سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 75 (آیات 187 سے 194 تک)

وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُۥ فَنَبَذُوهُ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ وَٱشْتَرَوْا۟ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ لَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَآ أَتَوا۟ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا۟ بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا۟ فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ ٱلْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ لَءَايَٰتٍ لِّأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ٱلَّذِينَ يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَٰمًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَٰطِلًا سُبْحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ رَبَّنَآ إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ ٱلنَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُۥ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ رَّبَّنَآ إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَٰنِ أَنْ ءَامِنُوا۟ بِرَبِّكُمْ فَـَٔامَنَّا ۚ رَبَّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّـَٔاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَءَاتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ
75

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith akhatha Allahu meethaqa allatheena ootoo alkitaba latubayyinunnahu lilnnasi wala taktumoonahu fanabathoohu waraa thuhoorihim waishtaraw bihi thamanan qaleelan fabisa ma yashtaroona

بدترین خریدوفروخت ! اللہ تعالیٰ یہاں اہل کتاب کو ڈانٹ رہا ہے کہ پیغمبروں کی وساطت سے جو عہد ان کا جناب باری سے ہوا تھا کہ حضور پیغمبر الزمان ﷺ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے ذکر کو اور آپ کی بشارت کی پیش گوئی کو لوگوں میں پھیلائیں گے انہیں آپ کی تابعداری پر آمادہ کریں گے اور پھر جس وقت آپ آجائیں تو دل سے آپ کے تابعدار ہوجائیں گے لیکن انہوں نے اس عہد کو چھپالیا اور اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کرنے پر جن دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا ان سے وعدہ کیا تھا ان کے بدلے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں الجھ کر رہ گئے ان کی یہ خریدو فروخت بد سے بدتر ہے، اس میں علماء کو تنبیہہ ہے کہ وہ ان کی طرح نہ کریں ورنہ ان پر بھی وہی سزا ہوگی جو ان کو ملی اور انہیں بھی اللہ کی وہ ناراضگی اٹھانی پڑے گی جو انہوں نے اٹھائی علماء کرام کو چاہئے کہ ان کے پاس جو نفع دینے والا دینی علم ہو جس سے لوگ نیک عمل جم کرسکتے ہوں اسے پھیلاتے رہیں اور کسی بات کو نہ چھپائیں، حدیث شریف میں سے جس شخص سے علم کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن آگ کی لگام پہنایا جائے گا۔ دوسری آیت میں ریاکاروں کی مذمت بیان ہو رہی ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جھوٹا دعویٰ کر کے زیادہ مال کمانا چاہے اسے اللہ تعالیٰ اور کم کر دے گا، بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں ہے جو نہ دیا گیا ہو اس کے ساتھ آسودگی جتنانے والا دو چھوٹے کپڑے پہننے والے کی مثل ہے، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اگر اپنے کام پر خوش ہونے اور نہ کئے ہوئے کام پر تعریف پسند کرنے کے باعث اللہ کا عذاب ہوگا تو ہم سے کوئی اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتا، حضرت عبداللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے پھر آپ نے (واذ اخذ اللہ) سے اس آیت کے ختم تک تلاوت کی اور فرمایا کہ ان سے نبی ﷺ نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے اس کا کچھ اور ہی غلط جواب دیا اور باہر نکل کر گمان کرنے لگے کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا جس کی وجہ سے آپ کے پاس ہماری تعریف ہوگی اور سوال کے اصلی جواب کے چھپا لینے اور اپنے جھوٹے فقرہ چل جانے پر بھی خوش تھے، اسی کا بیان اس آیت میں ہے، یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اور صحیح بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تو منافقین اپنے گھروں میں گھسے بیٹھے رہتے ساتھ نہ جاتے پھر خوشیاں مناتے کہ ہم لڑائی سے بچ گئے اب جب اللہ کے نبی ﷺ واپس لوٹتے تو یہ باتیں بناتے جھوٹے سچے عذر پیش کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے معذور ہونے کا آپ کو یقین دلاتے اور چاہتے کہ نہ کئے ہوئے کام پر بھی ہماری تعریفیں ہوں جس پر یہ آیت اتری، تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ مروان نے حضرت ابو سعید سے اس آیت کے بارے میں اسی طرح سوال کیا تھا جس طرح اوپر گزرا کہ حضرت ابن عباس سے پچھوایا تو حضرت ابو سعید نے اس کا مصداق اور اس کا شان نزول ان مناقوں کو قرار دیا جو غزوہ کے وقت بیٹھ جاتے اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو بغلیں بجاتے اگر فائدہ ہوا تو اپنا معذور ہونا ظاہر کرتے اور فتح و نصرت کی خوشی کا اظہار کرتے اس پر مروان نے کہا کہاں یہ واقعہ کہاں یہ آیت ؟ تو حضرت ابو سعید نے فرمایا کہ یہ زید بن ثابت بھی اس سے واقف ہیں مروان نے حضرت زید سے پوچھا آپ نے بھی اس کی تصدیق کی پھر حضرت ابو سعید نے اونٹنیاں جو صدقہ کی ہیں چھین لیں گے باہر نکل کر حضرت زید نے کہا میری شہادت پر تم میری تعریف نہیں کرتے ؟ حضرت ابو سعید نے فرمایا تم نے سچی شہادت ادا کردی تو حضرت زید نے فرمایا پھر میں بھی سچی شہادت دینے پر مستحق تعریف تو ہوں مروان اس زمانہ میں مدینہ کا امیر تھا، دوسری روایت میں ہے کہ مروان کا یہ سوال رافع بن خدیج سے ہی پہلے ہوا تھا، اس سے پہلے کی روایت میں گزر چکا ہے کہ مروان نے اس آیت کی بابت حضرت عبداللہ بن عباس سے پچھوایا تھا تو یاد رہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد اور نفی کا عنصر نہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت عام ہے اس میں بھی شامل ہے اور اس میں بھی، مروان والی روایت میں بھی ممکن ہے پہلے ان دونوں صاحبوں نے جواب دیئے پھر مزید تشفی کے طور پر حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروان نے بذریعہ اپنے آدمی کے سوال کیا ہو، واللہ اعلم، حضرت ثابت بن قیس انصاری خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے تو اپنی ہلاکت کا بڑا اندیشہ ہے آپ نے فرمایا کیوں ؟ جواب دیا ایک تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے روکا ہے کہ جو نہ کیا ہو اس پر تعریف کو پسند کریں اور میرا یہ حال ہے کہ میں تعریف پسند کرتا ہوں، دوسری بات یہ ہے کہ تکبر سے اللہ نے روکا ہے اور میں جمال کو پسند کرتا ہوں تیسرے یہ کہ حضور ﷺ کی آواز سے بلند آواز کرنا ممنوع ہے اور میں بلند آواز ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تیری زندگی بہترین اور باخیر ہو اور تیری موت شہادت کی موت ہو اور تو جنتی بن جائے خوش ہو کر کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے چناچہ یہی ہوا کہ آپ کی زندگی انتہائی اچھی گزری اور موت شہادت کی نصیب ہوئی، مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ میں آپ نے شہادت پائی۔ تحسبنھم کو یحسبنھم پڑھا گیا ہے، پھر فرمان ہے کہ تو انہیں عذاب سے نجات پانے والے خیال نہ کر انہیں عذاب ضرور ہوگا اور وہ بھی درد ناک، پھر ارشاد ہے کہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر قادر اللہ تعالیٰ ہے اسے کوئی کام عاجز نہیں کرسکتا پس تم اس سے ڈرتے رہو اور اس کی مخالفت نہ کرو اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کرو اس کے عذابوں سے اپنا بچاؤ کرلو نہ تو کوئی اس سے بڑا نہ اس سے زیادہ قدرت والا۔

اردو ترجمہ

تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف اُنہیں حاصل ہو جو فی الواقع انہوں نے نہیں کیے ہیں حقیقت میں ان کے لیے درد ناک سزا تیار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La tahsabanna allatheena yafrahoona bima ataw wayuhibboona an yuhmadoo bima lam yafAAaloo fala tahsabannahum bimafazatin mina alAAathabi walahum AAathabun aleemun

اردو ترجمہ

زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہے اور اس کی قدرت سب پر حاوی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillahi mulku alssamawati waalardi waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee khalqi alssamawati waalardi waikhtilafi allayli waalnnahari laayatin liolee alalbabi

مظاہر کائنات دلیل رب ذوالجلال دعوت غرو فکر طبرانی میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قریش یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ حضرت موسیٰ ؑ تمہارے پاس کیا کیا معجزات لے کر آئے تھے انہوں نے کہا اژدھا بن جانے والی لکڑی اور چمکیلا ہاتھ، پھر نصرانیوں کے پاس گئے ان سے کہا تمہارے پاس حضرت عیسیٰ (علیہ اسلام) کیا نشانیاں لائے تھے جواب ملا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کردینا اور کوڑھی کو اچھا کردینا اور مردوں کو زندہ کردینا۔ اب یہ قریش آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے آپ نے دعا کی جس پر یہ آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ) 2۔ البقرۃ :164) اتری یعنی نشان قدرت دیکھنے والوں کیلئے اسی میں بڑی نشانیاں ہیں یہ اسی میں غورو فکر کریں گے تو ان قدرتوں والے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے لیکن اس روایت میں ایک اشکال ہے وہ یہ کہ یہ سوال مکہ شریف میں ہوا تھا اور یہ آیت مدینہ شریف میں نازل ہوئی واللہ اعلم۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمان جیسی بلندر اور وسعت مخلوق اور زمین جیسی پست اور سخت اور لمبی چوڑی مخلوق پھر آسمان میں بڑی بڑی نشانیاں مثلاً چلنے پھرنے والے اور ایک جاٹھہرنے والے ستارے اور زمین کی بڑی بڑی پیدوارا مثلاً پہاڑ، جنگل، درخت، گھس، کھیتیاں، پھل اور مختلف قسم کے جاندار، کانیں، الگ الگ ذائقے والے اور طرح طرح کی خوشبوؤں والے اور مختلف خواص والے میوے وغیرہ کیا یہ سب آیات قدرت ایک سوچ سمجھ والے انسان کی رہبری اللہ عزوجل کی طرف نہیں کرسکتیں ؟ جو اور نشانیاں دیکھنے کی ضرورت باقی رہے پھر دن رات کا آنا جانا اور ان کا کم زیادہ ہونا پھر برابر ہوجانا یہ سب اس عزیز وحلیم اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کی پوری پوری نشانیاں ہیں جو پاک نفس والے ہر چیز کی حقیقت پر نظریں ڈالنے کے عادی ہیں اور بیوقوفوں کی طرح آنکھ اندھے اور کان کے بہرے نہیں جن کی حالت اور جگہ بیان ہوئی ہے کہ وہ آسمان اور زمین کی بہت سی نشانیاں پیروں تلے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور غورو فکر نہیں کرتے، ان میں سے اکثر باوجود اللہ تعالیٰ کو ماننے کے پھر بھی شرک سے نہیں بچ سکے۔ اب ان عقلمندوں کی صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ کا نام لیا کرتے ہیں، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے عمران بن حصین سے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹے لیٹے ہی سہی، یعنی کسی حالت میں اللہ عزوجل کے ذکر سے غافل مت رہو دل میں اور پوشیدہ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہا کرو، یہ لوگ آسمان اور زمین کی پیدائش میں نظریں دوڑاتے ہیں اور ان کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جو اس خالق یکتا کی عظمت وقدرت علم و حکمت اختیار رحمت پر دلالت کرتی ہیں، حضرت شیخ سلیمان درانی ؒ فرماتے ہیں گھر سے نکل کر جسچیز پر میری نظر پڑتی ہے میں دیکھتا ہوں کہ اس میں اللہ کی ایک ساعت غورو فکر کرنا رات بھر کے قیام کرنے سے افضل ہے، حضرت فضیل ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کا قول ہے کہ غورو فکر ایک نور ہے جو تیرے دل پر اپنا پر تو ڈالے گا اور بسا اوقات یہ بیت پڑھتے۔اذا المراء کانت لہ فکرۃ ففی کل شئی لہ عبرۃ یعنی جس انسان کو باریک بینی اور سوچ سمجھ کی عادث پڑگئی اسے ہر چیز میں ایک عبرت اور آیت نظر آتی ہے حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا بولنا ذکر اللہ اور نصیحت ہو اور اس کا جب رہنا غور و فکر ہو اور اس کا دیکھنا عبرت اور تنبیہہ ہو، لقمان حکیم کا نصیحت آموز مقولہ بھی یاد رہے کہ تنہائی کی گوشہ نشینی جس قدر زیادہ ہو اور اسی قدر غورو فکر اور دور اندیشی کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جس قدر یہ بڑھ جائے اسی قدر راستے انسان پر وہ کھل جاتے ہیں جو اسے جنت میں پہنچا دیں گے، حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں جس قدر مراقبہ زیادہ ہوگا اسی قدر سمجھ بوجھ تیز ہوگی اور جتنی سمجھ زیادہ ہوگی اتناعلم نصیب ہوگا اور جس قدر علم زیادہ ہوگا نیک اعمال بھی بڑھیں گے، حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے کہ اللہ عزوجل کے ذکر میں زبان کا چلانا بہت اچھا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر افضل عبادت ہے، حضرت مغیث اسود مجلس میں بیٹھے ہوئے فرماتے کہ لوگو قبرستان ہر روز جایا کرو تاکہ تمہیں انجام کا خیال پیدا ہو پھر اپنے دل میں اس منظر کو حاضر کرو کہ تم اللہ کے سامنے کھڑے ہو پھر ایک جماعت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوتا ہے اور ایک جماعت جنت میں جاتی ہے اپنے دلوں کو اس حال میں جذب کردو اور اپنے بدن کو بھی وہیں حاضر جان لو جہنم کو اپنے سامنے دیکھو اس کے ہتھوڑوں کو اسکی آگ کے قید خانوں کو اپنے سامنے لاؤ اتنا فرماتے ہی دھاڑیں مارمار کر رونے لگتے ہیں یہاں تک کہ بیہوش ہوجاتے ہیں حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک راہب سے ایک قبرستان اور کوڑا کرکٹ پاخانہ پیشاب ڈالنے کی جگہ پر ملاقات کی اور اس سے کہا اے بندہ حق اس وقت تیرے پاس دو خزانے ہیں ایک خزانہ لوگوں کا یعنی قبرستان اور دوسرا خزانہ مال کا یعنی کوڑا کرکٹ۔ پیشاب پاخانہ ڈالنے کی جگہ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کھنڈرات پر جاتے اور کسی ٹوٹے پھوٹے دروازے پر کھڑے رہ کر نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں فرماتے اے اجڑے ہوئے گھرو تمہارے رہنے والے کہاں گئے ؟ پھر خود فرماتے سب زیر زمین چلے گئے سب فنا کا جام پی چکے صرف اللہ تعالیٰ کی جات ہی ہمیشہ کی مالک بقاء ہے، حضرت عبداللہ بن عباس کا ارشاد ہے دو رکعتیں جو دل بستگی کے ساتھ ادا کی جائیں اس تمام نماز سے افضل ہیں جس میں ساری رات گزار دی لیکن دلچسپی نہ تھی، حسن بصری فرماتے ہیں ابن آدم اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میں کھا تیسرے حصے میں پانی پی اور تیسرا حصہ ان سانسوں کیلئے چھوڑ جس میں تو آخرت کی باتوں پر اپنے انجام پر اور اپنے اعمال پر خور و فکر کرسکے، بعض حکیموں کا قول ہے جو شخص دنیا کی چیزوں پر عبرت حاصل کئے بغیر نظر ڈالتا ہے اس غفلت کیوجہ سے اس کی دلی آنکھیں کمزور پڑجاتی ہیں، حضرت عامر بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے صحابہ سے سنا ہے کہ ایمان کی روشنی اور تو غور فکر اور مراقبہ میں ہے، مسیح ابن مریم سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ کا فرمان ہے کہ ابن آدم اے ضعیف انسان جہاں کہیں تو ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ، دنیا میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ رہ، اپنا گھر مسجدوں کو بنا لے، اپنی آنکھوں کو رونا سکھا، اپنے جسم کو صبر کی عادت سکھا، اپنے دل کو غور و فکر کرنے والا بنا، کل کی روزی کی فکر آج نہ کر، امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک مرتبہ مجلس میں بیٹھے ہوئے رو دیئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں نے دنیا میں اور اس کی لذتوں میں اور اس کی خواہشوں میں غور فکر کیا اور عبرت حاصل کی جب نتیجہ پر پہنچا تو میری امنگیں ختم ہوگئیں حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کیلئے اس میں عبرت و نصیحت ہے اور وعظ و پند ہے، حسین بن عبدالرحمن نے بھی اپنے اشعار میں اس مضمون کو خوب نبھایا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی مدح و ثنا بیان کی جو مخلوقات اور کائنات سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت لیں اور ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو قدرت کی نشانیوں پر غور نہ کریں۔ مومنوں کی مدح میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ سبحانہ کا ذکر کرتے ہیں زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے اپنی مخلوق کو عبث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو برائی کا بدلہ اور نیکوں کو نیکیوں کا بدلہ عطا فرمائے، پھر اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں تو اس سے منزہ ہے کہ کسی چیز کو بیکار بنائے اے خالق کائنات اے عدل و انصاف سے کائنات کو سجانے والے اے نقصان اور عیبوں سے پاک ذات ہمیں اپنی قوت و طاقت سے ان اعمال کی توفیق اور ہمارا رفیق فرما جن سے ہم تیرے عذابوں سے نجات پالیں اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر جنت میں داخل ہوجائیں، یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ جسے تو جہنم میں لے گیا اسے تو نے برباد اور ذلیل و خوار کردیا مجمع حشر کے سامنے اسے رسوا کیا، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں انہیں نہ کوئی چھڑا سکے نہ بچا سکے نہ تیرے ارادے کے درمیان آسکے، اے رب ہم نے پکارنے والے کی پکار سن لی جو ایمان اور اسلام کی طرف بلاتا ہے، مراد اس سے آنحضرت ﷺ ہیں جو فرماتے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ ہم ایمان لاچکے اور تابعداری بجا لائے پس ہمارے ایمان اور فرماں برداری کی وجہ سے ہمارے گناہوں کو معاف فرما ان کی پردہ پوشی کر اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں صالح اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے تو نے ہم سے جو وعدے اپنے نبیوں کی زبانی کئے ہیں انہیں پورے کر اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں پر ایمان لانے کا لیا تھا لیکن پہلا معنی واضح ہے، مسند احمد کی حدیث میں ہے عسقلان دو عروس میں سے ایک ہے یہیں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ستر ہزار شہیداء ٹھائیں گے جو وفد بن کر اللہ کے پاس جائیں گے یہیں شہیدوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں ان کے کٹے ہوئے سر ہوں گے ان کی گردن کی رگوں سے خون جاری ہوگا یہ کہتے ہوں گے اے اللہ ہم سے جو وعدے اپنے رسولوں کی معرفت تو نے کئے ہیں انہیں پورے کر ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر تو وعدہ خلافی سے پاک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے یہ بندے سچے ہیں اور انہیں نہر بیضہ میں غسل کروائیں گے جس غسل کے بعد پاک صاف گورے چٹے رنگ کے ہو کر نکلیں گے اور ساری جنت ان کے لئے مباح ہوگی جہاں چاہیں جائیں آئیں جو چاہیں کھائیں پئیں۔ یہ حدیث غریب ہے اور بعض تو کہتے ہیں موضوع ہے واللہ اعلم۔ ہمیں قیامت کے دن تمام لوگوں کے مجمع میں رسوا نہ کر تیرے وعدے سچے ہیں تو نے جو کچھ خبریں اپنے رسولوں کی زبانی پہنچائی ہیں سب اٹل ہیں قیامت کا روز ضرور آنا ہے پس تو ہمیں اس دن کی رسوائی سے نجات دے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ بندے پر رسوائی ڈانٹ ڈپٹ مار اور شرمندگی اس قدر ڈالی جائے گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر کے اسے قائل معقول کیا جائے گا کہ وہ چاہے گا کہ کاش مجھے جہنم میں ہی ڈال دیا جاتا (ابو یعلیٰ) اس حدیث کی سند بھی غریب ہے، احادیت سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تہجد کیلئے جب اٹھتے تب سورة آل عمران کی ان دس آخری آیتوں کی تلاوت فرماتے چناچہ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر رات گزاری یہ ام المومنین حضور ﷺ کی بیوی صاحبہ تھیں حضور ﷺ جب آئے تو تھوڑی دیر تک آپ حضرت میمونہ سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے جب آخری تہائی رات باقی رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے آیت (ان فی خلق السموات) سے آخر سورت تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں پھر کھڑے ہوئے مسواک کی وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز ادا کی حضرت بلال کی صبح کی اذان سن کر پھر دو رکعتیں صبح کی سنتیں پڑھیں پھر مسجد میں تشریف لا کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ صحیح بخاری میں یہ روایت دوسری جگہ بھی ہے کہ بسترے کے عرض میں تو میں سویا اور لمبائی میں آنحضرت ﷺ اور ام المومنین حضرت میمونہ لیٹیں آدھی رات کے قریب کچھ پہلے یا کچھ بعد حضور ﷺ جاگے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ان دس آیتوں کی تلاوت کی پھر ایک لٹکی ہوئی مشک میں سے پانی لے کر بہت اچھی طرح کامل وضو کیا میں بھی آپ کی بائیں جانب آپ کی اقتدار میں نماز کیلئے کھڑا ہوگیا حضور ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے کان کو پکڑ کر مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کرلیا اور دو دو رکعت کر کے چھ مرتبہ یعنی بارہ رکعت پڑھیں پھر وتر پڑھا اور لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن نے آکر نماز کی اطلاع کی آپ نے کھڑے ہو کردو ہلکی رکعتیں ادا کیں اور باہر آکر صبح کی نماز پڑھائی، ابن مردویہ کی اس حدیث میں ہے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں مجھے میرے والد حضرت عباس نے فرمایا کہ تم آج کی رات حضور ﷺ کی آل میں گزارو اور آپ کی رات کی نماز کی کیفیت دیکھو رات کو جب سب لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر چلے گئے میں بیٹھا رہا جب حضور ﷺ جانے لگے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کون عبداللہ ؟ میں نے کہا جی ہاں فرمایا کیوں رکے ہوئے ہو میں نے کہا والد صاحب کا حکم ہے کہ رات آپ کے گھر گزاروں تو فرمایا بہت اچھا آؤ گھر جا کر فرمایا بستر بچھاؤ ٹاٹ کا تکیہ آیا اور حضور ﷺ اس پر سر رکھ کر سو گئے یہاں تک کہ مجھے آپ کے خراٹوں کی آواز آنے لگی پھر آپ جاگے اور سیدھی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر تین مرتبہ دعا (سبحان الملک القدوس) پڑھا پھر سورة آل عمران کے خاتمہ کی یہ آیتیں پڑھیں اور روایت میں ہے کہ آیتوں کی تلاوت کے بعد حضور ﷺ نے یہ دعا پڑھی (اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی سمعی نورا وفی بصری نورا وعن یمینی نورا وعن شمالی نورا ومن بین یدی نورا ومن خلفی نورا ومن فوقی نورا ومن تحتی نورا واعظم لی نورا یوم القیامتہ) (ابن مردویہ) یہ دعا بعض صحیح طریق سے بھی مروی ہے اس آیت کی تفسیر کے شروع میں طبرانی کے حوالے سے جو حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن مشہور اس کے خلاف ہے یعنی یہ کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش ہوسکتی ہے جو ابن مردویہ میں ہے کہ حضرت عطاء۔ حضرت ابن عمر حضرت عبید بن عمیر۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئے آپ کے اور ان کے درمیان پردہ تھا حضرت صدیقہ نے پوچھا عبید تم کیوں نہیں آیا کرتے ؟ حضرت عبید نے جواب دیا اماں جان صرف اس لئے کہ کسی شاعر کا قول ہے زرغباتزد دحبا یعنی کم کم آؤ تاکہ محبت بڑھے، حضرت ابن عمر نے کہا اب ان باتوں کو چھوڑو ام المومنین ہم یہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں کہ سب سے زیادہ عجیب بات جو آپ نے آنحضرت محمد ﷺ کی دیکھی ہو وہ ہمیں بتائیں۔ حضرت عائشہ رو دیں اور فرمانے لگیں حضور ﷺ کے تمام کام عجیب تر تھے، اچھا ایک واقعہ سنو ایک رات میری باری میں حضور ﷺ میرے پاس آئے اور میرے ساتھ سوئے پھر مجھ سے فرمانے لگے عائشہ میں اپنے رب کی کچھ عبادت کرنا چاہتا ہوں مجھے جانے دے میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم میں آپ کا قرب چاہتی ہوں اور یہ بھی میری چاہت ہے کہ آپ اللہ عزوجل کی عبادت بھی کریں، اب آپ کھڑے ہوئے اور ایک مشک میں سے پانی لے کر آپ نے ہلکا سا وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے پھر جو رونا شروع کیا تو اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہوگئی پھر سجدے میں گئے اور اس قدر روئے کہ زمین تر ہوگئی پھر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور روتے ہی رہے یہاں تک کہ حضرت بلال نے آ کر نماز کیلئے بلایا اور آپ کے آنسو رواں دیکھ کر دریافت کیا کہ اے اللہ کے سچے رسول ﷺ آپ کیوں رو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں، آپ نے فرمایا بلال میں کیوں نہ روؤں ؟ مجھ پر آج کی رات یہ آیت اتری ہے آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ) 2۔ البقرۃ :164) افسوس ہے اس شخص کیلئے جو اسے پڑھے اور پھر اس میں غورو تدبر نہ کرے۔ عبد بن حمید کی تفسیر میں بھی یہ حدیث ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہم حضرت عائشہ کے پاس گئے ہم نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا تم کون لوگ ہو ؟ ہم نے اپنے نام بتائے اور آخر میں یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد آپ اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے رخسار تلے ہاتھ رکھا اور روتے رہے یہاں تک کہ آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور حضرت بلال کے جواب میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اور آیتوں کے نازل ہونے کے بارے میں عذاب النار تک آپ نے تلاوت کی، ابن مردویہ کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورة آل عمران کے آخر کی دس آیتیں ہر رات کو پڑھتے اس روایت میں مظاہر بن اسلم ضعیف ہیں۔

اردو ترجمہ

جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yathkuroona Allaha qiyaman waquAAoodan waAAala junoobihim wayatafakkaroona fee khalqi alssamawati waalardi rabbana ma khalaqta hatha batilan subhanaka faqina AAathaba alnnari

اردو ترجمہ

تو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے در حقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana innaka man tudkhili alnnara faqad akhzaytahu wama lilththalimeena min ansarin

اردو ترجمہ

مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی، پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana innana samiAAna munadiyan yunadee lileemani an aminoo birabbikum faamanna rabbana faighfir lana thunoobana wakaffir AAanna sayyiatina watawaffana maAAa alabrari

اردو ترجمہ

خداوندا! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیے ہیں اُن کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana waatina ma waAAadtana AAala rusulika wala tukhzina yawma alqiyamati innaka la tukhlifu almeeAAada
75