” زکریا نے کہا پروردگار ‘ بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا۔ میں تو بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میر بیوی بانجھ ہے ۔ “ اس کا جواب بڑی سادگی اور بڑی آسانی سے دیدیا جاتا ہے بات اپنی جگہ تک آجاتی ہے ۔ اور ایسی حقیقت کو پیش کردیا جاتا ہے جس کے فہم میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور جس کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ قَالَ كَذَلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ……………” اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ “ یہی طریقہ ہے ‘ جو فی الحقیقت روبعمل ہے ۔ رات دن دہرایا جاتا ہے ۔ اللہ کی مشیئت کام کرتی رہتی ہے ۔ اللہ کے کام روز وشب یونہی ہوتے ہیں ۔ لیکن لوگ ان واقعات پر اچھی طرح غور نہیں کرتے ۔ وہ اللہ کی اس کاریگری کا گہرا مشاہدہ اور اس پر غور نہیں کرتے ۔ اور حقائق کو ذہن نشین نہیں کرتے ۔
یونہی بسہولت ‘ بہ روانی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ اس میں اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ زکریا کو بیٹا دیدے ۔ اگرچہ وہ بوڑھا ہوگیا ہو اور اس کی عورت بانجھ ہوگئی ہو ۔ بوڑھا ہونا اور بانجھ ہونا تو انسانوں کا مشاہدہ ہے ۔ جس پر وہ اپنے لئے قواعد بناتے ہیں ۔ اس لئے اپنے لئے ضابطہ بناتے ہیں ۔ رہے اللہ تعالیٰ تو وہ انسانی ذہن کے قوانین وقیاسات کے پابند کیسے ہوگئے ۔ وہ تو جس طرح چاہے تجربات کو پھیر دے ۔ اس کی مشیئت تو ہر قید سے آزاد ہے ۔
آیت 40 قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ زکریا علیہ السلام نے ابھی خود دعا کر رہے تھے ‘ لیکن اللہ کی طرف سے بیٹے کی بشارت ملنے پر غالباً اس کی توثیق اور re-assurance چاہ رہے ہیں کہ میرے ہاں کیسے بیٹا ہوجائے گا ؟وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ ط قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ اسے اسباب کی احتیاج نہیں ہے۔ اسباب اس کے محتاج ہیں ‘ اللہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔