سورہ ذاریات: آیت 21 - وفي أنفسكم ۚ أفلا تبصرون... - اردو

آیت 21 کی تفسیر, سورہ ذاریات

وَفِىٓ أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ

اردو ترجمہ

اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee anfusikum afala tubsiroona

آیت 21 کی تفسیر

اب ان عجائبات میں سے دوسرا عجوبہ۔

وفی ........ تبصرون (51 : 12) ” اور خود تمہارے وجود میں ہیں کیا تمہیں سوجھتا نہیں “ یہ حضرت انسان تو عجائبات عالم میں سے ایک عظیم عجوبہ ہے لیکن اس کی قسمت کیا ہے۔ اس کا مقام کیا ہے اور اس کی ذات کے اندر کیا اسرار و رموز ہیں۔ اس سے وہ غافل ہے اور غافل اس وجہ سے ہے کہ وہ ایمان ویقین کی نعمت سے محروم ہے۔

یہ انسان اپنی جسمانی ساخت میں بھی عجوبہ ہے۔ جسم کے اسرار میں عجوبہ ہے۔ روحانی دنیا میں عجوبہ ہے۔ نفسیات کا تو عالم ہی جدا ہے۔ غرض اپنے ظاہر میں اور اپنے باطن میں عجوبہ ہے۔ یہ انسان اس کائنات کا عناصر کا نمونہ ہے اور پوری کائنات کے اسرار و رموز اس کے اندر پوشیدہ ہیں۔

وتزعم انک جرم صغیر

و فیک انطوی العالم الاکبر

” تو سمجھتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جرثومہ ہے .... لیکن تیرے اندر ایک عظیم جہاں آباد ہے۔ “

جب انسان خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے عجائبات دیکھتا ہے تو حیران اور ششدررہ جاتا ہے۔ اس کے اعضاء کی تشکیل اور تقسیم ، پھر اس کے اعضاء کے فرائض اور ان کے اندر عمل ، مثلاً اور خوراک حاصل کرنے کا عمل ، سانس لینے کا عمل اور جلانے کا عمل ، دل اور شریانوں میں خون دوڑنے کا عمل ، اعصابی نظام اور اس کا پورے جسم کو چلانا ، غدود اور ان کا جسم کو چلانا اور بڑھانا ، پھر ان تمام چیزوں کا باہم اتحاد واتفاق اور ہم آہنگی اور ان کا پوری طرح ہمسفر اور ہمقدم ہونا ، پھر عجائبات کے اندر جو تفصیلی عجائبات ہیں اور ہر جز کے اندر جو خارق ، عادت معجزات ہیں ان میں سے ہر ایک محیرالعقول ہے۔

پھر انسان کی روحانی طاقتیں ، جن میں سے کچھ تو معلوم ہیں اور کچھ مجہول ہیں۔ اس کا اشیاء کا ادراک کرنا اور پھر ادراک کا میکانزم ، پھر مدرکات کا حفظ کرنا اور اس کے بعد ان کو یاد کرلینا ، یہ معلومات اور ذہن کے خزانوں میں ان کی تصاویر ، یہ کہاں ہوتی ہیں اور کس طرح محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ تصاویر اور یہ تمثیلات اور یہ مشاہد اور ان کے نقوش یہ کس طرح نقش ہوتے ہیں اور کس طرح یہ تصاویر بنائی جاتی ہیں۔ یہ تو ہیں ان قوتوں کے وہ پہلو جو ہمیں معلوم ہیں۔ ایسی وہ قوتیں جو ہمیں معلوم نہیں تو وہ بہت ہی بڑی ہیں۔ بہت ہی بڑی۔ کبھی کبھی ان کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی ذہن انسانی پر ایک ایسا اشراق اور ایک ایسی روشنی ڈالی جاتی ہے اور اس کے اندر ایک ایسی چمک پیدا ہوتی ہے کہ انسان پر عالم غیب دور تک کھل جاتا ہے لیکن یہ لمحات کم ہوتے ہیں۔

پھر جنس انشان کے وہ اسرار وہ رموز جو اس کے قواعد تناسل کے سلسلے کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ایک نہایت ہی چھوٹا خلیہ جس کے اندر جنس انسانی کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں اور اس کے اندر ماں اور باپ اور دونوں اطراف کے قریبی اجزاء کے خصائص بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ تمام خصائص اس نہایت ہی چھوٹے سے خلئے کے اندر کہاں اور کس طرح رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور کس طرح یہ ہر خلیہ ان تمام خصائص کے ساتھ خود کار انداز میں اپنی زندگی کا سفر کا آغاز کرتا ہے کہ اس کے اندر جنس انسانی کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں اور یہ پوری طرح جنس انسانی کا اعادہ ایک دوسرے فرد کی شکل میں کرنا ہے ؟ ! !

وہ لمحات جن میں ایک بچہ اس زمین پر زندگی شروع کرتا ہے ، ماں سے جدا ہوتا ہے اور اپنے نفس پر اعتماد کرکے زندگی بسر کرنا شروع کرتا ہے اور اس کے قلب اور پھیپھڑوں کو حرکت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان لمحات پر قدرے غور کرنے ہی سے انسان حیران کیا وھشت زدہ ہوجاتا ہے اور عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ نفس انسانی حیرت واستعجاب سے بھی بھر جاتا ہے اور پھر ایمان بھی بھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسامنظر ہے کہ انسان کے دل و دماغ حیرت کے باعث کام چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔

پھر وہ وقت بھی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کہ بچہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں باتیں شروع کرتا ہے پھر کلمات وعبارات بناتا ہے بلکہ صرف گفتگو پر غور کیجئے۔ اس زبان سے ٹکڑے آوازیں نکالنا اور پھر گلے سے آوازیں یہ بھی ایک عجوبہ ہے۔ اس چیز کا انوکھا پن ہمیں اس لئے نظر نہیں آتا کہ یہ ہر وقت یہ باتیں کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اگر انسان ایک لحظہ اس پر غور کرے تو محض انسان کی یہ قدرت کہ وہ اظہار مافی الضمیر کرتا ہے۔ یہی ایک عجوبہ ہے اور قدرت الٰہیہ پر ایک بد یہی اور ایک کافی دلیل ہے۔

غرض انسان کی زندگی کا کوئی جزوی واقعہ بھی ایک معجزہ ہے اور انسان اس سے متعجب ہوسکتا ہے اور یہی مراد درج ذیل فقرے سے۔

وفی انفسکم افلا تبصرون (15 : 12) ” اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تمہیں سوجھتا نہیں “ جنس انسان کا ایک ایک فرد بھی ایک جہاں ہے۔ ہر فرد ایک آئینہ ہے جس میں یہ تمام عالم نظر آتا ہے اور ہر فرد کے وجود میں گویا اس پوری دنیا کا ظہور بار بار ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے ابنائے جنس میں اپنی شکل اپنے خدوخال ، اپنی عقل ، اپنے علم ، اپنے مدرکات ، اپنی روح اور اپنے شعور کے اعتبار سے بالکل جدا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں اس کائنات کا جو تصور ہے وہ دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ اب دیکھئے کہ اس خدائی نمائش گاہ میں لاکھوں افراد ہیں اور ہر فرد ایک علیحدہ نمونہ ہے اور ہر فرد کا مزاح بالکل الگ ہے اور ویسا شخص دوبارہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس شخص کے اندر یہ پوری کائنات گزر جاتی ہے اور اس کی صورت کی نقل نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تک کہ انگلیوں کی لکیریں بھی دنیا میں ہر شخص کی جدا ہوتی ہیں اور انہیں دہرایا نہیں جاسکتا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں بھی جو لوگ گز رے ہیں ان میں سے بھی کسی شخص کی انگلیوں کی لکیریں دہرائی نہیں جاسکتیں۔

جنس انسانی کے عجائبات میں سے بہت سے عجائبات ایسے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہماری آنکھیں ان کو دیکھ رہی ہیں۔

وفی انفسکم افلا تبصرون (51 : 12) ” اور تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں “

اور انسانی آنکھیں جن عجائبات کو بھی دیکھیں یہ عالم غیب کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نشانات ہیں ایک بنانے والے خالق کے۔

نفس انسانی کے اندر جو عجائبات اور معجزات ہیں ان کو ایک کتاب میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا۔ آج تک جو عجائبات ہمیں معلم ہوچکے ہیں اور جن کا انکشاف ہوگیا ہے ان کے لئے بھی کئی جلدیں درکار ہیں اور اس سلسلے میں جو مجہول ہیں ، ماضی کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ ہیں۔ قرآن کریم نے ان کو گنوایا نہیں ہے۔ ہاں قرآن کریم نے دل و دماغ کو جھنجھوڑا ضرور ہے کہ جاگو اور غور وفکر کرو ، احساس کرو اور اللہ کے اس عجائب گھر میں آنکھیں کھول کر چلو ، غور وفکر کرو اور اس کائنات سے بھی پہلے اپنے نفس میں غور وفکر کرو ، تم جس طر آفاق سے غافل ہو اس طرح اپنی ذات سے بھی غافل ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے خوشگوار لمحات وہی ہوتے ہیں جن میں انسان اپنی تخلیق اپنی خصوصیات اپنے خدوخال اپنی حرکات اور اپنی عادات پر غور کرے اور ایک عابد بندے کی طرح اللہ کے اس عجائب گھر کی سیر کرے اور دیکھے کہ اللہ کس قدر برکت والا ہے لیکن انسان ہے کہ ایک طویل عمر اس عجائب گھر میں گزار رہا ہے اور بغیر احساس کے گزار رہا ہے۔

اس طرح احساس عطا کرکے قرآن مجید انسان کو بالکل ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے ۔ ایک جدید شعور ، ایک جدید سوچ ، ایک جدید زندگی اور یہ شعور پسندیدہ متاع حیات ہے کہ اس دنیا کی کوئی بھی نعمت اس کے مقابلے میں ہیچ ہے۔

تامل اور ادراک کے اس اسلوب کے ساتھ قرآن انسان کی تربیت کرتا ہے لیکن اس تربیت کا بنیادی نکتہ ایمانی ہے۔ اگر ایمان نہ ہو تو قرآن جو کچھ انسان کو دینا چاہتا ہے وہ اسے اخذ نہیں کرسکتا۔ ایمان ہی انسان کو اس متاع حیات کے اہل بناتا ہے۔ یہ نہایت ہی اونچا اور برتر اور عالم بالا کا متاع حیات ہے۔ انسان کے پاؤں زمین پر ہوتے ہیں اور اس کا شعور عالم بالا میں ہوتا ہے۔

پہلے انسان کو اس کائنات کی جھلک دکھائی گئی ، پھر اسے اس کے نفس کے عجائبات کی ایک جھلک دکھائی گئی ، اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ انسان کا رزق اس کی تقسیم اور اس کا حصہ رسدی بھی آسمانوں سے تقسیم ہوتا ہے اور تمہاری آخری منزل بھی آسمانوں ہی میں ہے۔

آیت 21{ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”اور تمہاری اپنی جانوں میں بھی نشانیاں ہیں۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ یعنی انسان کے جسم اور جسم کے ایک ایک نظام کے اندر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرے۔ مرزا بیدل ؔ نے اس خوبصورت شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر ِسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدئہ درِ دل کشا بہ چمن درآ ! اے انسان ! بڑے ستم کی بات ہے اگر تجھے تیری خواہش نفس کسی باغ کی سیر کے لیے کھینچ کرلے جاتی ہے ‘ جبکہ خود تیری اپنی چمک دمک کسی پھول سے کم نہیں ہے۔ کبھی اپنے دل کا دروازہ کھول کر اس چمن کی سیر کے لیے بھی آئو جو تمہاری روح کے اندر اللہ تعالیٰ نے مہکا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی تخلیق اور اپنے وجود پر غور کرے اور اس اعتبار سے اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانے۔ بقول مرزا بیدلؔ : ؎ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش ِآدمی اے بہارِ نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! اس شعر کی تشریح سورة النحل کی آیت 40 کے تحت بیان ہوئی ہے۔

آیت 21 - سورہ ذاریات: (وفي أنفسكم ۚ أفلا تبصرون...) - اردو