سورة آل عمران: آیت 42 - وإذ قالت الملائكة يا مريم... - اردو

آیت 42 کی تفسیر, سورة آل عمران

وَإِذْ قَالَتِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَٰمَرْيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰكِ وَطَهَّرَكِ وَٱصْطَفَىٰكِ عَلَىٰ نِسَآءِ ٱلْعَٰلَمِينَ

اردو ترجمہ

پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آکر کہا، "اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qalati almalaikatu ya maryamu inna Allaha istafaki watahharaki waistafaki AAala nisai alAAalameena

آیت 42 کی تفسیر

یہ برگزیدگی کیا تھی ؟ وہ یہ کہ اللہ براہ راست اس کے اندر اپنی ایک روح ڈالنے والے تھے ۔ جس طرح اللہ نے حضرت آدم کے جسد خاکی میں سب سے پہلے روح ڈالی تھی ۔ اور پھر یہ خارق العادۃ واقعہ پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا اپنے خاص طریقے کے مطابق ‘ فی الواقع یہ تاریخ انسانیت کی ایک منفرد برگزیدگی ہے ۔ اور بلاشبہ ایک عظیم واقعہ ہے ………لیکن آج تک اس عظیم واقعہ کا انسانیت کو صحیح علم نہ تھا ۔ یہاں صفائی کی طرف اشارہ کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بارے میں یہودی جو شبہات پھیلاتے تھے اور جو رکیک حملے کرتے تھے ‘ وہ قابل مذمت ہیں ۔ وہ حضرت مریم کی پاکیزگی میں شکوک و شبہات پھیلاتے تھے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ آج تک تاریخ انسانیت میں ایسی خارق العادۃ پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ اس لئے یہ یہودی (اللہ انہیں غارت کرے) کہتے تھے کہ اس واقعہ کے پیچھے کوئی ناپسندیدہ راز ہے۔

یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی عظمت کا کیا مقام ہے ‘ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کا منبع صافی کس قدر بلند اور قابل اعتماد ہے ۔ رسول ﷺ پر اہل کتاب ‘ بشمول نصاریٰ قسم قسم کے الزامات عائدکر رہے تھے ۔ آپ کی تکذیب کررہے تھے ۔ آپ کے دشمن تھے اور جدل وجدال پر ہر وقت آمادہ رہتے تھے ۔ اسلام کی حقانیت کے خلاف شبہات پھیلاتے تھے ۔ لیکن دیکھئے وہ اپنے رب کی جانب سے یہ پیغام لاتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی حقیقت یہ ہے اور یہ کہ وہ تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں ۔ یوں اسلام حضرت مریم کے مقام کو بلند آفاق تک اونچا کردیتا ہے ۔ لیکن موقعہ ومحل ایسا ہے کہ حضرت مریم کے پیروکار آپ کے ساتھ بحث ومناظرہ کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی تعظیم کو آپ کے لئے جواز بناتے ہیں کہ وہ رسول ﷺ پر ایمان نہ لائیں ۔ اور حضرت محمد ﷺ کے دین کی تکذیب کریں۔

کیا سچائی ہے یہ ‘ کس قدر عظمت ہے یہ اسلام کی ‘ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ رسول ﷺ سچے ہیں اور ایک سچے منبع سے فیض یاب ہیں ۔ آپ پر وحی لانے والے بھی سچے ہیں ۔ وہ سچائی سے اپنے رب سے لیتے ہیں ۔ وہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جو سچائی پاتے ہیں اس کا اعلان کردیتے ہیں ۔ اگر آپ اللہ کے سچے رسول نہ ہوتے تو وہ ان حالات میں اپنے دشمنوں کے متعلق اس سچائی کا اظہار نہ کرتے ۔

حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو شدید ضعیفی کی عمر میں ایک بانجھ اور بوڑھی عورت سے حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا دے دیا۔ تو کیا یہ عام قانون کے مطابق ہے ؟ ظاہر ہے یہ بھی تو معجزہ تھا۔ اسی طرح اس سے ذرا بڑھ کر ایک معجزہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش ہے کہ انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمادیا۔ اب اس کا ذکر آ رہا ہے۔

تین افضل ترین عورتیں یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم (علیہما السلام) کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ان کی دنیا کی بےرغبتی کی شرافت اور شیطانی وسو اس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرمادیا ہے، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے، صحیح مسلم شریف وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں، حضرت مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں ؓ ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے تجھے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں ؓ اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں، مریم بنت عمران، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر یہ حدیث ابو داؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے، صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں حضرت خدیجہ کا ذکر نہیں، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں حضرت عیسیٰ کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لئے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہئے، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو، جیسے ارشاد آیت (وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ) 30۔ الروم :26) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہر چیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے، یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہما السلام) نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آجاتا تھا، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے، حسن بصری ؒ کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجا، حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا، ؓ و رضاہا۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ﷺ ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر ؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے ؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے جبکہ حضرت مریم کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہوجاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو حضرت موسیٰ کے بھائی اور حضرت ہارون کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کرچکی ہوں تم اسے سنبھالو، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جاسکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کرچکی ہوں، حضرت عمران یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لئے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے حضرت زکریا نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے، تو قرعہ حضرت زکریا کے نام نکلا اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ حضرت مریم کا کفیل بنے، چناچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کرلے گیا صرف حضرت زکریا کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام مالک نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو حضرت مریم سونپ دی گئیں۔

آیت 42 - سورة آل عمران: (وإذ قالت الملائكة يا مريم إن الله اصطفاك وطهرك واصطفاك على نساء العالمين...) - اردو