سورة آل عمران: آیت 191 - الذين يذكرون الله قياما وقعودا... - اردو

آیت 191 کی تفسیر, سورة آل عمران

ٱلَّذِينَ يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَٰمًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَٰطِلًا سُبْحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ

اردو ترجمہ

جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yathkuroona Allaha qiyaman waquAAoodan waAAala junoobihim wayatafakkaroona fee khalqi alssamawati waalardi rabbana ma khalaqta hatha batilan subhanaka faqina AAathaba alnnari

آیت 191 کی تفسیر

زمین و آسمان کی تخلیق میں ‘ اور رات اور دن کی گردش میں وہ کیا آیات اور نشانیاں ہیں ‘ اور جب یہ اولوالالباب آسمان اور زمین میں تفکر کرتے ہیں تو وہ کیا نشانیاں ہیں ؟ جب وہ رات اور ان کی گردش میں غور کرتے ہیں تو انہیں کیا نظر آتا ہے ؟ جبکہ پھر وہ اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں کھڑے ہوکر بھی ‘ بیٹھ کر بھی اور کروٹ لیتے ہوئے بھی ۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ ان کے نتیجہ فکر کا تعلق اللہ کے ذکر کے ساتھ کیسے مربوط ہوجاتا ہے کہ وہ فوراً کھڑے ‘ بیٹھے اور کروٹ لیتے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ اور پھر وہ اس ذکر کو اس پر خشوع و خضوع اور پر سوز دعا پر کیسے ختم کرتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ……………(پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے۔ )

قرآن کریم یہاں ان لوگوں کی ایک زندہ اور متحرک تصویر کشی کرتا ہے جو اس کائنات کے اندر صحت مند غور کرتے ہیں اور ان کو اس کائنات کے مثرات کا ادراک ہوتا ہے ۔ اور وہ پھر ان مدرکات اور موثرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘ اور ان کی آنکھوں کے سامنے رات دن اس پوری کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی طرف لبیک کہتے ہیں ۔

قرآن کریم انسانی فکر ونظر میں باربار دعوت نظارہ دیتا ہے اور بڑی تاکید سے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کھلی کتاب کا مطالعہ کریں ۔ جس کے صفحات رات اور دن خود الٹتے پلٹتے رہتے ہیں ۔ ہر صفحے پر صانع قدرت کے نشانات میں سے ایک نشان نظر آتا ہے ۔ اور وہ فطعرت سلیمہ کے اندر ایک ایسی سچائی کے پہچاننے کا بےحد جوش پیدا کردیتا ہے ‘ جو سچائی اس کتاب کے صفحات کے اندر جمی ہوئی ہے ۔ اس کائنات کی اساس میں وہ سچائی موجود ہے ۔ اس کائنات کے خالق کے مطالبات کے تسلیم کرنے کی طرف یہ سچائی مائل کرتی ہے ۔ اور جس خالق نے اس کائنات میں یہ ناموس ودیعت کیا ہے ۔ اس کی طرف رجوع کی دعوت دی جاتی ہے ۔ دل میں خالق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ اس کا خوف اور خشیت بھی پیدا ہوتی ہے …………پھر یہ اولوالالباب کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صحیح الفکر ہیں ۔ جو آنکھیں کھول کر کتاب کائنات کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ آنکھوں پر پردے نہیں ڈالتے ۔ وہ اپنے غور وفکر اور تدبر کے دریچے بند نہیں کرتے ۔ اور اس طرح وہ اپنے دل کے حوالے سے ‘ اپنے قیام میں ‘ اپنے قعود میں اور کروٹ لیتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ یوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ذرائع ادراک کھل جاتے ہیں اور وہ اس ناموس اکبر اور حقیقت کائنات کا ادراک کرلیتے ہیں جو اللہ نے اس کائنات میں ودیعت کی ہے ۔ وہ اس کائنات کے مقصد وجود کو پالیتے ہیں ۔ اس ایجاد کرنے کے اصل اسباب ان کے علم میں آجاتے ہیں اور وہ کائنات کے فطرت کے اجزائے ترکیبی اور نظام قیام سے واقف ہوتے ہیں ۔ یہ تمام راز وہ اس الہام کے ذریعہ پاتے ہیں جو فطرت کے ان نوامیس اور انسانی دل کے درمیان رابطے کے ذریعے ہوتا ہے۔

زمین و آسمان کا مشہد ‘ رات اور دن کی تبدیلی کا منظر اور سیاروں کی گردش کے مناظر ایسے مناظر ہیں کہ اگر ہم اپنی آنکھیں کھول کردیکھیں ‘ ہمارے دل کام کررہے ہوں اور ہمارا ادراک اچھی طرح کام کرتا ہو اور ان کو اس نظر سے دیکھیں جس طرح ایک انسان کسی مشہد اور منظر کو پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور اگر ہم اپنے احساس سے ان مناظر کے عادی ہونے کے تصور کو دور کردیں ‘ اور اس تکرار کے اثرات سے اپنی حس کو پاک کردیں تو ہمارے احساس کے لئے یہ قابل ارتعاش ہوں ‘ ہمارے شعور کے اندر زلزلہ آجائے اور ہمیں اچھی طرح احساس ہوجائے کہ اس نظام کے اندر جس قدر دقت نظر سے ہم آہنگی پیدا کی گئی ہے وہ کسی حکیمانہ ہاتھ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک مدبر عقل کام کررہی ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک ناموس کام کررہا ہے ۔ جس کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ سب کچھ دھوکہ اور فریب نہیں ہوسکتا ۔ نہ یہ کوئی بخت واتفاق ہوسکتا ہے اور نہ یہ نظام محض فریب نظر ہوسکتا ہے۔

اور یہ بات بھی ہمارے شعور کے لئے کوئی کم زلزلہ خیز نہیں ہے کہ یہ زمین سورج کے اردگرد اور اپنے محور پر گردش کررہی ہے ۔ اور اس سے رات اور دن کے دومناظر پیدا ہورہے ہیں ۔ یہ کہ ان اجرام فلکی کے اندر کشش کام آرہی ہے ۔ اور اس نے ہر ایک جرم کو اپنی جگہ ٹھہرایا ہوا ہے ۔ یا کوئی اور نظام ہے ۔ یہ تو ہمارے مقرر کردہ اصول موضوعہ میں کبھی درست ہوں گے کبھی غلط ہوں گے ۔ جو صورت بھی ہو لیکن ہر صورت میں کائنات کا یہ عجوبہ ‘ عجوبہ ہی رہتا ہے ۔ اور نظر آتا ہے کہ ایک عظیم نظام ہے جس نے ان دیوہیکل سیاروں اور اجرام کو تھام رکھا ہے ۔ نہایت دقت سے ‘ نہ ٹوٹتے ہیں نہ باہم متصادم ہوتے ہیں ‘ بنی نوع انسان میں ماہرین فلکیات چاہے اس کا جو بھی نام رکھیں ‘ بہرحال یہ نظام قدرت کا نشان ہے ‘ یہ سچائی کی برہان ہے ‘ اور سچائی گردش ایام اور دوران فلک سے عیاں ہے۔

قرآن کریم نے یہاں جو صاف منظر کشی کی ہے ‘ اسی میں آسمانوں اور اجرام فلکی کی گردش اور رات اور دن کے پیہم تبدیلی کے مناظر اولوالالباب اور صاحبان عقل و دانش کے شعور اور فکر پر جو اثرات چھوڑتے ہیں ‘ ان اثرات کے ایک ایک جزء کو بڑی دقت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے ۔ یہ ایک قسم کی اثر انگیز تصویر ہے ۔ اسے دیکھ کر دل اس کائنات کے ساتھ باہم معاملہ کرتے وقت بہت ہی صحیح نظام اور طریقہ کا اختیار کرتا ہے ۔ یہ مناظر اپنی زبان میں بات کرتے ہیں اور یہ دل کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرتے ہیں ‘ اس کی حقیقت کے یکجا ہوجاتے ہیں ۔ اور کائنات کے اشارات اور اثرات کو قبول کرتے ہیں ۔ اس طرح کائنات کی یہ کتاب ایک مومن اور واصل باللہ انسان کے لئے کتاب علم ومعرفت بن جاتی ہے ۔ جسے اللہ نے تصنیف کیا ہے ۔

اس مطالعہ کائنات کا انسانی شعور پر پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ کھڑے ہوکر ‘ بیٹھتے ہوئے اور کروٹ بدلتے ہوئے ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور جبکہ وہ رات اور دن کے اختلاف کا مطالعہ بھی کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ غوروفکر پھر عبادت بن جاتے ہیں ۔ اور یوں یہ مشاہدات مشاہدات ذکر الٰہی بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ‘ اس تصور انسان اور تصور کائنات کے مطابق دوحقائق ثابت ہوجاتے ہیں۔

پہلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق میں تدبر اور مشاہدہ کرنا اور اللہ کی اس کھلی کتاب کا مطالعہ کرنا اور اللہ کے تخلیقی ہاتھ کا مطالعہ کرنا بھی حرکت کائنات کا مطالعہ اور اس کائنات کے صفحات کو الٹنا پلٹنا ‘ درحقیقت اصلی اور بنیادی عبادت ہے ۔ اور یہ ایک ذکر الٰہی ہے جو نہایت ہی حقیقی ذکر الٰہی ہے ۔ اگر کائناتی علوم ‘ جن میں اس کائنات کی تنظیم اور تشکیل سے بحث ہوتی ہے ۔ اور اس کائنات کے اندر جاری وساری نوامیس وسنن کا مطالعہ اور ان قوتوں اور ذخائر کا مطالعہ جو اس کائنات کے اندر جمع شدہ ہیں اور اس کائنات کے اسرار و رموز کے علوم کو اگر اس کائنات کے خالق کے ذکر اور اس کی یاد کے ساتھ یکجا کردیا جائے اور اس مطالعے سے اللہ کی جلالت قدر کا شعور پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا احساس اجاگر کیا جائے تو یہ تمام عمل اس کائنات کے خالق کی عبادت بن جاتا ہے ۔ اور نماز کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اور ان علوم کے ذریعہ زندگی درست ہوکر راہ مستقیم پر استوار ہوسکتی ہے ۔ پوری انسانی آبادی اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مادی اور کافرانہ رجحان نے اس کائنات اور خالق کائنات کے درمیان تصوراتی بعد پیدا کردیا ہے ۔ انہوں نے تکوینی قوانین اور ازلی ابدی حقیقت کے درمیان تضاد پیدا کردیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم جو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوبصورت ترین تحفہ تھا وہ خود انسان کے لئے ایک ایسی لعنت بن گیا ہے۔ جو انسان کا پیچھا کررہا ہے ۔ اور انسان کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کررہا ہے ۔ اس کی زندگی قلق ‘ روحانی خلا ‘ اور عدم اطمینان کی صورت میں اس طرح بسر ہورہی ہے جس طرح انسان کا ایک قہار وجبار بھوت پیچھا کررہا ہے۔

اور دوسری حقیقت یہ ہے اس کائنات میں جو آیات الٰہی ہیں ‘ وہ اپنی الہامی صورت میں اسی شخص پر ظاہر ہوتی ہیں جس کا دل ذکر الٰہی اور عبادت الٰہیہ میں مشغول ہو ۔ اور جو لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوکر ‘ بیٹھ کر اور کروٹ لیتے ہوئے ‘ درحقیقت وہی لوگ ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور رات اور دن کے پیہم آنے پر غور وفکر کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر عظیم حقائق کھلتے ہیں ۔ جو آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے اندر اور اختلاف لیل ونہار کے نظام میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ ان رازوں کے رازدان ہونے والے ہی پھر اسلامی زندگی تک پہنچتے ہیں جو نجات اخروی ‘ فلاح دنیوی اور خیر وصلاح کا ضامن ہے ۔ رہے وہ لوگ جو صرف ظاہری دنیا کی زندگی ہی پر بس کرتے ہیں اور وہ اس کائنات کی بعض تکوینی چیزوں کو دریافت کرلیتے ہیں اور ان لوگوں کا کوئی ربط اسلامی نظام حیات سے نہیں ہوتا تو یہ لوگ تو پوری زندگی کی بربادی کی فکر کرتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کو شکست وریخت سے دوچار کرتے ہیں اور ان تکوینی اسرار و رموز کو بربادی کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنی زندگی کو ایک ناقابل برداشت جہنم بنا رہے ہیں ‘ وہ زندگی کے ایسے قلق سے دوچار کرتے ہیں جس میں سانس گھٹتی ہے ۔ اور آخرت میں وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کی طرف لوٹیں گے ۔

غرض یہ دونوں حقائق ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ‘ ان دونوں کو اس سورت نے موضوع بحث بنایا ‘ جو اصحاب دانش کے لئے ان کے مطالعہ کائنات کے وقت اور تعلق باللہ کے قیام کی خاطر یہاں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور یہ ذکر وفکر کا وہ وقت ہوتا ہے ‘ جس میں دلی صفائی حاصل ہوتی ہے ‘ روح شفاف ہوجاتی ہے اور ادراک کے دروازے کھلتے ہیں ‘ ہدایت اخذ کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے ‘ اور اس میں انسان قبولیت ‘ تاثر اور اخذ کے لئے تیار ہوتا ہے۔

مطالعہ کائنات کا یہ وقت عبادت الٰہی کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ اللہ کی جانب سے استقبال اور بندے کی جانب سے اتصال کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لئے اس وقت ادراک کائنات اور آیات کونیہ کی استعداد بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اس وقت اس کائنات میں محض غور وفکر اور اس کے نظام گردش لیل ونہار اور نظام ارض وسما ہی انسان کے ذہن میں القا کرتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک عظیم حقیقت پوشیدہ ہے اور یہ کہ یہ کائنات عبث نہیں ہے ۔ نہ یہ محض فریب نظر ہے ‘ یہی وقت اللہ کے ساتھ وصال کا وقت ہوتا ہے۔ اور براہ راست معرفت الٰہی کا

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ……………” پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا ‘ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ “ تونے اس کائنات کو فضول پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ اس کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ حق ہو ‘ سچائی اس کے قیام کا سامان ہو ‘ سچائی اس کا قانون ہو ‘ سچائی میں اصل ہو۔

سچ یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک حقیقت ہے وہ ” عدم “ نہیں ہے جس طرح بعض فلسفے یہ کہتے ہیں کہ یہ عدم محض ہے۔ یہ حقیقت ہونے کے بعد ایک ناموس کے مطابق چلتی ہے لہٰذا یہ انارکی کے مطابق نہیں چل رہی ہے ۔ وہ ایک مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے وہ بخت واتفاق کے مطابق نہیں چلتی ۔ غرض وہ اپنے وجود ‘ اپنی حرکت اور اپنے مقاصد کے حوالے سے ایک عظیم سچائی کے کنٹرول میں چلتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ کوئی باطل ملاوٹ نہیں کرسکتا۔

یہ پہلا ڈچ ہے ‘ جو اصحاب علم و دانش کے دلوں کو اس وقت دیا جاتا ہے ہے جب وہ نظام تخلیق ارض وسما اور نظام گردش لیل ونہار پر غور کرتے ہیں اور اس ڈچ سے انہیں عبادت الٰہی ‘ ذکر الٰہی اور اتصال ذات کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ اس ڈچ سے ان کے پردہ احساس پر حقیقی سچائی کا ایک نقش پڑجاتا ہے جو اس کائنات کی نقشہ سازی میں کارفرما ہے ۔ جب یہ اصحاب دانش اس سچائی تک پہنچ جاتے ہیں تو معاً وہ اللہ کی تسبیح اور تنزیہہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی اس تاویل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا…………… ” اے ہمارے رب ‘ تونے اس کائنات کو عبث نہیں پیدا کیا ۔ “

اس کے بعد یہ نفسیاتی سوچ ذرا اور آگے بڑھتی ہے ۔ کچھ مزید تکوینی احساسات اور الہامات سامنے آتے ہیں فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191) رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ……………” ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے ‘ تونے جسے دوزخ میں ڈالاا سے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا ۔ اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “………سوال یہ ہے کہ زمین و آسمان کے اندر جو سچائی ہے اور اختلاف گردش لیل ونہار کے اندر جو سچائی ہے ‘ اس کے ادراک اور اس دعائیہ ارتعاش شعور کے درمیان کیا منطقی ربط ہے ‘ کہ صاحب ادراک نہایت ہی اللہ ترسی ‘ نہایت ہی عاجزی اور نہایت ہی یکسوئی سے دعا کرنے لگتا ہے ؟

جب اصحاب دانش اس سچائی کا ادراک کرلیتے ہیں ‘ جو اس کائنات کی تہہ میں کام کرتی ہے تو ان کے نزدیک اس ادراک کا مفہوم یہ ہوتا کہ اس کائنات کے اندر ایک تقدیر ہے ‘ ایک تدبیر ہے ‘ اس کے اندر ایک حکمت کام کررہی ہے اور اس کا ایک مقصد تخلیق ہے ۔ یہ کہ لوگوں کی زندگی کے پس پشت ‘ ان ستاروں میں ایک سچائی اور عدل کام کررہا ہے ۔ اس لئے لوگ یہاں جو کچھ اعمال وافعال کرتے ہیں ‘ ان کا کسی دن حساب و کتاب ضروری ہے ۔ مکافات عمل ہونا چاہئے ‘ اور مکافات عمل کی بنیاد پر عدالت اور انصاف کے لئے لازماً ایک دوسراجہاں ہونا چاہئے ۔ جس میں سچائی ‘ عدل اور جزاوسزا متحقق ہو۔

غرض اصحاب دانش کی دعا کے اندر جو حقائق سامنے آئے وہ فطرت کی بدیہی منطق ہے۔ جس کی کڑیاں اس طرح سرعت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہیں ۔ اور ان کا شعور ایک ہی جمپ میں آگ اور جہنم کا شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اور معاً دست بدعا ہوتے ہیں کہ اللہ ! ہمیں اس سے بچا ‘ یہ وہ پہلی بات ہوتی ہے جوان کے دلوں میں آتی ہے ۔ اور یہ آمد اس ادراک کا منطقی نتیجہ ہے جو اس کائنات کے اندر پنہاں سچائی کے حوالے سے وہ کرلیتے ہیں ۔ کیفیت کے اعتبار سے یہ دعا نہایت ہی طویل ‘ خشوع و خضوع سے پر ‘ نہایت ہی مضطرب دل کے ساتھ نہایت ہی کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اور پوری یکسوئی کے ساتھ ‘ دل مومن سے اٹھتی ہے اور الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک میٹھانغمہ ہے ۔ جس کی ضربات ہم آہنگ اور نغموں کی پرسوز حرارت اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ خوبصورت الفاظ میں ہے۔

آیت 191 الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں :رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ج اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں ؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو ‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہوجاؤ ؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘ کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں ‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے ‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چناچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے ‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے ‘ مکافات عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں :سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ تو نے یقیناً ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے ‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی !

آیت 191 - سورة آل عمران: (الذين يذكرون الله قياما وقعودا وعلى جنوبهم ويتفكرون في خلق السماوات والأرض ربنا ما خلقت هذا باطلا سبحانك فقنا عذاب...) - اردو