سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 75 (آیات 187 سے 194 تک)

وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُۥ فَنَبَذُوهُ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ وَٱشْتَرَوْا۟ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ لَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَآ أَتَوا۟ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا۟ بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا۟ فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ ٱلْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَٰفِ ٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ لَءَايَٰتٍ لِّأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ٱلَّذِينَ يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَٰمًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَٰطِلًا سُبْحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ رَبَّنَآ إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ ٱلنَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُۥ ۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ رَّبَّنَآ إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَٰنِ أَنْ ءَامِنُوا۟ بِرَبِّكُمْ فَـَٔامَنَّا ۚ رَبَّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّـَٔاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَءَاتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ
75

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith akhatha Allahu meethaqa allatheena ootoo alkitaba latubayyinunnahu lilnnasi wala taktumoonahu fanabathoohu waraa thuhoorihim waishtaraw bihi thamanan qaleelan fabisa ma yashtaroona

اس سورت میں اہل کتاب کے بہت سے اقوال وافعال کو لیا گیا ہے خصوصا ! یہودیوں کے ۔ ان میں سے ممتاز ترین کرداران کا یہ بیان ہوا ہے کہ ان لوگوں کی یہ عادت رہی ہے کہ یہ حق کو چھپاتے ہیں حالانکہ ان کو اچھی طرح یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ حق ہے ۔ پھر یہ اس حق کو باطل کے ساتھ ملاتے ہیں اور اس طرح اپنے پروپیگنڈے کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ دین کے مفہوم میں شکوک و شبہات پھیلاتے ہیں ۔ وہ اسلام کی صحت پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ وہ اس بات کا بھی انکار کرتے ہیں کہ اسلام اور ادیان سابقہ کے اندر بنیادیں مشترک ہیں ۔ اسلام ادیان سابقہ کی تصدیق کرتا ہے اور دین اسلام کی تصدیق کرتے ہیں ۔ ان کے پاس تورات موجود تھی جس میں حضرت محمد ﷺ کی سچائی ثبت تھی اور وہ جانتے تھے ۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن مجید بھی اسی منبع سے آیا ہے جس سے تورات اتری ہے۔

اب وہ جو یہ موقف اختیار کررہے ہیں وہ ان کے لئے نہایت ہی نامناسب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ کتاب کی تبلیغ کریں گے اور اس میں جو کچھ ہے اسے چھپائیں گے نہیں وہ اسے بیان کریں گے اور تمام لوگوں کے سامنے بیان کریں گے ۔ نہ چھپائیں گے اور نہ خفیہ رکھیں گے ۔ لیکن انہوں نے اللہ کے اس عہد صریح کو پس پشت ڈال دیا ۔ اس آیت کا انداز تعبیر نہایت ہی موثر ہے ۔ اس کے اندر دینی فعل کے علاوہ ظاہری حرکت بھی ہے یعنی کسی چیز کو پس پشت پھینک دینا۔ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ……………(انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا ) اور یہ حیا سوز کام انہوں نے کیا ‘ کیوں ؟ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلا……………(انہوں نے تھوڑی سی قیمت پر اسے بیچ ڈالا)

یہ کام انہوں نے اس دنیا کے مفادات کے لئے کیا ۔ یہ یہودیوں کے مذہبی راہنماؤں کے ذاتی مفادات اور ان کی قومیت کے بچاؤ کے لئے انہوں نے یہ کام کیا ۔ اور یہ سب کچھ ثمن قلیل ہی ہیں۔ اگرچہ وہ تمام عرصے کے لئے تمام دنیا پر قابض ہوجائیں۔ یہ بھی اللہ کے عہد کے مقابلے میں ثمن قلیل ہوگا۔ اور اگر اللہ کے ہاں ان کے لئے جو اجر تھا وہ اسے نظروں میں رکھتے تو یہ انہیں واقعی ثمن قلیل نظر آتا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ……………(کتنا براکاروبار ہے جو یہ کررہے ہیں) ۔

اردو ترجمہ

تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف اُنہیں حاصل ہو جو فی الواقع انہوں نے نہیں کیے ہیں حقیقت میں ان کے لیے درد ناک سزا تیار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La tahsabanna allatheena yafrahoona bima ataw wayuhibboona an yuhmadoo bima lam yafAAaloo fala tahsabannahum bimafazatin mina alAAathabi walahum AAathabun aleemun

بخاری شریف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے یہودیوں سے کوئی بات پوچھی ۔ انہوں نے اسے چھپادیا اور انہوں نے غلط جواب دیا ۔ وہ چلے گئے ۔ وہ یہ تاثر دیتے ہوئے گئے کہ انہوں نے رسول ﷺ کو وہ بات بتادی جو انہوں نے پوچھی تھی اور اس پر وہ اپنی جگہ خوش تھے کہ ان کو رسول ﷺ کے ہاں تعریف کا مستحق قراردیا گیا لیکن خوش اس لئے بھی تھے کہ انہوں نے اصل بات چھپادی تھی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

لا ﺗَﺤۡﺴَﺒَﻦ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

” تم ان لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف انہیں حاصل ہو جو فی الواقعہ انہوں نے نہیں کئے ۔ حقیقت میں ان کے لئے دردناک سزا تیار ہے ۔ “

ایک دوسری روایت میں امام بخاری نے ابوسعید الخدری سے نقل کیا ہے کہ منافقین میں سے لوگ ایسے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ جہاد کے لئے نکلتے تو وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے اور وہ یوں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے بہت ہی خوش ہوتے کیونکہ یہ رسول اللہ کی مرضی کے خلاف ہوتا۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس آتے تو یہ لوگ عذرات پیش کرتے اور قسمیں اٹھاتے ۔ اور وہ اس بات کو پسند کرتے کہ انہوں نے جو نہیں کئے اس پر ان کی تعریف کی جائے ۔ اس پر یہ آیت نازل لا ﺗَﺤۡﺴَﺒَﻦ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا

اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی آیت کس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ؟ یہ کوئی قطعی بات نہیں ہے ۔ ایسی روایات بعض اوقات ایسی صورتحال کو بیان کرتی ہیں جن میں کسی آیت سے کوئی دلیل رسول ﷺ نے پیش کی ہوتی ہے ۔ راوی کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ شاید یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے یا اگر کسی واقعہ پر کوئی آیت منطبق ہوتی ہے تو راوی کہتا ہے کہ یہ آیت اس کا مصداق ہے ۔ اور یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس لئے ان دوروایتوں کے بارے میں بھی قطعی بات نہیں کی جاسکتی ۔

رہی پہلی روایت تو اس میں سیاق کلام کے ساتھ ہم آہنگی ہے اس لئے کہ بات اہل کتاب کی ہورہی ہے ۔ اہل کتاب کے اس دعویٰ کا ذکر ہے کہ ان کو جو کتاب دی گئی ہے اور اس میں جو ان کے پاس امانت ہے وہ اسے چھپائیں گے نہیں ۔ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے ۔ وہ چھپا رہے ہیں اور جھوٹ اور فریب کاری کے طور پر کچھ اور بتاتے ہیں اور پھر یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ ان کے اس جھوٹ اور اختراء پر ان کی تعریف ہوگی ۔

اگر دوسری روایت درست ہے تو پھر بھی سیاق کلام میں منافقین کی بات موجود ہے اور یہ آیت بھی انہیں آیات کے ساتھ ملحق ہے ۔ غرض یہ ان لوگوں کے نمونے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے عہد میں پائے جاتے تھے ۔ ایسے لوگ آج بھی ہر تحریک میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے نظریات کے تقاضے اور ان کے فرائض پورے نہیں کرسکتے اور نہ ہی نتائج برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی نظریہ کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں ۔ جدوجہد سے پیچھے بیٹھے رہتے ہیں ۔ اگر جدوجہد کرنے والے ناکام ہوجائیں اور انہیں ہزیمت ہو تو یہ لوگ سر اٹھاتے ہیں اور ناک میں شکن ڈال کر اور ناک کھینچ کر بات کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ بہت ہی عقلمند ہیں اور موقع شناس ہیں اور خوددار ہیں ۔ اور اگر مجاہدین کو فتح حاصل ہوجائے اور انہیں مفادات ملیں تو ہمارے ایسے ساتھی آگے بڑھتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان کے اس منصوبے کے مؤید تھے اور یہ کہ اس فتح میں ہمارا بھی ہاتھ ہے ۔ اور یہ لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی مدح سرائی ان کاموں پر بھی ہو جو انہوں نے نہیں کئے۔

انسانیت میں سے یہ ان لوگوں کانمونہ ہے جو ڈرپوک ہوتے ہیں اور بلند وبانگ دعویٰ کرتے ہیں ۔ قرآن کریم ان لوگوں کی پینٹنگ چند لکیروں کے اندر کردیتا ہے اور ان کے خدوخال بہت ہی واضح طور پر نظرآنے لگتے ہیں ۔ پھر ان الفاظ کا جامہ پہناکر قرآن کریم ان خدوخال کو دائمی ریکارڈ کے طور پر محفوظ کرلیتا ہے تاکہ اس آئینے میں آنے والے اپنے چہرہ دیکھیں ۔ یہ ہے اسلوب قرآن کریم کا ۔

اس قسم کے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ رسول ﷺ کو بتاکید بتاتے ہیں کہ ان کے لئے نجات اخروی کی کوئی صورت نہیں ہے ۔

فَلا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ (تم ان لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو) وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ……………(بےشک ان کے لئے دردناک عذاب ہے ) اور عذاب الیم کی یہ وعید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ جو مالک السمٰوٰت والارض ہے ۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ تو پھر بچنے کی صورت ہی کیا رہتی ہے ۔ اور نجات کب مل سکتی ہے ؟ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (اور زمین وآسمانوں کا مالک اللہ ہے اور اس کی قدرت سب پر حاوی ہے)

اردو ترجمہ

زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہے اور اس کی قدرت سب پر حاوی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillahi mulku alssamawati waalardi waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna fee khalqi alssamawati waalardi waikhtilafi allayli waalnnahari laayatin liolee alalbabi

درس نمبر 29 ایک نظر میں

یہ سورت جس قدر سبقوں اور دروس پر مشتمل تھی یہ ان میں سے آخری درس ہے ۔ اس سورت میں اسلامی تصور حیات کے اساسی عناصر میں اہم عناصر کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہوا ہے ۔ اور ان عناصر کو ہر قسم کے اجمال ‘ اشتباہ اور اہل کتاب کے ساتھ مجادلوں اور مشرکین کے ساتھ مباحثے کرکے ان اساسی عناصر کو منقطع کیا گیا ہے۔ اس پوری سورت میں اسلامی نظام زندگی کی نوعیت اور جان ومال کے حوالے سے اس کے تقاضوں کا بیان ہوا ہے ۔ جماعت مسلمہ کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ان فرائض کو کس طرح ادا کرے گی ۔ اور مشکل حالات کے ابتلا میں اس کا رویہ کیا ہوگا اور خوشحالی کے حالات میں وہ ابتلا سے کس طرح عہدہ برآہوگی اور وہ اسلامی نظریہ حیات اور اس کے عظیم فرائض اور ڈیوٹیوں کو کس طرح سرانجام دے گی ‘ جو نفس کے حوالے سے بھی ہیں اور مال کے حوالے سے بھی ہیں ۔ یہی وہ مضامین تھے جو اس پوری سورت کا محور تھے اور جنہیں ہم نے پارہ سوئم اور چہارم کی تفسیر فی ظلال القرآن میں بیان کیا۔

اب یہ آخری درس ایک طرح کی آخری ضرب یا ضربات ہیں ۔ یہ آخری ضربات اس سورت میں موضوع کے ساتھ نہایت ہی متناسب ہیں ۔ اور یہ آخری ضرب بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے اور طرز ادا کے اعتبار سے سابقہ ضربات سے بالکل ہم آہنگ ہے ۔

اس کے اندر ایک نہایت ہی گہری حقیقت کا بیان ہوا ہے ۔ یہ کہ یہ کائنات ایک کھلی کتاب ہے ۔ اس کے اندر ایمان ویقین کے بیشمار دلائل اور علامات موجود ہیں ۔ اس کائنات سے اس ذات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے جو اسے بڑی حکمت کے ساتھ چلارہی ہے ۔ اس سے اظہارہوتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی سے وراء ایک اخروی زندگی ہے ۔ اس زندگی کا حساب و کتاب اور مکافات عمل وہاں ہوگا ۔ ان دلائل کو کون پڑھ سکتا ہے ‘ اس آیات واشارات کو کون پاسکتا ہے ‘ اس حکمت کا ادراک کون کرسکتا ہے ؟ اور اس کائنات کی آواز کون سن سکتا ہے ؟ یہ صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو اولوالالباب ہیں ‘ جو اصحاب دانش وبنیش ہیں ۔ وہ لوگ جو اس کتاب مفتوح پر سے یونہی نہیں گزرجاتے اور وہ ان ظاہر و باہر آیات اور نشانیوں سے آنکھیں بند نہیں کرلیتے ۔

یہ حقیقت اس کائنات کے حوالے سے اسلامی تصور حیات کے اساسی عناصر میں سے ایک عنصر ہے ۔ اور اس کے اور انسانی فطرت کے درمیان ایک عمیق ربط ہے ۔ اور فطرت انسانی اور فطرت کائنات کے درمیان گہری داخلی مفاہمت اور ہم آہنگی ہے ۔ یہ کائنات ایک جہت سے اپنے خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے ۔ اور دوسری جہت سے اس سے وہ ناموس اکبر معلوم ہوتا ہے ۔ جو مقصدیت ‘ گہری حکمت اور قصد و ارادے آپ کے حوالے سے اس کائنات کے اندرکارفرما ہے ۔ اور اس کا روح رواں ہے ۔ اور اس ناموس اکبر کا فہم و ادراک اس نقطہ نظر سے بہت ہی اہم ہے کہ اس کائنات ‘ اس کے خالق الٰہ العالمین کے بارے میں انسان کیا موقف اختیار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات اس موجودہ دنیا کے بارے میں اسلامی افکار کا اہم خزانہ اور منبع ہے ۔ اس کے بعد اس درس میں ‘ صاحبان عقل و دانش اور عالمان علم کائنات کی اس خشوع دعا کی قبولیت کا ذکر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کائنات کی اس کتاب مفتوح کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور یہ کائنات جن دلائل کو پیش کرتی ہے یہ ان پر غور کرتے ہیں ۔ اور یہ کائنات جو مقاصد بتاتی ہے ۔ یہ اس پر بھی تامل کرتے ہیں ۔ اور دعا کی قبولیت کے ساتھ ساتھ ہدایات کیا دی جاتی ہیں ؟ یہ کہ عمل پیہم ‘ جہاد مسلسل ‘ صبر و محبت اور ایمان تقاضوں کی بجاآوری ہی دراصل وہ تحفے ہیں جو ان لوگوں کو ملتے ہیں ۔ جو اس کائنات کی کتاب مفتوح کو اللہ ترسی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ اور پھر آخر میں اہل کفر کی پوزیشن کو حقیر بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ ان کے پاس اس دنیا کا سازوسامان زیادہ ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے ‘ اصل دولت تو وہ ہے جو آخرت میں ملے گی مومنین کو اس کی بات کرنی چاہئے۔

اس سورت میں اہل کتاب اور مسلمانوں کے خلاف ان کے موقف کے بارے میں تفصیلی بات کی گئی تھی ۔ اس آخری سبق میں اہل کتاب میں سے بعض اچھے لوگوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے ۔ اور آخرت میں ان کی جزا اور صفت خشوع کا ذکر خصوصی طور پر کیا گیا۔ اس نسبت سے کہ اہل ایمان میں سے ان لوگوں کا ذکر کیا گیا تھا جو اس کائنات کی کتاب مفتوح کا مطالعہ کرتے تھے اور ان کے اندر بھی صفت خشوع اور انابت سے دعا کی تھی ۔ اور انہوں نے اس امر کو نہایت ہی شرمناک سمجھا کہ اللہ کی آیات کو معمولی دام کے عوض فروخت کیا جائے ۔ جیسا کہ بعض اہل کتاب یہ کام کرتے تھے اور جن کا ذکر اس سورت میں ہوچکا ہے ۔ اس کے بعد پوری سورت کا خاتمہ آتا ہے اور اس میں اس پوری سورت کی ہدایت کا خلاصہ دیا گیا ہے ۔ اور جماعت مسلمہ کو یہ کہا گیا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ یہ ان کے فرائض اور پروگرام کا خلاصہ ہے ۔ اور اسی میں ان کی فلاح مضمر ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

” اے ایمان والو ! صبر سے کام لو ‘ پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ ‘ حق کی خدمت کے لئے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ امید ہے فلاح پاؤگے۔ “

اردو ترجمہ

جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yathkuroona Allaha qiyaman waquAAoodan waAAala junoobihim wayatafakkaroona fee khalqi alssamawati waalardi rabbana ma khalaqta hatha batilan subhanaka faqina AAathaba alnnari

زمین و آسمان کی تخلیق میں ‘ اور رات اور دن کی گردش میں وہ کیا آیات اور نشانیاں ہیں ‘ اور جب یہ اولوالالباب آسمان اور زمین میں تفکر کرتے ہیں تو وہ کیا نشانیاں ہیں ؟ جب وہ رات اور ان کی گردش میں غور کرتے ہیں تو انہیں کیا نظر آتا ہے ؟ جبکہ پھر وہ اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں کھڑے ہوکر بھی ‘ بیٹھ کر بھی اور کروٹ لیتے ہوئے بھی ۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ ان کے نتیجہ فکر کا تعلق اللہ کے ذکر کے ساتھ کیسے مربوط ہوجاتا ہے کہ وہ فوراً کھڑے ‘ بیٹھے اور کروٹ لیتے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ اور پھر وہ اس ذکر کو اس پر خشوع و خضوع اور پر سوز دعا پر کیسے ختم کرتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ……………(پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے۔ )

قرآن کریم یہاں ان لوگوں کی ایک زندہ اور متحرک تصویر کشی کرتا ہے جو اس کائنات کے اندر صحت مند غور کرتے ہیں اور ان کو اس کائنات کے مثرات کا ادراک ہوتا ہے ۔ اور وہ پھر ان مدرکات اور موثرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘ اور ان کی آنکھوں کے سامنے رات دن اس پوری کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کی طرف لبیک کہتے ہیں ۔

قرآن کریم انسانی فکر ونظر میں باربار دعوت نظارہ دیتا ہے اور بڑی تاکید سے حکم دیتا ہے کہ وہ اس کھلی کتاب کا مطالعہ کریں ۔ جس کے صفحات رات اور دن خود الٹتے پلٹتے رہتے ہیں ۔ ہر صفحے پر صانع قدرت کے نشانات میں سے ایک نشان نظر آتا ہے ۔ اور وہ فطعرت سلیمہ کے اندر ایک ایسی سچائی کے پہچاننے کا بےحد جوش پیدا کردیتا ہے ‘ جو سچائی اس کتاب کے صفحات کے اندر جمی ہوئی ہے ۔ اس کائنات کی اساس میں وہ سچائی موجود ہے ۔ اس کائنات کے خالق کے مطالبات کے تسلیم کرنے کی طرف یہ سچائی مائل کرتی ہے ۔ اور جس خالق نے اس کائنات میں یہ ناموس ودیعت کیا ہے ۔ اس کی طرف رجوع کی دعوت دی جاتی ہے ۔ دل میں خالق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ اس کا خوف اور خشیت بھی پیدا ہوتی ہے …………پھر یہ اولوالالباب کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صحیح الفکر ہیں ۔ جو آنکھیں کھول کر کتاب کائنات کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ وہ آنکھوں پر پردے نہیں ڈالتے ۔ وہ اپنے غور وفکر اور تدبر کے دریچے بند نہیں کرتے ۔ اور اس طرح وہ اپنے دل کے حوالے سے ‘ اپنے قیام میں ‘ اپنے قعود میں اور کروٹ لیتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ یوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ذرائع ادراک کھل جاتے ہیں اور وہ اس ناموس اکبر اور حقیقت کائنات کا ادراک کرلیتے ہیں جو اللہ نے اس کائنات میں ودیعت کی ہے ۔ وہ اس کائنات کے مقصد وجود کو پالیتے ہیں ۔ اس ایجاد کرنے کے اصل اسباب ان کے علم میں آجاتے ہیں اور وہ کائنات کے فطرت کے اجزائے ترکیبی اور نظام قیام سے واقف ہوتے ہیں ۔ یہ تمام راز وہ اس الہام کے ذریعہ پاتے ہیں جو فطرت کے ان نوامیس اور انسانی دل کے درمیان رابطے کے ذریعے ہوتا ہے۔

زمین و آسمان کا مشہد ‘ رات اور دن کی تبدیلی کا منظر اور سیاروں کی گردش کے مناظر ایسے مناظر ہیں کہ اگر ہم اپنی آنکھیں کھول کردیکھیں ‘ ہمارے دل کام کررہے ہوں اور ہمارا ادراک اچھی طرح کام کرتا ہو اور ان کو اس نظر سے دیکھیں جس طرح ایک انسان کسی مشہد اور منظر کو پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور اگر ہم اپنے احساس سے ان مناظر کے عادی ہونے کے تصور کو دور کردیں ‘ اور اس تکرار کے اثرات سے اپنی حس کو پاک کردیں تو ہمارے احساس کے لئے یہ قابل ارتعاش ہوں ‘ ہمارے شعور کے اندر زلزلہ آجائے اور ہمیں اچھی طرح احساس ہوجائے کہ اس نظام کے اندر جس قدر دقت نظر سے ہم آہنگی پیدا کی گئی ہے وہ کسی حکیمانہ ہاتھ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک مدبر عقل کام کررہی ہے ۔ اس نظام کے پیچھے ایک ناموس کام کررہا ہے ۔ جس کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ سب کچھ دھوکہ اور فریب نہیں ہوسکتا ۔ نہ یہ کوئی بخت واتفاق ہوسکتا ہے اور نہ یہ نظام محض فریب نظر ہوسکتا ہے۔

اور یہ بات بھی ہمارے شعور کے لئے کوئی کم زلزلہ خیز نہیں ہے کہ یہ زمین سورج کے اردگرد اور اپنے محور پر گردش کررہی ہے ۔ اور اس سے رات اور دن کے دومناظر پیدا ہورہے ہیں ۔ یہ کہ ان اجرام فلکی کے اندر کشش کام آرہی ہے ۔ اور اس نے ہر ایک جرم کو اپنی جگہ ٹھہرایا ہوا ہے ۔ یا کوئی اور نظام ہے ۔ یہ تو ہمارے مقرر کردہ اصول موضوعہ میں کبھی درست ہوں گے کبھی غلط ہوں گے ۔ جو صورت بھی ہو لیکن ہر صورت میں کائنات کا یہ عجوبہ ‘ عجوبہ ہی رہتا ہے ۔ اور نظر آتا ہے کہ ایک عظیم نظام ہے جس نے ان دیوہیکل سیاروں اور اجرام کو تھام رکھا ہے ۔ نہایت دقت سے ‘ نہ ٹوٹتے ہیں نہ باہم متصادم ہوتے ہیں ‘ بنی نوع انسان میں ماہرین فلکیات چاہے اس کا جو بھی نام رکھیں ‘ بہرحال یہ نظام قدرت کا نشان ہے ‘ یہ سچائی کی برہان ہے ‘ اور سچائی گردش ایام اور دوران فلک سے عیاں ہے۔

قرآن کریم نے یہاں جو صاف منظر کشی کی ہے ‘ اسی میں آسمانوں اور اجرام فلکی کی گردش اور رات اور دن کے پیہم تبدیلی کے مناظر اولوالالباب اور صاحبان عقل و دانش کے شعور اور فکر پر جو اثرات چھوڑتے ہیں ‘ ان اثرات کے ایک ایک جزء کو بڑی دقت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے ۔ یہ ایک قسم کی اثر انگیز تصویر ہے ۔ اسے دیکھ کر دل اس کائنات کے ساتھ باہم معاملہ کرتے وقت بہت ہی صحیح نظام اور طریقہ کا اختیار کرتا ہے ۔ یہ مناظر اپنی زبان میں بات کرتے ہیں اور یہ دل کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرتے ہیں ‘ اس کی حقیقت کے یکجا ہوجاتے ہیں ۔ اور کائنات کے اشارات اور اثرات کو قبول کرتے ہیں ۔ اس طرح کائنات کی یہ کتاب ایک مومن اور واصل باللہ انسان کے لئے کتاب علم ومعرفت بن جاتی ہے ۔ جسے اللہ نے تصنیف کیا ہے ۔

اس مطالعہ کائنات کا انسانی شعور پر پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی یاد اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ کھڑے ہوکر ‘ بیٹھتے ہوئے اور کروٹ بدلتے ہوئے ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور جبکہ وہ رات اور دن کے اختلاف کا مطالعہ بھی کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ غوروفکر پھر عبادت بن جاتے ہیں ۔ اور یوں یہ مشاہدات مشاہدات ذکر الٰہی بن جاتے ہیں ۔ اس طرح ‘ اس تصور انسان اور تصور کائنات کے مطابق دوحقائق ثابت ہوجاتے ہیں۔

پہلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق میں تدبر اور مشاہدہ کرنا اور اللہ کی اس کھلی کتاب کا مطالعہ کرنا اور اللہ کے تخلیقی ہاتھ کا مطالعہ کرنا بھی حرکت کائنات کا مطالعہ اور اس کائنات کے صفحات کو الٹنا پلٹنا ‘ درحقیقت اصلی اور بنیادی عبادت ہے ۔ اور یہ ایک ذکر الٰہی ہے جو نہایت ہی حقیقی ذکر الٰہی ہے ۔ اگر کائناتی علوم ‘ جن میں اس کائنات کی تنظیم اور تشکیل سے بحث ہوتی ہے ۔ اور اس کائنات کے اندر جاری وساری نوامیس وسنن کا مطالعہ اور ان قوتوں اور ذخائر کا مطالعہ جو اس کائنات کے اندر جمع شدہ ہیں اور اس کائنات کے اسرار و رموز کے علوم کو اگر اس کائنات کے خالق کے ذکر اور اس کی یاد کے ساتھ یکجا کردیا جائے اور اس مطالعے سے اللہ کی جلالت قدر کا شعور پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا احساس اجاگر کیا جائے تو یہ تمام عمل اس کائنات کے خالق کی عبادت بن جاتا ہے ۔ اور نماز کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اور ان علوم کے ذریعہ زندگی درست ہوکر راہ مستقیم پر استوار ہوسکتی ہے ۔ پوری انسانی آبادی اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے مادی اور کافرانہ رجحان نے اس کائنات اور خالق کائنات کے درمیان تصوراتی بعد پیدا کردیا ہے ۔ انہوں نے تکوینی قوانین اور ازلی ابدی حقیقت کے درمیان تضاد پیدا کردیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ علم جو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوبصورت ترین تحفہ تھا وہ خود انسان کے لئے ایک ایسی لعنت بن گیا ہے۔ جو انسان کا پیچھا کررہا ہے ۔ اور انسان کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کررہا ہے ۔ اس کی زندگی قلق ‘ روحانی خلا ‘ اور عدم اطمینان کی صورت میں اس طرح بسر ہورہی ہے جس طرح انسان کا ایک قہار وجبار بھوت پیچھا کررہا ہے۔

اور دوسری حقیقت یہ ہے اس کائنات میں جو آیات الٰہی ہیں ‘ وہ اپنی الہامی صورت میں اسی شخص پر ظاہر ہوتی ہیں جس کا دل ذکر الٰہی اور عبادت الٰہیہ میں مشغول ہو ۔ اور جو لوگ اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوکر ‘ بیٹھ کر اور کروٹ لیتے ہوئے ‘ درحقیقت وہی لوگ ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور رات اور دن کے پیہم آنے پر غور وفکر کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر عظیم حقائق کھلتے ہیں ۔ جو آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے اندر اور اختلاف لیل ونہار کے نظام میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ ان رازوں کے رازدان ہونے والے ہی پھر اسلامی زندگی تک پہنچتے ہیں جو نجات اخروی ‘ فلاح دنیوی اور خیر وصلاح کا ضامن ہے ۔ رہے وہ لوگ جو صرف ظاہری دنیا کی زندگی ہی پر بس کرتے ہیں اور وہ اس کائنات کی بعض تکوینی چیزوں کو دریافت کرلیتے ہیں اور ان لوگوں کا کوئی ربط اسلامی نظام حیات سے نہیں ہوتا تو یہ لوگ تو پوری زندگی کی بربادی کی فکر کرتے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کو شکست وریخت سے دوچار کرتے ہیں اور ان تکوینی اسرار و رموز کو بربادی کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنی زندگی کو ایک ناقابل برداشت جہنم بنا رہے ہیں ‘ وہ زندگی کے ایسے قلق سے دوچار کرتے ہیں جس میں سانس گھٹتی ہے ۔ اور آخرت میں وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کی طرف لوٹیں گے ۔

غرض یہ دونوں حقائق ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ‘ ان دونوں کو اس سورت نے موضوع بحث بنایا ‘ جو اصحاب دانش کے لئے ان کے مطالعہ کائنات کے وقت اور تعلق باللہ کے قیام کی خاطر یہاں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور یہ ذکر وفکر کا وہ وقت ہوتا ہے ‘ جس میں دلی صفائی حاصل ہوتی ہے ‘ روح شفاف ہوجاتی ہے اور ادراک کے دروازے کھلتے ہیں ‘ ہدایت اخذ کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے ‘ اور اس میں انسان قبولیت ‘ تاثر اور اخذ کے لئے تیار ہوتا ہے۔

مطالعہ کائنات کا یہ وقت عبادت الٰہی کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ اللہ کی جانب سے استقبال اور بندے کی جانب سے اتصال کا وقت ہوتا ہے ۔ اس لئے اس وقت ادراک کائنات اور آیات کونیہ کی استعداد بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ اس وقت اس کائنات میں محض غور وفکر اور اس کے نظام گردش لیل ونہار اور نظام ارض وسما ہی انسان کے ذہن میں القا کرتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک عظیم حقیقت پوشیدہ ہے اور یہ کہ یہ کائنات عبث نہیں ہے ۔ نہ یہ محض فریب نظر ہے ‘ یہی وقت اللہ کے ساتھ وصال کا وقت ہوتا ہے۔ اور براہ راست معرفت الٰہی کا

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ……………” پروردگار ! یہ سب کچھ تونے فضول اور بےمقصد نہیں بنایا ‘ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے ۔ “ تونے اس کائنات کو فضول پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ اس کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ حق ہو ‘ سچائی اس کے قیام کا سامان ہو ‘ سچائی اس کا قانون ہو ‘ سچائی میں اصل ہو۔

سچ یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک حقیقت ہے وہ ” عدم “ نہیں ہے جس طرح بعض فلسفے یہ کہتے ہیں کہ یہ عدم محض ہے۔ یہ حقیقت ہونے کے بعد ایک ناموس کے مطابق چلتی ہے لہٰذا یہ انارکی کے مطابق نہیں چل رہی ہے ۔ وہ ایک مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے وہ بخت واتفاق کے مطابق نہیں چلتی ۔ غرض وہ اپنے وجود ‘ اپنی حرکت اور اپنے مقاصد کے حوالے سے ایک عظیم سچائی کے کنٹرول میں چلتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ کوئی باطل ملاوٹ نہیں کرسکتا۔

یہ پہلا ڈچ ہے ‘ جو اصحاب علم و دانش کے دلوں کو اس وقت دیا جاتا ہے ہے جب وہ نظام تخلیق ارض وسما اور نظام گردش لیل ونہار پر غور کرتے ہیں اور اس ڈچ سے انہیں عبادت الٰہی ‘ ذکر الٰہی اور اتصال ذات کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ اس ڈچ سے ان کے پردہ احساس پر حقیقی سچائی کا ایک نقش پڑجاتا ہے جو اس کائنات کی نقشہ سازی میں کارفرما ہے ۔ جب یہ اصحاب دانش اس سچائی تک پہنچ جاتے ہیں تو معاً وہ اللہ کی تسبیح اور تنزیہہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی اس تاویل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا…………… ” اے ہمارے رب ‘ تونے اس کائنات کو عبث نہیں پیدا کیا ۔ “

اس کے بعد یہ نفسیاتی سوچ ذرا اور آگے بڑھتی ہے ۔ کچھ مزید تکوینی احساسات اور الہامات سامنے آتے ہیں فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (191) رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ……………” ہمیں دوزخ کی آگ سے بچالے ‘ تونے جسے دوزخ میں ڈالاا سے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا ۔ اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “………سوال یہ ہے کہ زمین و آسمان کے اندر جو سچائی ہے اور اختلاف گردش لیل ونہار کے اندر جو سچائی ہے ‘ اس کے ادراک اور اس دعائیہ ارتعاش شعور کے درمیان کیا منطقی ربط ہے ‘ کہ صاحب ادراک نہایت ہی اللہ ترسی ‘ نہایت ہی عاجزی اور نہایت ہی یکسوئی سے دعا کرنے لگتا ہے ؟

جب اصحاب دانش اس سچائی کا ادراک کرلیتے ہیں ‘ جو اس کائنات کی تہہ میں کام کرتی ہے تو ان کے نزدیک اس ادراک کا مفہوم یہ ہوتا کہ اس کائنات کے اندر ایک تقدیر ہے ‘ ایک تدبیر ہے ‘ اس کے اندر ایک حکمت کام کررہی ہے اور اس کا ایک مقصد تخلیق ہے ۔ یہ کہ لوگوں کی زندگی کے پس پشت ‘ ان ستاروں میں ایک سچائی اور عدل کام کررہا ہے ۔ اس لئے لوگ یہاں جو کچھ اعمال وافعال کرتے ہیں ‘ ان کا کسی دن حساب و کتاب ضروری ہے ۔ مکافات عمل ہونا چاہئے ‘ اور مکافات عمل کی بنیاد پر عدالت اور انصاف کے لئے لازماً ایک دوسراجہاں ہونا چاہئے ۔ جس میں سچائی ‘ عدل اور جزاوسزا متحقق ہو۔

غرض اصحاب دانش کی دعا کے اندر جو حقائق سامنے آئے وہ فطرت کی بدیہی منطق ہے۔ جس کی کڑیاں اس طرح سرعت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہیں ۔ اور ان کا شعور ایک ہی جمپ میں آگ اور جہنم کا شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اور معاً دست بدعا ہوتے ہیں کہ اللہ ! ہمیں اس سے بچا ‘ یہ وہ پہلی بات ہوتی ہے جوان کے دلوں میں آتی ہے ۔ اور یہ آمد اس ادراک کا منطقی نتیجہ ہے جو اس کائنات کے اندر پنہاں سچائی کے حوالے سے وہ کرلیتے ہیں ۔ کیفیت کے اعتبار سے یہ دعا نہایت ہی طویل ‘ خشوع و خضوع سے پر ‘ نہایت ہی مضطرب دل کے ساتھ نہایت ہی کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اور پوری یکسوئی کے ساتھ ‘ دل مومن سے اٹھتی ہے اور الفاظ کے اعتبار سے وہ ایک میٹھانغمہ ہے ۔ جس کی ضربات ہم آہنگ اور نغموں کی پرسوز حرارت اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ خوبصورت الفاظ میں ہے۔

اردو ترجمہ

تو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے در حقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana innaka man tudkhili alnnara faqad akhzaytahu wama lilththalimeena min ansarin

ذرا آپ ان صاحبان عل و دانش کی ذہنی دنیا کا پہلا زلزلہ دیکھیں ۔ وہ اس میں اپنے رب کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجاتے ہیں تاکہ وہ انہیں آگ کے عذاب سے بچائیں ذرا غور فرمائیں رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ……………” تونے جسے دوزخ میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا۔ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ……………” پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “

اس دعا سے اظہار ہوتا ہے کہ ان کا خوف آگ کے عذاب سے تھا ‘ اور اس سے بھی زیادہ ان کا خوف اس رسوائی سے تھا جو اہل دوزخ کو ہوا کرتی ہے ۔ ان کی ذہنی دنیا میں یہ ارتعاش اس شرمندگی اور رسوائی کی وجہ سے آیا جو اہل دوزخ کی ہوگی ۔ اس لئے یہ خوف انہیں محض اس سبب سے دامن گیر ہو کہ انہیں اللہ سے حیا لاحق ہوگئی ۔ اس طرح وہ آگ سے داغے جانے کے مقابلے میں اللہ سے حیاء کرنے میں زیادہ حساس ہیں ۔ اور یہ خوف اور کپکپی ان کے اس شعور کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا ‘ اس لئے کسی ظالم کا کوئی ناصر اور مددگار نہ ہوگا۔

اردو ترجمہ

مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی، پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana innana samiAAna munadiyan yunadee lileemani an aminoo birabbikum faamanna rabbana faighfir lana thunoobana wakaffir AAanna sayyiatina watawaffana maAAa alabrari

اب یہ پر خشوع دعا ذرا آگے بڑھتی ہے :

رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلإيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِ

” مالک ! ہم نے ایک پکارنے والے کوسنا ‘ جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کی مانو ‘ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی ‘ پس اے ہمارے آقا جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزرفرما ‘ جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر ۔ “

اہل دانش کھلے دل لئے ہوئے ہیں ‘ ان پر جو القاء ہوتا ہے وہ لبیک کہتے ہیں ۔ ان کا احساس مزید تیز ہوجاتا ہے ‘ اب ان کی نظریں اپنی تقصیروں ‘ کوتاہیوں ‘ گناہوں اور نافرمانیوں پر لگ جاتی ہیں ۔ وہ فوراً اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مغفرت کے طلبگار ہوتے ہیں ‘ وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاتے اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی موت نیک لوگوں کے زمرے میں ہو۔

اس فقرے میں اس دعا کا جو پرتو ہے وہ اس پوری سورت کے مضامین کے شیڈ کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ تمام سورت مضامین تطہیر اخلاق ‘ اللہ اور رسول ﷺ کی معصیت اور نافرمانی سے استغفار کا رنگ لئے ہوئے ہیں ۔ اس پوری سورت میں شہوات نفسانیہ اور ذنوب وخطیئات کے خلاف ایک بھرپور جنگ کا سماں ہے ۔ اور یہ وہ جنگ ہے کہ ہر میدانی معرکہ میں کس بھی فتح مندی کا دارومدار اس جنگ میں کامرانی اور فتح مندی پر ہے ۔ جب تک اس اخلاقی تطہیر کی جنگ میں فتح نصیب نہ ہو ۔ اس وقت تک اللہ کے دشمنوں اور ایمان کے دشمنوں کے خلاف کوئی میدانی جنگ نہیں جیتی جاسکتی ۔ اور اس پوری سورت میں یہی مضامین دیئے گئے ہیں جو باہم وابستہ ‘ ہم آہنگ ‘ متکامل ‘ ہمسایہ اور ایک جیسے اثرات کے حامل ہیں۔

اردو ترجمہ

خداوندا! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیے ہیں اُن کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbana waatina ma waAAadtana AAala rusulika wala tukhzina yawma alqiyamati innaka la tukhlifu almeeAAada

اس دعا کا خاتمہ توجہ الی اللہ اور فضل خداوندی کی امیدواری سے ہوتا ہے ۔ اس بات پر اعتماد اور یقین کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر وعدے کی وفا ہوتی ہے ۔ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ” خداوند ! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کئے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال ‘ بیشک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے ۔ “

یہاں اب دعائیہ انداز میں یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ رسولوں نے آپ کے جو وعدے ہم پہنچائے ہیں ‘ اور ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کے ہاں وعدہ خلافی نہیں ہوتی ‘ وہ وعدے پورے کردے ۔ یہ لوگ امید کرتے ہیں کہ قیامت کے دن وہ شرمندہ نہ ہوں گے ۔ یہ ان کے افکار کی دنیا میں پہلے جھٹکے کے نتیجے میں ان کے دین کی حالت ہے کہ وہ امید سے دامن بھرے ہوئے ہیں کہ وہ رسوا نہ ہوں گے ۔ اور اسے وہ دعا کی ابتدا میں بھی لاتے ہیں اور آخر میں بھی لاتے ہیں ۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصحاب دانش کس قدر حساس ہوگئے ہیں ۔ ان کے دل کس قدر نرم ہوگئے ہیں ۔ وہ کس قدر صاف ہوگئے ہیں ۔ اللہ کا ڈر اور معصیت کے شرم سے ان کے دل بھرے ہیں ۔

اپنے مجموعی مضمون کے اعتبار سے ‘ یہ دعا ‘ ان اہل دانش کی جانب سے مطالعہ فطرت کے نتیجے میں مکمل قبولیت مکمل آمادگی کا اظہار ہے جو ان کے دل پر نظام کائنات کے مطالعہ سے القاء ہوئی ۔

مناسب ہے کہ ہم اس دعا پر ایک بار پھر غور کریں ‘ اس کی فنی خوبصورتی اور اس کی مناسب طرزادا پر نگاہ ڈالنا بھی ضروری ہے ۔

قرآن کریم کی ہر سورت میں ‘ اس کی آیات کے لئے ایک متعین قافیہ اپنایا گیا ہے ۔ اور قرآن مجید کے اندر قافیہ اور فواصل کا وہ طریقہ نہیں اپنایا گیا جو اشعار میں ہوتا ہے ۔ کہ حرف سے حرف ملے ۔ لیکن ان کا نغمہ اور زیروبم باہم متشابہ ہوتے ہیں ۔ مثلاً الفاظ بصیر ‘ حکیم ‘ مبین اور مریب ایک جیسے صوتی اثرات رکھتے ہیں۔ یا مثلاً الباب ‘ ابصار ‘ النار اور قرار جیسے الفاظ کے صوتی اثرات یکساں ہیں یا مثلاً خفیا ‘ شقیا ‘ شرقیاجی سے الفاظ اگرچہ شعری قافیہ نہیں لیکن ان کا صوتی ایقاع ایک جیسا ہے ۔ ان میں سے پہلا قافیہ اکثر پر زور تقریر جیسے مواقع پر ہوتا ہے ۔ جہاں انداز بیانیہ ہوتا ہے………دوسرا قسم کا قافیہ دعاؤں کے مواقع پر ہوتا ہے اور تیسری قسم کو حکایات اور بیان واقعات کے لئے لایا جاتا ہے۔

سورة آل عمران میں پہلی قسم کا قافیہ ہے ‘ صرف دوجگہ اس سے انحراف ہوا ہے ۔ ابتداء میں جہاں دعاتھی ‘ پھر ان آخری آیات میں جہاں پھر دعا ہے ۔

یہ انداز بالکل ایک نیا اور انوکھا انداز ہے جو قرآن نے مخصوص تعبیرات کے لئے اختیار کیا ہے ۔ دعا کے لئے جو انداز اختیار کیا گیا وہ دعا کو نرم آواز اور پر سو زلہجہ دیتا ہے ۔ الفاظ کے اندر مٹھاس پایا جاتا ہے ۔ جو عاجزی کے ساتھ عرض مدعا کے لئے نہایت ہی موزوں ہے ۔

ایک دوسری فنی خصوصیت بھی ان آیات میں پائی جاتی ہے ۔ کائنات میں تخلیق ارض وسما کا منظر اور گردش لیل ونہار کے جو مناظر انسان کے غور وفکر کے لئے پیش کئے گئے تھے ‘ ان کے ساتھ مناسب یہ تھا کہ دعا ایسی ہو جس میں خشوع و خضوع خوش آوازی کے ساتھ ہو ۔ اس کے نغمات طویل ہوں ‘ اس کے آواز کے زیروبم نہایت ہی گہرے ہوں ۔ اس طرح اس منظر کے الہامات ‘ اثرات طویل ہوں اور اعصاب سماعت اور خیال پر اس کے گہرے اثرات ہوں اور پھر یہ تاثر وجدان پر منتقل ہوجائے ۔ کیونکہ ان کلمات کے صوتی حرکات کے اندر بھی نہایت خشوع ‘ خوش ‘ خوش گواری ‘ توجہ اور اللہ ترسی ہے ۔ اس منظر کی جس طرح عبارت طویل ہے اس طرح نغمات بھی طویل ہیں ۔ جس سے قرآن کریم کی تعبیرات کی اصل غرض وغایت پوری ہوتی ہے اور اس کے ساتھ قرآن کریم کی اصل نئی خوبیاں بھی سامنے آتی ہیں ۔

جس طرح یہ دعا طویل ہے ۔ اسی جواب دعا بھی طویل ہے :

75