سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 53 (آیات 23 سے 29 تک)

أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ نَصِيبًا مِّنَ ٱلْكِتَٰبِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَٰبِ ٱللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا۟ لَن تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًا مَّعْدُودَٰتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِى دِينِهِم مَّا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَٰهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ قُلِ ٱللَّهُمَّ مَٰلِكَ ٱلْمُلْكِ تُؤْتِى ٱلْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ ٱلْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ ٱلْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ تُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَتُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُوا۟ مِنْهُمْ تُقَىٰةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥ ۗ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ قُلْ إِن تُخْفُوا۟ مَا فِى صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
53

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

تم نے دیکھا نہیں جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے، اُن کا حال کیا ہے؟اُنہیں جب کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allatheena ootoo naseeban mina alkitabi yudAAawna ila kitabi Allahi liyahkuma baynahum thumma yatawalla fareequn minhum wahum muAAridoona

یہ سوال سوالیہ ہے اور اسی سے ان کے اس عجیب اور متضاد موقف کی تشہیر مطلوب ہے ۔ یہ موقف ان لوگوں نے اختیار کیا ہے جنہیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ بھی خوش قسمتی سے ملا۔ مثلاً یہود کو تورات اور عیسائیوں کو انجیل کی شکل میں ‘ اور یہ کتابیں کتاب اللہ کا حصہ اس اعتبار سے ہیں کہ کتاب اللہ تو وہ تمام ریکارڈ ہے جو اللہ کی طرف سے کسی بھی زمان ومکان میں کسی نبی پر اترا ۔ کیونکہ اللہ کے ہاں اللہ بھی ایک ہے ۔ نگہبانی بھی ایک ہے ۔ اور حقیقتاً کتاب بھی ایک ہے ۔ یہود ونصاریٰ کو تو اس کا ایک حصہ ملا اور مسلمانوں کو پوری کتاب ملی ۔ اس لئے کہ قرآن کریم اصول الدین کا جامع ہے ۔ اور سابقہ کتب کی توثیق کرتا ہے ۔ یہ سوال ان لوگوں سے کیا گیا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ۔ تاکہ وہ کتاب ان کے درمیان برپا شدہ اختلافات کا بھی فیصلہ کردے ۔ ان کے تمام امور حیات میں وہ فیصلہ کن ہو ۔ ان کی معیشت اور معاش میں وہ فیصلہ کن ہو ۔ تو وہ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے ۔ ان کا ایک فریق اس سے پیچھے ہٹ منہ موڑ دیتا ہے۔ اور کتاب الٰہی اور شریعت الٰہیہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتا لہٰذا یہ ایک ایسا موقف ہے جو ایمان کے خلاف ہے اور وہ ان کے اس دعوے کے بھی خلاف ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ

” تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے۔ ان کا حال کیا ہے ؟ انہیں جب کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے ‘ تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلے کرے ‘ تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیرتا ہے۔ “

اسی طرح اللہ تعالیٰ بعض اہل کتاب کے طرز عمل پر تعجب کا اظہار فرماتے ہیں ‘ سب کے نہیں بعض کے طرز عمل پر کہ انہیں یہ دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی امور میں اور اپنے عملی امور میں کتاب الٰہی کی طرف رجوع کریں اور اس کا انکار کردیں۔ وہ یہ انکار مسلمان ہوتے ہوئے کیسے کرسکتے ہیں ‘ مسلمان بھی ہیں اور شریعت کو انہوں نے اپنی زندگی سے بدر کیا ہوا ہے ۔ اور یہ یقین پھر بھی کئے جارہے ہیں کہ وہ مسلم ہیں ۔ یہ تعجب انگیز سوال اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان بھی سمجھ لیں کہ حقیقت دین کیا ہے ۔ اور حقیقت اسلام کیا ہے ۔ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے ہاں اضحوکہ بن جائیں اور اس کی جانب سے ایسے سوال کا سامنا کرنا پڑے۔ اہل کتاب جو اسلام کے مدعی نہیں ہیں اگر ان کا حال یہ ہوگا اگر وہ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرائیں تو پھر اہل اسلام کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ کہ اگر وہ اپنے فیصلے اللہ کی کتاب اور شریعت کے مطابق نہیں کرتے تو وہ اللہ کی جانب سے کس قدر نکیر ‘ استنکار ‘ تعجب اور قابل نفرت اور مضحکہ خیزی کے مستحق ہوں گے ۔ یہ ایک ایسا تعجب ہے جو رفع نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک عظیم مصیبت ہے جس کا اندازہ نہیں کیا گیا۔ اور یہ اللہ کا اس قدر عظیم غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے جس کے نتیجے میں ایک مسلم غضب الٰہی کا مستحق ہوسکتا ہے اور راندہ درگاہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت سے محروم بھی ہوسکتا ہے۔ العیاذ باللہ۔

اردو ترجمہ

ان کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں "آتش دوزخ تو ہمیں مس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز" اُن کے خود ساختہ عقیدوں نے اُن کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum qaloo lan tamassana alnnaru illa ayyaman maAAdoodatin wagharrahum fee deenihim ma kanoo yaftaroona

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

” ان کا یہ طرزعمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں ۔” کہ آتش دوزخ تو ہمیں مس تک نہیں کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو چند روز “ ان کے خود ساختہ عقیدوں نے ان کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے۔ “

یہ ہے ان کے اعراض کا اصل سبب ‘ جس کی وجہ سے وہ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فیصلے نہیں کراتے ۔ اور ان کے موقف میں یہ تناقض ان کے اس دعوے کے باوجود ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں ‘ دراصل وہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بارے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں ۔ یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پورا پورا انصاف دین گے ۔ اس پر انہیں کوئی بھروسہ نہیں ہے اور یہ بات ان کے اس قول سے اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے کہ دوزخ کی آگ انہیں مس تک نہ کرے گی ۔ اگر کوئی سزا ہوگی تھی تو وہ چند روزہ ہوگی ۔ اگر یہ حقیقت نہیں تو پھر کیوں انہیں آگ نہیں چھوئے گی ۔ اور ان کو چند روزہ سزا ہی کیوں ہوگی ۔ وہ اصول الدین سے کیوں پھرگئے ہیں ۔ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کیوں نہیں کراتے ۔ اگر ان کا اللہ کے عدل و انصاف پر یقین ہے تو پھر ان کا یہ موقف کیوں ہے ؟ یہ ممکن نہیں ہے اگر انہیں یوم الآخرۃ کے حساب کا یقین ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے ۔ یہ دراصل وہ جھوٹ بولتے ہیں جس پر خود انہیں بھی یقین نہیں اور وہ اپنے ان خودساختہ عقائد کے جال میں خود پھنس گئے ہیں وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ……………” ان کے خودساختہ عقیدوں نے ‘ ان کو ان کے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال دیا ہے۔ “

حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی دل میں قیام قیامت کا صحیح عقیدہ موجود ہے تو وہ شخص قیامت کے دن کے حساب و کتاب اور اللہ کی جانب سے عدل و انصاف کے بارے میں وہ سوقیانہ تصورات نہیں اپناسکتا جو یہ لوگ اپنائے ہوئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی معقول شخص کے دل و دماغ میں خوف آخرت ‘ اللہ کے مقابلے میں حیادار انہ موقف ہونے کے بعد یہ بات آہی نہیں سکتی کہ اسے کتاب الٰہی کے مطابق فیصلے کے لئے بلایا جائے اور وہ انکارکردے یا اعراض کردے۔

آج ہمارے دور میں بھی مسلمانوں کی حالت ایسی ہی ہے جیسا کہ اہل کتاب کی تھی ۔ آج کے مسلمان بھی بزعم خود مسلمان ہیں ۔ اور جب انہیں یہ دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فیصلے کرائیں اور شریعت نافذ کردیں تو وہ روگردانی کرتے ہوئے اس بات سے انکار کرتے ہیں ان میں بعض کھاتے پیتے لوگ اس قدر بےحیا ہوگئے ہیں ۔ زندگی دنیا کا نام ہے اور دنیا کے ساتھ دین کا تعلق کیا ہے ۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کی روزمرہ کی عملی ‘ اقتصادی اور اجتماعی روابط کے اندر دین کو گھسیڑنے کی ضرورت ہی کیا۔ بلکہ اب وہ کہتے ہیں کہ خاندانی زندگی میں بھی دین کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ان خیالات کے حامل ہونے کے بعد بھی وہ مسلسل یہ دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ۔ اس کے بعد ان میں سے بعض اس احمقانہ دھوکے میں مبتلا ہیں کہ اللہ انہیں پاک وصاف کرنے کے لئے صرف چند روز تک آگ میں ڈالے گا ۔ اس کے بعد وہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ یہ حقیقت نہیں ہے ۔ اور یہ اہل اسلام بھی دین سے اسی طرح دور ہوگئے ہیں جس طرح اہل کتاب دور ہوگئے تھے ۔ اور یہ لوگ دراصل دین سے اس طرح بسہولت نکل گئے ہیں جس طرح کسی کے ہاتھ سے مچھلی چھوٹ جاتی ہے ۔ یہ اس حقیقت سے نکل گئے جسے اللہ نے پسند فرمایا تھا۔ اس لئے اسلام سے مراد انقیاد اور اطاعت ہے ۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں اللہ سے ہدایت اور تعلیم لینے کا نام اسلام ہے ۔

اردو ترجمہ

مگر کیا بنے گی اُن پر جب ہم انہیں اُس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دے دیا جائیگا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fakayfa itha jamaAAnahum liyawmin la rayba feehi wawuffiyat kullu nafsin ma kasabat wahum la yuthlamoona

فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ

” مگر کیا بنے گی ان پر جب ہم انہیں اس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے ؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دیدیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ “……………کیاحال ہوگا ؟ یہ ایک خوفناک دہمکی ہے ۔ دل مومن کانپ اٹھتا ہے ‘ وہ سنتے ہی محسوس کرتا ہے کہ وہ دن نہایت ہی خوفناک اور سنجیدہ ہوگا ‘ اللہ کے سامنے پیشی کا دن ہوگا۔ اس صحیح عدل ہوگا۔ اس دن کا تصور اور اس کا صحیح شعور ان باطل تصورات اور ان کے خود گھڑے ہوئے تصورات سے کوئی میل نہیں کھاتا ۔ اس تہدید اور تخویف کے بعد یہ حکم قائم ہے ۔ یہ مشرکین کے لئے بھی ہے ‘ ملحدین کے لئے بھی دعوائے اسلام رکھنے والے اہل کتاب کے لئے بھی اور آج کے مسلمانوں کے لئے بھی جو اپنی زندگیوں میں اسلام کو صحیح طرح نافذ نہیں کرتے ۔ ان لوگوں کا اس دن کیا حال ہوگا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور جس میں ہم ان سب کو جمع کریں گے ۔ اور جس دن اللہ تعالیٰ کا نظام عدل اپنے طریقوں پر چلے گا۔ اور ہر شخص کو اس کی کمائی کا صلہ مل جائے گا ۔ پورا پورا بغیر کسی ظلم اور بغیر کسی لحاظ کے ‘ کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی ۔ گو اللہ کے حساب میں کوئی روع رعایت ان سے نہ ہوگی ۔………آیت میں سوال کردیا گیا ہے ‘ لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ‘ دل کانپ اٹھے ‘ بدن دہل گیا اور جواب از خود آنکھوں کے سامنے تھا۔

اردو ترجمہ

کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Quli allahumma malika almulki tutee almulka man tashao watanziAAu almulka mimman tashao watuAAizzu man tashao watuthillu man tashao biyadika alkhayru innaka AAala kulli shayin qadeerun

اس کے بعد ہر مومن اور خود رسول اللہ ﷺ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوں ‘ اللہ کو اپنی الوہیت میں ایک سمجھتے ہوئے ‘ اسے اس جہاں کا واحد نگہبان سمجھتے ہوئے ‘ خود بشر کی زندگی میں بھی اور اس کائنات کی تدبیر میں بھی کیونکہ یہ دونوں پہلو اللہ کی خدائی اور اس کی حاکمیت کے مظاہر ہیں اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ نہ اس کا کوئی مثیل اور شبیہ ہے ۔

یہ نہایت ہی دھیمی اور پر مشیئت آواز ہے ۔ اس کی لفظی ترکیب دعائیہ ہے ۔ لیکن اس کی روح میں گیری معنویت اور خشوع و خضوع ہے ۔ اس میں اس ………کھلی کائنات کی کھلی کتاب پر نظر التفات ڈالی گئی ہے ۔ بڑی نرمی اور بڑی محبت کے ساتھ انسان کے شعور میں ابال آتا ہے اس کو بتایا گیا ہے کہ وہ باری مدبر کائنات ہے اور ساتھ ہی انسانی امور کا بھی مدبر ہے۔ اس کی ہمہ گیر تدبیر کو یکجا کرکے ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ عظیم سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا الٰہ اور نگہبان اور اس کے اندر اس انسان کا الٰہ ونگہبان ایک ہی ہیں ۔ یہ انسان اس کائنات کا ایک حصہ ہے ۔ وہ اس سے علیحدہ کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اور دونوں میں اصل متصرف اللہ ہے ۔ صرف اللہ کے نظام زندگی سے اس کائنات کی شان ہے ۔ انسان کا فریضہ بھی یہی ہے ۔ اور جس طرح یہ کائنات اللہ کے دین سے خارج نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح انسان کے لئے بھی دین الٰہی سے خارج ایک قسم کا انحراف ہے ‘ حماقت ہے اور فساد ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں :

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ

” کہو اے ملک کے مالک ! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے ‘ چھین لے ‘ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ “

یہ وہ حقیقت ہے ‘ جو عقیدہ وحدالوہیت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک خدا کا مفہوم یہ ہے کہ وہی ایک مالک ہے ۔ وہ مالک الملک ہے ۔ اس کے ساتھ اس میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنی جانب جو کچھ چاہتا ہے اور جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اس کی یہ عطا عاریتاً ہوتی ہے جب چاہتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اپنا ملک واپس لے لیتا ہے۔ اس لئے یہاں کوئی کسی چیز کا بھی اصلی مالک نہیں ہے کہ اپنی ذاتی خواہش کے مطابق اس میں تصرف کرے ۔ انسانوں کی ملکیت عارضی ہے ۔ عطائی ہے ۔ اور یہ ان شرائط وقیود کے تحت ہے جن کے تحت عطا کنندہ نے عطا کی ہے ۔ اس کی تعلیمات کے تحت حکومت اور ملکیت میں تصرف ہوگا۔ اگر عطا کنندہ کے شرائط کے خلاف کیا گیا تو وہ باطل ہوگا۔ اس دنیا میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس قسم کے ہر تصرف کو مسترد کردیں اور آخرت میں خود اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے حساب و کتاب لیں گے ۔

نیز یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلیل کردے۔ اس کے حکم اور ارادہ کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں ہے ۔ اس پر کسی کا کوئی جبر نہیں اور اس کے فیصلوں کو کوئی رد کرنے والا بھی نہیں ہے ۔ وہ صاحب الامر ہے ۔ تمام امور اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی اللہ ہے اور شرک سے پاک ‘ اور اس کے اس اختصاص اور اس کبریائی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی اس نگہبانی میں سب کا بھلا ہے ۔ وہ اس کائنات اور انسان کی نگہبانی انتہائی عدل کے اصولوں پر کرتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے مملکت اور سلطنت دیتا ہے ۔ اور جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے ۔ اور یہ سب کچھ انصاف وعدل کے ساتھ ۔ جسے چاہتا ہے معزز بنا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے اور یہ سب کچھ عدل کے ساتھ ۔ وہ ہر حالت میں خیر ہی خیر ہے ۔” اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے ۔ “” وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “

اردو ترجمہ

رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tooliju allayla fee alnnahari watooliju alnnahara fee allayli watukhriju alhayya mina almayyiti watukhriju almayyita mina alhayyi watarzuqu man tashao bighayri hisabin

انسانی امور کی نگہبانی اور انسانی معاملات کا بھلائی کے ساتھ یہ انتظام یہ سب کے سب اس کے اس عظیم اور عظیم ترکائنات کی تدبیر کا ایک حصہ ہے ۔ اور اس وسیع اور عریض نظام حیات کا ایک پرتو وہ فرماتا ہے۔

تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

” تو رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ‘ جاندار میں سے بےجان کو نکالتا ہے اور بےجان میں سے جاندار کو ‘ اور جسے چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا ہے۔ “

اس عظیم حقیقت کو ایک تصویر کشی کے انداز میں بیان کیا گیا ہے ‘ جس کی ایک جانب قلب و شعور خوشی سے بھرجاتے ہیں اور دوسری جانب حواس اور نظر بھی مزے لیتی ہے ۔ ایک غیر محسوس باہم حرکت رات اور دن کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ رات دن میں بدلتی ہے اور دن رات میں پرویا جاتا ہے اور شب وروز سلسلہ تسبیح کے دانے نظر آتے ہیں ‘ مردہ سے زندہ چیز نکل رہی ہے اور زندہ سے مردہ ‘ اور یہ حرکت اور مسلسل حرکت بلاشبہ یہ بتارہی ہے کہ اس نظام میں خدائے حکیم کا ہاتھ ہے ۔ جو شخص غور سے اور کان لگا کر سنے ‘ اسے معلوم ہوگا کہ اس کائنات سے گہری صداقت پر مبنی آواز آرہی ہے ۔

رات کو دن میں داخل کرنے اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گرمیوں میں رات کا ایک حصہ دن میں بدل جاتا ہے اور سردیوں میں دن کا حصہ رات بن جاتا ہے اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ رات کی تاریکی میں دن کی روشنی نفوذ کرتی ہے اور دن کی روشنی میں رات داخل ہوتی ہے ‘ جو مفہوم بھی مراد ہو ‘ لیکن اس منظر میں حسی طور پر نظر آتا ہے کہ دست قدرت ارض وسما کو حرکت دے رہا ہے اور یہ زمین جو ایک تاریک کمرہ ہے وہ سورج کے روشن کرے کے سامنے اپنے محور پر گردان ہے ۔ یوں تاریک حصہ روشن حصے سے بدلتا رہتا ہے اور روشن تاریک سے ‘ یوں دھیرے دھیرے رات کی تاریکی دن کی روشنی کی طرف آرہی ہے ۔ اور دن کی روشنی رات میں بدلتی ہے ۔ آہستہ آہستہ رات لمبی ہوتی ہے اور دن کو کھاتی جاتی ہے اور اس طرح غیر محسوس طور پر دن بڑا ہوتا ہے اور رات کو کھاتا جاتا ہے ۔ اور یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کے بارے میں کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکت کہ اس کی تنابیں اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ اور نہ ہی کوئی عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حرکت اتفاقاً کسی مدبر کی تدبیر کے بغیر ہی شروع ہوگئی ۔

اسی طرح زندگی اور موت کا اعجوبہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ زندگی موت کی طرف بڑھتی ہے اور موت سے زندگی نمودار ہوتی ہے ۔ اور یہ کام بڑے آرام اور سکون سے ہوتا ہے۔ ایک زندہ مخلوق پر جو لمحہ بھی گزرتا ہے ‘ اس میں زندگی کے ساتھ اس موت بھی طاری ہوتی رہتی ہے ۔ اور اس کی زندگی کو موت کھاتی جاتی ہے ۔ اور اس سے پھر حیات نمودار ہوتی ہے ۔ ایک زندہ چیز سے خلئے مرجاتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں ۔ اور ان کی جگہ جدید خلئے پیدا ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں ۔ اور جو خلئے مرجاتے ہیں وہ دوسرے دور میں دوبارہ زندہ ہوتے ہیں ۔ اور ان میں سے جو زندہ ہوگئے وہ دوسرے کے دور میں پھر مرجاتے ہیں۔ یہ حالت تو ایک زندہ جسم کی ہے ۔ اب موت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور یہ تمام زندہ مرجاتا ہے ‘ لیکن اس کے خلئے ذرات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو دوسری ترکیب میں آتے ہیں اور دوسرے زندہ جسم میں آتے ہیں اور یہ زندگی اس میں داخل ہوتی ہے ۔ یوں رات اور دن یہ دورہ یوں ہی چلتا رہتا ہے ۔ اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ خود ان زندہ مخلوقات میں سے کوئی مخلوق تیار کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ موت وحیات کا یہ نظام از خود اتفاقاً اور مصادفتہ قائم ہوگیا ہے۔

اس پوری کائنات میں ایک حرکت جاری ہے اور ہر موجود کے جسم کے اندر ایک حرکت جاری ہے ۔ یہ ایک عظیم حرکت ہے مگر نہایت ہی خفیہ ‘ نہایت ہی گہری اور نہایت ہی لطیف ‘ قرآن کا یہ مختصر اشارہ اس مسلسل ذات کا انکشاف کرتا ہے انسان کے دل و دماغ کو ایک اشارہ دیا جاتا ہے اور اس حرکت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ قادر ہے ‘ از سر نو پیدا کرنے والا ہے ۔ اور مدبر ہے ‘ کوئی شخص بھی یہ سعی نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی کسی بھی تدبیر اور بہبود میں اللہ تعالیٰ سے علیحدہ ہوجائے جو لطیف اور مدبر ہے ۔ اور کس طرح وہ اپنے لئے از خود کوئی نظام تجویز کرسکتے ہیں ۔ جو خود ان کی اپنی خواہش نفس پر مبنی ہوں ‘ اس لئے کہ وہ اس کائنات کا حصہ ہیں اور اس کائنات کی تنظیم وہ حکیم وخبیر ہی کررہا ہے۔

پھر وہ کس طرح ایک دوسرے کو غلام اور بندے بناسکتے ہیں اور کیا جواز ہے کہ بعض دوسرے کے لئے رب اور الٰہ بن جائیں ۔ حالانکہ سب کا روزی رساں اللہ ہے ۔ اور سب لوگ اللہ کے عیال ہیں ۔ فرماتے ہیں

وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ……………” اور تو جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ “

یہ ایک آخری ڈچ ہے اور اس سے انسانی دل پر حقیقت کبری منکشف ہوجاتی ہے۔ وہ کون سی حقیقت ہے ؟ یہ کہ الٰہ ایک ہی ہے یعنی اللہ ‘ وہی ایک کائنات کا نگہبان ہے ۔ وہی ایک ذات ہے جو فعال ہے ۔ وہ ایک ہی ہے جو مدبر ہے ‘ وہی ایک مالک ہے ، وہی مدبر ہے ۔ وہی داتا ہے ‘ اور دین بھی اسی کا ہے ۔ وہی مالک الملک ہے ‘ وہی معز اور مذل ہے ۔ وہی زندہ کرنیوالا اور مارنیوالا ہے ۔ وہی دینے والا اور لینے والا ہے ۔ وہی اس کائنات کا مدبر ہے جو نظام عدل پر تدبیر کرتا ہے وہی ہے جو بھلائی ہی بھلائی ہے۔

اردو ترجمہ

مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yattakhithi almuminoona alkafireena awliyaa min dooni almumineena waman yafAAal thalika falaysa mina Allahi fee shayin illa an tattaqoo minhum tuqatan wayuhaththirukumu Allahu nafsahu waila Allahi almaseeru

اس سے پہلے ‘ اہل کتاب کے موقف پر استنکار اور تنبیہ کی گئی تھی ‘ یہ آخری تبصرہ بھی اس کی مزید تائید ہے ۔ پہلے اہل کتاب کے اس رویے کی مذمت کی گئی تھی ۔ کہ انہیں جب اس بات کی طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ اپنے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کریں تو وہ اس بات سے بھی اعراض کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں سمجھایا گیا تھا کہ کتاب اللہ اسی نظام زندگی پر مشتمل ہے ۔ جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے اتارا اور یہ پوری کائنات بھی منہاج الٰہی کے مطابق رواں دواں ہے ۔ جس میں خود انسان بھی شامل ہے ۔ یہ اس بات کی تمہید تھی جو آگے آرہی ہے کہ مومنین کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ‘ اس لئے کہ کافروں کی اس کائنات میں کوئی قوت نہیں ہے۔ نہ ان کا یہاں اختیار چلتا ہے ‘ یہاں تو تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ ہی اہل ایمان کا ولی و مددگار ہے۔

سابقہ آیت میں قرآن کریم نے اہل ایمان کے اس شعور کو بیدار کیا تھا کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں ‘ ہر قسم کی قوتوں کا مالک وہ ہے ۔ تمام تدابیر وہ اختیار کرتا ہے اور رزق صرف اس کے ہاتھ میں ‘ تو اب یہاں سمجھایا جاتا ہے کہ اہل ایمان پھر کس غرض کے لئے کافروں کے ساتھ دوستیاں قائم کرتے ہیں ۔ قلب مومن میں یہ دومتضاد امور کس طرح جمع ہوسکتے ہیں ۔ ایک طرف اللہ پر ایمان اور اللہ سے محبت دوسری جانب اللہ کے دشمنوں سے محبت جن کا حال یہ ہے کہ جب انہیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ اس کے مطابق فیصلے کئے جائیں تو وہ اس سے اعراض کرتے ہیں ۔ اس لئے یہاں یہ شدید دہمکی دی گئی ہے کہ اگر مومن ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو کتاب اللہ اور شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو ان کا ایمان خطرے میں ہے ۔ کفار کے دوستی مختلف شکلوں میں ممکن ہے ۔ دل سے محبت کرے ‘ ان کی مدد کرے یا ان سے مدد مانگے یہ سب موالات الکفار ہے ۔

لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ

” مومنین ‘ اہل ایمان کو چھوڑ کر ‘ کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں ۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ “

بالکل یونہی ‘ وہ اللہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے ۔ اس کا اللہ کے ساتھ نہ تعلق ہے اور نہ نسبت ہے۔ نہ وہ اللہ کے دین پر ہے اور نہ عقیدے پر ‘ نہ اس کا اللہ سے ربط ہے اور نہ دوستی ۔ یہ شخص اللہ سے دور ہے ۔ وہ ہر چیز سے غیر متعلق ہوگیا ہے ‘ جس کے ذریعہ کوئی بھی تعلق قائم ہوا کرتا ہے۔ ہاں یہاں بعض غیر معمولی حالات میں استثناء رکھی جاتی ہے ۔ بعض ممالک ایسے ہوسکتے ہیں جہاں بامر مجبوری ایسے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں ۔ لیکن ان حالات اور علاقوں میں بھی صرف زبانی تقیہ جائز ہے ۔ یہ جائز نہیں ہے کہ انسان دل سے اہل کفر کے ساتھ محبت کرے یا گہرے تعلقات قائم کرے ۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں تقیہ کا تعلق عمل سے نہیں ہوتا ‘ تقیہ صرف زبان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لئے جس تقیہ کا اجازت دی گئی اس میں یہ نہیں ہوتا کہ اہل ایمان اور کفار کے درمیان تعلقات قائم ہوں۔ اور اس سیاق میں کافر کا لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوا ہے جو شخص کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنے سے روگردانی کرتا ہے ۔ یعنی پوری زندگی میں ‘ یہاں تو یہ بات ضمناً کی گئی مگر دوسری جگہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ ایسے لوگوں کے لئے الکافرون کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ نیز تقیہ میں یہ بات بھی شامل نہیں ہے کہ ایک مسلمان کسی بھی صورت میں اہل کفر کے ساتھ عملی تعاون کرے ۔ اللہ کے ساتھ اس قسم کا کوئی دھوکہ نہیں کیا جاسکتا۔

ولایت اور محبت چونکہ دلوں کا کام ہے ۔ انسانی ضمیر اور شعور کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اور جذبہ اللہ خوفی اور تقویٰ اس جرم سے باز رکھ سکتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک عجیب انداز میں اپنے غضب اور اپنے قہرانہ انتقام سے ڈرایا ہے ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ” اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔ “ اور اسی کی طرف تو تمہیں آنا ہے۔ اور یہ تخویف اور ڈراوا مزید آگے بڑھ کر دلوں کو چھوتا ہے ‘ ان کی توجہ اس طرف مبذول کرتا ہے دیکھو تم اللہ کی نظروں میں ہو۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ! لوگوں کو خبردار کر دو کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے، زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اُس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul in tukhfoo ma fee sudoorikum aw tubdoohu yaAAlamhu Allahu wayaAAlamu ma fee alssamawati wama fee alardi waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

” اے نبی لوگوں کو خبردار کردو کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ ‘ یا ظاہر کرو ‘ اللہ بہرحال اسے جانتا ہے ۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے ۔ “

تہدید اور ڈراوے کی یہ انتہاء ہے ۔ اللہ خوفی کو جوش میں لایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے انتقام سے اپنے آپ کو بچاؤ ‘ اللہ کے پاس علم وقدرت کے دوررس وسائل ہیں ۔ اس سے بچ نکلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی مددگار نہ ہوگا۔

یہ تہدید اور ڈراوا مزید آگے بڑھتا ہے اور دلوں کی گہرائیوں کو چھوتا ہے ‘ اب اس خوفناک دن کو یادوں کے پردے پر لایا جاتا ہے جس میں ہر عمل اور ہر نیت پیش ہوگی اور اس دن ہر شخص کا مکمل سرمایہ اس کے سامنے ہوگا۔

53