اس صفحہ میں سورہ Adh-Dhaariyat کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الذاريات کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 7{ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ۔ } ”اور قسم ہے جالی دار آسمان کی۔“ یہ اس منظر کی طرف اشارہ ہے جو رات کے وقت تاروں بھرا آسمان پیش کرتا ہے۔
آیت 8{ اِنَّـکُمْ لَـفِیْ قَـوْلٍ مُّخْتَلِفٍ۔ } ”یقینا تم لوگ ایک جھگڑے کی بات میں پڑگئے ہو۔“ یعنی آخرت کے بارے میں تم ایک اختلاف میں پڑگئے ہو اور تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
آیت 9{ یُّـؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ۔ } ”اس سے وہی پھیرا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہے۔“ تم میں سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو وحی کے اس پیغام کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے اور جزا و سزا کے متعلق مختلف باتیں بناتے رہتے ہیں۔ حالانکہ جزاو سزا کا معاملہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کو تسلیم کرنے سے وہی شخص باز رہے گا جو راندئہ درگاہ ہے اور خیر وسعادت کے راستوں سے پھیر دیا گیا ہے۔
آیت 10{ قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ۔ } ”ہلاک ہوجائیں یہ اٹکلیں دوڑانے والے۔“
آیت 1 1{ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ۔ } ”جو اپنی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“ انہیں نہ تو اپنے مقصد تخلیق کی خبر ہے اور نہ اپنے انجام کی فکر۔ حتیٰ کہ وہ اپنے اس عہد کو بھی بھولے ہوئے ہیں جو عالم ارواح میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا۔ سورة الاعراف کی آیت 172 میں اس عہد کا ذکر اس طرح ہوا ہے :{ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْج اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰیج شَہِدْنَاج } ”اور یاد کرو جب نکالا آپ ﷺ کے رب نے تمام بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو اور ان کو گواہ بنایا خود ان کے اوپر ‘ اور سوال کیا کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! ہم اس پر گواہ ہیں۔“انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس عہد کا ”عرفان“ اس کی روح کے اندر موجود ہوتا ہے۔ لیکن دنیوی زندگی کے دوران بعض لوگوں کی ارواح غفلت میں اس قدر ڈوب جاتی ہیں کہ انہیں اپنے رب سے کیا ہوا یہ عہد یاد ہی نہیں رہتا۔ زیر مطالعہ آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے۔
آیت 12{ یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ۔ } ”وہ پوچھتے ہیں کب آئے گا وہ جزا و سزا کا دن !“ مشرکین یہ سوال طنزیہ انداز میں کرتے تھے کہ آپ ﷺ کہتے رہتے ہیں کہ جزائے اعمال کا دن آکر رہے گا ‘ تو آخر کب تک آئے گا وہ روز جزا ؟ چناچہ ان کے اس سوال کا جواب بھی انہیں اسی انداز میں دیا جا رہا ہے :
آیت 13{ یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ۔ } ”جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے۔“ چونکہ مشرکین یہ سوال غیر سنجیدہ انداز میں کرتے تھے اس لیے جواب میں ان کے لیے ڈانٹ کا انداز پایاجاتا ہے۔
آیت 14{ ذُوْقُوْا فِتْنَـتَـکُمْ ط ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔ } ”اُس دن ان سے کہا جائے گا اب چکھو مزا اپنی شرارت کا۔ یہ ہے وہ عذاب جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے۔“ تم لوگ ہمارے رسول ﷺ کو چیلنج کیا کرتے تھے ناکہ لے آئو ہم پر عذاب اگر لاسکتے ہو۔ چناچہ یہ ہے آج تمہارے اس مطالبے کا جواب۔ اب چکھو اس عذاب کا مزا !
آیت 15{ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ۔ } ”یقینا اہل تقویٰ باغات اور چشموں کے اندر ہوں گے۔“
آیت 16{ اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰٹہُمْ رَبُّہُمْط اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ۔ } ”وہ شکریے کے ساتھ لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے پہلے نیکوکار تھے۔“ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے درجہ احسان تک پہنچے ہوئے تھے۔
آیت 17{ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّـیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ۔ } ”رات کا تھوڑا ہی حصہ ہوتا تھا جس میں وہ سوتے تھے۔“ ان لوگوں کی راتوں کا بیشتر حصہ اپنے رب کے حضور حاضری میں گزرتا تھا۔ سورة الفرقان میں ”عباد الرحمن“ کے اس معمول کا ذکر اس طرح آیا ہے : { وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا۔ } ”اور وہ لوگ راتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہوئے۔“
آیت 18{ وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔ } ”اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔“
آیت 19{ وَفِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ } ”اور ان کے اموال میں سائل اور محتاج کا حق ہوا کرتا تھا۔“ انہوں نے اس حقیقت کو قبول کر رکھا تھا کہ ان کے پاس اللہ کا دیا جو کچھ بھی ہے اس میں فقراء و مساکین کا بھی حصہ ہے اور وہ متعلقہ لوگوں کا حق ان تک پہنچایا بھی کرتے تھے۔
آیت 20{ وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۔ } ”اور زمین میں ہر چہارطرف نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے۔“ سورة البقرۃ ‘ آیت 164 آیت الآیات میں اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔
آیت 21{ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”اور تمہاری اپنی جانوں میں بھی نشانیاں ہیں۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟“ یعنی انسان کے جسم اور جسم کے ایک ایک نظام کے اندر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرے۔ مرزا بیدل ؔ نے اس خوبصورت شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر ِسرو وسمن درآ تو زغنچہ کم نہ دمیدئہ درِ دل کشا بہ چمن درآ ! اے انسان ! بڑے ستم کی بات ہے اگر تجھے تیری خواہش نفس کسی باغ کی سیر کے لیے کھینچ کرلے جاتی ہے ‘ جبکہ خود تیری اپنی چمک دمک کسی پھول سے کم نہیں ہے۔ کبھی اپنے دل کا دروازہ کھول کر اس چمن کی سیر کے لیے بھی آئو جو تمہاری روح کے اندر اللہ تعالیٰ نے مہکا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی تخلیق اور اپنے وجود پر غور کرے اور اس اعتبار سے اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانے۔ بقول مرزا بیدلؔ : ؎ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش ِآدمی اے بہارِ نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! اس شعر کی تشریح سورة النحل کی آیت 40 کے تحت بیان ہوئی ہے۔
آیت 22{ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ۔ } ”اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارا رزق بھی طے شدہ ہے اور تمہارے جنت یا دوزخ میں جانے کا فیصلہ بھی اسی کی مشیت سے ہونا ہے۔
آیت 23{ فَوَرَبِّ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَ۔ } ”تو آسمانوں اور زمین کے رب کی قسم ‘ یقینایہ حق ہے ‘ بالکل ایسے جیسے اِس وقت تم بات چیت کر رہے ہو۔“ یعنی بعث بعد الموت شدنی ہے ‘ برحق ہے ‘ قیامت آکر رہے گی۔
آیت 24{ ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ۔ } ”کیا آپ ﷺ کے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبرپہنچی ہے !“ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب فرشتے انسانی شکلوں میں مہمان بن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھر آئے تھے۔
آیت 25{ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط } ”جب وہ اس کے ہاں داخل ہوئے تو انہوں نے سلام کہا۔“ { قَالَ سَلٰـمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ۔ } ”اس نے بھی جواب میں سلام کہا اور دل میں کہا کہ یہ تو کوئی اجنبی لوگ ہیں۔“
آیت 26{ فَرَاغَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ۔ } ”پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک بھنا ہوا موٹا تازہ بچھڑا لے آیا۔“ سورة ہود آیت 69 میں ”عِجْلٍ حَنِیْذٍ“ بھنا ہوا بچھڑا کے الفاظ آئے ہیں۔ پرانے زمانے کی دعوتیں اسی انداز سے ہوا کرتی تھیں کہ جانور ذبح کیا اور گھی میں تل کر یا بھون کر پورے کا پورا مہمانوں کے سامنے حاضر کردیا۔
آیت 27{ فَقَرَّبَہٗٓ اِلَیْہِمْ قَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ۔ } ”پھر اسے ان کی طرف بڑھایا اور کہا کہ آپ لوگ کھاتے نہیں ؟“
آیت 28{ فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃًط } ”تو اس نے ان کی طرف سے دل میں اندیشہ محسوس کیا۔“ مہمانوں کے کھانا تناول نہ کرنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اندیشہ لاحق ہوا کہ شاید یہ لوگ میرے دشمن ہیں ‘ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اسی لیے میرا نمک کھانے سے احتراز کر رہے ہیں۔ پرانے زمانے کے لوگ دشمنی میں بھی شرافت دکھاتے تھے۔ اگر کسی کا نمک کھالیا جاتا تو اس کے بعد اسے نقصان پہنچانے کا نہیں سوچا جاتا تھا۔ { قَالُوْا لَا تَخَفْ ط } ”انہوں نے کہا : آپ ڈریں نہیں۔“ { وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ۔ } ”اور انہوں نے اسے بشارت دی ایک صاحب علم بیٹے کی۔“ صاحب علم بیٹے سے مراد حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں جن کی پیدائش کی بشارت فرشتوں نے دی۔
آیت 29{ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ۔ } ”اس پر اس کی بیوی سامنے آئی بڑبڑاتی ہوئی اور اس نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور کہنے لگی : بڑھیا بانجھ بچہ جنے گی کیا ؟“ کہ میں تو ساری عمر بانجھ رہی ہوں اور اب تو میری عمر بھی ماں بننے کی نہیں رہی ‘ تو کیا اب میرے ہاں بیٹا پیداہو گا ؟
آیت 30{ قَالُوْا کَذٰلِکِ لا قَالَ رَبُّکِ ط } ”انہوں نے کہا : ایسا ہی فرمایا ہے آپ کے رب نے۔“ فرشتے جو انسانی شکل میں تھے انہوں نے جواب دیا : یقینا ایسے ہی ہوگا۔ ہم اپنی طرف سے یہ خبر نہیں دے رہے ‘ بلکہ یہ آپ کے رب کا فیصلہ ہے۔ { اِنَّہٗ ہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ۔ } ’ یقینا وہ سب کچھ جاننے والا بھی ہے اور بہت حکمت والا بھی۔“