سورہ ذاریات (51): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Adh-Dhaariyat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الذاريات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ ذاریات کے بارے میں معلومات

Surah Adh-Dhaariyat
سُورَةُ الذَّارِيَاتِ
صفحہ 521 (آیات 7 سے 30 تک)

وَٱلسَّمَآءِ ذَاتِ ٱلْحُبُكِ إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ قُتِلَ ٱلْخَرَّٰصُونَ ٱلَّذِينَ هُمْ فِى غَمْرَةٍ سَاهُونَ يَسْـَٔلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ ٱلدِّينِ يَوْمَ هُمْ عَلَى ٱلنَّارِ يُفْتَنُونَ ذُوقُوا۟ فِتْنَتَكُمْ هَٰذَا ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تَسْتَعْجِلُونَ إِنَّ ٱلْمُتَّقِينَ فِى جَنَّٰتٍ وَعُيُونٍ ءَاخِذِينَ مَآ ءَاتَىٰهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا۟ قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ كَانُوا۟ قَلِيلًا مِّنَ ٱلَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ وَبِٱلْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَفِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ وَفِى ٱلْأَرْضِ ءَايَٰتٌ لِّلْمُوقِنِينَ وَفِىٓ أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ وَفِى ٱلسَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ فَوَرَبِّ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ إِنَّهُۥ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَٰهِيمَ ٱلْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا۟ عَلَيْهِ فَقَالُوا۟ سَلَٰمًا ۖ قَالَ سَلَٰمٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ فَرَاغَ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ فَقَرَّبَهُۥٓ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۖ قَالُوا۟ لَا تَخَفْ ۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَٰمٍ عَلِيمٍ فَأَقْبَلَتِ ٱمْرَأَتُهُۥ فِى صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ قَالُوا۟ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ ۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ
521

سورہ ذاریات کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ ذاریات کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamai thati alhubuki

اردو ترجمہ

(آخرت کے بارے میں) تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innakum lafee qawlin mukhtalifin

اردو ترجمہ

اُس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yufaku AAanhu man ofika

اردو ترجمہ

مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qutila alkharrasoona

قتل ........ تسعجلون

خرص کے معنی ظن ، گمان ، اندازے کے ہیں ، یعنی ایسی سوچ جو کسی گہرے اور یقینی معیار پر مبنی نہ ہو اور جس کا کوئی صغری کبری نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ بددعا فرماتا ہے کہ وہ قتل ہوں اور اللہ کی طرف سے بددعا کے معنی ہیں ” بس قتل ہوئے۔ “

قتل الخرصون (51 : 01) ” مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے “ اور ان کی ذرا مزید وضاحت کی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena hum fee ghamratin sahoona

الذین ........ ساھون (51 : 11) ” جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں “ ان کے افکار باطل خیالات سے لبالب ہیں اور یہ ادہام میں مدہوش ہیں ، نہ ہوش میں آتے ہیں اور نہ جاگتے ہیں۔ انداز تعبیر ایک خاص رنگ اور تصور دے رہا ہے۔ ان کی تصویر کچھ ایسی بنتی ہے۔ وہ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں یا بےہوش ہیں ، مست پڑے ہیں اور انہیں اپنے ماحول کے بارے میں کوئی احساس نہیں ہے اور وہ کوئی فکر بھی نہیں کرتے اور ان کے ذہن اور دماغ کام نہیں کررہے جس طرح نشے میں ہوں۔ اس لئے کہ ایک واضح بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسی کہ ہر ہوشمند شخص اسے دیکھتے ہی سمجھ لے اور ان کی حالت یہ ہے۔

اردو ترجمہ

پوچھتے ہیں آخر وہ روز جزاء کب آئے گا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yasaloona ayyana yawmu alddeeni

یسئلون ایان یوم الدین (51 : 21) ” پوچھتے ہیں آخر وہ روز جزاء کب آئے گا “ وہ جس طرح پوچھتے ہیں اس سے ان کا مقصد طلب علم یا طلب معرفت نہیں ہیں بلکہ وہ منکر ہیں ، جھٹلاتے ہیں اور اسے ایک ناممکن بات سمجھ کر پوچھتے ہیں کیونکہ ” ایان “ کے لفظ کو ایسے ہی مواقع پر بولا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن اپنے انداز میں قیامت کی ایک جھلک جلدی سے دکھا دیتا ہے کہ دیکھو یہ ہے جس کو تم ناممکن سمجھتے ہو۔ وہ اس طرح اس میں جل جاتے ہیں جس طرح کسی دھات کو جلاکر اس کی حقیقت معلوم کی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

وہ اُس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma hum AAala alnnari yuftanoona

یوم ھم علی النار یفتنون (51 : 31) ” جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے “ اور پھر اس منظر ہی میں انہیں شرمندہ بھی کیا جاتا ہے جس سے ان کے رنج میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ وہ تو پہلے سے مشکل میں ہیں۔

اردو ترجمہ

(اِن سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thooqoo fitnatakum hatha allathee kuntum bihi tastaAAjiloona

ذوقوا ........ تستعجلون (51 : 41) ” اب چکھو مزا اپنے فتنے کا ، یہ وہی چیز ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے “.... اس سوال کا مناسب جواب یہی تھا اور مدہوشی اور گہری نیند میں سوئے ہوئے غافلوں کے لئے اس منظر میں یہ سختی نہایت ہی موزوں اور مطابق حال ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کے لئے بددعا کی ، نہایت سخت انداز میں لہٰذا مارے گئے اور آگ پر ان کو اس طرح تپایا جائے گا جس طرح کسی دھات کو تپایا جاتا ہے کہ اس سے کھوٹ نکالا جائے۔

اب ذرا فریق مقابل ، ذرا دوسرے پلیٹ فارم پر جائیں اور کتاب کا دوسرا صفحہ الٹیں ، وہاں دوسرا فریق کھڑا ہے جو وہم و گمان کی بات نہیں کرتا جس کی باتوں میں تزلزل نہیں ہے۔ یہ متقی ہیں متکبر نہیں۔ یہ جاگ رہے ہیں ، عبادت گزار ہیں ، استعفار کرنے والے ہیں اور اپنی عمر مدہوشیوں میں ضائع نہیں کرتے۔

اردو ترجمہ

البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna almuttaqeena fee jannatin waAAuyoonin

یہ گروہ گروہ متقین ہے۔ یہ جاگنے والے ہیں۔ یہ شدید احساس رکھتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے نفس کے بارے میں بھی حساس ہیں۔ یہ لوگ۔

فی جنت وعیون (15 : 15) ” باغوں اور چشموں میں ہوں گے “ اور۔

اردو ترجمہ

جو کچھ اُن کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے وہ اُس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Akhitheena ma atahum rabbuhum innahum kanoo qabla thalika muhsineena

اخذین ما اتھم ربھم (51 : 61) ” جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے “ رب کے فضل ، اس کے انعامات وہ لے رہے ہوں گے ان اعمال کے بدلے جو انہوں نے حیات دنیا میں کئے۔ انہوں نے اس کی عبادت اس طرح کی گویا اسے دیکھ رہے ہیں اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ وہ دیکھ رہا ہے اور۔

انھم کانوا قبل ذلک محسنین (51 : 61) ” وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے اور ان کی نیکی کی تصویر بھی بڑی دلکش ہے ، نہایت ہی چمکدار اور حساس :

اردو ترجمہ

راتوں کو کم ہی سوتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kanoo qaleelan mina allayli ma yahjaAAoona

کانوا…….. یستغفرون (51 : 81)

” راتوں کو کم سوتے تھے ، پھر وہ رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے “ وہ رات کے پچھلے حصے میں جاگ رہے ہوتے ہیں جبکہ لوگ سوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کی طرف توبہ و استغفار کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں ، اللہ سے رحم کی درخواست کرتے ہیں ، وہ بہت کم اونگھتے ہیں اور بہت کم سوتے ہیں۔ رات کے اندھیروں میں وہ اپنے رب کے ساتھ ہمکلام ہوتے ہیں۔ ان کے پہلو اپنے بستروں سے دور ہوجاتے ہیں اور اللہ کی طرف دیکھنے کا شوق انہیں ہلکا کردیتا ہے اور نیند ان کے جسم کو بوجھل نہیں کرسکتی۔

امام حسن بصری کہتے ہیں :

کانو ........ مایھجعون (15 : 71) ” یعنی وہ مشقت سے قیام لیل کرتے ہیں ، وہ رات کو کم سوتے ہیں اور انہوں نے عمل میں رات بسر کی اور اپنے قیام کو صبح تک طویل کیا۔ یہاں تک کہ استغفار صبح کے وقت ہوا۔

فتادہ احنف ابن قیس سے نقل کرتے ہیں۔

کانو ........ یھجعون (51 : 81) یعنی وہ کم سوتے تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ میں اس آیت والوں میں سے نہیں ہوں۔

حسن بصری فرماتے ہیں کہ احنف بن قیس فرمایا کرتے تھے میرے اعمال اہل جنت کے اعمال کے مقابلے میں پیش کئے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے اور ہمارے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ چونکہ ہم ان کے اعمال تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ وہ لوگ تھے جو رات کو کم سوتے تھے اور میں نے اپنے اعمال جہنمیوں کے اعمال پر پیش کئے تو اہل جہنم میں کوئی بھلائی نہ تھی۔ انہوں نے اللہ کی کتاب کو جھٹلایا۔ حشرونشر کو جھٹلایا ، میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بھی ہم سے اچھے ہیں جنہوں نے کچھ تو اچھے کام کئے تھے اور کچھ برے کئے تھے۔

عبدالرحمن ابن زید ابن اسلم نے کہا بنی تمیم کے ایک شخص نے میرے باپ سے کہا : ” ابو اسامہ ، ایک صفت ہے جو ہم میں نہیں ہے اللہ نے ایک ایسی قوم کا ذکر کیا ہے۔

کانوا ........ ما یھجعون (51 : 81) ” جو راتوں کو کم سوتے تھے “ آرزو مند ہیں اور وہ اپنے آپ کو اس فر فروتر سمجھتے ہیں۔ بہرحال امت میں کچھ لوگ اللہ کے نے اس مقام کے لئے چن رکھے ہیں جو ان آیات کا حق ادا کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے وہ اللہ کے ہاں محسنین کی لسٹ میں درج ہیں۔ یہ تو ہے ان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ، لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہے ، وہی تعلق جو ایک نیک آدمی کے لائق ہے۔

اردو ترجمہ

پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabialashari hum yastaghfiroona

اردو ترجمہ

اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee amwalihim haqqun lilssaili waalmahroomi

وفی ........ والمحروم (51 : 91) ” اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لئے “ وہ اپنے اموال میں اس سائل کا حصہ بھی رکھتے ہیں جو مانگتا ہے اور دے دیا جاتا ہے اور اس محروم کا بھی حق مقرر کرتے ہیں جو خاموش رہتا ہے ، حیا کرتا ہے اور محروم رہ جاتا ہے۔ وہ ان دونوں قسم کے لوگوں کے لئے اپنے اموال میں حق رکھتے ہیں۔ وہ خود اس حق کو اپنے اوپر فرض کرلیتے ہیں اور یہ حق غیر محدود ہے متعین نہیں۔

یہ اشارہ سورة کے محور کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ رزق آسمانوں میں ہے تاکہ انسانوں کا دل کنجوسی ، بخل اور رات اور دن جمع مال میں مشغولیت سے ذرا آزاد ہوجائے اور یہ سورة کے اس اہم حصے کے لئے تمہید ہے جبکہ یہ متقین اور محسنین کی تصویر کا آخری رنگ بھی ہے۔

اردو ترجمہ

زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee alardi ayatun lilmooqineena

اس آیت کے ذریعے انفس وآفاق میں موجود نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ تمہارے لئے رزق کے جو ذرائع مقرر کردیئے ہیں وہ آسمان سے مقرر ہیں اور اللہ اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے یہاں ذات باری کو رب سماء اور ارض کہا گیا جن کا ذکر اس سبق میں ہوچکا ہے اور جو اب قسم یہی اہم سوال ہے یعنی حشرونشر۔

وفی الارض ........ للموقنین (51 : 02) وفی ........ تبصرون (51 : 12)

” زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے اور خود تمہارے وجود میں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں “ یہ چھوٹا سا سیارہ جس کے اوپر ہم رہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی نمائش گاہ ہے۔ ان آیات وعجائبات کے لئے جو اس میں اللہ نے رکھے ہیں۔ اس نمائش گاہ میں اس دنیا کے عجائبات میں سے بہت ہی کم ابھی تک نمائش کے لئے رکھے جاسکے ہیں۔ آئے دن نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں اور نئے نئے عجائبات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کی ایک نمائش گاہ خود ہماری ذات ہے۔ نفس انسانی ، اس کی پراسرار نفسیاتی دنیا ، اس حضرت انسان کے اندر بھی اس کائنات کے اسرار موجود ہیں۔ صرف زمین کے اسرار نہیں بلکہ پوری کائنات کے اسرار۔

ان دو نمائش گاہوں کی طرف ان آیات میں مختصر اشارہ ہے کہ ان دونوں نمائش گاہوں کے دروازے تمہارے لئے کھولے جارہے ہیں لیکن فائدہ اسی شخص کو ہوگا جو ان کو دیکھنا چاہے اور جو یقین کرنا چاہے اور اپنی زندگی کی نعمتوں اور خوشیوں سے بھرنا چاہے جو علم ومعرفت اور دانائی اور عبرت حاصل کرنا چاہے جن سے اس کا دل زندہ ہوگا اور عمر زیادہ ہوگی۔

اللہ نے اپنا یہ کلام اس طرح بنایا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے ہر سطح کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہر صورت حال اور ہر قسم کے معاشروں کے لئے وہ رہنما ہے۔ ہر شخص ، ہر نفس اور ہر سطح کی عقل وادراک کے لئے اس کلام میں ہدایت اور دلچسپی اور علم ہے۔ ہر شخص اپنی عقلی قوت ہاضمہ کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ جوں جوں انسان علم ومعرفت میں ارتقائی منازل طے کرتا ہے ، جوں جوں اس کا دائرہ ادراک وسیع ہوتا ہے ، اس کی معلومات بڑھتی ہیں ، اس کے تجربات آگے بڑھتے ہیں اور وہ نفس اور کائنات کے اسرار حاصل کرتا ہے تو اس کا حصہ اس قرآن میں بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علوم قرآنی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کی زاد راہ اور اس کا رزق اس قرآن میں بڑھ جاتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے ” جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے اور زیادہ استعمال سے یہ پرانا نہیں ہوتا۔ “ یہ وہ الفاظ ہیں جو اس کے بارے حضور اکرم نے فرمائے کیونکہ اس کے اسرار و رموز سے زیادہ واقف حضور ہی ہیں۔ یہ زندہ تجربہ تھا جو آپ کو قرآن کے بارے میں ہوا اور جس کو آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ﷺ

جن لوگوں نے پہلی مرتبہ قرآن کو سنا تھا انہوں نے اس کائنات میں پائے جانے والے دلائل ونشانات کو اور خود ان کے نفوس کے اندر جو دلائل ونشانات تھے ان کو اس وقت کے علم ومعرفت کے مطابق سمجھا تھا۔ ان کے بعد آنے والی نسلوں نے بھی اپنے علم ومعرفت اور اپنے تجربات کے مطابق ان آیات کو سمجھا اور بیان کیا۔ آج ہم بھی اپنا حصہ پا رہے ہیں جس قدر علم ومعرفت اور جس قدر تجربات وانکشافات ہمارے سامنے آج تک آچکے ہیں ، آج ہم تک جو علوم اور تجربات پہنچے ہیں وہ اس عظیم کائنات اور انسان کے پر پیچ نفس کے آیات ونشانات میں سے بہت ہی قلیل حصہ ہیں۔ ہم سے بعد میں آنے والی نسلوں کو ہمارے مقابلے میں زیادہ آیات ونشانات ملیں گے۔ اس کائنات میں بھی اور نفس انسانی میں بھی اور قیامت تک اس نمائش گاہ عالم اور نمائش گاہ نفس انسانی میں نئے نئے عجائبات برائے نمائش رکھے جاتے رہیں گے۔

یہ زمین ، زندگی کے لئے تیار شدہ سیارہ ، جو زندگی کا گہوارہ ہے اور جسے زندگی کی تمام ضروریات سے لیس کیا گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس عظیم اور ہولناک کائنات میں یہ واحد سیارہ ہے جسے حیات کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں ایک جگہ رکے ہوئے ستارے بھی ہیں اور مداروں میں چلنے والے سیارے بھی ہیں۔ ان میں سے جو ہمیں معلوم ہیں ان کی تعداد اربوں میں ہے اور یہ یادرکھنا چاہئے کہ اس کائنات کا جو حصہ معلوم ہے وہ نسبتاً بہت ہی کم ہے۔ اس میں کئی ملین کہکشاں ہیں اور ہر کہکشاں کے کروڑ ہا ستارے ہیں اور ان کے کواکب ہیں جو ان ستاروں کے ارد گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔

ان سیاروں میں سے صرف یہ زمین ہی ایک سیارہ ہے جسے اس پر موجود زندگی کے لئے عجیب خصوصیات دی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر خصوصیت ایک نشانی ہے۔ اگر ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بھی ختم ہوجائے یا اس کے اندر کچھ ردوبدل ہوجائے تو زمین کے اوپر سے ہر قسم کی زندگی کا وجود ہی خطم ہوجائے۔ اگر اس زمین کا حجم بدل جائے ، ٹیٹرھی ہوجائے یا چھوٹی ، اگر سورج سے اس کا فاصلہ بدل جائے ، کم ہوجائے یا زیادہ ، اگر سورج کا حجم بدل جائے اور اس کا درجہ حرارت بدل جائے اور یہ زمین اپنے محور پر جس طرح جھکی ہوئی ہے اگر اس کے اس جھکاؤ میں کوئی تغیر واقع ہوجائے اگر اس کی گردش محوری یا سورج کے گرد اس کی سالانہ گردش میں کمی بیشی آجائے اگر چاند کا حجم متغیر ہوجائے یا زمین سے قریب یا دور ہوجائے۔ اگر زمین کے اندر تری اور خشکی کی نسبت بدل جائے ، غرض اگر ، اگر ، اگر .... اور ہزار ہا اگر ، اگر ان ہزارہا موافقات اور سہولیات میں سے کوئی ایک بھی بدل جائے تو اس سیارے پر سے اس خوبصورت زندگی کا نام ونشان ہی ختم ہوجائے۔

کیا یہ ایک چیز نشانی نہیں ، کیا یہ سب چیزیں نشانات نہیں جو بتاتی ہیں کہ ایک ذات ہے جس نے ان کو منظم کیا ہے ، فراہم کیا ہے۔

اور خوراک اور رزق کی مختلف اقسام جو اس زمین پر رہنے والی اور بسنے والی مخلوقات کے لئے اللہ نے فراہم کی ہیں۔ یہ مخلوقات سطح زمین کے اوپر رہتی ہوں ، فضا میں تیررہی ہوں ، یا پانی میں تیررہی ہوں یا زمین کے غاروں میں رہتی ہوں یا اس کے پہاڑوں میں رہتی ہوں یا اس کی وادیوں اور بستیوں میں اندر رہتی ہوں ، سب کے لئے خوراک تیار ہے۔ بعض کی مرکب ہے اور بعض کی بسیط شکل میں ہے۔ بہرحال یہ ان زندہ چیزوں کے وجود کے لئے قابل قبول ہے اور ان لاتعداد زندہ اشیاء کی ضروریات پوری کرتی ہے جس طرح زندہ مخلوقات لاتعداد انواع و اقسام کی ہیں اسی طرح ان کی خوراک بھی لاتعداد و انواع و اقسام کی ہے۔ یہ انواع خوراک جو زمین کے اندر ہیں جو بہتی اور چلتی ہیں جو ہوا میں ہیں جو سطح زمین پر اگتی ہیں جو سورج سے آرہی ہیں جو دوسرے جہانوں سے آرہی ہیں جو تمہیں معلوم ہی نہیں لیکن یہ ہر قسم کی خوراک ان زندہ اشیاء کے لئے ہر طرف سے چلی آرہی ہے اور بڑی مقدار میں چلی آرہی ہے۔ اللہ کی مشیت اور اس کی تدبیر کے مطابق یہ ایک عظیم خزانہ اور اسٹو رہے جو ان لاتعداد انواع و اقسام کے کھانے والوں کے لئے سپلائی پوری کراتا ہے۔ یہ ہے ربانی سٹورالرزاق کا انتظام۔

پھر اس زمین کے مناظر ومشاہد کی رنگارنگی ، جہاں تک بھی نظر جاسکتی ہو جہاں جہاں بھی قدم جاسکے ہوں یہ بھی اپنی جگہ عجائبات ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ تنگ گڑھے اور کشادہ نالے ، وادیاں اور پہاڑ ، سمندر اور بحیرے ، نہریں اور نالیاں اور باغات کے ٹکڑے ٹکڑے ، انگور اور کھجور ، اکہرے اور دوہرے ، یہ سب مناظر اور مشاہد ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنانے والے کے کمالات کا یہ عجوبہ ہیں۔ ان میں مسلسل تغیرات ہوتے رہتے ہیں اور یہ کسی وقت بھی ایک حالت میں نہیں ہوتے۔ انسان ایک زمین پر گزرتا ہے تو وہ خشک اور قحط زدہ نظر آتی ہے یہ بھی ایک منطر ہے اور پھر کیا دیکھتا ہے کہ وہ سر سبز اور نعمتوں اور چارہ سے بھری ہوتی ہے تو یہ بھی ایک منظر ہے۔ کبھی نہایت ہی سر سبزی اور شاداں ہوتی ہے۔ یہ ایک منظر ہے۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ تمام زمین زرد اور خشک ہوگئی اور فصل کٹنے والی ہے۔ یہ بھی ایک منظر ہوتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے بالکل ادھر ادھر نہیں گیا ہوتا ہے۔

وہ تمام مخلوقات جو اس زمین کو آباد کررہی ہیں مثلاً زندہ مخلوقات نباتات وحیوانات ، مچھلیاں اور پرندے چوپائے اور حشرات اور انسان قرآن نے ان کا تذکرہ ایک ہی آیت میں کیا ہے۔

یہ مخلوقات جن کے انواع و اقسام کی تعداد کا بھی پوری طرح ہمیں علم نہیں ہے یہ تو دور کی بات ہے کہ ایک نوع کے افراد گنے جاسکیں۔ یہ تو محال ہے۔ ان میں سے ہر نوع کی مخلوقات ایک امت ہے اور ان کا ہر ایک فرد ایک عجوبہ ہے۔ ہر حیوان ، ہر پرندہ ، ہر چرندہ اور ہر کیڑا ، ہر پودا نہیں بلکہ ہر پودے کی ہر شاخ اور ہر شاخ کا ہر پتہ اور ہر شاخ کا ہر پھول اور ہر پھول کی ہر پتی یہ اللہ کی ایک نمائش گاہ ہے جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔

اگر انسان بیان کرنے لگے بلکہ تمام انسان بیک وقت بیان کرنے لگیں وہ غور کریں اور لکھیں اور بیان کریں کہ اس زمین میں کیا کیا نشانات الٰہیہ ہیں اور کیا کیا عجائبات ہیں تو نہ ان کی بات ختم ہو اور نہ ہی عجائبات واشارات ختم ہوں۔ قرآن کی یہ آیت تو صرف اس قدر بیان کرتی ہے کہ انسان کا دل و دماغ غور وفکر کے لئے بیدار ہوجائے اور اس عظیم الشان نمائش میں جو چیزیں قدرت نے رکھی ہیں ان کو دیکھیں اور روشنی میں لائیں سمجھیں اور سمجھائیں۔ ہنسیں اور ہنسائیں اور یوں اس کرہ ارض پر اپنے اس مختصر سفر کو خوشگوار بنائیں۔

لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان عجائبات کا ادراک وہی کرسکتا ہے اور ان کے ذریعے زندگی کے اس مختصر سفر کو وہی خوشگوار بنا سکتا ہے جس کا دل یقین سے بھر چکا ہو۔

وفی الارض ایت للموقنین (51 : 02) ” اور زمین میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں “ یہ یقین ہی ہے جو آنکھوں کو بینائی فراہم کرتا ہے تو وہ دیکھتی ہیں۔ یہ ایمان ہی ہے جو زمین کے ان مظاہر قدرت کو زندگی دیتا ہے اور وہ اپنے اسرار اور موز بتاتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ان کی پشت پر دست قدرت کی کیا کیا کارستانیاں ہیں۔ بغیر ایمان کے یہ سب مناظر ومشاہد مردہ پڑے رہتے ہیں۔ جامد ہوجاتے ہیں اور مفہوم سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ ایمان سے خالی دل سے ہمکلام نہیں ہوتے۔ وہ اس کے ساتھ ہمقدم ہوکر نہیں چلتے۔ کئی ایسے انسان ہیں جو اللہ کی اس نمائش گاہ میں چلتے پھرتے ہیں لیکن انہیں اس میں نظر کچھ نہیں آتا۔ ان کو یہ کائنات زندہ اور گویا نظر نہیں آتی۔ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے دلوں کو ایمان کے لمس سے زندگی نہیں بخشی۔ ان کے لئے ان کا ماحول زندہ نہیں ہے۔ بعض ایسے لوگوں میں بڑے بڑے علماء اور سائنس دان بھی ہوسکتے ہیں۔

یعلمون ........ الدنیا ” مگر وہ اس دنیا کی زندگی کے صرف چھلکے کے عالم ہیں “ رہی اس دنیا کی اندرونی حقیقت تو وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ کوئی بھی دل اس کائنات کی حقیقت کو ایمان کی کنجی سے کھول سکتا ہے کوئی بھی آنکھ صرف ایمان کی روشنی سے ان حقائق کو دیکھ سکتی ہے۔ صدق اللہ العظیم ........

اردو ترجمہ

اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee anfusikum afala tubsiroona

اب ان عجائبات میں سے دوسرا عجوبہ۔

وفی ........ تبصرون (51 : 12) ” اور خود تمہارے وجود میں ہیں کیا تمہیں سوجھتا نہیں “ یہ حضرت انسان تو عجائبات عالم میں سے ایک عظیم عجوبہ ہے لیکن اس کی قسمت کیا ہے۔ اس کا مقام کیا ہے اور اس کی ذات کے اندر کیا اسرار و رموز ہیں۔ اس سے وہ غافل ہے اور غافل اس وجہ سے ہے کہ وہ ایمان ویقین کی نعمت سے محروم ہے۔

یہ انسان اپنی جسمانی ساخت میں بھی عجوبہ ہے۔ جسم کے اسرار میں عجوبہ ہے۔ روحانی دنیا میں عجوبہ ہے۔ نفسیات کا تو عالم ہی جدا ہے۔ غرض اپنے ظاہر میں اور اپنے باطن میں عجوبہ ہے۔ یہ انسان اس کائنات کا عناصر کا نمونہ ہے اور پوری کائنات کے اسرار و رموز اس کے اندر پوشیدہ ہیں۔

وتزعم انک جرم صغیر

و فیک انطوی العالم الاکبر

” تو سمجھتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جرثومہ ہے .... لیکن تیرے اندر ایک عظیم جہاں آباد ہے۔ “

جب انسان خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے عجائبات دیکھتا ہے تو حیران اور ششدررہ جاتا ہے۔ اس کے اعضاء کی تشکیل اور تقسیم ، پھر اس کے اعضاء کے فرائض اور ان کے اندر عمل ، مثلاً اور خوراک حاصل کرنے کا عمل ، سانس لینے کا عمل اور جلانے کا عمل ، دل اور شریانوں میں خون دوڑنے کا عمل ، اعصابی نظام اور اس کا پورے جسم کو چلانا ، غدود اور ان کا جسم کو چلانا اور بڑھانا ، پھر ان تمام چیزوں کا باہم اتحاد واتفاق اور ہم آہنگی اور ان کا پوری طرح ہمسفر اور ہمقدم ہونا ، پھر عجائبات کے اندر جو تفصیلی عجائبات ہیں اور ہر جز کے اندر جو خارق ، عادت معجزات ہیں ان میں سے ہر ایک محیرالعقول ہے۔

پھر انسان کی روحانی طاقتیں ، جن میں سے کچھ تو معلوم ہیں اور کچھ مجہول ہیں۔ اس کا اشیاء کا ادراک کرنا اور پھر ادراک کا میکانزم ، پھر مدرکات کا حفظ کرنا اور اس کے بعد ان کو یاد کرلینا ، یہ معلومات اور ذہن کے خزانوں میں ان کی تصاویر ، یہ کہاں ہوتی ہیں اور کس طرح محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ تصاویر اور یہ تمثیلات اور یہ مشاہد اور ان کے نقوش یہ کس طرح نقش ہوتے ہیں اور کس طرح یہ تصاویر بنائی جاتی ہیں۔ یہ تو ہیں ان قوتوں کے وہ پہلو جو ہمیں معلوم ہیں۔ ایسی وہ قوتیں جو ہمیں معلوم نہیں تو وہ بہت ہی بڑی ہیں۔ بہت ہی بڑی۔ کبھی کبھی ان کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی ذہن انسانی پر ایک ایسا اشراق اور ایک ایسی روشنی ڈالی جاتی ہے اور اس کے اندر ایک ایسی چمک پیدا ہوتی ہے کہ انسان پر عالم غیب دور تک کھل جاتا ہے لیکن یہ لمحات کم ہوتے ہیں۔

پھر جنس انشان کے وہ اسرار وہ رموز جو اس کے قواعد تناسل کے سلسلے کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ایک نہایت ہی چھوٹا خلیہ جس کے اندر جنس انسانی کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں اور اس کے اندر ماں اور باپ اور دونوں اطراف کے قریبی اجزاء کے خصائص بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ تمام خصائص اس نہایت ہی چھوٹے سے خلئے کے اندر کہاں اور کس طرح رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور کس طرح یہ ہر خلیہ ان تمام خصائص کے ساتھ خود کار انداز میں اپنی زندگی کا سفر کا آغاز کرتا ہے کہ اس کے اندر جنس انسانی کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں اور یہ پوری طرح جنس انسانی کا اعادہ ایک دوسرے فرد کی شکل میں کرنا ہے ؟ ! !

وہ لمحات جن میں ایک بچہ اس زمین پر زندگی شروع کرتا ہے ، ماں سے جدا ہوتا ہے اور اپنے نفس پر اعتماد کرکے زندگی بسر کرنا شروع کرتا ہے اور اس کے قلب اور پھیپھڑوں کو حرکت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان لمحات پر قدرے غور کرنے ہی سے انسان حیران کیا وھشت زدہ ہوجاتا ہے اور عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ نفس انسانی حیرت واستعجاب سے بھی بھر جاتا ہے اور پھر ایمان بھی بھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسامنظر ہے کہ انسان کے دل و دماغ حیرت کے باعث کام چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔

پھر وہ وقت بھی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کہ بچہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں باتیں شروع کرتا ہے پھر کلمات وعبارات بناتا ہے بلکہ صرف گفتگو پر غور کیجئے۔ اس زبان سے ٹکڑے آوازیں نکالنا اور پھر گلے سے آوازیں یہ بھی ایک عجوبہ ہے۔ اس چیز کا انوکھا پن ہمیں اس لئے نظر نہیں آتا کہ یہ ہر وقت یہ باتیں کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اگر انسان ایک لحظہ اس پر غور کرے تو محض انسان کی یہ قدرت کہ وہ اظہار مافی الضمیر کرتا ہے۔ یہی ایک عجوبہ ہے اور قدرت الٰہیہ پر ایک بد یہی اور ایک کافی دلیل ہے۔

غرض انسان کی زندگی کا کوئی جزوی واقعہ بھی ایک معجزہ ہے اور انسان اس سے متعجب ہوسکتا ہے اور یہی مراد درج ذیل فقرے سے۔

وفی انفسکم افلا تبصرون (15 : 12) ” اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تمہیں سوجھتا نہیں “ جنس انسان کا ایک ایک فرد بھی ایک جہاں ہے۔ ہر فرد ایک آئینہ ہے جس میں یہ تمام عالم نظر آتا ہے اور ہر فرد کے وجود میں گویا اس پوری دنیا کا ظہور بار بار ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے ابنائے جنس میں اپنی شکل اپنے خدوخال ، اپنی عقل ، اپنے علم ، اپنے مدرکات ، اپنی روح اور اپنے شعور کے اعتبار سے بالکل جدا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں اس کائنات کا جو تصور ہے وہ دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ اب دیکھئے کہ اس خدائی نمائش گاہ میں لاکھوں افراد ہیں اور ہر فرد ایک علیحدہ نمونہ ہے اور ہر فرد کا مزاح بالکل الگ ہے اور ویسا شخص دوبارہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس شخص کے اندر یہ پوری کائنات گزر جاتی ہے اور اس کی صورت کی نقل نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تک کہ انگلیوں کی لکیریں بھی دنیا میں ہر شخص کی جدا ہوتی ہیں اور انہیں دہرایا نہیں جاسکتا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں بھی جو لوگ گز رے ہیں ان میں سے بھی کسی شخص کی انگلیوں کی لکیریں دہرائی نہیں جاسکتیں۔

جنس انسانی کے عجائبات میں سے بہت سے عجائبات ایسے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہماری آنکھیں ان کو دیکھ رہی ہیں۔

وفی انفسکم افلا تبصرون (51 : 12) ” اور تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں “

اور انسانی آنکھیں جن عجائبات کو بھی دیکھیں یہ عالم غیب کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نشانات ہیں ایک بنانے والے خالق کے۔

نفس انسانی کے اندر جو عجائبات اور معجزات ہیں ان کو ایک کتاب میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا۔ آج تک جو عجائبات ہمیں معلم ہوچکے ہیں اور جن کا انکشاف ہوگیا ہے ان کے لئے بھی کئی جلدیں درکار ہیں اور اس سلسلے میں جو مجہول ہیں ، ماضی کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ ہیں۔ قرآن کریم نے ان کو گنوایا نہیں ہے۔ ہاں قرآن کریم نے دل و دماغ کو جھنجھوڑا ضرور ہے کہ جاگو اور غور وفکر کرو ، احساس کرو اور اللہ کے اس عجائب گھر میں آنکھیں کھول کر چلو ، غور وفکر کرو اور اس کائنات سے بھی پہلے اپنے نفس میں غور وفکر کرو ، تم جس طر آفاق سے غافل ہو اس طرح اپنی ذات سے بھی غافل ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے خوشگوار لمحات وہی ہوتے ہیں جن میں انسان اپنی تخلیق اپنی خصوصیات اپنے خدوخال اپنی حرکات اور اپنی عادات پر غور کرے اور ایک عابد بندے کی طرح اللہ کے اس عجائب گھر کی سیر کرے اور دیکھے کہ اللہ کس قدر برکت والا ہے لیکن انسان ہے کہ ایک طویل عمر اس عجائب گھر میں گزار رہا ہے اور بغیر احساس کے گزار رہا ہے۔

اس طرح احساس عطا کرکے قرآن مجید انسان کو بالکل ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے ۔ ایک جدید شعور ، ایک جدید سوچ ، ایک جدید زندگی اور یہ شعور پسندیدہ متاع حیات ہے کہ اس دنیا کی کوئی بھی نعمت اس کے مقابلے میں ہیچ ہے۔

تامل اور ادراک کے اس اسلوب کے ساتھ قرآن انسان کی تربیت کرتا ہے لیکن اس تربیت کا بنیادی نکتہ ایمانی ہے۔ اگر ایمان نہ ہو تو قرآن جو کچھ انسان کو دینا چاہتا ہے وہ اسے اخذ نہیں کرسکتا۔ ایمان ہی انسان کو اس متاع حیات کے اہل بناتا ہے۔ یہ نہایت ہی اونچا اور برتر اور عالم بالا کا متاع حیات ہے۔ انسان کے پاؤں زمین پر ہوتے ہیں اور اس کا شعور عالم بالا میں ہوتا ہے۔

پہلے انسان کو اس کائنات کی جھلک دکھائی گئی ، پھر اسے اس کے نفس کے عجائبات کی ایک جھلک دکھائی گئی ، اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ انسان کا رزق اس کی تقسیم اور اس کا حصہ رسدی بھی آسمانوں سے تقسیم ہوتا ہے اور تمہاری آخری منزل بھی آسمانوں ہی میں ہے۔

اردو ترجمہ

آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee alssamai rizqukum wama tooAAadoona

وفی السمائ ........ توعدون (51 : 22) ” آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ “ بظاہر یہ ایک عجیب ہدایت اور توجہ مبذول کرنے کا ایک اشارہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسباب رزق زمین میں ہیں انسان ان اسباب کے اندر جدوجہد کرتا اور اس سعی اور جہد کے نتیجے میں بھی رزق کا انتظام کرتا ہے لیکن قرآن انسان کی نظروں کو آسمانوں کی طرف پھیرتا ہے۔ عالم ظاہر سے عالم غیب کی طرف لے جاتا ہے تاکہ وہ وہاں اپنے نصیبہ رزق کی امید کرے۔ رہی یہ بات کہ زمین اور اس کے اندر اسباب رکھے گئے تو یہ تو یقین کرنے والوں کے لئے آیات ہیں۔ ان آیات ونشانات کو دیکھ کر انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تاکہ اللہ سے بہتر رزق کا امیدوار ہو اور زمین کے بوجھ اور زمین کی پستیوں سے وہ آزاد ہو۔ اس طرح رزق کے اسباب ظاہرہ سے بھی آزاد ہو۔ یہ نہ ہو کہ یہ ظاہری اسباب انسان اور خالق الاسباب کے درمیان حائل ہوجائیں اور وہ ان ظاہری اسباب ہی کے اندر گم ہوجائے۔

دل مومن اس ہدایت کو ایک حقیقت کے طور پر لیتا ہے۔ اسے سمجھتا بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس ہدایت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ زمین اور زمین کے اسباب سے صرف نظر کردیا جائے۔ اس لئے کہ انسان زمین کے اسباب کو کام میں لانے اور یہاں زمین کے اوپر فریضہ خلافت الٰہیہ کے تقاضے پورے کرنے کا مکلف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ دل کو اسباب ارض کے ساتھ نہ باندھ دے اور اس زمین کی تعمیر اور ترقی میں مصروف ہوکر خدا کو نہ بھلا دے بلکہ اس کا رویہ یہ ہو کہ وہ زمین میں کام کررہا ہو اور اس کی نظریں آسمانوں پر ہوں۔ وہ اسباب کو کام میں لائے مگر یقین یہ کرے کہ وہ اسباب اس کے فرائض نہیں ہیں بلکہ رازق آسمانوں میں ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے اور ہوتا وہی ہے جو اللہ نے فرمایا۔

یوں ایک مومن کا دل ان اسباب کی گرفت سے آزاد ہوجاتا ہے جو زمین میں ہیں بلکہ وہ ان اسباب کے ذریعے ہی آسمانوں کی بادشاہت تک پہنچتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ ان اسباب کے اندر بھی عجائبات ہیں جو خالق اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں تو وہ انہی کے ذریعہ خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ اگر چہ اس کے پاؤں زمین پر انہی اسباب کے اندر ہوتے ہیں لیکن اس کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں۔ یہی طریقہ ہے جو اللہ نے انسان کے لئے پسند کیا ہے اور یہی طریقہ اللہ نے اپنے ان بندوں کے لئے تجویز کیا ہے جن کو اس نے مٹی سے پیدا کیا۔ ان میں اپنی روح پھونکی اور انہیں اس جہاں کی تمام مخلوقات پر فضیلت دے دی۔

ایمان ایک وسیلہ اور سبب ہے اس بات کا کہ انسان بہترین حالات زندگی میں ہو جب انسان ایمان کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اس حالت میں ہوتا ہے جس میں اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ یہ اللہ کی اس فطرت پر ہوتا ہے جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ انسان پر حالت فساد اور حالت گمراہی بعد میں طاری ہوتی ہے۔

ان تین جھلکیوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد یعنی زمین کی نشانیوں ، نفس کی نشانیوں اور آسمانوں کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد اللہ اپنی ذات کی قسم اٹھا کر یقین دلاتا ہے کہ یہ باتیں اسی طرح سچ ہیں جس طرح تمہاری باتیں۔

اردو ترجمہ

پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fawarabbi alssamai waalardi innahu lahaqqun mithla ma annakum tantiqoona

فو رب ........ تنطقون (51 : 32) ” پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی ، یہ بات حق ہے ، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔ “

یہ بات کہ وہ بیٹھے ہوئے مصروف گفتگو ہیں ، ایک حقیقت ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے نہ اس میں کوئی کلام ہے۔ اسی طرح یہ کلام ایک یقینی کلام ہے اور اللہ سب سے زیادہ سچائی والا ہے۔

اصمعی نے ایک عجیب بات نقل کی ہے اور علامہ زمحشری نے کشاف میں اسے نقل کیا ہے۔ روایت کی صحت کے بارے میں تحفظ رکھتے ہوئے ہم اسے یہاں اس لئے نقل کرتے ہیں کہ بات بڑی عجب ہے۔ کہتے ہیں ” میں بصرہ کی جامع مسجد سے واپس آرہا تھا کہ ایک دیہاتی اپنے سواری کے اونٹ پر نمودار ہوا۔ اس نے کہا ” تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے “ میں نے کہا ” بنی اصمع سے “ اس نے کہا ” تم کہاں سے آئے ہو “ میں نے کہا ” ایک ایسی جگہ سے جس میں رحمان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔ “ اس نے کہا تو مجھ پر پڑھئے تو میں نے پڑھا۔

والذاریات ............ جب میں یہاں تک پہنچا۔

وفی السمائ ........ توعدون (51 : 22) ” آسمانوں ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ “ اس نے کہا بس یہ کافی ہے۔ وہ کھڑا ہوا اور اپنے اونٹ کو ذبح کردیا اور راستے پر جو آتا جاتا ان پر تقسیم کرتا جاتا۔ اس نے اپنی تلوار اور تیر کو زمین پر دے مارا اور توڑ دیا اور چلا گیا۔ جب میں ہارون الرشید کے ساتھ صبح کے وقت طواف کرنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہی شخص میرے ساتھ نرم آواز سے گفتگو کررہا ہے۔ میں نے اسے پہچان لیا کہ یہ تو وہی اعرابی ہے۔ یہ دبلا پتلا اور زرد رنگ کا ہے۔ تو اس نے سلام کیا جب میں اس جگہ تک پہنچا۔

وما توعدون (51 : 22) تک تو اس نے پکار کر کہا۔ حقیقت ہے کہ ہمارے رب نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے پا لیا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اس کے سوا اور بھی کوئی بات ہے تو میں نے پڑھا۔

فوارب ........ لحق (51 : 32) ” پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی یہ بات حق ہے۔ “ اس شخص نے آواز بلند کی اور کہا یا سبحان اللہ ! کون تھا جس نے رب ذوالجلال کو اس قدر غصہ دلایا کہ اس نے حلف اٹھایا ؟ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق نہ کی۔ یہاں تک کہ رب کو قسم اٹھانے پر مجبور کیا۔ یہ بات اس نے تین بار کہی اور اس کی روح پرواز کرگئی۔ “ یہ ایک عجیب کہانی ہے۔ صحیح ہوگی یا نہ ہوگی لیکن ہم نے اسے یہاں اس لئے نقل کیا ہے کہ رب ذوالجلال کی قسم کی وجہ سے اس بات کی اہمیت اور زیادہ ہوتی ہے جس پر قسم اٹھائی گئی جبکہ بغیر حلف اور قسم کے بھی وہ عظیم حقیقت ہے۔

یہ تو تھا اس سورة کا پہلا حصہ ، دوسرے حصے میں حضرت ابراہیم ، حضرت لوط ، حضرت موسیٰ ، عاد قوم ہود ، ثمود قوم صالح اور حضرت نوح (علیہم السلام) کے قصص کی طرف مختصر اشارات ہیں۔ یہ حصہ بھی ماقبل اور مابعد سے مربوط ہے۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ataka hadeethu dayfi ibraheema almukrameena

اس دوسرے حصے میں بھی نبیوں کی تاریخ سے آیات الٰہیہ کا ذکر ہے جس طرح پہلے حصے میں آیات تکوینی اور آیات ونفس کا ذکر ہوا تھا اور یہ بھی اللہ کے سچے وعدے تھے اور انہوں نے حقیقت کا روپ اختیار کیا جس طرح پہلے حصے میں اللہ کے سچے وعدے کا ذکر تھا۔

بات کا آغاز حضرت ابراہیم کے مہمانوں کے بارے میں ایک سوال سے ہوتا ہے۔

ھل اتک حدیث ضیف ابراھیم المکرمین (51 : 42) ” اے نبی کیا ابراہیم .... کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے ؟ “ اس سوال میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذہنوں کو اس حکایت کے لئے تیار اور متوجہ کرنا ہے اور مہمانوں کے لئے ” مکرمین “ کا لفظ استعمال ہوا ہے یا تو وہ اللہ کے نزدیک مکرم اور معزز تھے یا اس طرف اشارہ ہے کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمان تھے اور انہوں نے ان کی تکریم کی۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کس قدر کریم اور تخی تھے اور کس طرح مہمان نوازی پر مال لٹاتے تھے۔ ادھر سے مسلمان آتے ہیں ان کو سلام کرتے ہیں اور وہ بھی سلام کرتے ہیں۔ آپ ان مہمانوں کو پہچانتے نہیں اور علیک سلیک کے بعد اہلیہ کو جاکر کھانا تیار کرنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ کھانا بھی آناً فاناً تیار ہوتا ہے اور جلدی ایک وافر مقدار میں ایک بھنا ہوا بچھڑا مہمانوں کے سامنے حاضر ہے جو دسیوں آدمیوں کے لئے کافی ہے۔

اردو ترجمہ

جب وہ اُس کے ہاں آئے تو کہا آپ کو سلام ہے اُس نے کہا "آپ لوگوں کو بھی سلام ہے کچھ نا آشنا سے لوگ ہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith dakhaloo AAalayhi faqaloo salaman qala salamun qawmun munkaroona

اردو ترجمہ

پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لا کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faragha ila ahlihi fajaa biAAijlin sameenin

فراغ الی ........ الیھم (15 : 72) ” پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک بھنا ہوا موٹا تازہ بچھڑا مہمانوں کے آگے پیش کیا۔ “ حالانکہ روایات کے مطابق ان کی تعداد تین تھی۔ ان کے لئے تو ایک بازہ ہی کافی تھا۔

اردو ترجمہ

مہمانوں کے آگے پیش کیا اُس نے کہا آپ حضرات کھاتے نہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqarrabahu ilayhim qala ala takuloona

قال الا تاکلوان (15 : 72) ” اس نے کہا آپ حضرات کھاتے نہیں ؟ “ یہ سوال انہوں نے تب کیا جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے اور نہ کوئی ایسے آثار ہیں کہ وہ کھانا کھائیں گے۔

اردو ترجمہ

پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا انہوں نے کہا ڈریے نہیں، اور اُسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faawjasa minhum kheefatan qaloo la takhaf wabashsharoohu bighulamin AAaleemin

فاوجس منھم خیفة (15 : 82) ” پھر وہ دل میں ان سے ڈرا “ یا تو اس لئے کہ آنے والا اجنبی اگر کھانا نہیں کھاتا تو اس کی نیت خراب ہے۔ وہ کوئی شریا خیانت کرنے کی نیت سے آیا ہے یا یہ کہ حضرت ابراہیم نے ان فرشتوں کے اندر کوئی عجیب علامات دیکھ لیں۔ جب انہوں نے ان کے چہرے خوف کے آثار دیکھے تو انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ ان کو اطمینان دلایا اور آپ کو ایک بیٹے کی بشارت دی۔

قالوا ........ علیم (15 : 82) ؟ ؟ انہوں نے کہا ڈرو نہیں اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا “ یہ بشارت حضرت اسحاق کے بارے میں تھی جو ان کی بانجھ بیوی سے پیدا ہوئے تھے۔

اردو ترجمہ

یہ سن کر اُس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی، "بوڑھی، بانجھ!"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faaqbalati imraatuhu fee sarratin fasakkat wajhaha waqalat AAajoozun AAaqeemun

فاقبلت ........ عقیم (15 : 92) ” یہ سن کر ان کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی بوڑھی بانجھ “ اس نے یہ خوشخبری سن لی تھی۔ اچان کہ یہ خوشخبری اس کی تو چیخ نکل گئی اور عورتوں کی عادت کے مطابق اس نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور یہ کہہ دیا میں بوڑھی ہوں بانجھ ہوں تو یہ سب امور اس کے لئے خوشگوار حیرت کے باعث ہوئے اور در حقیقت وہ بانجھ تھی اور یہ خبر اس کے لئے اچانک خوشی کی خبر تھی جس کی وہ کسی طرح توقع نہ کرتی تھی لیکن وہ یہ بات بھول گئی کہ یہ خوشخبری تو فرشتے دے رہے ہیں تو فرشتوں نے اسے متوجہ کیا کہ یہ تو قدرت الٰہیہ ہے اور جہاں میں تمام امور علم الٰہی کے مطابق رونما ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

انہوں نے کہا "یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo kathaliki qala rabbuki innahu huwa alhakeemu alAAaleemu

قالوا ........ العلیم (15 : 03) ” انہوں نے کہا ” یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ “ یعنی اللہ جس چیز کو کہہ دے کہ ہوجا تو ہوجاتی ہے اور اللہ نے ایسا کہہ دیا ہے تو اس کے بعد اب شک کی گنجائش کیا ہے۔ کسی کام کا عادی ہونا اور اس کام کا آنکھوں کے سامنے ہوتے رہنا ایسی باتیں ہیں جو انسانی اور اک کو بیڑیاں پہنا دیتا ہے اور اشیاء کے بارے میں انسان کا تصور محدود ہوجاتا ہے۔ پھر جب انسان اس عادی اور روٹین کے طریق کار سے کوئی مختلف بات دیکھتا ہے تو وہ ششدر رہ جاتا ہے اور وہ تعجب کرتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔ بعض اوقات پھر وہ کبر کرتے ہوئے اس کا انکار کردیتا ہے لیکن اللہ کی مشیت تو اپنی راہ لیتی ہے۔ وہ لوگوں کی مالوفات کی پابند نہیں ہے۔ انسان کا دائرہ ادراک اور اس کا دائرہ امور عادیہ بہت محدود ہے جبکہ اللہ کی قدرتیں بہت ممدود (پھیلی ہوئی) ہیں۔

521