یہ ایک شدید اور موثر منظر ہے۔ قبروں سے انسانوں کا نکالا جانا ، اس عمل کے لئے ” بعثرہ “ کا شدید لفظ لایا گیا ہے اور پھر اس منظر میں ان رازوں کو کھینچ کھینچ کر باہر نکالا جارہا ہے جن کو نفوس انسانی نے دبائے اور چھپائے رکھا تھا۔ حصلت کا لفظ اس کے لئے استعمال ہوا کہ گویا سرکاری کارندے زبردستی حاصل کررہے ہیں۔ سرکاری تحصیل دار پہنچے ہوتے ہیں اور نہایت شدید پکڑ دھکڑ کا منظر ہے۔
کیا انسان نہیں جانتا کہ اسے اس قسم کے منظر سے گزرنا ہے۔ اسے کچھ یاد ہے ان حقائق کے بارے میں ، یہ حقائق تو ہر انسان کی فطرت میں ہیں۔ اگر اسے علم ہے اور یاد ہے تو بس اس کی اصلاح کے لئے تو یہی کافی ہے۔ اس علم کا جواب نہیں دیا جاتا کہ اگر وہ جانتا تو کیا ہوتا ؟ تم خودہی سوچ لو کہ کیا ہوتا۔ بہت کچھ ہوجاتا۔ اگر انسان اس بات کو جانتا ، بہت بڑے بڑے نتائج برآمد ہوجاتے ، مجرد اس علم سے ۔ یہ سب حرکات اور یہ جھلکیاں ایک آخری سکون وقرار پر ختم ہوتی ہیں جس تک پہنچ کر ہر حرکت اور ہر بات اپنے ٹھکانے تک پہنچ جاتی ہے۔