سورة آل عمران: آیت 23 - ألم تر إلى الذين أوتوا... - اردو

آیت 23 کی تفسیر, سورة آل عمران

أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ نَصِيبًا مِّنَ ٱلْكِتَٰبِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَٰبِ ٱللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا نہیں جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے، اُن کا حال کیا ہے؟اُنہیں جب کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allatheena ootoo naseeban mina alkitabi yudAAawna ila kitabi Allahi liyahkuma baynahum thumma yatawalla fareequn minhum wahum muAAridoona

آیت 23 کی تفسیر

یہ سوال سوالیہ ہے اور اسی سے ان کے اس عجیب اور متضاد موقف کی تشہیر مطلوب ہے ۔ یہ موقف ان لوگوں نے اختیار کیا ہے جنہیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ بھی خوش قسمتی سے ملا۔ مثلاً یہود کو تورات اور عیسائیوں کو انجیل کی شکل میں ‘ اور یہ کتابیں کتاب اللہ کا حصہ اس اعتبار سے ہیں کہ کتاب اللہ تو وہ تمام ریکارڈ ہے جو اللہ کی طرف سے کسی بھی زمان ومکان میں کسی نبی پر اترا ۔ کیونکہ اللہ کے ہاں اللہ بھی ایک ہے ۔ نگہبانی بھی ایک ہے ۔ اور حقیقتاً کتاب بھی ایک ہے ۔ یہود ونصاریٰ کو تو اس کا ایک حصہ ملا اور مسلمانوں کو پوری کتاب ملی ۔ اس لئے کہ قرآن کریم اصول الدین کا جامع ہے ۔ اور سابقہ کتب کی توثیق کرتا ہے ۔ یہ سوال ان لوگوں سے کیا گیا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ۔ تاکہ وہ کتاب ان کے درمیان برپا شدہ اختلافات کا بھی فیصلہ کردے ۔ ان کے تمام امور حیات میں وہ فیصلہ کن ہو ۔ ان کی معیشت اور معاش میں وہ فیصلہ کن ہو ۔ تو وہ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے ۔ ان کا ایک فریق اس سے پیچھے ہٹ منہ موڑ دیتا ہے۔ اور کتاب الٰہی اور شریعت الٰہیہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتا لہٰذا یہ ایک ایسا موقف ہے جو ایمان کے خلاف ہے اور وہ ان کے اس دعوے کے بھی خلاف ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ

” تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے۔ ان کا حال کیا ہے ؟ انہیں جب کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے ‘ تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلے کرے ‘ تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیرتا ہے۔ “

اسی طرح اللہ تعالیٰ بعض اہل کتاب کے طرز عمل پر تعجب کا اظہار فرماتے ہیں ‘ سب کے نہیں بعض کے طرز عمل پر کہ انہیں یہ دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی امور میں اور اپنے عملی امور میں کتاب الٰہی کی طرف رجوع کریں اور اس کا انکار کردیں۔ وہ یہ انکار مسلمان ہوتے ہوئے کیسے کرسکتے ہیں ‘ مسلمان بھی ہیں اور شریعت کو انہوں نے اپنی زندگی سے بدر کیا ہوا ہے ۔ اور یہ یقین پھر بھی کئے جارہے ہیں کہ وہ مسلم ہیں ۔ یہ تعجب انگیز سوال اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان بھی سمجھ لیں کہ حقیقت دین کیا ہے ۔ اور حقیقت اسلام کیا ہے ۔ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے ہاں اضحوکہ بن جائیں اور اس کی جانب سے ایسے سوال کا سامنا کرنا پڑے۔ اہل کتاب جو اسلام کے مدعی نہیں ہیں اگر ان کا حال یہ ہوگا اگر وہ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرائیں تو پھر اہل اسلام کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ کہ اگر وہ اپنے فیصلے اللہ کی کتاب اور شریعت کے مطابق نہیں کرتے تو وہ اللہ کی جانب سے کس قدر نکیر ‘ استنکار ‘ تعجب اور قابل نفرت اور مضحکہ خیزی کے مستحق ہوں گے ۔ یہ ایک ایسا تعجب ہے جو رفع نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک عظیم مصیبت ہے جس کا اندازہ نہیں کیا گیا۔ اور یہ اللہ کا اس قدر عظیم غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے جس کے نتیجے میں ایک مسلم غضب الٰہی کا مستحق ہوسکتا ہے اور راندہ درگاہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت سے محروم بھی ہوسکتا ہے۔ العیاذ باللہ۔

آیت 23 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ اُوْتُوْا مجہول کا صیغہ ہے اور یاد رہے کہ جہاں مذمت کا پہلو ہوتا ہے وہاں مجہول کا صیغہ آتا ہے۔یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ وَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔یعنی کتاب کو مانتے بھی ہیں لیکن اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جھوٹے دعوے یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ ان کا توراۃ و انجیل پر ایمان ہے کیونکہ ان کتابوں کی ہدایت کے مطابق جب انہیں اس نبی آخرالزمان کی اطاعت کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر کے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں، اس سے ان کی اعلیٰ درجہ کی سرکشی تکبر اور عناد و مخالفت ظاہر ہو رہی ہے، اس مخالفت حق اور بےجا سرکشی پر انہیں اس چیز نے دلیر کردیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر کے یہ بات بنا لی ہے کہ ہم تو صرف چند روز ہی آگ میں رہیں گے یعنی فقط سات روز، دنیا کے حساب کے ہر ہزار سال کے پیچھے ایک دن، اس کی پوری تفسیر سورة بقرہ میں گذر چکی ہے، اسی واہی اور بےسروپا خیال نے انہیں باطل دین پر انہیں جما دیا ہے بلکہ یہ خود اللہ نے ایسی بات نہیں کہی ان کا خیال ہے نہ اس کی کوئی کتابی دلیل ان کے پاس ہے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں ڈانٹتا اور دھمکاتا ہے اور فرماتا ہے ان کا قیامت والے دن بدتر حال ہوگا ؟ کہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا رسولوں کو جھٹلایا انبیاء کو اور علماء حق کو قتل کیا، ایک ایک بات کا اللہ کو جواب دینا پڑے گا اور ایک ایک گناہ کی سزا بھگتنی پڑے گی، اس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں اس دن ہر شخص پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بھی کسی طرح کا ظلم روانہ رکھا جائے گا۔

آیت 23 - سورة آل عمران: (ألم تر إلى الذين أوتوا نصيبا من الكتاب يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم ثم يتولى فريق منهم وهم معرضون...) - اردو