سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 60 (آیات 78 سے 83 تک)

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُۥنَ أَلْسِنَتَهُم بِٱلْكِتَٰبِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَمَا هُوَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ ٱللَّهُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا۟ عِبَادًا لِّى مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا۟ رَبَّٰنِيِّۦنَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ ٱلْكِتَٰبَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا۟ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ وَٱلنَّبِيِّۦنَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِٱلْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّۦنَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُم مِّن كِتَٰبٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥ ۚ قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى ۖ قَالُوٓا۟ أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَٱشْهَدُوا۟ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّٰهِدِينَ فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ أَفَغَيْرَ دِينِ ٱللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُۥٓ أَسْلَمَ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ
60

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اُن میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna minhum lafareeqan yalwoona alsinatahum bialkitabi litahsaboohu mina alkitabi wama huwa mina alkitabi wayaqooloona huwa min AAindi Allahi wama huwa min AAindi Allahi wayaqooloona AAala Allahi alkathiba wahum yaAAlamoona

جب اہل دین اخلاقی فساد میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ دینی حقائق میں ملاوٹ کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ کام وہ علمائے دین کے لباس میں کرتے ہیں ۔ قرآن کریم یہاں اہل کتاب میں ایک گروہ کے جو حالات بیان کررہا ہے ‘ ان سے ہم اپنے زمانے میں اچھی طرح واقف ہیں ‘ اہل کتاب نصوص کتاب میں تاویلات کرتے تھے ۔ زبان کے ہیر پھیر سے مفہوم تبدیل کرتے تھے ۔ اور اس طرح وہ طے شدہ نتائج اخذ کرتے تھے ۔ اور ان کا یقین یہ ہوتا تھا کہ کتاب اللہ کا مفہوم یہی ہے ۔ اور یہی مفہوم ارادہ الٰہی کا اظہار ہے ۔ حالانکہ جو نتائج وہ اخذ کرتے تھے وہ اصول دین سے متصادم تھے ۔ ان کو یہ اعتماد تھا اکثر سامعین ان پڑھ اور بےعلم ہیں اور وہ ان کے خودساختہ نتائج اور آیات کے حقیقی مفہوم کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں کرسکتے ۔ حالانکہ ان کے نتائج جعلی اور جھوٹے تھے اور ان نتائج تک وہ آیات کو زبردستی کھینچ کر لاتے تھے ۔

اہل کتاب کا یہ نمونہ ہمارے دور میں بعض دینی راہنماؤں میں پوری طرح پایا جاتا ہے ‘ جو بطور ظلم اپنے آپ کو دین کے حوالے سے پیش کرتے ہیں ۔ جو دین میں تحریف کرتے ہیں ۔ اور جو اپنی خواہشات نفسانیہ میں سے مزاح بناتے ہیں ۔ وہ اپنے کاندھوں پر آیات الٰہی کو اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں اور جہاں بھی انہیں کوئی مفاد نظرآئے اسی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ‘ جہاں بھی اس دنیا کے مفادات میں سے کوئی بھی مفاد ملتا ہے ۔ ان آیات کے ذریعہ وہ اسے حاصل کرتے ہیں ۔ غرض آیات الٰہی کو اٹھائے یہ لوگ اغراض دنیاوی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں ۔ اور پھر ان آیات کی گردن توڑ کر اور انہیں خوب مروڑ کر ان مفادات پر فٹ کرتے ہیں ۔ وہ الفاظ کے مفہوم میں ایسی تبدیلی کرتے ہیں کہ وہ ان کے مقاصد اور رجحانات سے موافق ہوجائیں ۔ اگرچہ یہ رجحانات دین کے اساسی تصورات اور اصول دین کے ساتھ متصادم ہوں ۔ وہ اس میدان میں سہ گانہ جدوجہد کرتے ہیں اور ہر قسم کی بہتان تراشی کا ارتکاب کرتے ہیں اور ہر وقت اسی گھات میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کسی طرح قرآن مجید کے کسی لفظ کا وہ مفہوم نکال لیں جو ان کی خواہشات نفسانیہ کے مطابق ہو ‘ اور جس سے یہ رائج اور صاید خواہشات ثابت ہوجائیں ۔

وَیَقُولُونَ ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَمَا ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَھُم یَعلَمُونَ

” وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ وہ جان بوجھ کر بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ “

قرآن کریم نے اہل کتاب کے ایک گروہ کا جو حال بیان کیا ہے ‘ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ اس میں ہر وہ قوم مبتلا ہوجاتی ہے جو دین کا کام ایسے لوگوں کے سپرد کردیتی ہے جو نام نہاد دیندار ہوتے ہیں اور جن کے نزدیک دین اس قدر ارزاں ہوجاتا ہے کہ اس کی قدر و قیمت ان کی اغراض دنیاوی میں سے ادنی کے غرض کے برابر بھی نہیں ہوتی ۔ اور ان کی ذمہ داری کی حس اس قدر مانگ پڑجاتی ہے کہ ان کا دل اللہ پر جھوٹ باندھنے سے بھی نہیں چوکتا۔ وہ لوگوں اور بندوں کی چاپلوسی کی خاطر آیات الٰہی میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ اور اپنی غیر صحت مندخواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ اللہ کے دین میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو اس خطرناک مقام سے آگاہ کرتے ہیں جہاں قدم پھسل جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے بنی اسرائیل نے اپنے مقام قیادت کو کھودیا۔

ان آیات کے مجموعی تاثر کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ گروہ کتاب اللہ میں سے مجازی تعبیرات پر مشتمل بعض جملے تلاش کرلیتا تھا اور پھر ان آیات کو توڑ مروڑ کر ان سے ایسے معانی نکال لیتا تھا ‘ جن کی متحمل وہ آیات نہ تھیں ۔ یوں وہ اپنی تاویلات کے ذریعہ عجیب معانی نکالتے اور ان پڑھ لوگوں کو یہ تاثر دیتے کہ یہ مفاہم کتاب اللہ کے مدلولات ہیں ۔ حالانکہ وہ خود ان کے ایجاد کردہ تھے ۔ وہ لوگوں سے کہتے یہ ہے وہ بات جو اللہ نے کہی ہے ۔ حالانکہ اللہ نے تعالیٰ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہوتی ۔ ان تاویلات کا مقصد اور ہدف یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کردیں ‘۔ یعنی تین اقنوم باپ ‘ بیٹا اور روح القدس ‘ تین بھی اور ایک بھی اور وہ ایک اللہ ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے تصور سے پاک ہے ۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایسے کلمات روایت کرتے تھے جو ان کے مزعومات کی تائید کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان تحریفات اور تاویلات کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنے بندے کو نبوت کے لئے چن لے اور اس کو یہ عظیم منصب عطاکردے اور وہ بندہ لوگوں کو حکم دے کہ وہ اسے الٰہ بنالیں ۔ فرشتوں کو الٰہ بنالیں ۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ۔

اردو ترجمہ

کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma kana libasharin an yutiyahu Allahu alkitaba waalhukma waalnnubuwwata thumma yaqoola lilnnasi koonoo AAibadan lee min dooni Allahi walakin koonoo rabbaniyyeena bima kuntum tuAAallimoona alkitaba wabima kuntum tadrusoona

حضرت نبی ﷺ یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ عبد ہیں اور اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک رب ہے اور تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں ۔ اس لئے اس بات کا امکان ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے مقام ربوبیت کو مخصوص کریں ۔ کیونکہ مقام الوہیت کا تو پھر تقاضایہ ہے لوگ عبادت بھی نبی کی کریں ۔ اس لئے کوئی نبی لوگوں کو یہ نہیں کہہ سکتا کُونُوا عِبَادًا لِّی مِن دُونِ اللّٰہِ……………” تم اللہ کے سوا میرے بندے بن جاؤ۔ “ نبی کی دعوت تو یہ ہوتی ہے کہ کُونُوا رَبَّانِینَ……………” تم سب ربانی بن جاؤ۔ “ اس لئے کہ جس کتاب کا تم نے علم حاصل کیا ہے ۔ اس کی تعلیمات یہی ہیں ۔ اور جس کی تم تدریس کرتے ہو اس کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اس لئے علم کتاب اور تدریس کا یہ تقاضا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی ہو ‘ پس نبی کیسے لوگوں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ نبیوں اور فرشتوں کو اللہ کے علاوہ رب بنالیں ۔ اس لئے کہ نبی اسلام لانے کے بعد لوگوں کو کفر کا حکم کیسے دے سکتا ہے ۔ حالانکہ اس کا مقام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت دے ۔ یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت پانے کے بعد گمراہ کردے ۔ وہ اسلام کی طرف ان کا قائد ہے ‘ اسلام سے نکالنے کے لئے ان کا قائد نہیں ہے۔

اس فارمولے کے مطابق وہ بات محال ہوجاتی ہے ۔ جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ نیز ان کا یہ جھوٹ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ تمام آیات وروایات جو وہ پڑھتے ہیں اللہ اور رسول کی طرف سے ہوسکتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ جو بات کہتے ہیں اس کی حیثیت ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ اور وہ دعویٰ بےاعتبار ہوجاتا ہے جسے وہ بابار اسلامی صفوف میں شبہات اور خلجان پیدا کرنے کے لئے دہراتے ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن کریم نے انہیں اچھی طرح ننگا کرکے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ جماعت مسلمہ کے سامنے کھلے میدان میں ننگے ہوگئے ہیں ۔

ان لوگوں کی مثال بھی بعینہ ان اہل کتاب جیسی ہے جو علم دین کے مدعی ہیں جیسا کہ ہم اس سے پہلے بالتفصیل بیان کر آئے ہیں ۔ یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات ان کے سامنے پیش کی جائیں ۔ کیونکہ یہ لوگ بھی قرآنی نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور انہوں نے بھی اللہ کے سوا کئی ارباب قائم کر رکھے ہیں اور وہ ہر وقت اس تاک میں لگے رہتے ہیں کہ آیات کو توڑ موڑ کر ان سے وہ مفاہیم نکالیں جو خود انہوں نے گھڑرکھے ہیں ۔

وَیَقُولُونَ ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَمَا ھُوَ مِن عِندِ اللّٰہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَھُم یَعلَمُونَ

” وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ “ اس کے بعد تمام رسولوں اور رسالتوں کے قافلہ ایمانی کے درمیان ‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے حوالے سے ‘ ایک مضبوط رابطے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق وہ تمام لوگ اس عہد کو توڑنے والے اور فاسق قرار پاتے ہیں جو نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ پر ایمان نہیں لاتے ۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اللہ سے کئے ہوئے عہد سے منحرف ہوتے ہیں ‘ بلکہ وہ اس پوری کائنات کے ناموس اعظم سے بھی خارج ہوجاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلم ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yamurakum an tattakhithoo almalaikata waalnnabiyyeena arbaban ayamurukum bialkufri baAAda ith antum muslimoona

اردو ترجمہ

یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، "آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی" یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، "کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟" اُنہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith akhatha Allahu meethaqa alnnabiyyeena lama ataytukum min kitabin wahikmatin thumma jaakum rasoolun musaddiqun lima maAAakum latuminunna bihi walatansurunnahu qala aaqrartum waakhathtum AAala thalikum isree qaloo aqrarna qala faishhadoo waana maAAakum mina alshshahideena

اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی خوفناک اور پختہ معاہدہ لیا ‘ اور اس معاہدے پر وہ خود گواہ بن گیا اور اپنے تمام نبیوں کو اس پر گواہ بنایا یہ معاہدہ تمام رسولوں سے لیا گیا تھا ۔ مضمون یہ تھا کہ جس رسول کو بھی کتاب و حکمت دی جائے اس کا فرض یہ ہوگا کہ وہ اس کے بعد آنیوالے رسول کی تائید کردے اگر بعد میں آنے والا رسول خود اس کی تعلیمات کی توثیق وتائید کررہا ہو ۔ تائید کے ساتھ سابقہ رسول کا یہ بھی فرض ہے کہ اس کی نصرت کرے اور اس کی شریعت کی اطاعت کرے ۔ یہ معاہدہ اللہ اور ہر رسول کے مابین طے پایا تھا۔

قران کریم نے تاریخ انسانی کے طویل ترین دفتر کو لپیٹ کر تمام رسولوں کو ایک جگہ جمع کردیا ۔ وہ ایک ہی منظر میں سب جمع ہیں ۔ اللہ جل شانہ ان کو ایک ساتھ خطاب فرما رہے ہیں تو کیا انہوں نے اس معاہدے کا اقرار کرلیا اور اللہ کی بھاری ذمہ داری کو قبول کرلیا ۔ اللہ تعالیٰ سوال فرماتے ہیں قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي……………” کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو ؟ “ وہ سب جواب دیتے ہیں ۔ قَالُوا أَقْرَرْنَا……………” ہم اقرار کرتے ہیں۔ “…………پس رب ذوالجلال اس معاہدے پر خود بھی گواہ بن جاتے ہیں اور ان کو بھی گواہ بناتے ہیں ۔ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ……………” فرمایا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ “

یہ ایک عظیم اور دہشت انگیز منظر ‘ جس کی تصویر کشی قرآن کرتا ہے ‘ اسے دیکھ کر دل کانپ اٹھتے ہیں ‘ اس منظر میں تمام انبیاء ورسل جناب باری میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ معززین ارض کا یہ قافلہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ‘ ایک دوسرے پر تکیہ لگائے کھڑا ہے اور سب کے سب لوگ عالم بالا کی ربانی ہدایت کے منتظر ہیں ۔ یہ سب اسی حقیقت اور سچائی کی نمائندگی کرتے ہیں جو ایک ہے اور جس کے بارے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ پوری انسانیت کی تعمیر اس کی اساس پر کی جائے جس میں کوئی انحراف نہ ہو ‘ کوئی دوئی نہ ہو ‘ کوئی تعارض نہ ہو اور کوئی تصادم نہ ہو ‘ اس سچائی کے نمائندے وہ لوگ ہیں جو لوگوں میں سے برگزیدہ ہیں ۔ ان میں سے ہر برگزیدہ اس سچائی کو دوسرے برگزیدہ کی طرف منتقل کرتا چلاآیا ہے ۔ اس طرح وہ اپنی ذات کو بھی آنیوالے مختار کی طرف منتقل کرتا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ نبی کی ذات اس کی اپنی نہیں ہوتی ہے ۔ نہ اس مہم میں اس کا کوئی ذاتی مقصد یاخواہش ہوتی ہے ‘ نہ نبی ذاتی اور شخصی عزت و تکریم کے لئے کام کرتا ہے وہ تو بندہ مختار ہوتا ہے اور ایک ذمہ دار مبلغ ہوتا ہے۔ یہ ذات باری ہی ہے جو مختلف ادوار میں مختلف نسلوں کی طرف دعوت اسلامی کو منتقل کرتا چلا آتا ہے اور مختاران رسل اسے جس طرح چاہتے ہیں چلاتے ہیں ۔

دین کے اس تصور اور اللہ کے ساتھ اس سلسلے میں طے ہونے والے اس عہد کے نتیجے میں اللہ کا دین خالص ہوجاتا ہے ۔ اس میں کوئی ذاتی عصبیت نہیں داخل ہوتی ۔ یعنی رسول کی ذات بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ رسول کی قوم کا اس دین پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اس کے پیروکاروں اور ان کے خاندانوں کے مخفی اثرات سے بھی یہ دین پاک وصاف ہوتا ہے۔ اسی طرح متبعین کی ذات اور ان کی قوم قبیلے کی شخصیت کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں ہر معاملہ اللہ کے اختیار میں ہوتا ہے ‘ دین بھی ایک اور اللہ بھی ایک ‘ اور اسی ایک دین کو لیکر انسانیے کی تاریخ میں قافلہ رسل بھی ایک ‘ جو نہایت ہی معزز اور ممتاز قافلہ ہے ۔

اس حقیقت کے سائے میں ہمارے سامنے اب وہ لوگ کھل کر آجاتے ہیں جو اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہیں ۔ یہ لوگ نبی آخرالزمان پر ایمان نہیں لاتے ۔ اور پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ان کا کہنایہ ہے کہ وہ اپنے دین کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے ‘ حالانکہ خود ان کے دین کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نبی آخرالزماں پر ایمان لائیں اور اس کی نصرت اور تائید کے لئے اٹھیں ۔ لیکن یہ لوگ محض تعصب کی وجہ سے یہ ایمان نہیں لاتے ۔ اس لئے کہ یہ دین ان تک جن رسولوں نے پہنچایا ہے ان سے تو اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی پختہ عہد لیا ہے اور انہوں نے اپنے رب کے ساتھ یہ عہد باندھا ہے اور یہ عہد برسرعام اور اجلاس میں طے پایا کہ وہ نبی آخرالزمان کی نصرت کریں گے ۔ اس لئے جو لوگ نبی آخرالزمان پر ایمان نہیں لاتے وہ درحقیقت فاسق اور بدکار ہیں ۔ وہ عہد شکن ہیں ۔ وہ اس کائنات کے اسی نظام کو توڑنے والے ہیں ۔ جو اپنے رب کا فرماں بردار ہے ‘ جو ناموس قدرت کا مطیع فرمان ہے ۔ اس لئے کہ یہی ناموس اس پوری کائنات کا مدبر ہے ۔ اور یہ پوری کائنات اس کی مشیئت پر چل رہی ہے ۔

اردو ترجمہ

اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faman tawalla baAAda thalika faolaika humu alfasiqoona

حقیقت یہ ہے کہ نبی آخر الزمان کی اطاعت سے صرف فاسق ہی منہ موڑسکتا ہے اور اللہ کے اس دین سے وہی شخص منہ موڑ سکتا ہے جو شاذ اور مردود ہو ‘ وہ اس کائنات کے پورے طبیعی نظام میں شاذ ہوگا اور مردود ہوگا اور اس پوری تابع فرمان کائنات میں بھی فساد کنندہ ‘ اور شر انگیز ہوگا۔

اللہ کا دین ایک ہے ‘ سب رسول ایک دین لے کر آئے ‘ سب نے اس پر پختہ معاہدہ کیا ۔ اللہ کا عہد بھی ایک ہے ‘ جس کے فریق تمام رسول ہیں ۔ لہٰذا اس دین پر ایمان لانا ‘ اس رسول پر ایمان لانا اور اتباع کرنا ‘ اس رسول کی نصرت کرنا اور اسلامی نظام قائم کرنا اور تمام دوسرے نظاموں کا مقابلہ کرنا دراصل اس عہد کی وفاداری ہے ۔ اس لئے جس شخص نے بھی دین اسلام سے روگردانی کی گویا اس نے اللہ کے تمام ادیان سے منہ موڑا ۔ اور اس نے اللہ کے عام عہدوں کو توڑا…………اس لئے کہ وہ اسلام جس سے اس کرہ ارض پے اسلامی نظام کا قیام مطلوب ہو ‘ اس کا اتباع اور اس کے ساتھ خلوص کا مظاہرہ ‘ دراصل اس پوری کائنات کا اسلام اور ناموس قدرت ہے ۔ یہ اسلام اس کائنات کے ہر زندہ چرند پرند کا اسلام ہے ۔

اردو ترجمہ

اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و نا چار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaghayra deeni Allahi yabghoona walahu aslama man fee alssamawati waalardi tawAAan wakarhan wailayhi yurjaAAoona

یہ ہے کہ اسلام اور سرتسلیم خم کرنے کی ایک گہری شکل ‘ ایک ایسی شکل و صورت جو تکوینی ہے جو انسان کے شعور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جس سے انسانی ضمیر میں اللہ خوفی پیدا ہوتی ہے ۔ ایک عظیم قانون قدرت کی صورت جو قہاروجبار ہے ۔ جو تمام کائنات کی مردہ اور زندہ چیزوں کو ایک ہی سنت الٰہیہ اور شریعت الٰہیہ کے تابع فرمان بناتی ہے ۔ اور جس کے مطابق دونوں کا مال اور انجام ایک ہے ۔ یہ ہے اسلام وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ……………” اور سب نے اسی کی طرف پلٹ کرجانا ہے ۔ “…………لہٰذا یہ سب چیزیں آخرکار لازماً اسی اللہ کو پلٹ کرجائیں گی جو سب کو گھیرے ہوئے ہیں ‘ سب کا مدبر ہے اور نہایت ہی جلال و عظمت کا مالک ہے اور اس انجام سے کوئی راہ فرار نہیں ہے ۔

اگر انسان اپنی کامیابی اور سعادت چاہتا ہے ‘ اگر وہ راحت اور اطمینان چاہتا ہے ‘ اگر وہ اطمینان قلب اور صلاح حال چاہتا ہے تو اس کے لئے ماسوائے اس کے کوئی اور راہ نہیں ہے کہ اسلامی نظام زندگی کی طرف رجوع کرے ۔ اپنی ذات میں بھی ‘ اپنے نظام زندگی میں بھی اور اپنے اجتماعی نظام میں بھی تاکہ اسکی زندگی اس پوری کائنات کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے ۔ اور اس فطرت کائنات کے برخلاف اپنے لئے کوئی علیحدہ نظام زندگی وضع کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ اس لئے کہ اس کا یہ خود ساختہ نظام ‘ نظام کائنات کے ساتھ متضاد ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے ۔ اور یہ انسان طوعاً وکرہاً اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پابند ہے ۔ وہ نظام جو اس کے تصور اور شعور میں ہے ‘ جو اس کی عملی زندگی اور اس کے باہمی تعلقات میں ہے ‘ جو اس کی تمام جدوجہد اور سرگرمیوں میں ہے ۔ جب اس کائناتی نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے گا ‘ تو یہ ہم آہنگی اس کے اور اس پوری کائنات کی عظیم قوتوں کے درمیان ایک تعاون پیدا کردے گی ۔ اور ان کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے گا ‘ تو یہ ہم آہنگی اس کے اور اس پوری کائنات کی عظیم قوتوں کے درمیان ایک تعاون پیدا کردے گی ۔ اور ان کے درمیان کوئی تصادم نہ ہوگا۔ اس لئے کہ جب انسان کائناتی قوتوں کے ساتھ تصادم کی راہ لیتا ہے تو وہ پاش پاش ہوجاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کا وجود نہیں مٹتا تو وہ کم ازکم فریضہ خلافت کی ادائیگی کے قابل نہیں رہتا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تیار کیا ہے ۔ اور اگر وہ قوانین قدرت اور کائناتی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ‘ جو خود اسے اور اس کے گرد پھیلی ہوئی پوری کائنات کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ خواہ زندہ ہوں یا غیر زندہ تو اس صورت میں وہ تمام اسراکائنات کا رازدان ہوگا ‘ وہ اس کی قوتوں کو مسخر کردے گا ان سے مفاد حاصل کرے گا اور اسی طرح وہ راحت ‘ آرام اور سکون حاصل کرے گا ۔ اور بےچینی ‘ قلق اور خوف سے نجات ملے گی ۔ مثلاکائنات کا مفاد یوں ہوگا کہ ایک کائناتی قوت کو جلانے اور تخریب کے لئے استعمال کرنے کے بجائے وہ کھانے پکانے ‘ گرمی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے گا ۔ اور اس سے روشنی حاصل کرے گا۔

انسانی مزاج اپنی اصلیت کے اعتبار سے ان کائناتی قوتوں اور نوامیس کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ انسان کا وجدان اسی طرح اپنے رب کی اطاعت چاہتا ہے جس طرح اس کائنات کی پوری زندہ اور غیر زندہ اشیاء اس کے سامنے سربسجود ہیں ۔ جب ایک انسان قوانین فطرت کے خلاف راہ اختیار کرتا ہے۔ تو وہ صرف نظام فطرت کے خلاف ہی نہیں جاتا بلکہ وہ خود ان نوامیس طبیعت کے بھی خلاف جاتا ہے جو اس کے نفس کے اندر موجود جاری وساری ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت پریشان ‘ شکستہ حیران اور بےچین نظرآتا ہے ۔ اور اس کی زندگی اسی طرح برباد ہوجاتی ہے جس طرح آج کا ایک گمراہ ‘ بےراہ رو انسان کی زندگی ہوتی ہے ۔ اور جسے ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ آج کے انسان نے علمی میدان میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کی ہیں اور وہ مادی ترقی کے بام عروج پر ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انسانیت ایک انتہائی تلخ روحانی خلا میں مبتلا ہے ۔ اور یہ ایک ایسا خلا ہے جسے فطرت انسان بھول نہیں سکتی ۔ یعنی انسانیت ذوق یقین سے محروم ہے ۔ اس کی زندگی اسلامی نظام سے محروم ہے ‘ اس لئے کہ یہی نظام زندگی ‘ ان مادی ترقیات اور قوانین فطرت کے درمیان توازن پیدا کرسکتا ہے جس میں انسان کی تگ ودو اور قوانین فطرت کی رفتار ایک سمت میں ہوجاتی ہے ۔

انسانیت اس وقت جھلس دینے والی تپتی دھوپ میں سرگردان ہے اور وہ اسلامی نظام زندگی کی گھنی چھاؤں سے محروم ہے جس میں کو خوشگوار زندگی بسر کرسکے ۔ اور شر و فساد سے اسے نجات ملے جس میں وہ محض اس لئے گرفتار ہے کہ وہ اسلام کے شاہراہ مستقیم اور جادہ مانوس سے ہٹ گئی ہے ۔ اس دشوار گزار راستے اور حیرانی و پریشانی ‘ قلق وبے چینی اور اضطراب وگمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ وہ ہر وقت بھوک ‘ افلاس اور روحانی خلا اور محرومیت کے احساس کا شکار ہے ۔ اور اسی صورت حال سے اس نے فرار کا یہی ایک راستہ پایا ہے ۔ کہ حشیش ‘ چرس اور ہیروئن جیسی منکرات اور تباہ کن ذرائع اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یہ جنونی سرعت ‘ احمقانہ حرکات ‘ اخلاقی بےراہ روی سے اس خلاکو بھرنا چاہتی ہے ۔ لیکن ناکام ہے ۔ اور یہ صورت حال باوجود اس بےپناہ مادی ترقی ‘ بےحد و حساب پیداوار اور ساری زندگی کی بےپناہ سہولیات کے باوجود جوں کی توں ہے ۔ بلکہ اس قلق اور اس حیرانی اور ان پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اور اسی نسبت سے ہورہا ہے جس نسبت سے مادی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے اور دنیاوی سہولیات اور آسائشوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہ خوفناک اور تلخ خلا ‘ انسانیت کو ایک خوفناک بھوت کی طرف بھگارہا ہے ۔ لیکن بھاگتے بھاگتے وہ جس مقام تک بھی پہنچتی ہے ‘ ہر جگہ یہ بھوت اس کے پیچھے کھڑا نظرآتا ہے ‘ آج جو شخص بھی مغرب کے مالدار اور ترقی یافتہ دور میں جاتا ہے اس کے احساسات میں پہلا تاثر یہ بیٹھتا ہے کہ یہ سب لوگ بھاگ رہے ہیں ۔ کوئی بھوت ہے جو انہیں بھگارہا ہے اور اس سے بھاگ رہے ہیں ‘ بلکہ وہ خود اپنی ذات اور اپنے سائے سے بھاگ رہے ہیں ۔ اس شخص پر بہت جلد یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان مادی ترقیات نے اور حسی لذتیت نے ان لوگوں کو گندے کیچڑ میں لت پت کردیا ہے ۔ وہ بیشمار نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ان کے اعصاب شل ہوگئے ۔ وہ بےراہ روی کے ہیجان میں مبتلا ہیں اور اپنی اس روحانی کمی کو منکرات ‘ منشیات اور دوسری مہلک اشیاء کے استعمال سے پورا کرتے ہیں ۔ اس لئے وہ جنوں کی حد تک جرائم پیشہ ہوگئے ہیں اور ان کی زندگی ہر قسم کے شریفانہ تصور سے خالی ہے ۔

ان لوگوں نے اپنی شخصیت ہی کو گم کردیا ہے ‘ اس لئے کہ انہوں نے اپنے وجود کا اصل مقصد ہی بھلادیا ہے ۔ وہ روحانی سعادت سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے اسلامی زندگی کو کم کردیا ہے ۔ جو انسان کی روحانی اور جسمانی زندگی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے اسے ان روحانی امراض سے نجات دیتا ہے جس میں مبتلا ہیں ۔ اور وہ اس خلجان میں مبتلا اس لئے ہیں کہ وہ معرفت خداوندی سے محروم ہیں جس کی طرف انہوں نے لوٹنا ہے۔

صرف تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے ہی نہیں ‘ بلکہ حقیقی نفس الامری کے اعتبار سے امت مسلمہ ہی وہ امت ہے جس نے اس عہد کو اچھی طرح اپنالیا ہے ‘ جو اللہ اور اس کے نبیوں کے درمیان طے پایا تھا ‘ صرف اس امت نے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ اللہ کا دین ایک ہے اور اس کا نازل کردہ نظام زندگی بھی ایک ہے ۔ اور وہ قافلہ انبیائے کرام بھی ایک ہے جنہوں نے تاریخ میں ہمیشہ اسی واحد دین کو پیش کیا ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نبی آخرالزماں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کبریٰ کا اعلان کرے یعنی یہ کہ یہ امت تمام نبیوں پر ایمان لاتی ہے ‘ وہ تمام رسل کا احترام کرتی ہے ۔ وہ دین اسلام کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ دین جس کے سوا کوئی دوسرا دین اللہ کے ہاں قبول نہ ہوگا۔

60