سورة الضحى: آیت 6 - ألم يجدك يتيما فآوى... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورة الضحى

أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَـَٔاوَىٰ

اردو ترجمہ

کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yajidka yateeman faawa

آیت 6 کی تفسیر

الم یجدک .................... فاغنی

ذرا اپنے عملی حالات پر غور کرو ، ماضی قریب پر نگاہ ڈالو ، کیا تمہارا ماضی یہ بتاتا ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اور تم سے ناراض ہوگیا ہے ، یا کچھ اور بتاتا ہے ۔ آپ پر تو نبوت سے پہلے بھی رب کا فضل رہا ہے ، جب آپ یتیم تھے تو آپ کی نگرانی کون کررہا تھا ، جب آپ حیران تھے اور راستہ معلوم نہ تھا تو آپ کو کس نے راستہ بتلایا۔ پھر آپ نادار تھے ، آپ کو کس نے مالدار بنا دیا ........ آپ یتیم پیدا ہوئے تھے ، اللہ نے آپ کو پناہ دی ، لوگوں کے دل آپ پر مائل ہوگئے ، اور ابوطالب آپ پر مہربان ہوگئے حالانکہ انہوں نے آپ کے دین کو قبول نہ کیا تھا۔ آپ فقیر تھے۔ اللہ نے آپ کو یوں غنی بنایا کہ آپ کو دلی قناعت نصیب فرمائی۔ پھر آپ نے تجارت فرمائی اور گھر والوں کی دولت آپ کے ہاتھ میں رہی تو آپ سے فقر کا احساس ہی جاتارہا۔ اور ماحول میں جو لوگ اہل ثروت تھے ان کی دولت کی طرف آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے۔

آپ ایک ایسی سوسائٹی میں رہتے تھے جو جاہلی سوسائٹی تھی ، جس کی قدریں مضطرب تھیں ، عقائد و تصورات ڈانواڈول تھے۔ طرز عمل اور رسم و رواج گھناﺅنے تھے۔ آپ کی روح اس سوسائٹی میں مضطرب تھی ، آپ مطمئن نہ تھے مگر آپ کو اس سے نکلنے یا اسے بدلنے کا راستہ بھی معلوم نہ تھا ، نہ اس جاہلی سوسائٹی سے آپ مطمئن تھے ، نہ دین موسیٰ کے ماننے والوں سے مطمئن تھے۔ نہ دین عیسیٰ کے ماننے والوں سے مطمئن تھے۔ پس اللہ نے آپ کی طرف وحی بھیجی اور ایک نظام زندگی آپ کو عطا کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی گمراہی بڑی گمراہی ہوتی ہے اور افکار ونظریات کے اعتبار سے درست ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ اگر کسی پر ہوجائے تو بڑا احسان ہے۔ یہ راحت بھی ہے اور اطمینان بھی ہے۔ اور نظریاتی گمراہی اس قدر عظیم ذہنی قلق ہوتا ہے۔ جس کے مقابلے میں کوئی قلق اور اذیت نہیں ہوتی۔ اس سے ذہنی تھکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں حضور اکرم ﷺ اس قسم کی ذہنی اذیت میں مبتلا تھے کیونکہ وحی رک گئی تھی ، مشرکین ہنس رہے تھے ، اور وحی الٰہی اور مکالمہ الٰہی جیسے محبوب امر سے آپ جدائی محسوس کررہے تھے۔ ایسے مواقع پر یہ تذکرہ اور اطمینان آگیا کہ تمہارے رب نے ہرگز تمہیں نہیں چھوڑا بلکہ آغاز وحی سے قبل بھی اللہ نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا کہ آپ حیران وپریشان اور سرگرداں پھریں۔

اس حوالے سے کہ یتیمی کی حالت میں آپ کو تحفظ دیا گیا اور حیرانی کی حالت میں راستہ بتلایا گیا ، آپ کو اور آپ کے بعد اہل ایمان کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ سوسائٹی کے اندر پائے جانے والے تمام یتیموں کی کفالت کرو ، تمام سائلوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اللہ نے آپ پر جو عظیم فضل کیا ہے ، اس پر تحدیث نعمت کرو ، اور لوگوں کو دین کی طرف بلاﺅ۔

آیت 6{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی۔ } ”کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم ‘ پھر پناہ دی !“ یہ آیات سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ حضور ﷺ کے والد آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ پیدا ہی یتیمی کی حالت میں ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ کا سہارا بھی چھن گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لیا تو دو سال بعد وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ تایا زبیر بن عبدالمطلب سرپرست بنے تو کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا حضور ﷺ کی کفالت کے حوالے سے آپ ﷺ کے تایا زبیر بن عبدالمطلب کا ذکر اکثر تاریخی حوالوں میں موجود ہی نہیں۔ ایسا دراصل جناب ابوطالب کے کردار کو زیادہ نمایاں کرنے کے لیے جان بوجھ کر باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جناب ابوطالب نے آپ ﷺ کے سرپردست شفقت رکھا اور انہی کی سرپرستی میں آپ ﷺ جوانی کی عمر کو پہنچے۔ آیت کے لفظ ”فَاٰوٰی“ میں ان تمام دنیوی سہاروں کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر ہے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فراہم کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان تمام رشتہ داروں کے دلوں میں آپ ﷺ کے لیے محبت اور چاہت پیدا کی تھی۔ اسی نے آپ ﷺ کی شخصیت ایسی بنائی تھی کہ جو کوئی آپ ﷺ کو دیکھتا آپ ﷺ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بچپن میں سہارا دیا تھا۔ سورة طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حکمت کا ذکر اس طرح آیا ہے : { وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج } آیت 39 کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں نے آپ پر اپنی محبت کا َپرتو ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے تھے اور یوں وہ آپ علیہ السلام کو قتل کرنے سے باز رہے۔

آیت 6 - سورة الضحى: (ألم يجدك يتيما فآوى...) - اردو