سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 55 (آیات 38 سے 45 تک)

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُۥ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِى مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ ٱلدُّعَآءِ فَنَادَتْهُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَهُوَ قَآئِمٌ يُصَلِّى فِى ٱلْمِحْرَابِ أَنَّ ٱللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ ٱلصَّٰلِحِينَ قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى غُلَٰمٌ وَقَدْ بَلَغَنِىَ ٱلْكِبَرُ وَٱمْرَأَتِى عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ ٱللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ قَالَ رَبِّ ٱجْعَل لِّىٓ ءَايَةً ۖ قَالَ ءَايَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ ٱلنَّاسَ ثَلَٰثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَٱذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِبْكَٰرِ وَإِذْ قَالَتِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَٰمَرْيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰكِ وَطَهَّرَكِ وَٱصْطَفَىٰكِ عَلَىٰ نِسَآءِ ٱلْعَٰلَمِينَ يَٰمَرْيَمُ ٱقْنُتِى لِرَبِّكِ وَٱسْجُدِى وَٱرْكَعِى مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ ذَٰلِكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَٰمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ إِذْ قَالَتِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَٰمَرْيَمُ إِنَّ ٱللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ ٱسْمُهُ ٱلْمَسِيحُ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ وَمِنَ ٱلْمُقَرَّبِينَ
55

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ حال دیکھ کر زکریاؑ نے اپنے رب کو پکارا "پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hunalika daAAa zakariyya rabbahu qala rabbi hab lee min ladunka thurriyyatan tayyibatan innaka sameeAAu aldduAAai

یوں ہم اپنے آپ کو ایک غیر معمولی واقعہ کے سامنے پاتے ہیں ۔ یہ واقعہ اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کی مشیئت بےقید ہے ۔ اور وہ ان سلسلہ اسباب ومسببات کی قید وبند سے آزاد ہے ۔ جنہیں آگے پیچھے دیکھنے کا انسان عادی ہے ۔ اور جن کے بارے میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس سلسلے میں تخلف ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو واقعات وحادثات اس قانون کے حدود وقیود کے اندر نہیں ہوتے یہ انسان ان کے بارے میں شاکی رہتا ہے ۔ اور جب وہ اس بات سے عاجز ہوں کہ اس کی تکذیب کردیں جب ان کے لئے ایسے واقعات کو جھٹلاناممکن نہ رہے کیونکہ وہ واقعات ہوتے ہیں تو وہ ان واقعات کے اوپر قصے اور کہانیوں کے خول چڑھادیتے ہیں ۔

دیکھئے زکریا شیخ اور معمر آدمی ہیں اور ان کی بیوی ان کے معمر ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوانی میں بھی بانجھ رہی ہیں ۔ اس بوڑھے کے دل میں اولاد کی خواہش جوش میں آتی ہے ۔ جو ایک فطری خواہش ہے ۔ وہ مریم جیسی نیک اور خوبصورت بچی کو دیکھتے ہیں ‘ جسے وافر مقدار میں رزق دیا گیا ہے ۔ وہ اپنے رب کے ساتھ مناجات کرتے ہیں ۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ انہیں بھی ایسی ہی پاک اولاد عطا ہو۔

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ

” یہ حال دیکھ کر زکریا نے اپنے رب کو پکارا ” پروردگار ! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر ‘ تو ہی دعا سننے والا ہے ۔ “…………اس پرسوز اور پرکیف دعا کا نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ فوراً قبول ہوئی اور اب یہ اولاد اور یہ قبولیت زمان ومکان کی قید سے ماوراء تھی ۔ عام معتادطریقے سے نظام ہٹ گیا ۔ اس لئے کہ اصل سبب تو مشیئت الٰہی ہے ۔

اردو ترجمہ

جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ "اللہ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی کمال درجہ کا ضابط ہوگا نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fanadathu almalaikatu wahuwa qaimun yusallee fee almihrabi anna Allaha yubashshiruka biyahya musaddiqan bikalimatin mina Allahi wasayyidan wahasooran wanabiyyan mina alssaliheena

وہ دعا جو دل سے نکلی اور پاک دل سے نکلی وہ قبول ہوگئی ۔ اس لیے کہ اس دعا میں امید صرف اس ذات سے تھی جو دعا سنتا ہے۔ اور جس وقت چاہے اسے قبولیت کا جامہ پہناسکتا ہے ۔ فرشتوں نے زکریا کو ایک لڑکے کی خوشخبری دیدی ۔ اس کا نام بھی ولادت سے پہلے یحییٰ رکھ دیا گیا۔ اور صفت واخلاق بھی قبل از وقت بتادئیے گئے ۔ وہ اچھا سردار ہوگا ۔ وہ اپنی خواہشات نفس کو اچھی طرح قابو میں رکھنے والا ہوگا ۔ اور اس نے اپنے رجحانات اور میلانات کی لگام اچھی طرح تھام لی ہوگی ۔ وہ مومن ومصدق ہوگا اور اس کے پاس اللہ کا جو فرمان آئے گا اس کی تائید کرنے والا ہوگا۔ نبی صالح ہوگا اور قافلہ صلحاء کا رکن ہوگا۔

بہرحال یہ دعا قبول ہوگئی ۔ اور اس کی راہ میں وہ معمولی صورت حال حائل نہ ہوسکی جسے انسان روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں ۔ اور اسے ایک اٹل قانون سمجھتے ہیں ۔ اور پھر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ کی مشیئت بھی اسی قانون کی پابند ہے ۔ انسان جن امور کا مشاہدہ کرتا ہے اور پھر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ قانون ہے اور اس سے انحراف ممکن نہیں ہے ۔ یہ ایک نسبتی امر ہے ۔ یہ کوئی آخری مشاہدہ نہیں ہوتا ۔ انسان کی عمر محدود ہے ۔ اور اس کا علم محدود ہے ۔ انسانی عقل طبیعات کے حدود کے اندر محدود ہے ۔ وہ اللہ کے انتہائی قانون تک رسائی بھی نہیں پاسکتی ۔ نہ وہ حقیقت مطلقہ کا ادراک کرسکتی ہے ۔ کیا انسان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ذر انسان بن کر رہے ۔ کیا اس کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ” ابار قدر خودبش اس “ کے مطابق اپنی حدود میں رہے اور اس وادی بےکنار میں بغیر کسی راہنمائے باخبر کے داخل ہی نہ ہو ۔ اس لئے کہ ممکنات اور مستحیلات کی وادی بےکراں ہے ۔ تعجب ہے کہ انسان اللہ کی مشیئت کے لئے وہ دائرہ تجویز کرتا ہے جو خود اس کے تجربے میں ہو اور جو اس کے علم قلیل کا دائرہ ہے۔

دعائے پر سوز کی یہ قبولیت خود حضرت زکریا (علیہ السلام) کے لئے بھی تعجب خیر تھی ‘ بہرحال حضرت زکریا بھی تو انسان ہی تھے ۔ چناچہ ان کے دل میں بھی یہ شوق پیدا ہوا کہ وہ دیکھیں کہ یہ خارق العادۃ واقعہ کیسے ظہور پذیر ہوگا ‘ حالانکہ انسان کا روز مرہ کا مشاہدہ اس کے خلاف ہے ۔

اردو ترجمہ

زکریاؑ نے کہا، "پروردگار! بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا، میں تو بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے" جواب ملا، "ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi anna yakoonu lee ghulamun waqad balaghaniya alkibaru waimraatee AAaqirun qala kathalika Allahu yafAAalu ma yashao

” زکریا نے کہا پروردگار ‘ بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا۔ میں تو بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میر بیوی بانجھ ہے ۔ “ اس کا جواب بڑی سادگی اور بڑی آسانی سے دیدیا جاتا ہے بات اپنی جگہ تک آجاتی ہے ۔ اور ایسی حقیقت کو پیش کردیا جاتا ہے جس کے فہم میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور جس کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ قَالَ كَذَلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ……………” اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ “ یہی طریقہ ہے ‘ جو فی الحقیقت روبعمل ہے ۔ رات دن دہرایا جاتا ہے ۔ اللہ کی مشیئت کام کرتی رہتی ہے ۔ اللہ کے کام روز وشب یونہی ہوتے ہیں ۔ لیکن لوگ ان واقعات پر اچھی طرح غور نہیں کرتے ۔ وہ اللہ کی اس کاریگری کا گہرا مشاہدہ اور اس پر غور نہیں کرتے ۔ اور حقائق کو ذہن نشین نہیں کرتے ۔

یونہی بسہولت ‘ بہ روانی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ اس میں اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ زکریا کو بیٹا دیدے ۔ اگرچہ وہ بوڑھا ہوگیا ہو اور اس کی عورت بانجھ ہوگئی ہو ۔ بوڑھا ہونا اور بانجھ ہونا تو انسانوں کا مشاہدہ ہے ۔ جس پر وہ اپنے لئے قواعد بناتے ہیں ۔ اس لئے اپنے لئے ضابطہ بناتے ہیں ۔ رہے اللہ تعالیٰ تو وہ انسانی ذہن کے قوانین وقیاسات کے پابند کیسے ہوگئے ۔ وہ تو جس طرح چاہے تجربات کو پھیر دے ۔ اس کی مشیئت تو ہر قید سے آزاد ہے ۔

اردو ترجمہ

عرض کیا "مالک! پھر کوئی نشانی میرے لیے مقرر فرما دے" کہا، "نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا کوئی بات چیت نہ کرو گے (یا نہ کرسکو گے) اِس دوران میں اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہنا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi ijAAal lee ayatan qala ayatuka alla tukallima alnnasa thalathata ayyamin illa ramzan waothkur rabbaka katheeran wasabbih bialAAashiyyi waalibkari

لیکن حضرت زکریا کا را ہوار شوق سرپٹ دوڑ رہا تھا ‘ بہرحال وہ بھی انسان تھے اچانک خوشخبری سن کر پریشان ہوگئے تھے ۔ انہوں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے لئے اس اعجوبے کے ظہور کے لئے کوئی علامت مقرر فرمادیں تاکہ وہ مطمئن ہوکر انتظار کریں ۔ قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً……………” میرے رب میرے لئے کوئی نشانی مقرر کردے ۔ “………اب اللہ تعالیٰ ان کے لئے حقیقی اطمینان کا انتظام فرماتے ہیں ۔ خود انہیں ان کی روز مرہ معمولات کے دائرے سے ذرا باہر لایا جاتا ہے ۔ قرار دیا جاتا ہے کہ علامت یہ ہوگی کہ تین دن کے لئے تیری زبان بند ہوجائے گی ‘ وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوں گے ‘ بات نہ کرسکیں گے ۔ صرف اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں گے ‘ اللہ کا ذکر کریں گے اور اس کی تسبیح وتہلیل کریں گے ۔

قَالَ آيَتُكَ أَلا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ إِلا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالإبْكَارِ

” کہا :” نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سواء کوئی بات نہ کرسکوگے ۔ اس دوران میں اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہنا ۔ “………یہاں قرآن مجید خاموش ہوجاتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ واقعہ عملاً ایسا ہوا ۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی زبان بند ہوگئی۔ اور وہ تمام روز مرہ کی زندگی سے نکل آئے ۔ لوگوں کی روز مرہ زندگی کا قانون بھی معطل ہوگیا۔ دیکھو اس کی یہی زبان تھی جو زور سے چلتی تھی ۔ آج بند ہے ۔ لوگوں سے بات بند ہے اور اللہ سے مناجات جاری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب وہ کس قانون فطرت پر جارہے ہیں ؟ وہ قانون یہ ہے کہ الٰہ مطلق کی مشیئت ہر قید وبند سے آزاد ہے ۔ اگر ہم اپنی زندگی میں یہ اصول تسلیم نہ کریں گے تو پھر ان خوارق عادت معاملات کی اور کیا توجیہ کرسکتے ہیں ۔ ہم اس بوڑھے اور عمر رسیدہ عورت کے ہاں اولاد کی پیدائش کی اور کیا توجیہ کرسکتے ہیں۔

یہ خارق عادت واقعہ یہاں اس لئے بیان کیا گیا کہ آگے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا اصل خارق واقعہ بیان کیا جائے ۔ جس کی وجہ سے بیشمار شبہات اور ناقابل یقین نظریات وجود میں آگئے تھے ۔ پیدائش مسیح (علیہ السلام) دراصل اللہ کی تعالیٰ کی بےقید مشیئت کے سلسلہ واقعات میں سے ایک واقعہ تھا ۔ یہاں سے پیدائش مسیح کا واقعہ شروع کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے حضرت مریم کو اس روذح کی قبولیت کے لئے ‘ عبادت اور رجوع الی اللہ کے ذریعہ پاک کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آکر کہا، "اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qalati almalaikatu ya maryamu inna Allaha istafaki watahharaki waistafaki AAala nisai alAAalameena

یہ برگزیدگی کیا تھی ؟ وہ یہ کہ اللہ براہ راست اس کے اندر اپنی ایک روح ڈالنے والے تھے ۔ جس طرح اللہ نے حضرت آدم کے جسد خاکی میں سب سے پہلے روح ڈالی تھی ۔ اور پھر یہ خارق العادۃ واقعہ پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا اپنے خاص طریقے کے مطابق ‘ فی الواقع یہ تاریخ انسانیت کی ایک منفرد برگزیدگی ہے ۔ اور بلاشبہ ایک عظیم واقعہ ہے ………لیکن آج تک اس عظیم واقعہ کا انسانیت کو صحیح علم نہ تھا ۔ یہاں صفائی کی طرف اشارہ کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بارے میں یہودی جو شبہات پھیلاتے تھے اور جو رکیک حملے کرتے تھے ‘ وہ قابل مذمت ہیں ۔ وہ حضرت مریم کی پاکیزگی میں شکوک و شبہات پھیلاتے تھے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ آج تک تاریخ انسانیت میں ایسی خارق العادۃ پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ اس لئے یہ یہودی (اللہ انہیں غارت کرے) کہتے تھے کہ اس واقعہ کے پیچھے کوئی ناپسندیدہ راز ہے۔

یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی عظمت کا کیا مقام ہے ‘ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کا منبع صافی کس قدر بلند اور قابل اعتماد ہے ۔ رسول ﷺ پر اہل کتاب ‘ بشمول نصاریٰ قسم قسم کے الزامات عائدکر رہے تھے ۔ آپ کی تکذیب کررہے تھے ۔ آپ کے دشمن تھے اور جدل وجدال پر ہر وقت آمادہ رہتے تھے ۔ اسلام کی حقانیت کے خلاف شبہات پھیلاتے تھے ۔ لیکن دیکھئے وہ اپنے رب کی جانب سے یہ پیغام لاتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی حقیقت یہ ہے اور یہ کہ وہ تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں ۔ یوں اسلام حضرت مریم کے مقام کو بلند آفاق تک اونچا کردیتا ہے ۔ لیکن موقعہ ومحل ایسا ہے کہ حضرت مریم کے پیروکار آپ کے ساتھ بحث ومناظرہ کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی تعظیم کو آپ کے لئے جواز بناتے ہیں کہ وہ رسول ﷺ پر ایمان نہ لائیں ۔ اور حضرت محمد ﷺ کے دین کی تکذیب کریں۔

کیا سچائی ہے یہ ‘ کس قدر عظمت ہے یہ اسلام کی ‘ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ رسول ﷺ سچے ہیں اور ایک سچے منبع سے فیض یاب ہیں ۔ آپ پر وحی لانے والے بھی سچے ہیں ۔ وہ سچائی سے اپنے رب سے لیتے ہیں ۔ وہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جو سچائی پاتے ہیں اس کا اعلان کردیتے ہیں ۔ اگر آپ اللہ کے سچے رسول نہ ہوتے تو وہ ان حالات میں اپنے دشمنوں کے متعلق اس سچائی کا اظہار نہ کرتے ۔

اردو ترجمہ

اے مریمؑ! اپنے رب کی تابع فرمان بن کر رہ، اس کے آگے سر بسجود ہو، اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ تو بھی جھک جا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya maryamu oqnutee lirabbiki waosjudee wairkaAAee maAAa alrrakiAAeena

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ……………” اے مریم ! رب کی تابع فرمان بن کر رہ ‘ اس کے آگے سر بسجود ہو ‘ اور جو بندے اس کے سامنے جھکنے والے ہیں ‘ ان کے ساتھ تو بھی جھک ۔ “………یعنی خضوع وخشوع اختیار کر ‘ اللہ کی طاعت و عبادت میں مصروف رہ ‘ اور ایسی زندگی بسر کر جو اللہ سے جڑی ہوئی ہو اور یہ سب کچھ عظیم ذمہ داری ادا کرنے کے لئے ‘ جو آنے والی ہے۔

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں، ورنہ تم اُس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریمؑ کا سر پرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، اور نہ تم اُس وقت حاضر تھے، جب اُن کے درمیان جھگڑا برپا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika min anbai alghaybi nooheehi ilayka wama kunta ladayhim ith yulqoona aqlamahum ayyuhum yakfulu maryama wama kunta ladayhim ith yakhtasimoona

یہ اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جب ہیکل کے خدام کے درمیان یہ تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ ان میں سے کون اس کا سرپرست ہو ‘ جب اس کی ماں اسے لیکر ہیکل میں آئیں۔ وہ اسی وقت چھوٹی بچی تھی ۔ ماں اس لئے لائی تھی کہ وہ اپنی نذر پوری کرے اور جو عہد اس نے اپنے رب کے ساتھ کیا ہے۔ اسے پورا کرے ۔ اس آیت میں ایسے واقعہ کا ذکر ہے جو عہد قدیم میں مذکور نہیں ہے اور نہ عہد جدید میں مذکور ہے یعنی ان نسخوں میں جو آج کل مروج ہیں ‘ لیکن یہ بات ایسی تھی جو احبار اور رہبان کے درمیان معروف تھی ۔ یعنی خدام کا قلمیں پھینکنے کا واقعہ اس دور میں مشہور واقعہ تھا۔ اور یہ اس لئے تھا کہ کون اس کی کفالت کرے ۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کی تفصیلات نہیں دی ہیں ۔ اور شاید اس لئے کہ سامعین قرآن کے نزدیک یہ واقعہ مشہور ومعروف ہوگا۔ یا یہ کہ قرآن کریم نے واقعہ بتادیا اور اس سے زیادہ تفصیلات بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ واقعہ ہی یہ اسی قدر ہوگا۔ مثلاً انہوں نے کفالت کے لئے کوئی ایسا طریقہ طے کرلیا ہوگا۔ یعنی قلمیں پھینک کر یہ معلوم کرتے ہوں گے کہ کفالت کس کے حصے میں آئے۔ جیسا کہ آج کل قرعہ اندازی میں ہوتا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی قلمیں نہر اردن میں پھینکیں ‘ تو سب قلمیں موجوں کے ساتھ بہہ گئیں مگر زکریا کی قلم اپنی جگہ ٹھہری رہی اور یہ ان کے درمیان علامت تھی کہ کفالت کس کے حصے میں آئے ۔

بہرحال یہ سب واقعات پردہ غیب میں تھے ۔ اس وقت نبی ﷺ حاضر نہ تھے ۔ نیز رسول ﷺ کے علم تک بھی یہ بات نہ پہنچی تھی ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات اہل ہیکل کے خفیہ رازوں میں سے ہو جسے عوام کے لئے شائع کرنا منع ہو ‘ اور قرآن نے اس کا افشا کرکے ‘ اس وقت کے علمائے اہل کتاب کو بتایا کہ حضرت محمد ﷺ رسول صادق ہیں اور قرآن کریم وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔ کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اہل کتاب آئے بھی مناظرہ کے لئے تھے ۔ اگر ان کے ہاں یہ واقعہ نہ ہوتا تو کہتے کہ ایسا کوئی واقعہ ہی سرے سے نہیں ہوا۔

اب یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا واقعہ شروع ہوتا ہے ۔ لوگوں کے معمولات کے مطابق یہ عظیم اعجوبہ ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی معمول کے مطابق مشیئت کی جو شان ہوتی ہے وہ اس کے خلاف ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب فرشتوں نے کہا، "اے مریمؑ! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ith qalati almalaikatu ya maryamu inna Allaha yubashshiruki bikalimatin minhu ismuhu almaseehu AAeesa ibnu maryama wajeehan fee alddunya waalakhirati wamina almuqarrabeena

حضرت مریم (علیہ السلام) اپنی پاکیزگی ‘ اپنی یکسوئی اور اپنی پیہم عبادت گزاری کی وجہ سے اس بات کی اہل ہوئیں کہ وہ اس کے اس فعل کو قبول کرسکیں اور اس عظیم واقعہ کے لئے تیار ہوسکیں ۔ اور دیکھئے اب وہ تیار ہیں اور اب ملائکہ ان کے ساتھ ہمکلام ہورہے ہیں ۔ انہیں اطلاع دی جاتی ہے ۔

إِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلا وَمِنَ الصَّالِحِينَ

” اور جب فرشتوں نے کہا ” اے مریم ! اللہ تجھے ایک فرمان کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اس کا نام مسیح بن مریم ہوگا۔ دنیا وآخرت میں معزز ہوگا ‘ اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔ لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی اور وہ ایک مرد صالح ہوگا۔ “

اس آیت میں بات پوری طرح کھول کر انہیں بشارت دی گئی ہے ۔ یہ بشارت اللہ کے کلام (فرمان) سے متعلق ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ نحو کے اعتبار سے لفظ مسیح کلمہ کا بدل یعنی کلمہ مسیح ابن مریم ہیں ۔ اب اس تعبیر کلام کے بعد کوئی بات ہی نہیں رہتی ………یہ اور اس قسم کے دوسرے بیشمار امور ‘ اصل غیبی امور ہیں اور ان کی ماہیت تک رسائی پوری طرح ممکن نہیں ہوتی ۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ امور ان متشابہات میں سے ہوں ‘ جن کے بارے میں اس سورت کے آغاز میں کہا گیا :

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ

” وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے ۔ اس کتاب میں دوطرح کی آیات درج ہیں ‘ ایک محکمات ‘ جو کتاب کی اصل بنیادیں ہیں اور دوسری متشابہات ‘ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ‘ وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ اور ان کو معنی پہنانے کی توثیق کرتے ہیں ۔ “………لیکن اس معاملے کا سمجھنا بہت ہی آسان ہے اگر ہم اسے اللہ ترسی کے ساتھ سمجھنا چاہیں ۔ اور اللہ کی کاریگری اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہمارے ذہن میں ہوں اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ اللہ کی مشیئت اور حدود وقیود سے آزد ہے جو اس نے اس جہاں رانی کے لئے خود وضع کئے ہیں ۔

اللہ نے جب چاہا تو اس نے مٹی سے آدم کو پیدا کیا ‘ اب تخلیق آدم براہ راست مٹی سے ہوئی اور مٹی میں نفخ روح ہواہو یا ابتدائی جرثومہ پیدا کیا گیا ہو اور وہ وجود آدم پر منتج ہوا۔ میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ تخلیق آدم مجسمے سے ہوئی یا جرثومے سے ۔ اس لئے کہ ان دونوں صورتوں میں وہ راز راز ہی رہتا ہے ۔ جسے ہم رازحیات کہتے ہیں ۔ وہ راز جس نے پہلی مخلوق کو حیات عطا کی ۔ یا جس طرح آدم کے پہلے مجسمے میں روح ڈالی گئی یا جرثومے میں ڈالی دونوں صورتوں میں یہ ایک عظیم اعجاز اور معجزہ ہے ۔ اس لئے کہ جرثومہ زندہ ہو یا پورے انسان کی زندگی میں یکدم روح ڈال دی جائے ۔ دونوں صورتیں معجزہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ زندگی کہاں سے آئی ؟ کیسے آئی ؟ بہرحال ہم یہ بات قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ زندگی مٹی اور ان تمام مردہ عناصر سے علیحدہ کوئی چیز ہے ۔ یہ ایک زائد چیز ہے ۔ یہ عناصر سے علیحدہ ایک حقیقت ہے ۔ اس کے کچھ آثار ہیں ۔ اس کی کچھ علامات ہیں جو مٹی یا دوسرے عناصر کے اندر موجود نہیں ہیں ۔ نہ دوسرے مردہ مادیات میں موجود ہوتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ راز یعنی حیات کی اصلیت کیا ہے ؟ یہ بات کافی نہیں ہے کہ اس حقیقت کا انکار کرنے کے لئے ہم صرف یہ کہہ دیں کہ ہم نہیں جانتے ۔ جیسا کہ آج کل مادہ پرست عاجز آکر یہ کہہ جاتے ہیں لیکن ان کی اس بات کو نہ کوئی عقلمند آدمی اہمیت دیتا ہے نہ کوئی عالم اسے تسلیم کرتا ہے۔

اس راز کو ہم اس حقیقت کے باوجود نہیں جانتے کہ ہم نے راز حیات کے پانے کے سلسلے میں آج تک انتہائی کوششیں کیں لیکن وہ راز ہم نہ پاسکے ۔ اس لئے کہ ہم نے اس راز کو معروف مادی ذرائع سے پانے کی کوششیں کیں ۔ اور وہ اکارت گئیں ۔ ہم نے زندگی کو موت کے جنگل سے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔………ہم نہیں جانتے لیکن اللہ جس نے موت وحیات کی تخلیق کی وہ تو جانتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ” اس نے اپنی روح اس میں پھونک دی “ اور اس کا اظہار اس نے لفظ کُن فَیَکُونُ سے کیا ۔ یعنی ” ہوجا “ پس ہوگیا۔ اب یہ نفخ روح کیا ہے ؟ کس طرح حالت موت پر یہ نفخ روح ہوتی ہے اور وہ حالت حیات میں بدل جاتی ہے اور یہ راز لطیف راز فہم سے باہر رہتا ہے۔

اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کیفیت کیا ہے ؟ یہ وہ ماہیت وکیفیت ہے جس کا ادراک عقل بشری کے دائرہ قدرت سے باہر ہے ۔ کیونکہ یہ اس کی شان اور مقام سے باہر ہے ۔ اسے یہ قدرت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اس کا ادراک کرسکے ۔ اس کے کاسہ سر میں یہ سمندروں جیسی حقیقت سماہی نہیں سکتی ؟ اس لئے انسان کا ایک اپنا مقصد تخلیق ہے ۔ اس کے یہاں کچھ فرائض ہیں ۔ یعنی فریضہ خلافت فی الارض اس کے لئے اسے اس راز سے آگاہی ضروری نہیں ہے ۔ وہ یہاں حیات وموت کے کاروبار کے لئے نہیں پیدا کیا گیا تاکہ اسے حیات کی ماہیت بنائی جائے ۔ اسے نفخ روح کی کیفیت سے آگاہ کیا جائے اور زندگی کی یہ پہلی سیڑھی پر اس زندگی کا اتصال ذات آدم سے کیسے ہوا ؟ جب ان میں زندگی کاست ڈالا گیا۔

یہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ جب انہوں نے حضرت آدم میں اپنی روح پھونکی تو اس کی وجہ سے حضرت آدم کو یہ اعزاز حاصل ہوا یہاں تک کہ ان کو ملائکہ پر بھی فوقیت دی گئی ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ اعزاز اور یہ حیات جرثومے اور میکر بادت کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے ۔ یہی وہ نفخ روح ہے جس کی وجہ سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر انسان ایک ایسی جنس ہے ۔ اس کی تخلیق خاص طور پر علیحدہ ہوئی ہے ۔ اور اس کائنات میں اس کا معتبر اور مکرم مقام ہے ۔ جو دوسری زندہ چیزوں کو حاصل نہیں ہے۔

بہرحال یہاں ہمارا موضوع تخلیق انسان نہیں ہے ۔ سیاق کلام میں کچھ دیر کے لئے ہم نے اسی نکتے پر اس لئے روشنی ڈالی ہے کہ بعض اوقات ایک قاری کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے۔ کہ انسان کی پیدائش اس طریقے پر کیسے ممکن ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں راز حیات سے ہمیں آگاہ فرماتے ہیں ۔ اگرچہ ہم اس کی ماہیت نہیں پاسکتے ۔ اگرچہ ہم مردہ میں نفخ روح کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتے لیکن راز حیات کو تو سمجھ سکتے ہیں …………حضرت آدم (علیہ السلام) کو براہ راست پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے پھر پیدائش انسانیت کے لئے ایک طبعی راہ متعین کردی ۔ یعنی میاں بیوی کے ملاپ کے نتیجے میں قافلہ انسانیت رواں دواں ہوا۔ یعنی بیوی کے پیدا کردے انڈے کے ساتھ مرد کے جرثومے کے ملاپ یوں گود ہری ہوئیں ‘ نسلیں چلیں جس طرح یہ انڈہ زندہ ہے ۔ اس طرح یہ جرثومہ بھی زندہ ہے ۔ دونوں متحرک ہیں۔

قافلہ حیات اس شاہراہ پر چل پڑا اور لوگ اس کے عادی ہوگئے ۔ اب ایک مقام ایسا آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیش پا افتادہ راستے کو بدل دیا ۔ مروجہ اصل ایک محدود وقت کے لئے معطل کردیا گیا۔ ایک فرد کے بارے میں اس قاعدے کو معطل کردیا اور ایک مثال ایسی پیدا کردی گئی جو آدم (علیہ السلام) کی شکل میں ہو۔ اگرچہ بتمامہ اس جیسی نہ ہو ۔ یہاں اب صرف عورت سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ وہی روح اس عورت میں پھونک دی جاتی ہے جس کی ابتدائی تخلیق ہوئی ۔ اور اس عورت کے رحم میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے ۔ یہاں لاہوتی سوالات پیدا ہوئے ۔ کیا یہ نفخ کلمہ ہے ؟ کیا کلمہ ارادے کے متوجہ ہونے کا نام ہے ؟ کیا کلمہ کن ہے ؟ جو کبھی حقیقت ہوتا ہے اور کبھی محض توجہ ارادہ سے کنایہ ہوتا ہے۔ کیا کلمہ خود حضرت عیسیٰ ہیں یاکلمہ وہ ہے جس سے وہ وجود میں آئے ؟…………یہ تمام مباحث ایسے ہیں جن سے شبہات ہی حاصل ہوسکتے ہیں ۔ ان مباحث کے نتیجے میں یقین حاصل نہیں ہوتا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ایک زندگی ایسی وجود میں لانی تھی جس کی کوئی مثال نہ ہو۔ اس نے اپنے بےقید ارادے کے ذریعے اسے وجود بخشا ۔ اس زندگی میں اپنی جانب سے ایک روح پیدا کی ۔ ہمیں اس روح کے آثار تو نظر آتے ہیں لیکن ہم اس کی ماہیت اور کیفیت ادراک سے قاصر ہیں ۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم اس سے قاصر رہیں ۔ اس لئے کہ اس ادراک کی وجہ سے ہماری اس قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا جو ہمیں اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے ۔

یہ معاملہ ‘ اس صورت میں بہت سہولت کے ساتھ سمجھاجاسکتا ہے اور اس صورت میں اس کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی شبہ بھی پیدا نہیں ہوتا…………غرض ملائکہ نے حضرت مریم کو بشارت دی ۔ اس بشارت میں اللہ کی جانب سے فرمان آنا تھا ‘ اس فرمان کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم بتایا گیا۔ ان کی نوع ‘ ونسب کا بھی ذکر کردیا گیا ۔ نسب نامہ مان کی طرف راجع ہوا۔ بشارت میں ان کی صفات اور اللہ کے ہاں ان کے لئے رتبہ بلند کا ذکر کیا گیا ۔ دنیا وآخرت میں ان کی وجاہت کا ذکر بھی ہوا اور یہ اعلان بھی ہوا کہ وہ اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ اور یہ ذکر بھی ہوا کہ پیدا ہوتے ہی اس سے معجزات کا ظہور شروع ہوگا۔” گہوارے “ ہی میں لوگوں سے باتیں شروع کردے گا ۔ یعنی جوانی میں بھی بات کرے گا ۔ اور اس کی صفات میں سے اہم صفت یہ ہوگی کہ وہ قافلہ صالحین میں سے ہوگا۔

55