں کیا کیا جھول ہے ۔

آیت 100 وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ اللہ تعالیٰ نے جیسے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے جنات کو بھی پیدا کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جنات کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اپنی خداداد طبعی صلاحیتوں کی وجہ سے کائنات میں وسیع پیمانے پر رسائی رکھتے ہیں۔ آج انسان نے اربوں ڈالر خرچ کر کے خلاؤں کے جس سفر کو ممکن بنایا ہے ‘ ایک عام جن کے لیے ایسا سفر معمول کی کارروائی ہوسکتی ہے ‘ مگر ان سارے کمالات کے باوجود یہ جن ہیں تو اللہ ہی کی مخلوق۔ اسی طرح فرشتے اپنی تخلیق اور صلاحیتوں کے لحاظ سے جنات سے بھی بڑھ کر ہیں ‘ مگر پیدا تو انہیں بھی اللہ ہی نے کیا ہے۔ لہٰذا انسان ‘ جنات اور فرشتے سب اللہ کی مخلوق ہیں اور ان میں سے کسی کا بھی الوہیت میں ذرّہ برابر حصہ نہیں۔وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنٰتٍم بِغَیْرِ عِلْمٍ ط۔حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کے بیٹے قرار دیا گیا ‘ جب کہ فرشتوں کے بارے میں کہہ دیا گیا کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔

شیطانی وعدے دھوکہ ہیں جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرتے تھے جنات کو پوجتے تھے ان پر انکار فرما رہا ہے۔ ان کے کفر و شرک سے اپنی بیزاری کا اعلان فرماتا ہے اگر کوئی کہے کہ جنوں کی عبادت کیسے ہوئی وہ تو بتوں کی پوجا پاٹ کرتے تھے تو جواب یہ ہے کہ بت پرستی کے سکھانے والے جنات ہی تھے جیسے خود قرآن کریم میں ہے آیت (اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا) 4۔ النسآء :117) یعنی یہ لوگ اللہ کے سوا جنہیں پکار رہے ہیں وہ سب عورتیں ہیں اور یہ سوائے سرکش ملعون شیطان کے اور کسی کو نہیں پکارتے وہ تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ کچھ نہ کچھ انسانوں کو تو میں اپنا کر ہی لوں گا انہیں بہکا کر سبز باغ دکھا کر اپنا مطیع بنا لوں گا۔ پھر تو وہ بتوں کے نام پر جانوروں کے کان کاٹ کر چھوڑ دیں گے۔ اللہ کی پیدا کردہ ہئیت کو بگاڑنے لگیں گے۔ حقیقتاً اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی دوستی کرنے والے کے نقصان میں کیا شک ہے ؟ شیطانی وعدے تو صرف دھوکے بازیاں ہیں اور آیت میں ہے آیت (اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا) 18۔ الکہف :50) کیا تم مجھے چھوڑ کر شیطان اور اولاد شیطان کو اپنا ولی بناتے ہو ؟ حضرت خلیل اللہ ؑ نے اپنے والد سے فرمایا آیت (يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَان للرَّحْمٰنِ عَصِيًّا) 19۔ مریم :44) میرے باپ ! شیطان کی پرستش نہ کرو وہ تو اللہ کا نافرمان ہے۔ سورة یٰسین میں ہے کہ کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ اے اولاد آدم تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری ہی عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے قیامت کے دن فرشتے بھی کہیں گے آیت (قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ) 34۔ سبأ :41) یعنی تو پاک ہے یہ نہیں بلکہ سچا والی ہمارا تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنوں کو پوجتے تھے ان میں سے اکثر لوگوں کا ان پر ایمان تھا۔ پس یہاں فرمایا ہے کہ انہوں نے جنات کی پرستش شروع کردی حالانکہ پرستش کے لیے صرف اللہ ہے وہ سب کا خالق ہے۔ جب خالق وہی ہے تو معبود بھی وہی ہے۔ جیسے حضرت خلیل اللہ نے فرمایا آیت (قَالَ اَ تَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ) 37۔ الصافات :95) یعنی کیا تم ان کی عباد کرتے ہو جنہیں خود گھڑ لیتے ہو حالانکہ تمہارے اور تمہارے تمام کاموں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی معبود وہی ہے جو خالق ہے۔ پھر ان لوگوں کی حماقت و ضلالت بیان ہو رہی ہے۔ جو اللہ کی اولاد بیٹے بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ یہودی حضرت عزیر کو اور نصرانی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا جبکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے۔ یہ سب ان کی من گھڑت اور خود تراشیدہ بات تھی اور محض غلط اور جھوٹ تھا۔ حقیقت سے بہت دور نرا بہتان باندھا تھا اور بےسمجھی سے اللہ کی شان کے خلاف ایک زبان سے اپنی جہالت سے کہہ دیا تھا بھلا اللہ کو بیٹوں اور بیٹیوں سے کیا واسطہ نہ اس کی اولاد نہ اس کی بیوی نہ اس کی کفو کا کوئی۔ وہ سب کا خالق وہ کسی کی شرکت سے پاک وہ کسی کی حصہ داری سے پاک، یہ گمراہ جو کہہ رہے ہیں سب سے وہ پاک اور برتر سب سے دور اور بالا تر ہے۔

آیت 100 - سورۃ الانعام: (وجعلوا لله شركاء الجن وخلقهم ۖ وخرقوا له بنين وبنات بغير علم ۚ سبحانه وتعالى عما يصفون...) - اردو