سورة آل عمران: آیت 83 - أفغير دين الله يبغون وله... - اردو

آیت 83 کی تفسیر, سورة آل عمران

أَفَغَيْرَ دِينِ ٱللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُۥٓ أَسْلَمَ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ

اردو ترجمہ

اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و نا چار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaghayra deeni Allahi yabghoona walahu aslama man fee alssamawati waalardi tawAAan wakarhan wailayhi yurjaAAoona

آیت 83 کی تفسیر

یہ ہے کہ اسلام اور سرتسلیم خم کرنے کی ایک گہری شکل ‘ ایک ایسی شکل و صورت جو تکوینی ہے جو انسان کے شعور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جس سے انسانی ضمیر میں اللہ خوفی پیدا ہوتی ہے ۔ ایک عظیم قانون قدرت کی صورت جو قہاروجبار ہے ۔ جو تمام کائنات کی مردہ اور زندہ چیزوں کو ایک ہی سنت الٰہیہ اور شریعت الٰہیہ کے تابع فرمان بناتی ہے ۔ اور جس کے مطابق دونوں کا مال اور انجام ایک ہے ۔ یہ ہے اسلام وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ……………” اور سب نے اسی کی طرف پلٹ کرجانا ہے ۔ “…………لہٰذا یہ سب چیزیں آخرکار لازماً اسی اللہ کو پلٹ کرجائیں گی جو سب کو گھیرے ہوئے ہیں ‘ سب کا مدبر ہے اور نہایت ہی جلال و عظمت کا مالک ہے اور اس انجام سے کوئی راہ فرار نہیں ہے ۔

اگر انسان اپنی کامیابی اور سعادت چاہتا ہے ‘ اگر وہ راحت اور اطمینان چاہتا ہے ‘ اگر وہ اطمینان قلب اور صلاح حال چاہتا ہے تو اس کے لئے ماسوائے اس کے کوئی اور راہ نہیں ہے کہ اسلامی نظام زندگی کی طرف رجوع کرے ۔ اپنی ذات میں بھی ‘ اپنے نظام زندگی میں بھی اور اپنے اجتماعی نظام میں بھی تاکہ اسکی زندگی اس پوری کائنات کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے ۔ اور اس فطرت کائنات کے برخلاف اپنے لئے کوئی علیحدہ نظام زندگی وضع کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ اس لئے کہ اس کا یہ خود ساختہ نظام ‘ نظام کائنات کے ساتھ متضاد ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے ۔ اور یہ انسان طوعاً وکرہاً اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پابند ہے ۔ وہ نظام جو اس کے تصور اور شعور میں ہے ‘ جو اس کی عملی زندگی اور اس کے باہمی تعلقات میں ہے ‘ جو اس کی تمام جدوجہد اور سرگرمیوں میں ہے ۔ جب اس کائناتی نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے گا ‘ تو یہ ہم آہنگی اس کے اور اس پوری کائنات کی عظیم قوتوں کے درمیان ایک تعاون پیدا کردے گی ۔ اور ان کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے گا ‘ تو یہ ہم آہنگی اس کے اور اس پوری کائنات کی عظیم قوتوں کے درمیان ایک تعاون پیدا کردے گی ۔ اور ان کے درمیان کوئی تصادم نہ ہوگا۔ اس لئے کہ جب انسان کائناتی قوتوں کے ساتھ تصادم کی راہ لیتا ہے تو وہ پاش پاش ہوجاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کا وجود نہیں مٹتا تو وہ کم ازکم فریضہ خلافت کی ادائیگی کے قابل نہیں رہتا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تیار کیا ہے ۔ اور اگر وہ قوانین قدرت اور کائناتی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ‘ جو خود اسے اور اس کے گرد پھیلی ہوئی پوری کائنات کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ خواہ زندہ ہوں یا غیر زندہ تو اس صورت میں وہ تمام اسراکائنات کا رازدان ہوگا ‘ وہ اس کی قوتوں کو مسخر کردے گا ان سے مفاد حاصل کرے گا اور اسی طرح وہ راحت ‘ آرام اور سکون حاصل کرے گا ۔ اور بےچینی ‘ قلق اور خوف سے نجات ملے گی ۔ مثلاکائنات کا مفاد یوں ہوگا کہ ایک کائناتی قوت کو جلانے اور تخریب کے لئے استعمال کرنے کے بجائے وہ کھانے پکانے ‘ گرمی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے گا ۔ اور اس سے روشنی حاصل کرے گا۔

انسانی مزاج اپنی اصلیت کے اعتبار سے ان کائناتی قوتوں اور نوامیس کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ انسان کا وجدان اسی طرح اپنے رب کی اطاعت چاہتا ہے جس طرح اس کائنات کی پوری زندہ اور غیر زندہ اشیاء اس کے سامنے سربسجود ہیں ۔ جب ایک انسان قوانین فطرت کے خلاف راہ اختیار کرتا ہے۔ تو وہ صرف نظام فطرت کے خلاف ہی نہیں جاتا بلکہ وہ خود ان نوامیس طبیعت کے بھی خلاف جاتا ہے جو اس کے نفس کے اندر موجود جاری وساری ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت پریشان ‘ شکستہ حیران اور بےچین نظرآتا ہے ۔ اور اس کی زندگی اسی طرح برباد ہوجاتی ہے جس طرح آج کا ایک گمراہ ‘ بےراہ رو انسان کی زندگی ہوتی ہے ۔ اور جسے ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ آج کے انسان نے علمی میدان میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کی ہیں اور وہ مادی ترقی کے بام عروج پر ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انسانیت ایک انتہائی تلخ روحانی خلا میں مبتلا ہے ۔ اور یہ ایک ایسا خلا ہے جسے فطرت انسان بھول نہیں سکتی ۔ یعنی انسانیت ذوق یقین سے محروم ہے ۔ اس کی زندگی اسلامی نظام سے محروم ہے ‘ اس لئے کہ یہی نظام زندگی ‘ ان مادی ترقیات اور قوانین فطرت کے درمیان توازن پیدا کرسکتا ہے جس میں انسان کی تگ ودو اور قوانین فطرت کی رفتار ایک سمت میں ہوجاتی ہے ۔

انسانیت اس وقت جھلس دینے والی تپتی دھوپ میں سرگردان ہے اور وہ اسلامی نظام زندگی کی گھنی چھاؤں سے محروم ہے جس میں کو خوشگوار زندگی بسر کرسکے ۔ اور شر و فساد سے اسے نجات ملے جس میں وہ محض اس لئے گرفتار ہے کہ وہ اسلام کے شاہراہ مستقیم اور جادہ مانوس سے ہٹ گئی ہے ۔ اس دشوار گزار راستے اور حیرانی و پریشانی ‘ قلق وبے چینی اور اضطراب وگمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ وہ ہر وقت بھوک ‘ افلاس اور روحانی خلا اور محرومیت کے احساس کا شکار ہے ۔ اور اسی صورت حال سے اس نے فرار کا یہی ایک راستہ پایا ہے ۔ کہ حشیش ‘ چرس اور ہیروئن جیسی منکرات اور تباہ کن ذرائع اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یہ جنونی سرعت ‘ احمقانہ حرکات ‘ اخلاقی بےراہ روی سے اس خلاکو بھرنا چاہتی ہے ۔ لیکن ناکام ہے ۔ اور یہ صورت حال باوجود اس بےپناہ مادی ترقی ‘ بےحد و حساب پیداوار اور ساری زندگی کی بےپناہ سہولیات کے باوجود جوں کی توں ہے ۔ بلکہ اس قلق اور اس حیرانی اور ان پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اور اسی نسبت سے ہورہا ہے جس نسبت سے مادی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیاوی سہولیات اور آسائشوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہ خوفناک اور تلخ خلا ‘ انسانیت کو ایک خوفناک بھوت کی طرف بھگارہا ہے ۔ لیکن بھاگتے بھاگتے وہ جس مقام تک بھی پہنچتی ہے ‘ ہر جگہ یہ بھوت اس کے پیچھے کھڑا نظرآتا ہے ‘ آج جو شخص بھی مغرب کے مالدار اور ترقی یافتہ دور میں جاتا ہے اس کے احساسات میں پہلا تاثر یہ بیٹھتا ہے کہ یہ سب لوگ بھاگ رہے ہیں ۔ کوئی بھوت ہے جو انہیں بھگارہا ہے اور اس سے بھاگ رہے ہیں ‘ بلکہ وہ خود اپنی ذات اور اپنے سائے سے بھاگ رہے ہیں ۔ اس شخص پر بہت جلد یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان مادی ترقیات نے اور حسی لذتیت نے ان لوگوں کو گندے کیچڑ میں لت پت کردیا ہے ۔ وہ بیشمار نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ان کے اعصاب شل ہوگئے ۔ وہ بےراہ روی کے ہیجان میں مبتلا ہیں اور اپنی اس روحانی کمی کو منکرات ‘ منشیات اور دوسری مہلک اشیاء کے استعمال سے پورا کرتے ہیں ۔ اس لئے وہ جنوں کی حد تک جرائم پیشہ ہوگئے ہیں اور ان کی زندگی ہر قسم کے شریفانہ تصور سے خالی ہے ۔

ان لوگوں نے اپنی شخصیت ہی کو گم کردیا ہے ‘ اس لئے کہ انہوں نے اپنے وجود کا اصل مقصد ہی بھلادیا ہے ۔ وہ روحانی سعادت سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے اسلامی زندگی کو کم کردیا ہے ۔ جو انسان کی روحانی اور جسمانی زندگی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے اسے ان روحانی امراض سے نجات دیتا ہے جس میں مبتلا ہیں ۔ اور وہ اس خلجان میں مبتلا اس لئے ہیں کہ وہ معرفت خداوندی سے محروم ہیں جس کی طرف انہوں نے لوٹنا ہے۔

صرف تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے ہی نہیں ‘ بلکہ حقیقی نفس الامری کے اعتبار سے امت مسلمہ ہی وہ امت ہے جس نے اس عہد کو اچھی طرح اپنالیا ہے ‘ جو اللہ اور اس کے نبیوں کے درمیان طے پایا تھا ‘ صرف اس امت نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ اللہ کا دین ایک ہے اور اس کا نازل کردہ نظام زندگی بھی ایک ہے ۔ اور وہ قافلہ انبیائے کرام بھی ایک ہے جنہوں نے تاریخ میں ہمیشہ اسی واحد دین کو پیش کیا ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نبی آخرالزماں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کبریٰ کا اعلان کرے یعنی یہ کہ یہ امت تمام نبیوں پر ایمان لاتی ہے ‘ وہ تمام رسل کا احترام کرتی ہے ۔ وہ دین اسلام کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ دین جس کے سوا کوئی دوسرا دین اللہ کے ہاں قبول نہ ہوگا۔

اسلامی اصول اور روز جزا اللہ تعالیٰ کے سچے دین کے سوا جو اس نے اپنی کتابوں میں اپنے رسولوں کی معرفت نازل فرمایا ہے یعنی صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کرنا کوئی شخص کسی اور دین کی تلاش کرے اور اسے مانے اس کی تردید یہاں بیان ہو رہی ہے پھر فرمایا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی مطیع ہیں خواہ خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ) 13۔ الرعد :15) یعنی زمین و آسمان کی تمام تر مخلوق اللہ کے سامنے سجدے کرتی ہے اپنی خوشی سے یا جبراً اور جگہ ہے آیت (اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ) 16۔ النحل :48) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ تمام مخلوق کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتی ہیں آسمانوں کی سب چیزیں اور زمینوں کے کل جاندار اور سب فرشتے کوئی بھی تکبر نہیں کرتا سب کے سب اپنے اوپر والے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم دے جائیں بجا لاتے ہیں، پس مومنوں کا تو ظاہر باطن قلب و جسم دونوں اللہ تعالیٰ کے مطیع اور اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور کافر بھی اللہ کے قبضے میں ہے اور جبراً اللہ کی جانب جھکا ہوا ہے اس کے تمام فرمان اس پر جاری رہیں اور وہ ہر طرح قدرت و مشیت اللہ کے ماتحت ہے کوئی چیز بھی اس کے غلبے اور قدرت سے باہر نہیں، اس آیت کی تفسیر میں ایک غریب حدیث یہ بھی وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آسمانوں والے تو فرشتے ہیں جو بخوشی اللہ کے فرمان گذار ہیں اور زمین والے وہ ہیں جو اسلام پر پیدا ہوئے ہیں یہ بھی بہ شوق تمام اللہ کے زیر فرمان ہیں، اور ناخوشی سے فرماں بردار وہ ہیں جو لوگ مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں میدان جنگ میں قید ہوتے ہیں اور طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے لائے جاتے ہیں یہ لوگ جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے، ایک صحیح حدیث میں ہے تیرے رب کو ان لوگوں سے تعجب ہوتا ہے جو زنجیروں اور رسیوں سے باندھ کر جنت کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔ اس حدیث کی اور سند بھی ہے، لیکن اس آیت کے معنی تو وہی زیادہ قوی ہیں جو پہلے بیان ہوئے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت اس آیت جیسی ہے آیت (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ) 31۔ لقمان :25) اگر تو ان سے پوچھ کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقینا وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ وقت ہے جب روز ازل ان سب سے میثاق اور عہد لیا تھا اور آخر کار سب اسی کی طرف لوٹ جائیں گے یعنی قیامت والے دن اور ہر ایک کو وہ اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ پھر فرماتا ہے تو کہہ ہم اللہ اور قرآن پر ایمان لائے اور ابراہیم اسماعیل اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) پر جو صحیفے اور وحی اتری ہم اس پر بھی ایمان لائے اور ان کی اولاد پر جو اترا اس پر بھی ہمارا ایمان ہے، اسباط سے مراد بنو اسرائیل کے قبائل ہیں جو حضرت یعقوب کی نسل میں سے تھے یہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں کی اولاد تھے، حضرت موسیٰ کو توراۃ دی گئی تھی اور حضرت عیسیٰ کو انجیل اور بھی جتنے انبیاء کرام اللہ کی طرف سے جو کچھ لائے ہمارا ان سب پر ایمان ہے ہم ان میں کوئی تفریق اور جدائی نہیں کرتے یعنی کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں بلکہ ہمارا سب پر ایمان ہے اور ہم اللہ کے فرمان بردار ہیں پس اس امت کے مومن تمام انبیاء اور کل اللہ تعالیٰ کی کتابوں کو مانتے ہیں کسی کے ساتھ کفر نہیں کرتے، ہر کتاب اور ہر نبی کے سچا ماننے والے ہیں۔ پھر فرمایا کہ دین اللہ کے سوا جو شخص کسی اور راہ چلے وہ قبول نہیں ہوگا اور آخرت میں وہ نقصان میں رہے گا جیسے صحیح حدیث رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن اعمال حاضر ہوں گے نماز آکر کہے گی کہ اے اللہ میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اچھی چیز ہے صدقہ آئے گا اور کہے گا پروردگار میں صدقہ ہوں جواب ملے گا تو بھی خیر پر ہے، روزہ آکر کہے گا میں روزہ ہوں اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو بھی بہتری پر ہے پھر اسی طرح اور اعمال بھی آتے جائیں گے اور سب کو یہی جواب ملتا رہے گا پھر اسلام حاضر ہوگا اور کہے گا اے اللہ تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں اللہ فرمائے گا تو خیر پر ہے آج تیرے ہی اصولوں پر سب کو جانچوں گا۔ پھر سزا یا انعام دوں گا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے آیت (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ) 3۔ آل عمران :85) یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے اور اس کے راوی حسن کا حضرت ابوہریرہ سے سننا ثابت نہیں۔

آیت 83 - سورة آل عمران: (أفغير دين الله يبغون وله أسلم من في السماوات والأرض طوعا وكرها وإليه يرجعون...) - اردو