اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 38 ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج حضرت زکریا علیہ السلام بہت بوڑھے ہوچکے تھے ‘ ان کی اہلیہ بھی بہت بوڑھی ہوچکی تھیں اور ساری عمر بانجھ رہی تھیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ یہ مضامین سورة مریم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ مکی دور میں جبکہ مسلمان ہجرت حبشہ کے لیے گئے تھے ‘ تو وہاں جا کر نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر رض بن ابی طالب نے سورة مریم کی آیات پڑھ کر سنائی تھیں۔ اس مناسبت سے یہ مضامین سورة مریم میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام ساری عمر بےاولاد رہے تھے ‘ لیکن حضرت مریم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اولاد کی جو خواہش ان کے اندر دبی ہوئی تھی وہ چنگاری دفعۃً بھڑک اٹھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ ! تو اس بچی کو یہ سب کچھ دے سکتا ہے تو اپنی قدرت سے مجھے بھی پاکیزہ اولاد عطا فرما دے !
آیت 39 فَنَادَتْہُ الْمَلآءِکَۃُ وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْْمِحْرَابِلا اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ‘ جن کے لیے آیت 44 میں بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُکا لفظ آرہا ہے۔وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ یہاں نوٹ کر لیجیے کہ آخری لفظ جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی مدح کے لیے آیا ہے وہ نبی ہے۔
آیت 40 قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ زکریا علیہ السلام نے ابھی خود دعا کر رہے تھے ‘ لیکن اللہ کی طرف سے بیٹے کی بشارت ملنے پر غالباً اس کی توثیق اور re-assurance چاہ رہے ہیں کہ میرے ہاں کیسے بیٹا ہوجائے گا ؟وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ ط قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ اسے اسباب کی احتیاج نہیں ہے۔ اسباب اس کے محتاج ہیں ‘ اللہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔
آیت 41 قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْ اٰیَۃً ط۔مجھے معلوم ہوجائے کہ واقعی ایسا ہونا ہے اور یہ کلام جو میں سن رہا ہوں واقعتا تیری طرف سے ہے۔ قَالَ اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ الاَّ رَمْزًا ط۔یعنی ان کی قوت گویائی سلب ہوگئی اور اب وہ تین دن کسی سے بات نہیں کرسکتے تھے۔
حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو شدید ضعیفی کی عمر میں ایک بانجھ اور بوڑھی عورت سے حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا دے دیا۔ تو کیا یہ عام قانون کے مطابق ہے ؟ ظاہر ہے یہ بھی تو معجزہ تھا۔ اسی طرح اس سے ذرا بڑھ کر ایک معجزہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش ہے کہ انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمادیا۔ اب اس کا ذکر آ رہا ہے۔
آیت 43 یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَا سْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ یعنی نماز باجماعت کے اندر شریک ہوجایا کرو۔
آیت 44 ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ط وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلاَمَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ جب حضرت مریم علیہ السلام کو ان کی والدہ نے ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کیا تو ہیکل کے کاہنوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ یہ بچی میری تحویل میں ہو ‘ اس کی تربیت اور پرورش کی سعادت مجھے حاصل ہوجائے جسے اللہ کے نام پر وقف کردیا گیا ہے۔ چناچہ اس کے لیے وہ اپنے قلم پھینک کر کسی طرح قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس میں اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کا نام نکال دیا۔ یہاں اثنائے کلام میں نبی اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ تو اس وقت وہاں نہیں تھے جب وہ قرعہ اندازی سے یہ معاملہ طے کر رہے تھے۔
آیت 45 اِذْ قَالَتِ الْمَلآءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ ق تمہیں اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی کی ولادت کی خوشخبری دے رہا ہے جو اس کی جانب سے ایک خاص کلمہ ہوگا۔