سورہ ذاریات: آیت 20 - وفي الأرض آيات للموقنين... - اردو

آیت 20 کی تفسیر, سورہ ذاریات

وَفِى ٱلْأَرْضِ ءَايَٰتٌ لِّلْمُوقِنِينَ

اردو ترجمہ

زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wafee alardi ayatun lilmooqineena

آیت 20 کی تفسیر

اس آیت کے ذریعے انفس وآفاق میں موجود نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ تمہارے لئے رزق کے جو ذرائع مقرر کردیئے ہیں وہ آسمان سے مقرر ہیں اور اللہ اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے یہاں ذات باری کو رب سماء اور ارض کہا گیا جن کا ذکر اس سبق میں ہوچکا ہے اور جو اب قسم یہی اہم سوال ہے یعنی حشرونشر۔

وفی الارض ........ للموقنین (51 : 02) وفی ........ تبصرون (51 : 12)

” زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے اور خود تمہارے وجود میں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں “ یہ چھوٹا سا سیارہ جس کے اوپر ہم رہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی نمائش گاہ ہے۔ ان آیات وعجائبات کے لئے جو اس میں اللہ نے رکھے ہیں۔ اس نمائش گاہ میں اس دنیا کے عجائبات میں سے بہت ہی کم ابھی تک نمائش کے لئے رکھے جاسکے ہیں۔ آئے دن نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں اور نئے نئے عجائبات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کی ایک نمائش گاہ خود ہماری ذات ہے۔ نفس انسانی ، اس کی پراسرار نفسیاتی دنیا ، اس حضرت انسان کے اندر بھی اس کائنات کے اسرار موجود ہیں۔ صرف زمین کے اسرار نہیں بلکہ پوری کائنات کے اسرار۔

ان دو نمائش گاہوں کی طرف ان آیات میں مختصر اشارہ ہے کہ ان دونوں نمائش گاہوں کے دروازے تمہارے لئے کھولے جارہے ہیں لیکن فائدہ اسی شخص کو ہوگا جو ان کو دیکھنا چاہے اور جو یقین کرنا چاہے اور اپنی زندگی کی نعمتوں اور خوشیوں سے بھرنا چاہے جو علم ومعرفت اور دانائی اور عبرت حاصل کرنا چاہے جن سے اس کا دل زندہ ہوگا اور عمر زیادہ ہوگی۔

اللہ نے اپنا یہ کلام اس طرح بنایا ہے کہ اس کی مخلوقات میں سے ہر سطح کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہر صورت حال اور ہر قسم کے معاشروں کے لئے وہ رہنما ہے۔ ہر شخص ، ہر نفس اور ہر سطح کی عقل وادراک کے لئے اس کلام میں ہدایت اور دلچسپی اور علم ہے۔ ہر شخص اپنی عقلی قوت ہاضمہ کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ جوں جوں انسان علم ومعرفت میں ارتقائی منازل طے کرتا ہے ، جوں جوں اس کا دائرہ ادراک وسیع ہوتا ہے ، اس کی معلومات بڑھتی ہیں ، اس کے تجربات آگے بڑھتے ہیں اور وہ نفس اور کائنات کے اسرار حاصل کرتا ہے تو اس کا حصہ اس قرآن میں بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علوم قرآنی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کی زاد راہ اور اس کا رزق اس قرآن میں بڑھ جاتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے ” جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے اور زیادہ استعمال سے یہ پرانا نہیں ہوتا۔ “ یہ وہ الفاظ ہیں جو اس کے بارے حضور اکرم نے فرمائے کیونکہ اس کے اسرار و رموز سے زیادہ واقف حضور ہی ہیں۔ یہ زندہ تجربہ تھا جو آپ کو قرآن کے بارے میں ہوا اور جس کو آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ﷺ

جن لوگوں نے پہلی مرتبہ قرآن کو سنا تھا انہوں نے اس کائنات میں پائے جانے والے دلائل ونشانات کو اور خود ان کے نفوس کے اندر جو دلائل ونشانات تھے ان کو اس وقت کے علم ومعرفت کے مطابق سمجھا تھا۔ ان کے بعد آنے والی نسلوں نے بھی اپنے علم ومعرفت اور اپنے تجربات کے مطابق ان آیات کو سمجھا اور بیان کیا۔ آج ہم بھی اپنا حصہ پا رہے ہیں جس قدر علم ومعرفت اور جس قدر تجربات وانکشافات ہمارے سامنے آج تک آچکے ہیں ، آج ہم تک جو علوم اور تجربات پہنچے ہیں وہ اس عظیم کائنات اور انسان کے پر پیچ نفس کے آیات ونشانات میں سے بہت ہی قلیل حصہ ہیں۔ ہم سے بعد میں آنے والی نسلوں کو ہمارے مقابلے میں زیادہ آیات ونشانات ملیں گے۔ اس کائنات میں بھی اور نفس انسانی میں بھی اور قیامت تک اس نمائش گاہ عالم اور نمائش گاہ نفس انسانی میں نئے نئے عجائبات برائے نمائش رکھے جاتے رہیں گے۔

یہ زمین ، زندگی کے لئے تیار شدہ سیارہ ، جو زندگی کا گہوارہ ہے اور جسے زندگی کی تمام ضروریات سے لیس کیا گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس عظیم اور ہولناک کائنات میں یہ واحد سیارہ ہے جسے حیات کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں ایک جگہ رکے ہوئے ستارے بھی ہیں اور مداروں میں چلنے والے سیارے بھی ہیں۔ ان میں سے جو ہمیں معلوم ہیں ان کی تعداد اربوں میں ہے اور یہ یادرکھنا چاہئے کہ اس کائنات کا جو حصہ معلوم ہے وہ نسبتاً بہت ہی کم ہے۔ اس میں کئی ملین کہکشاں ہیں اور ہر کہکشاں کے کروڑ ہا ستارے ہیں اور ان کے کواکب ہیں جو ان ستاروں کے ارد گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔

ان سیاروں میں سے صرف یہ زمین ہی ایک سیارہ ہے جسے اس پر موجود زندگی کے لئے عجیب خصوصیات دی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر خصوصیت ایک نشانی ہے۔ اگر ان خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بھی ختم ہوجائے یا اس کے اندر کچھ ردوبدل ہوجائے تو زمین کے اوپر سے ہر قسم کی زندگی کا وجود ہی خطم ہوجائے۔ اگر اس زمین کا حجم بدل جائے ، ٹیٹرھی ہوجائے یا چھوٹی ، اگر سورج سے اس کا فاصلہ بدل جائے ، کم ہوجائے یا زیادہ ، اگر سورج کا حجم بدل جائے اور اس کا درجہ حرارت بدل جائے اور یہ زمین اپنے محور پر جس طرح جھکی ہوئی ہے اگر اس کے اس جھکاؤ میں کوئی تغیر واقع ہوجائے اگر اس کی گردش محوری یا سورج کے گرد اس کی سالانہ گردش میں کمی بیشی آجائے اگر چاند کا حجم متغیر ہوجائے یا زمین سے قریب یا دور ہوجائے۔ اگر زمین کے اندر تری اور خشکی کی نسبت بدل جائے ، غرض اگر ، اگر ، اگر .... اور ہزار ہا اگر ، اگر ان ہزارہا موافقات اور سہولیات میں سے کوئی ایک بھی بدل جائے تو اس سیارے پر سے اس خوبصورت زندگی کا نام ونشان ہی ختم ہوجائے۔

کیا یہ ایک چیز نشانی نہیں ، کیا یہ سب چیزیں نشانات نہیں جو بتاتی ہیں کہ ایک ذات ہے جس نے ان کو منظم کیا ہے ، فراہم کیا ہے۔

اور خوراک اور رزق کی مختلف اقسام جو اس زمین پر رہنے والی اور بسنے والی مخلوقات کے لئے اللہ نے فراہم کی ہیں۔ یہ مخلوقات سطح زمین کے اوپر رہتی ہوں ، فضا میں تیررہی ہوں ، یا پانی میں تیررہی ہوں یا زمین کے غاروں میں رہتی ہوں یا اس کے پہاڑوں میں رہتی ہوں یا اس کی وادیوں اور بستیوں میں اندر رہتی ہوں ، سب کے لئے خوراک تیار ہے۔ بعض کی مرکب ہے اور بعض کی بسیط شکل میں ہے۔ بہرحال یہ ان زندہ چیزوں کے وجود کے لئے قابل قبول ہے اور ان لاتعداد زندہ اشیاء کی ضروریات پوری کرتی ہے جس طرح زندہ مخلوقات لاتعداد انواع و اقسام کی ہیں اسی طرح ان کی خوراک بھی لاتعداد و انواع و اقسام کی ہے۔ یہ انواع خوراک جو زمین کے اندر ہیں جو بہتی اور چلتی ہیں جو ہوا میں ہیں جو سطح زمین پر اگتی ہیں جو سورج سے آرہی ہیں جو دوسرے جہانوں سے آرہی ہیں جو تمہیں معلوم ہی نہیں لیکن یہ ہر قسم کی خوراک ان زندہ اشیاء کے لئے ہر طرف سے چلی آرہی ہے اور بڑی مقدار میں چلی آرہی ہے۔ اللہ کی مشیت اور اس کی تدبیر کے مطابق یہ ایک عظیم خزانہ اور اسٹو رہے جو ان لاتعداد انواع و اقسام کے کھانے والوں کے لئے سپلائی پوری کراتا ہے۔ یہ ہے ربانی سٹورالرزاق کا انتظام۔

پھر اس زمین کے مناظر ومشاہد کی رنگارنگی ، جہاں تک بھی نظر جاسکتی ہو جہاں جہاں بھی قدم جاسکے ہوں یہ بھی اپنی جگہ عجائبات ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ تنگ گڑھے اور کشادہ نالے ، وادیاں اور پہاڑ ، سمندر اور بحیرے ، نہریں اور نالیاں اور باغات کے ٹکڑے ٹکڑے ، انگور اور کھجور ، اکہرے اور دوہرے ، یہ سب مناظر اور مشاہد ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنانے والے کے کمالات کا یہ عجوبہ ہیں۔ ان میں مسلسل تغیرات ہوتے رہتے ہیں اور یہ کسی وقت بھی ایک حالت میں نہیں ہوتے۔ انسان ایک زمین پر گزرتا ہے تو وہ خشک اور قحط زدہ نظر آتی ہے یہ بھی ایک منطر ہے اور پھر کیا دیکھتا ہے کہ وہ سر سبز اور نعمتوں اور چارہ سے بھری ہوتی ہے تو یہ بھی ایک منظر ہے۔ کبھی نہایت ہی سر سبزی اور شاداں ہوتی ہے۔ یہ ایک منظر ہے۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ تمام زمین زرد اور خشک ہوگئی اور فصل کٹنے والی ہے۔ یہ بھی ایک منظر ہوتا ہے اور وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے بالکل ادھر ادھر نہیں گیا ہوتا ہے۔

وہ تمام مخلوقات جو اس زمین کو آباد کررہی ہیں مثلاً زندہ مخلوقات نباتات وحیوانات ، مچھلیاں اور پرندے چوپائے اور حشرات اور انسان قرآن نے ان کا تذکرہ ایک ہی آیت میں کیا ہے۔

یہ مخلوقات جن کے انواع و اقسام کی تعداد کا بھی پوری طرح ہمیں علم نہیں ہے یہ تو دور کی بات ہے کہ ایک نوع کے افراد گنے جاسکیں۔ یہ تو محال ہے۔ ان میں سے ہر نوع کی مخلوقات ایک امت ہے اور ان کا ہر ایک فرد ایک عجوبہ ہے۔ ہر حیوان ، ہر پرندہ ، ہر چرندہ اور ہر کیڑا ، ہر پودا نہیں بلکہ ہر پودے کی ہر شاخ اور ہر شاخ کا ہر پتہ اور ہر شاخ کا ہر پھول اور ہر پھول کی ہر پتی یہ اللہ کی ایک نمائش گاہ ہے جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔

اگر انسان بیان کرنے لگے بلکہ تمام انسان بیک وقت بیان کرنے لگیں وہ غور کریں اور لکھیں اور بیان کریں کہ اس زمین میں کیا کیا نشانات الٰہیہ ہیں اور کیا کیا عجائبات ہیں تو نہ ان کی بات ختم ہو اور نہ ہی عجائبات واشارات ختم ہوں۔ قرآن کی یہ آیت تو صرف اس قدر بیان کرتی ہے کہ انسان کا دل و دماغ غور وفکر کے لئے بیدار ہوجائے اور اس عظیم الشان نمائش میں جو چیزیں قدرت نے رکھی ہیں ان کو دیکھیں اور روشنی میں لائیں سمجھیں اور سمجھائیں۔ ہنسیں اور ہنسائیں اور یوں اس کرہ ارض پر اپنے اس مختصر سفر کو خوشگوار بنائیں۔

لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان عجائبات کا ادراک وہی کرسکتا ہے اور ان کے ذریعے زندگی کے اس مختصر سفر کو وہی خوشگوار بنا سکتا ہے جس کا دل یقین سے بھر چکا ہو۔

وفی الارض ایت للموقنین (51 : 02) ” اور زمین میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں “ یہ یقین ہی ہے جو آنکھوں کو بینائی فراہم کرتا ہے تو وہ دیکھتی ہیں۔ یہ ایمان ہی ہے جو زمین کے ان مظاہر قدرت کو زندگی دیتا ہے اور وہ اپنے اسرار اور موز بتاتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ان کی پشت پر دست قدرت کی کیا کیا کارستانیاں ہیں۔ بغیر ایمان کے یہ سب مناظر ومشاہد مردہ پڑے رہتے ہیں۔ جامد ہوجاتے ہیں اور مفہوم سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ ایمان سے خالی دل سے ہمکلام نہیں ہوتے۔ وہ اس کے ساتھ ہمقدم ہوکر نہیں چلتے۔ کئی ایسے انسان ہیں جو اللہ کی اس نمائش گاہ میں چلتے پھرتے ہیں لیکن انہیں اس میں نظر کچھ نہیں آتا۔ ان کو یہ کائنات زندہ اور گویا نظر نہیں آتی۔ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے دلوں کو ایمان کے لمس سے زندگی نہیں بخشی۔ ان کے لئے ان کا ماحول زندہ نہیں ہے۔ بعض ایسے لوگوں میں بڑے بڑے علماء اور سائنس دان بھی ہوسکتے ہیں۔

یعلمون ........ الدنیا ” مگر وہ اس دنیا کی زندگی کے صرف چھلکے کے عالم ہیں “ رہی اس دنیا کی اندرونی حقیقت تو وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ کوئی بھی دل اس کائنات کی حقیقت کو ایمان کی کنجی سے کھول سکتا ہے کوئی بھی آنکھ صرف ایمان کی روشنی سے ان حقائق کو دیکھ سکتی ہے۔ صدق اللہ العظیم ........

آیت 20{ وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۔ } ”اور زمین میں ہر چہارطرف نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے۔“ سورة البقرۃ ‘ آیت 164 آیت الآیات میں اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔

آیت 20 - سورہ ذاریات: (وفي الأرض آيات للموقنين...) - اردو