سورۃ الاحزاب: آیت 53 - يا أيها الذين آمنوا لا... - اردو

آیت 53 کی تفسیر, سورۃ الاحزاب

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَدْخُلُوا۟ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَٰظِرِينَ إِنَىٰهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَٱدْخُلُوا۟ فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَٱنتَشِرُوا۟ وَلَا مُسْتَـْٔنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِى ٱلنَّبِىَّ فَيَسْتَحْىِۦ مِنكُمْ ۖ وَٱللَّهُ لَا يَسْتَحْىِۦ مِنَ ٱلْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَٰعًا فَسْـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا۟ رَسُولَ ٱللَّهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓا۟ أَزْوَٰجَهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦٓ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمًا

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tadkhuloo buyoota alnnabiyyi illa an yuthana lakum ila taAAamin ghayra nathireena inahu walakin itha duAAeetum faodkhuloo faitha taAAimtum faintashiroo wala mustaniseena lihadeethin inna thalikum kana yuthee alnnabiyya fayastahyee minkum waAllahu la yastahyee mina alhaqqi waitha saaltumoohunna mataAAan faisaloohunna min warai hijabin thalikum atharu liquloobikum waquloobihinna wama kana lakum an tuthoo rasoola Allahi wala an tankihoo azwajahu min baAAdihi abadan inna thalikum kana AAinda Allahi AAatheeman

آیت 53 کی تفسیر

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔ اللہ کان بکل شئ علیما (53 – 54) امام بخاری نے حضرت انس ابن مالک کی روایت نقل فرمائی ہے کہ حضور ﷺ نے جب زینب بنت جحش سے شادی کی تو روٹی اور گوشت کی دعوت دی اور مجھے بلانے کے لیے بھیجا گیا۔ لوگ آتے اور کھانا کھا کر چلے جاتے۔ میں نے سب کو بلایا یہاں تک کہ کوئی نہ رہا۔ تو میں نے کہا حضور اکرم ﷺ کوئی رہ نہیں گیا۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا اب دسترخوان اٹھالو۔ کمرے میں تین آدمی بیٹھ گئے جو باتیں کر رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نکلے اور حضرت عائشہ ؓ کے کمرے میں گئے۔ اور فرمایا السلام علیکم اہل البیت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے فرمایا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ اے رسول خدا ﷺ آپ کی نئی بیوی کیسی ہیں۔ اللہ آپ کے لیے اسے مبارک کرے۔ آپ ﷺ اپنی ازواج کے ہاں گئے اور ایسا ہی مکالمہ کہا جس طرح عائشہ ؓ سے ہوا اور سب نے ایسا ہی جواب دیا۔ جب حضور ﷺ واپس ہوئے تو یہ تین افراد اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور ﷺ نہایت ہی حیا دار تھے۔ تو حضور ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے کمرے میں چلے گئے۔ معلوم نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ کو اطلاع دی کہ لوگ چلے گئے یا کسی اور نے اطلاع دی۔ جب حضور ﷺ واپس ہوئے اور اپنا پاؤں دروازے کو چوکھٹ سے اندر رکھا اور دوسرا باہر تھا تو میرے اور اپنے درمیان پردہ گرا دیا اور اس وقت حجاب کی آیت نازل ہوئی۔

اس آیت میں وہ آداب مذکور ہیں جو دور جاہلیت میں ناپید تھے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کے گھر میں بھی یہ ناپید تھے۔ لوگ گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہوجاتے تھے جیسا کہ سورة نور کی آیت استیذان کی تشریح میں تفصیلات گزر گئیں اور حضور اکرم ﷺ کے گھر میں میں تو ان آداب کا بالکل خیال نہ رکھا جاتا تھا اس لئے کہ آپ کا گھر ایک مقام اجتماع تھا اور وہاں لوگ ہر وقت علم و حکمت کے حصول کے لیے بیٹھے رہتے تھے۔ بعض لوگ آتے اور دیکھتے کہ کچھ پک رہا ہے تو وہ بیٹھ جاتے تاکہ بغیر دعوت کی کھالیں۔ بعض لوگ کھاپی لینے کے بعد بھی بیٹھے رہتے۔ چاہے دعوت دی گئی یا خود گھس آئے ہوں۔ پھر باتوں میں لگ جاتے اور نہ سمجھتے کہ اس سے حضور اکرم ﷺ کو کس قدر تکلیف ہو رہی ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ تین افراد جب باتیں کر رہے تھے تو اس وقت حضور ﷺ کی دلہن اسی کمرے میں منہ دیوار کی طرف کرکے بیٹھی تھی اور حضور ﷺ اس بات سے حیا کرتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو بتا دیں

کہ وہ آپ کے لیے کس قدر بوجھ ہیں۔ محض اس لیے کہ وہ شرمندہ نہ ہوں۔ چناچہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے یہ اعلان فرمایا۔

واللہ لا یستحی من الحق (33: 53) ” اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا “۔

روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ اپنی غیرت کی بنیاد پر اور حساس ہونے کی وجہ سے حضور ﷺ کے سامنے یہ تجویز رکھا کرتے تھے کہ حجاب نافذ ہوجائے اور یہ تمنا بھی کرتے تھے یہاں تک کہ آیت حجاب نازل ہوگئی۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” حضور ﷺ آپ کے پاس تو نیک و بد سب آتے ہیں۔ اے کاش کہ آپ ﷺ امہات مومنین کو پردے کا حکم دیتے “۔

اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی کہ لوگ نبی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں۔ جب کسی دعوت طعام کے لیے بلایا جائے تو داخل ہوں۔ اگر بلائے نہ گئے ہوں تو جلدی میں نہ آئیں اور کھانے کے پکنے کا انتظار جائے دعوت میں جا کر نہ کریں۔ پھر جب ان کو کھانا کھلا دیا جائے تو چلے جائیں اور کھانا کھانے کے بعد محض گپ شپ کے لیے بیٹھ نہ جائیں۔ نبی ﷺ کے زمانے کے مقابلے میں آج مسلمان آداب کے زیادہ محتاج ہیں کیونکہ اس ترقی کے دور میں بھی ہم ان آداب سے دور ہیں کیونکہ جن لوگوں کو دعوت پر بلایا جاتا ہے وہ کھانے کے بعد بھی جم جاتے ہیں بلکہ کھانا کھاتے وقت ہی وہ طویل باتیں کرتے ہیں اور گھر والے جو اسلام کے احکام حجاب سے بعض احکام ہی کی پیروی کرتے ہیں وہ قید ہوتے ہیں اور مہمان اپنی باتوں میں غرق ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی آداب ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے مفید ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلامی اور خدائی آداب اختیار کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے اہل بیت اور عام لوگوں کے درمیان حجاب کی بات سامنے آتی ہے۔

واذا سالتموھن ۔۔۔۔۔ حجاب (33: 53) ” نبی کی بیویوں سے اگر تم نے کچھ مانگنا ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو “۔ اور یہ حجاب تمہارے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے۔

ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن (33: 53) ” یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے مناسب طریقہ ہے “۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اس بات کے سوا کوئی اور بات کہے۔ اس لیے کسی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اختلاط ، بےپردگی ، بےباک باتیں ، بےقید ملاقاتیں ، ہم نشینی اور جنیں کے درمیان اشتراک دلوں کو پاک کرتا ہے اور اس طریقے سے ضمیر زیادہ عفیف ہوتے ہیں۔ اس طرح میلانات اور خواہشات دب جاتی ہیں۔ انسانی سلوک اور شعور شفاف ہوجاتے ہیں۔ یہ ہیں بعض وہ خرافات جو اللہ کی مخلوق میں سے گرے ہوئے لوگ کہتے ہیں۔ میں مشورہ دوں گا کہ کسی کو یوں نہیں کہنا چاہئے جبکہ اللہ فرماتے ہیں۔

واذا سالتموھن متاعا ۔۔۔۔۔۔ لقلوبکم و قلوبھن (33: 53) ” نبی کی بیویوں سے اگر تم نے کچھ مانگنا ہے تو پردے کے پیچھے سے مانگو ، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے نہایت مناسب طریقہ ہے “۔ یہ حضور اکرم ﷺ کی بیویوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جو امہات المومنین ہیں اور ان لوگوں سے کہا جا رہا ہے جو زمین کا نمک ہیں۔ رسول کے ساتھی ہیں جن کی ہمسری کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب اللہ بات کرتا ہے اور دوسری جانب سے اللہ کی مخلوق ایک بات کرتی ہے تو بات اللہ کی ہوتی ہے اور دوسروں کی باتیں خرافات ہوتی ہیں۔ اللہ کے مقابلے میں انسانوں کی باتوں کو اہمیت وہی شخص دے سکتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ ایک انسان اللہ سے زیادہ جانتا ہے۔

سالوں کے تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اللہ نے جو کچھ کہا ، وہ زیادہ سچا تھا اور یہ چھوٹے اور بونے لوگ جو کچھ کہتے ہیں ، انکے سالوں اور صدیوں کے تجربات نے غلط ثابت کردیا ہے۔ آج مغرب میں جہاں عورت و مرد کا اختلاط اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے کیا تمام لوگوں کے دل پاک و صاف ہوگئے ہیں۔ امریکہ اس میدان میں سب سے عروج پر ہے۔ ذرا اسی کے حالات کا مطالعہ کرلو۔

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ بلانے سے بھی پہلے آجانا اور کھانے کے پکنے کا انتظار کرنا اور پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دور دراز کی باتیں کرنا حضرت نبی ﷺ کے لیے تکلیف دہ تھا اور آپ ازروئے حیا چشمی خاموش تھے۔ حالانکہ مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حضرت بنی ﷺ کو اذیت دیں یا آپ کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کریں۔ جبکہ وہ ان کی ماؤں جیسی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مقام و مرتبے کا یہ تقاضا ہے کہ آپ کے بعد کوئی ان کے ساتھ نکاح نہ کرے ، اس گھرانے کی حرمت اور عزت کو قائم کرنے کے لئے۔

وما کان لکم ۔۔۔۔۔ بعدہ ابدا (33: 53) ” تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں ہے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو “۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض منافقین یہ کہتے تھے کہ وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ حضور ﷺ کی وفات ہو اور وہ عائشہ ؓ سے نکاح کریں۔

ان ذلکم کان عند اللہ عظیما (33: 53) ” یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے “۔ اور جو گناہ اللہ کے ہاں عظیم ہو وہ کس قدر ہولناک ہوگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد مزید دھمکی دی جاتی ہے جو بہت شید ہے۔

آیت 53 { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَـکُمْ اِلٰی طَعَامٍ } ”اے اہل ِ ایمان ! مت داخل ہوجایا کرو نبی ﷺ کے گھروں میں مگر یہ کہ تمہیں کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے“ { غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰـہُ } ”نہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کا“ اس حوالے سے سورة النور کا یہ حکم بھی یاد کرلیں : { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَہْلِہَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ } ”اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو ‘ حتیٰ کہ مانوس ہو لو بول چال کرلو اور گھر والوں کو سلام کرلو ‘ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو“۔ یعنی اس وقت تک کسی کے گھر میں داخل مت ہوا کرو جب تک گھر والوں سے بات چیت کر کے انہیں اپنی پہچان نہ کرا لو۔ اس کے بعد سورة النور کی اگلی آیت آیت 28 میں { حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْج } یہاں تک کہ تمہیں اجازت دے دی جائے کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ واضح رہے کہ سورة النور کا نزول سورة الاحزاب کے ایک سال بعد یعنی 6 ہجری میں ہوا۔ گویا سب سے پہلے یہ حکم آیت زیر مطالعہ میں رسول اللہ ﷺ کے گھر کے لیے دیا گیا لیکن بعد میں سورة النور کی مذکورہ آیت میں اسے ایک عمومی حکم کا درجہ دے دیا گیا۔ { وَلٰکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا } ”ہاں جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہوا کرو“ { فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ } ”پھر جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہوجایا کرو اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہا کرو۔“ یعنی اگر کھانے کے لیے بلایا جائے تو وقت سے پہلے ہی آکر نہ بیٹھ جایا کرو جب کہ ابھی کھانا تیار بھی نہ ہوا ہو۔ پھر جب کھانا کھالو تو فوراً وہاں سے اٹھ جایا کرو اور وہاں ڈیرہ جما کر نہ بیٹھے رہا کرو کہ اب باہم گفتگو کریں گے اور حضور ﷺ کی باتیں بھی سنیں گے۔ { اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ } ”تمہاری یہ باتیں نبی ﷺ کے لیے تکلیف کا باعث تھیں“ ظاہر ہے اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں آکر بیٹھ جائے اور اٹھنے کا نام نہ لے تو گھر والوں کو تکلیف تو ہوگی۔ مگر اس حوالے سے حضور ﷺ کی تکلیف کا ایک خصوصی پہلو یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ کے جن گھروں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہ دراصل چھوٹے چھوٹے حجرے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ سے ملنے کے لیے آجاتا اور آپ ﷺ اسے حجرئہ مبارک کے اندر بلا لیتے تو جب تک وہ چلا نہ جاتاحضرت عائشہ رض چادر اوڑھے چہرہ دیوار کی طرف کیے بیٹھی رہتیں۔ بہر حال ان حجروں کے اندر اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہاں غیر محرم مرد محفل جما کر بیٹھتے۔ { فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ } ”مگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ لوگوں سے جھجک محسوس کرتے ہیں ‘ اور اللہ حق بیان کرنے سے نہیں جھجکتا۔“ گھروں کے اندر لوگوں کے تا دیر بیٹھنے سے حضور ﷺ کو تکلیف تو ہوتی تھی مگر آپ ﷺ مروّت اور شرافت میں انہیں جانے کا نہیں فرماتے تھے۔ { وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ } ”اور جب تمہیں نبی ﷺ کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔“ قرآن حکیم میں اس مقام پر لفظ ”حجاب“ پہلی بار آیا ہے اور یہ حجاب سے متعلق احکام کے سلسلے کا پہلا حکم ہے ‘ جس کا منشا یہ ہے کہ آئندہ حضور ﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے جائیں اور اگر کسی غیر محرم مرد کو امہات المومنین رض میں سے کسی سے کوئی کام ہو وہ رُو در رُو نہیں بلکہ پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر بات کرے۔ -۔ اس آیت کو ”آیت حجاب“ کہا جاتا ہے۔ -۔ اس حکم کے بعد ازواجِ مطہرات رض کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے ‘ اور چونکہ نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مسلمانوں کے لیے اُسوئہ حسنہ تھی اور آپ ﷺ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا ‘ چناچہ تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر بھی پردے لٹک گئے۔ { ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ } ”یہ طرز عمل زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور ان رض کے دلوں کے لیے بھی۔“ مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کشش رکھی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ غیر محرم مردوں کا غیر محرم عورتوں کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔ { وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ } ”اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کو ایذا پہنچائو“ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ اگرچہ معاشرتی اصلاحات کے بارے میں یہ احکام عمومی نوعیت کے ہیں لیکن ان اصلاحات کا آغاز خصوصی طور پر اللہ کے رسول ﷺ کے گھر سے کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک سبب تو وہی ہے جس کا حوالہ انگریزی ضرب المثل charity begins at home میں دیا گیا ہے کہ اچھے کام کی ابتدا اپنے گھر سے ہونی چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف ان اقدامات کو حضور ﷺ کی ذات سے منسوب کر کے منافقین کی شرارتوں کے راستے بند کرنا بھی مقصود تھا جو حضور ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کے گھر والوں کے حوالے سے ہر وقت تاک میں رہتے تھے کہ انہیں کوئی بات ہاتھ آئے اور وہ اس کا بتنگڑ بنائیں۔ { وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْم بَعْدِہٖٓ اَبَدًا } ”اور نہ یہ جائز ہے کہ تم نکاح کرو آپ ﷺ کی بیویوں سے آپ ﷺ کے بعد کبھی بھی۔“ ازواجِ مطہرات رض کے خصوصی تقدس کا ذکر قبل ازیں آیت 6 میں { وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْط } اور نبی ﷺ کی بیویاں اہل ایمان کی مائیں ہیں کے الفاظ میں بھی آچکا ہے ‘ مگر یہاں پر صراحت کے ساتھ اس تقدس کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی گئی۔ دراصل حضور ﷺ کو آیت 50 میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے سے منع کرنے میں بھی یہی حکمت تھی کہ خدانخواستہ اگر آپ ﷺ اپنی کسی زوجہ محترمہ کو طلاق دیتے تو وہ کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ اور طلاق کی گنجائش نہ ہونے ہی کی وجہ سے آپ ﷺ کو ازواج کی تعداد کے معاملے میں خصوصی رعایت دی گئی۔ { اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا } ”یقینا اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔“ چناچہ اگر کسی خبیث کی نیت میں کہیں کوئی فتور جنم لے رہا تھا تو اس پر واضح ہوجائے کہ یہ دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔

احکامات پردہ۔ اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے۔ حضرت عمر ؓ کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔ بخاری مسلم میں آپ سے مروی ہے کہ تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر آپ مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى01205) 2۔ البقرة :125) میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آجائے آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا۔ جب حضور ﷺ کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا کسی غرور میں نہ رہنا اگر حضور ﷺ تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دلوائے گا چناچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی۔ صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے اور روایت میں ہے سنہ 5 ھ ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش ؓ سے نکاح کیا ہے۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے۔ واللہ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں حضور ﷺ نے جب حضرت زینب بنت جحش ؓ سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے آپ نے اٹھنے کی تیاری بھی کی۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے آپ کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے۔ حضور ﷺ پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ پھر لوٹ گئے۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو حضرت انس نے حضور ﷺ کو خبر دی۔ اب آپ آئے گھر میں تشریف لے گئے حضرت انس فرماتے ہیں میں نے بھی جانا چاہا تو آپ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کرلیا اور یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور حضرت انس کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جیسے حضرت انس بلاتے تو آپ کو خبر دی آپ نے فرمایا اب دستر خوان بڑھا دو لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے۔ حضور ﷺ یہاں سے نکل کر حضرت عائشہ کے پاس گئے اور فرمایا اسلام علیکم اہل البیست و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ انہوں نے جواب دیا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ فرمایئے حضور ﷺ بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے۔ اسی طرح آپ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں۔ چونکہ آپ میں شرم و حیا لحاظ و مروت بیحد تھا اس لئے آپ کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے حضرت عائشہ کے حجرے کی طرف چلے اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ کو خود خبردار کردیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی۔ ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ کے کسی نئے نکاح پر حضرت ام سلیم نے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر حضرت انس سے کہا اسے اللہ کے رسول ﷺ کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا۔ اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں۔ میں نے جا کر حضور ﷺ کو سلام کیا ام المومنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا اچھا اسے رکھ دو۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا پھر فرمایا جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ بہت سے لوگوں کے نام لئے اور پھر فرمایا ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے میں نے یہی کیا۔ جو ملا اسے حضور ﷺ کے ہاں کھانے کے لئے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہوگئے تھے اب مجھ سے آپ نے فرمایا آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ میں لایا تو آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا۔ آپ نے زبان سے کہا پھر فرمایا چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو۔ اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھاچکے تو آپ نے فرمایا پیالہ اٹھالو حضرت انس فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب ؟ چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المومنین دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا حضور ﷺ پر شاق گذر رہا تھا لیکن شرم ولحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے اگر انہیں اس بات کا علم ہوجاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بےفکری سے بیٹھتے ہی رہے۔ آپ گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لئے آپ اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا۔ میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپ اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں۔ پہلے حضرت زینب کے پاس آپ کا مانگا لے جانے کی روایت آیت (فلما قضی زید) الخ، کی تفسیر میں گذر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لئے جنگل کو جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمر ؓ کو یہ پسند نہ تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئے۔ حضور ﷺ اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات کا یہ نکلنا بند ہو اس لئے انہیں ان کے قدو قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ہم نے تمہیں اے سودہ پہچان لیا۔ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں۔ اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے۔ چناچہ مسند احمد میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد حضرت سودہ نکلیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آگئیں آنحضرت ﷺ شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا۔ پس اللہ تعالیٰ اس امت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ۔ پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کرلیا جنہیں اجازت دے دی جائے۔ تو فرمایا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے۔ کھانے کے لئے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو۔ مجاہد اور قتادہ فرماتے ہیں کہ کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہوگا۔ جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں۔ یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر۔ امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے۔ پھر فرمایا جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور اور حدیث میں ہے اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا۔ دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ۔ باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو۔ جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا۔ جس سے حضور ﷺ کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ کچھ نہ بولے، اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ تمہارا بےاجازت آنحضرت ﷺ کے گھروں میں چلے جانا آپ پر شاق گذرتا ہے لیکن آپ بوجہ شرم و حیا کے تم سے کہہ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ اب سے ایسا نہ کرنا۔ وہ حق حکم سے حیا نہیں کرتا۔ تمہیں جس طرح بےاجازت آپ کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور ﷺ ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے حضرت عمر کو بھی بلا لیا آپ بھی کھانے بیٹھ گئے۔ حضرت صدیقہ پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں حضرت عمر ازواج مطہرات کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی اس وقت پردے کا حکم اترا۔ پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے۔ کسی شخص نے آپ کی کسی بیوی سے آپ کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہوگا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا۔ چونکہ حضور ﷺ کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لئے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے۔ یہ حکم ان بیویوں کے لئے جو آپ کے گھر میں آپ کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے لیکن جس بیوی کو آپ نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہوچکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کرسکتے ہیں۔ قیلہ بنت اشعث بن قیس حضور ﷺ کی ملکیت میں آگئی تھی آپ کے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ بن ابو جہل سے نکاح کرلیا۔ حضرت ابوبکر پر یہ گراں گذرا لیکن حضرت عمر نے سمجھایا کہ اے خلیفہ رسول یہ حضور ﷺ کی بیوی نہ تھی نہ اسے حضور ﷺ نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے حضور ﷺ سے بری کردیا یہ سن کر حضرت صدیق کا اطمینان ہوگیا۔ پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ رسول ﷺ کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کرلینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں، تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ آنکھوں کی خیانت کو، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے۔

آیت 53 - سورۃ الاحزاب: (يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم...) - اردو