سورة آل عمران: آیت 164 - لقد من الله على المؤمنين... - اردو

آیت 164 کی تفسیر, سورة آل عمران

لَقَدْ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا۟ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ

اردو ترجمہ

درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad manna Allahu AAala almumineena ith baAAatha feehim rasoolan min anfusihim yatloo AAalayhim ayatihi wayuzakkeehim wayuAAallimuhumu alkitaba waalhikmata wain kanoo min qablu lafee dalalin mubeenin

آیت 164 کی تفسیر

اب یہ پیراگراف اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کی طرف۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کو رسول بناکر دراصل اللہ تعالیٰ نے مکہ مدینہ اور پوری دنیا کے اہل ایمان پر ایک عظیم احسان کیا ہے ۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ رسالت کی اس اسکیم پر غور کریں۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ

” درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ‘ ان کی زندگیوں کو سنوراتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ‘ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔ “

اس پیراگراف کا اختتام حقیقت نبوت محمدیہ پر کرنا ‘ اور آپ کی ذاتی حیثیت ومقام کو یہاں بیان کرنا اور اسے ایک عظیم احسان جتانا ‘ اور آپ اور آپ کی نبوت کا اس امت کی تعمیر وتشکیل میں اہم کردار جتلانا اور اس امت کی تعلیم وتربیت اور اس کی قائدانہ صلاحیت اور کھلی گمراہی سے نکل کر اس کا علم و حکمت اور تزکیہ اور طہارت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جانے کا تذکرہ ان سب امور کے اندر متنوع اور عمیق قرآنی احساسات ہیں جن پر غور ضروری ہے ۔

یہ آیات ابتداً مال غنیمت پر بطور تبصرہ آئی ہیں کہ مال غنیمت کا لالچ ‘ اس سے کسی چیز کے چوری ہونے ‘ اور اس معمولی کام کے اندر بہت زیادہ مشغول ہونے کی وجہ سے تم نے احد کی جیتی ہوئی جنگ ہاری ۔ اور تمہاری فتح شکست میں بدل گئی ۔ اور اس کی وجہ سے مسلمان ملت کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو تم نے دیکھ لیا ۔ اس ریفرنس میں رسالت کے عظیم منصب کے تذکرے اور اس عظیم احسان کے تذکرے جو احساس دلانا مقصود ہے وہ بہت ہی گہرا ہے ۔ اور اس سے قرآن اپنے مخصوص انداز کے ساتھ امت کی تربیت کرنا چاہتا ہے ۔ اس عظیم منصب کے ذکر اور یہ سمجھانے سے کہ یہ کس قدرعظیم احسان ہے تمہارے لئے یہ تاثر اور احساس دینا مطلوب ہے کہ تمام زمین کے اموال غنیمت ‘ تمام کرہ ارض سے چھینا ہوامال اور تمام دنیا کے سامان واسباب ‘ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ قابل ذکر ہی نہیں ہیں ۔ اس عظیم منصب ونعمت کے ہوتے ہوئے ان حقیر چیزوں کے تذکرے سے بھی ایک مسلمان کو حیا آتی ہے بلکہ اس کے بارے میں سوچنا بھی شرمندگی ہے ۔ چہ جائیکہ مسلمانوں میں سے کوئی اس کے اندر دلچسپی لے ۔

پھر یہ فکر انگیز اشارہ اس وقت دیا گیا کہ مسلمانوں کو شکست ہوچکی تھی ‘ وہ رنج والم میں مبتلا تھے اور اس معرکے میں مسلمانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی تھیں ۔ ایسے حالات میں نبوت کے عظیم منصب کے عظیم کام کو سامنے لاکر یہ فکر دلانا مقصود ہے کہ اس نبوت کے ذریعہ تم پر جو احسانات ہوئے ذرا ان پر بھی تو غور کرو ۔ یہ وہ عظیم احسان ہے جو کو دنیا کے تمام دوسرے امور پر ترجیح دی جاسکتی ہے ۔ “

پھر بتایا جاتا ہے کہ اس احسان عظیم کے نتیجے میں ‘ تمہارے اندر جو تبدیلی آئی اس پر بھی ذرا غور کرو ۔ تمہارے اندر اللہ کی آیات پڑھی جارہی ہیں ‘ تمہاری زندگیوں کو سنوارا جارہا ہے ‘ تمہیں کتاب سکھائی جارہی ہے اور پھر دانائی اور حکمت اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ اس سے قبل تم صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔

يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ

” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایک حال سے بذریعہ انقلاب دوسری حالت میں منتقل کردیا گیا تھا ‘ ایک صورت حال تبدیل ہوگئی تھی اور ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی تھی ۔ ایک دور گزر گیا تھا اور ایک نیا دور آگیا تھا ۔ اس لئے امت کو یہ شعور دیا جارہا ہے کہ یہ ایک عظیم انقلاب ہے جو اس امت کے اندر محض اللہ کی قدرت ‘ مشیئت اور فضل و احسان کے ذریعہ برپا کیا جارہا ہے ۔ اور پھر اس امت کے ذریعہ پوری انسانی زندگی کے اندر اس عظیم انقلاب کے برپا کرنے کا آغاز بعث رسالت محمدیہ کے ساتھ ہوا ہے جس نے اس امت کو برپا کیا اور تربیت دی ۔ اس لئے اس عظیم انقلابی قوت کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اموال غنیمت جیسی حقیر چیز کو پیش نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرے ۔ یا وہ معمولی قربانیوں اور رنج والم اور شکست وریخت پر کوئی جزع وفزع کرے ۔ اس لئے کہ اس عظیم انقلاب کی راہ میں یہ چیزیں کچھ بھی نہیں ہیں ۔

جنگ بدر کے واقعات کے بیان کے دوران رسالت محمدیہ کی اہمیت اور عظمت کے بیان میں یہ چند اشارات تھے جسے ہم نے اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مناسب ہے کہ ہم اس آیت قرآنی پر تفصیل سے روشنی ڈالیں جو حکمت و دانائی کے اشارات سے بھری ہوئی ہے ۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ……………” درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے پیغمبر اٹھایا۔ “……یہ اللہ کا عظیم احسان تھا کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا ۔ پھر یہ دوسرا احسان تھا کہ رسول کریم بھی عربی تھے ۔ خود ان میں سے تھے ‘ اللہ کی جانب سے کسی قوم میں رسول مبعوث کرنا دراصل اس قوم پر اللہ کا محض فضل وکرم ہوتا ہے ۔ یہ خالص احسان اس لئے ہوتا ہے کہ بعثت رسول کے لئے خود اس قوم میں کوئی استحقاق کی بات نہیں ہوتی ۔ اگر ان کا کوئی استحقاق ہوتا تو اس کے لئے کوئی قابل ذکر لوگ ہوتے ‘ لوگوں کے اندر کوئی ایسا گروہ نہیں ہے جس پر یہ عنایت ہورہی ہو ۔ یہ تو محض اللہ کا فضل وکرم ہے کہ ان میں رسول آگیا ‘ جو ان پر آیات الٰہی کی تلاوت کرتا ہے ‘ اللہ کے کلمات سناتا ہے ‘ اور اس کرم عظیم کے لئے ان کے ہاں کوئی سبب یا استحقاق نہ تھا ‘ یہ صرف اور صرف احسان الٰہی ہے۔

اور یہ احسان پھر اس پہلو سے اور زیادہ اور گہرا ہوجاتا ہے کہ یہ رسول خود ان میں سے ان کا ہی بھائی ہے ۔” خود ان میں سے ایک رسول “ کے الفاظ کے اندر نہایت گہرے اشارے ہیں ۔ مومنین اور رسول کے درمیان رابطہ ایک نفس کا ایک نفس کے ساتھ رابطہ ہے ۔ یہ رابطے نہیں ہے کہ ایک فرد ایک قوم کے ساتھ مربوط ہو۔ صرف بات یہ نہ تھی کہ وہ ان میں سے ایک ہے ‘ بلکہ اس سے زیادہ گہرا اور اس سے زیادہ ارفع مفہوم مطلوب ہے ۔ ایمان کی وجہ سے وہ بلند ہوکر رسول سے مربوط ہوجاتے ہیں اور صرف ایمان کی وجہ سے وہ شرف وسربلندی کے اس اونچے مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور بیشک اہل ایمان پر یہ عظیم احسان ہے ۔ اس طرح یہ احسان دوچند ہوجاتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ رسول بھیجا گیا اور دوسرا یہ کہ یہ رسول تمہارے اندر موجود ہے اور وہ اس رسول کے پاس موجود ہیں اور دونوں کے درمیان یہ محبوب رابطہ قائم ہے۔

اس کے بعد اس احسان کے عملی آثار ظاہر ہوتے ہیں ۔ ان کی شخصیت میں ‘ ان کی زندگی میں اور پھر ان کی تاریخ میں يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ……………” جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ‘ ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے ‘ اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ۔ “ اب اس احسان کا ظہور بڑے وسیع اور عملی میدان میں ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ ان کی عزت افزائی کی شکل میں یہ احسان عظیم ظاہر ہوتا ہے کہ خود اس نے اپنی جانب سے ‘ اپنے پروگرام کے مطابق رسول بھیجا جو ان سے اللہ کے کلام کے ذریعہ مخاطب ہے اور انہیں اللہ کی آیات سناتا ہے ۔ اگر انسان اللہ کے صرف اسی ایک احسان پر اچھی طرح غور کرے تو وہ اللہ کے خوف سے مدہوش ہوجائے ‘ کانپ اٹھے اور اس کے لئے یہ ممکن بھی نہ رہے کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہوسکے اور فوراً سجدہ شکر بجالائے ۔

اگر وہ یہ سوچے کہ اس پر اللہ کرم کررہا ہے ‘ اس کے ساتھ بات کررہا ہے ‘ اس کو اپنی ذات وصفات کے بارے میں متعارف کر ارہا ہے تاکہ انسان اس کی الوہیت کی ماہیت اور اس کے خصائص کو جان لے ۔ اس کے بعد وہ ذات باری اس سے مخاطب ہورہا ہے اور مخاطب بھی اس انسان اور اللہ کے اس حقیر بندے سے اور خطاب بھی اس بندے کی زندگی کے بارے میں ہو ‘ اس کے دلی سوالات کے جواب دے رہی ہو ‘ اس کی حرکات و سکنات پر بحث ہورہی ہو ‘ اور بات اس پروگرام کی ہورہی ہو جس میں اس حقیر انسان کی زندگی جاوید کا پروگرام مضمر ہے اور اس کی ہدایت کی بات ہورہی ہو ‘ اور یہ ہدایت بھی اس دستور کی طرف دی جارہی ہو جس میں اس کے دل کی پاکیزگی ہے اور اس کے احوال کی بہتری ہے ۔ اور اس کے بعد پھر اسے خوشخبری دی جارہی ہے کہ اگر وہ اس پروگرام پر چلے گا تو وسیع تر جنت میں جگہ پائے گا ‘ کیا اس سے اور کوئی عظیم احسان ہوسکتا ہے ‘ بلکہ یہ خالص فیضان جودوکرم ہے ‘ اور خالص فضل وعطا ہے ۔

اللہ تو غنی بادشاہ ہے ‘ اور انسان کمزور اور محتاج ہے ۔ لیکن یہ غنی بادشاہ اس کمزور اور محتاج سے ہمکلام ہے ۔ وہ اس پر عنایات کی بارش کررہا ہے ‘ اسے دعوت دے رہا ہے ‘ یہ غنی بادشاہ باربار ان فقراء کو پکار رہا ہے اور اپنے جودوکرم کی مسلسل دعوت دے رہا ہے ۔ یہ عظیم کرم ہے ‘ عظیم احسان ہے ‘ عظیم فضل اور عطا ہے جو بےلوث ہے اور اس کے بالمقابل اس کا پورا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے احسان کی وفاداری ممکن ہے ۔

وَيُزَكِّيهِمْ…………” ان کی زندگیاں سنوراتا ہے “ پاک کرتا ہے ‘ بلند کرتا ہے ‘ منقح کرتا ہے اور ان کے دلوں ‘ ان کے تصورات ‘ اور ان کے شعور کو پاک کرتا ہے ۔ وہ ان کے گھرانوں کو پاک کرتا ہے ۔ ان کی عزتوں کو پاک کرتا ہے ‘ اور ان کے باہم روابط کو پاک کرتا ہے ۔ ان کی انفرادی زندگی کو پاک کرتا ہے ‘ ان کے معاشرے کو پاک کرتا ہے اور ان کے ارادوں کو پاک کرتا ہے ۔ ان کو شرک بت پرستی کی گندیوں سے پاک کرتا ہے ۔ ان کو خرافات اور وہم پرستی سے پاک کرتا ہے اور ان کی وجہ سے زندگی کے اندر جو رسم و رواج پاتے ہیں ‘ جو غلط بندگیاں ہوتی ہیں ان سے پاک کرتا ہے ۔ اور شرف انسانیت سے فروتر گھٹیا درجے کی جو حرکات ہوتی ہیں ان سے انسانوں کو پاک کرتا ہے ۔ ان کو جاہلیت کی زندگی کی تمام گندگیوں سے پاک کرتا ہے ۔ نیز ان چیزوں سے پاک کرتا ہے جن سے انسانی شعور اور قومی شعائر ملوث ہوجاتے ہیں اور جن سے زندگی کے معانی ‘ اقدار اور روایات گندی ہوتی ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر جاہلیت اپنے ماحول میں کچھ ناپاکیاں پھیلادیتی ہے ۔ اسی طرح عرب جاہلیت نے بھی بعض گندگیاں پھیلادی تھیں اور ان سب سے اسلام انہیں پاک کررہا تھا۔

اور جاہلیت کی گندگیوں میں سے بعض کا تذکرہ حضرت جعفر بن ابی طالب نے کیا ہے ‘ جب وہ نجاشی کے سامنے اسلام کا تعارف کرا رہے تھے ۔ اور یہ تعارف وہ قریش کے نمائندوں کے سامنے کررہے تھے ۔ جوان مہاجرین کے خلاف مہم پر آئے ہوئے تھے ۔ مطالبہ یہ تھا کہ وہ ان مہاجرین کو ان کے حوالے کردے ۔ حضرت جعفر ؓ فرماتے ہیں :

” شاہ محترم ! ہم جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم تھے ۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے ۔ فحاشی کی تمام حرکات کرتے تھے ۔ صلہ رحمی کے تمام تعلقات کو کاٹتے تھے ۔ پردیسی سے براسلوک کرتے تھے ۔ ہم میں سے طاقتور ضعیفوں کو کھائے جارہا تھا۔ ہماری یہی حالت تھی کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا ۔ ہم اس کے شجرہ نسب کو خوب جانتے ہیں ‘ اس کی سچائی ‘ اس کی امانت ودیانت سے بھی خوب واقف ہیں اور اس کی عفت مآبی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ہمیں ایک اللہ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک ہی جانیں ‘ صرف اسی کی بندگی کریں ۔ اور اس کے علاوہ ہم اور ہمارے آباء و اجداد جن پتھروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے ان کو جوأ اپنے گلے سے اتار دیں۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ سچی بات کرو ‘ امانت میں خیانت نہ کرو ‘ صلہ رحمی کرو ‘ پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھو ‘ حرام امور کا ارتکاب نہ کرو ‘ قتل نہ کرو ‘ فحاشی سے اس نے ہمیں منع کیا ‘ جھوٹی بات سے منع کیا ‘ یتیم کا مال کھانے سے منع کیا ‘ پاکدامن عورتوں پر بہتان لگانے سے منع کیا اور اس نے حکم دیا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ ادا کرو اور روزے رکھو۔ “

اور ان گندگیوں میں سے ایک گندگی وہ تھی جس کا تذکرہ حضرت عائشہ ؓ عنہانے کیا ہے ۔ وہ جاہلیت کے زمانے میں مرد وزن کے تعلق جنسیت کا نقشہ روایت بخاری کے مطابق یوں کھینچتی ہیں :” جاہلیت میں نکاح کی چار اقسام مروج تھیں ۔ ایک تو وہ نکاح تھا ‘ جو آج کل ہمارے درمیان مروج ہے کہ ایک شخص دوسرے کی لڑکی کا پیغام دیتا ‘ مہر مقرر ہوتا اور پھر نکاح ہوجاتا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ جب کسی شخص کی عورت ایام ماہواری سے پاک ہوجاتی تو وہ کہتا فلاں کے پاس جاؤ اور اس کے ساتھ تعلقات زن وشو قائم کرو ۔ اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس وقت تک مباشرت نہ کرتا جب تک اس کا حمل واضح نہ ہوجاتا ۔ یعنی جس شخص کے پاس اس نے اسے بھیجا تھا اس کے نطفے سے ۔ اور جب حمل واضح ہوجاتا تو پھر خاوند اس کے ساتھ تعلقات جنسیت قائم کرلیتا اگر چاہتا ۔ یہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ اس شخص سے اچھی نسل پیدا ہو۔ اسے نکاح استبضاع کہا جاتا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کہ دس افراد سے کم لوگ جمع ہوتے اور وہ ایک ہی عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرلیتے ۔ ہر ایک اس کے پاس جاتا ‘ جب حمل ہوجاتا اور بچہ پیدا ہوجاتا اور کچھ شب وروز گزرجاتے تو وہ ان سب کو بلاتی ۔ ہر ایک کو لازماً آنا پڑتا ۔ وہ آتے اور اس کے ہاں اجتماع ہوتا ۔ وہ کہتی تمہیں تو بات کا پتہ ہی ہے ۔ اب بچہ پیدا ہوگیا ہے ۔ اے فلاں یہ بچہ تمہارا ہے اور وہ جس کے نام سے چاہتی اس کا نام رکھ دیتی ۔ تو یہ اس کا بچہ ہوجاتا۔ اور وہ شخص انکار نہ کرسکتا۔ چوتھانکاح ہوں ہوتا کہ بہت سے لوگ ایک عورت کے پاس جاتے ۔ یہ عورت کسی کو بھی منع نہ کرتی ‘ جو بھی چاہتا اس کے پاس جاتا ۔ ان میں سے اگر کوئی حاملہ ہوجاتی اور حمل وضع ہوجاتا تو یہ سب لوگ اس کے ہاں جمع ہوتے ۔ قیافہ دانوں کو بلایا جاتا۔ یہ قیافہ دان جس کے بارے میں چاہتے ‘ بچے کو اس کے ساتھ ملادیتے ۔ وہ اسے لیتا ‘ اس کا وہ بیٹا تصور ہوتا اور ازروئے قانون وہ اس کا انکار نہ کرسکتا ۔ “

اب ذرا غورکیجئے کہ اس بہیمانہ گرے ہوئے جنسی ضوابط پر کیا کسی مزید تبصرے کی ضرورت ہے ۔ یہ کافی ہے کہ ہم ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچیں کہ وہ اپنی بیوی کو کسی کے پاس ایک اچھا بچہ پیدا کرنے کے لئے بھیجتا ہے ۔ جس طرح اونٹنی ‘ ایک گھوڑی اور ایک مادہ مویشی کو اچھا بچہ لانے کے لئے بھیجا جاتا ہے تاکہ بہترین نسل کشی ہو۔

رہی جسم فروشی کی چوتھی صورت تو وہ جسم فروشی کی ایک ایسی صورت ہے جس میں بچے کو کسی کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس میں وہ عار محسوس نہیں کرتے اور نہ اس سے رکتے ہیں ۔

اور تیسری صورت بھی ویسی ہی ہے جس سے عربوں کو اسلام نے پاک کیا اور اگر اسلام نہ آتا تو وہ کانوں تک اس گندگی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔

جنسی تعلقات میں یہ گندگی عربوں میں محض اس لئے پھیلی ہوئی تھی کہ ان کا نقطہ نظر عورت کے بارے میں نہایت ہی گرا ہوا تھا ‘ ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :

” جاہلیت کے دور میں عورتوں پر بےحد ظلم ہوتا تھا۔ اور ان کے حقوق مارے جاتے تھے ۔ اس کی دولت لوٹی جاتی تھی۔ اسے میراث سے محروم کردیا جاتا تھا۔ اور اگر اسے طلاق ہوجاتی یا اس کا خاوند فوت ہوجاتا تو اسے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی ۔ اور وہ اسی طرح میراث میں ملا کرتی تھی جس طرح مویشی اور سامان میراث کے طور پر ملا کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے ۔ اگر کسی کا باپ فوت ہوجاتا تو وہ اس کی منکوحہ کا سب سے پہلامستحق ہوجاتا ‘ وہ اگر چاہتا تو اسے اپنے نکاح میں لے لیتا ‘ چاہتا تو اسے اس وقت تک بند رکھتا جب تک وہ اسے فدیہ نہ دلاتی یا مر نہ جاتی تاکہ یہ اس کی تمام مملوکات پر قابض ہوجاتا۔ عطا ابن رباح کہتے ہیں اہل جاہلیت کا رواج یہ تھا کہ جب کوئی مرد فوت ہوجاتا اور اس کی بیوی رہ جاتی تو اسے روک لیا جاتا یہاں تک کہ کوئی بچہ بالغ ہوتا اور یہ اس کے حوالے کردی جاتی ۔

سدی نے کہا کہ جاہلیت میں جب باپ اور بھائی فوت ہوجاتے یا لڑکا فوت ہوتا اور اس کے پیچھے بیوہ رہ جاتی تو اگر کوئی وارث جلدی سے اس بیوہ پر کپڑا ڈال دیتا تو وہ اس کی ہوجاتی اور وہ اسی سابقہ مہر کے عوض اس کے ساتھ نکاح کرلیتا یا وہ اسے کسی کے نکاح میں دے دیتا لیکن اس کے مہر کا حق دار وہ شخص ہوتا ۔ اور اگر بیوی خاوند کے مرتے ہی اپنے میکے بھاگ جاتی تو آزاد تصور ہوتی ۔ جاہلیت میں عورت کے ساتھ اس کے حقوق کے بارے میں سخت عدم توازن تھا۔ خاوند اس کے حقوق تلف کرسکتا تھا ‘ جبکہ وہ خاوند کی حق تلفی کرنے پر قادر نہ تھی ۔ اس کا مہر اس سے چھین لیا جاتا۔ اور اسے نقصان پہنچانے کے لئے روکے رکھا جاتا۔ خاوند تو اس کے ساتھ براسلوک کرتا ‘ اس سے اعراض بھی کرتا اور بعض اوقات اسے معلق کرکے چھوڑ دیا جاتا۔ کھانے پینے کی چیزوں سے بعض چیزیں مردوں کے لئے مخصوص تھیں اور عورتوں پر وہ حرام تھیں ۔ مرد کے لئے اجازت تھی کہ وہ جس قدر عورتوں سے نکاح کرتا ‘ نکاح کرسکتا تھا۔

لڑکیوں کو اس قدربرا سمجھا جاتا کہ انہیں زندہ درگور کردیا جاتا ۔ ہشیم ابن عدی نے المیدانی کی روایت کے مطابق لکھا ہے کہ تمام قبائل عرب میں زندہ درگور کرنے کا رواج تھا ‘ ہاں ایک شخص اگر اس پر عمل نہ کرتا تو دس نہ کرتے ۔ اسلام آیا تو اس وقت عربوں کے اندر زندہ درگور کرنے کے بارے میں مختلف آراء اور طریقے پائے جاتے تھے ۔ بعض لوگ بہت غیرت مند ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے ۔ اور ان کی وجہ سے وہ اپنی شرمندگی چھپاتے ۔ بعض لوگ ایسے تھے جو سبز آنکھوں والی لڑکیوں کو دفن کرتے یا سیاہ فام کو زندہ درگور کردیتے یا برص زدہ کو دفن کردیتے یالنگڑی کو دفن کردیتے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ ان صفات کو بہت ہی بدشگون سمجھتے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو فقر وفاقہ کے خطرات کی وجہ سے اولاد کو قتل کرتے ۔

بعض اوقات وہ اپنی لڑکیوں کو بڑی سنگدلی کے ساتھ قتل کرتے یا زندہ درگور کرتے ۔ مثلاً کبھی ایسا ہوتا کہ والد موجود نہ ہوتا ‘ سفر میں ہوتا ‘ یا کوئی اور مصروفیات ہوتیں تولڑ کی کو زندہ درگور کرنے کا موقعہ نہ ملتا ‘ وہ بڑی ہوجاتی وہ سمجھتی کہ اسے قتل کیا جاتا ہے ۔ بعض لوگوں نے خود اپنی کہانیاں بیان کی ہیں جو خون کے آنسو رلاتی ہیں ۔ بعض لوگ لڑکیوں کو پہاڑ کی چوٹی سے گرادیتے ۔

ان گندگیوں میں سے ایک گندگی ‘ اور سب سے بڑی گندگی ‘ شرک تھی ۔ پھر شرک کی بھی گری ہوئی شکل یعنی بت پرستی عربوں میں عام تھی ۔ استاد ندوی اس کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں :” عرب بت پرستی اور بتوں کی پوجا کی بدترین صورتوں میں مبتلا تھے ۔ ہر قبیلہ بلکہ ہر درے کا ایک بت ہوا کرتا تھا ۔ بلکہ ہر خاندان کا ایک بت ہوا کرتا تھا ۔ کلبی کہتے ہیں ۔ مکہ کے ہر گھرانے کا اپنا بت ہوتا تھا جسے وہ پوجتے تھے ۔ جب کوئی سفر پر جاتا تو جانے سے پہلے آخری کام یہ کرتا کہ وہ اس سے تبرک حاصل کرتا۔ اور جب گھر لوٹتا تو سب سے پہلے اس کی پوجا کرتا۔ عرب بتوں کی پوجا کے اندر اس قدر غلو کرگئے تھے ۔ بعض نے اپنے بت خانے بنارکھے تھے ۔ بعض کا اپنا علیحدہ ایک ہی بت ہوتا تھا۔ اگر کوئی بت خانہ نہ بناسکتا تھا اور اپنا بت بھی نہ بناسکتا تو وہ خانہ کعبہ کے سامنے ایک پتھر کھڑا کردیتایا کسی اور جگہ کھڑا کردیتا ‘ اس کا طواف کرتاجس طرح وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتا تھا۔ اور ایسے بتوں کو وہ انصاب کہتے تھے ۔ خانہ کعبہ کے اندر ‘ حالانکہ کعبہ صرف اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر ہوا تھا ‘ اس کے صحن کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ۔ بتوں کی پوجا سے آگے بڑھ کر انہوں نے بتدریج پتھروں کی پوجاشروع کردی تھی ۔ امام بخاری نے ابورجاء عطاردی سے روایت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پتھروں کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ اگر ہمیں کوئی اچھا پتھر ملتا تو پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرا لے لیتے ۔ اگر پتھر نہ ملتا تو ہم مٹی کا ایک ڈھیلا لے لیتے اس بکری کو دوہتے۔ اس کے بعد اس کا طواف کرتے ۔ کلبی کہتے ہیں۔ اگر کوئی سفر کرتا اور کسی جگہ اترتا تو چار پتھر لیتا ۔ ان میں سے دیکھتا کہ سب سے اچھا کون سا ہے تو اسے اپنا رب بنالیتا اور بقیہ تین کو چولہے کے تین پتھر بنالیتا ۔ اور جب وہ اپنی منزل چھوڑتا تو اس پتھر کو بھی چھوڑدیتا۔

عرب بھی دوسری قوموں کی طرح ‘ ملائکہ اور جنوں کی پوجا کرتے ۔ اسی طرح وہ ستاروں کی پوجا بھی کرتے ۔ چناچہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے اور انہیں اللہ کے ہاں سفارشی بناتے۔ ان کی عبادت بھی کرتے اور ان کے وسیلہ سے اللہ کے ہاں اپروچ (تقرب حاصل) کرتے ۔ اسی طرح انہوں نے جنوں کو بھی شریک خدا کیا ہوا تھا۔ ان کی قدرت اور تاثیر کے وہ قائل تھے ‘ بلکہ ان کی عبادت بھی کیا کرتے تھے ۔ کلبی کہتا ہے قبیلہ خزاعہ کا بنوملیح قبیلہ جنوں کی پوجا کرتا تھا ۔ صاعد کہتے ہیں کہ حمیر سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ کنانہ چاند کے پجاری تھے ۔ “ (دیکھئے ماذاحرالمسلمون۔ ندوی ص 34)

بت پرستی کے اس ابتدائی تصور کے ملاحظہ سے بسہولت معلوم ہوجاتا ہے کہ اس بت پرستی کی وجہ سے عربوں کے دل و دماغ اور ان کے تصورات اور ان کی عملی زندگی کے اندر کس قدر وسیع گندگی پھیلی ہوئی تھی ۔ اور یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ کس قدر عظیم انقلاب تھا جو اسلام نے عرب معاشرے کے اندر برپا کیا ۔ ان کی زندگی کو کس قدر پاک کیا گیا ‘ ان کے تصورات کی کس قدر تطہیر کی گئی ۔ اور ان کو اخلاقی اور اجتماعی گندگیوں سے کس قدر پاک کیا گیا ‘ حالانکہ یہ تصورات اور یہ انفرادی اور اجتماعی گندگیاں ان کے لئے ایک قسم کے مفاخر تھے اور وہ اپنے اشعار اور اپنے میلوں اور بازاروں میں ان پر لمبی لمبی فخریہ تقریریں کیا کرتے تھے ۔ مثلاً شراب نوشی ‘ قمار بازی ‘ قبائل کے اندر چھوٹے چھوٹے انتقام ‘ ان کے نزدیک عظیم فضائل اخلاق تھے ۔ اور یہ لوگ ان کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھ سکتے تھے ۔

رہی جنگ تو وہ ان کے لئے نہایت ہی معمولی بات تھی ۔ خونریزی ان کے لئے روز مرہ کا کام تھا۔ ایک معمولی حادثہ بھی خونریزی کا باعث بن جاتا ۔ قبیلہ بکر اور تغلب کے درمیان جنگ ہوئی اور چالیس سال تک ہوتی رہی ۔ اس جنگ میں عظیم خونریزی ہوئی ۔ جنگ یوں شروع ہوئی کہ کلیب رئیس معد نے تیر مارا اور بسوس بنت منقذ کی اونٹنی کے تھنوں میں لگا۔ خون اور دودھ مل گئے ۔ جس اس ابن مرہ نے کلیب کو قتل کردیا ۔ اس بکر اور تغلب قبائل کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اور جس طرح مہلہل برادر کلیب نے کہا ہے ” اس جنگ نے زندگی کو فنا کردیا۔ ماؤں کو رلادیا۔ بچوں کو یتیم کردیا۔ اس قدر آنسوب ہے کہ رکنے کا نام نہ لیا اور اس قدر لوگ مارے گئے کہ دفن نہ ہوسکے ۔ اور جنگ داحس کا بھی حال ایسا ہی تھا ۔ قیس ابن زہیر کے گھوڑے کا نام داحس تھا ۔ قیس ابن زہیر اور حذیفہ ابن بدر کے درمیان ہونے والے شرطیہ مقابلے میں داحس آگے تھا ۔ ایک شخص جو اسد قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اس نے اس کے آگے رکاوٹ ڈالی اور حذیفہ آگے نکل گیا ۔ اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا اور اس طرح اسے الجھادیا ۔ اور دوسرے گھوڑے آگے نکل گئے ۔ اس کے بعد مقاتلہ شروع ہوگیا ‘ پھر بدلے پر بدلہ لیا جاتا رہا ۔ قبیلوں نے اپنے افراد کی نصرت کی ۔ اس میں لوگ مارے گئے ‘ قید ہوئے اور ہزاروں افراد کام آئے۔ “

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کی زندگی میں ‘ عظیم اور بلند مقاصد کی کوئی اہمیت نہ تھی ‘ اگر ان کے ہاں کوئی بلند نصب العین ہوتا تو وہ ان گھٹیا سرگرمیوں میں مشغول ہونے کا وقت ہی نہ پاتے ۔ ان کی زندگی کا کوئی پیغام نہ تھا ‘ انسانوں کی بھلائی کا کوئی منصوبہ ان کے پیش نظر نہ تھا ۔ اس دنیا میں ان کے پاس کوئی بلند انسانی پروگرام نہ تھا کہ وہ زندگی کی ان بےقیمت اور گھٹیا سرگرمیوں میں مشغول نہ ہوتے۔ نیز ان کے پاس کوئی ایسا نظریہ حیات بھی نہ تھا جو انہیں ان اجتماعی مذموم گندگیوں سے باز رکھتا ۔ اگر لوگوں تک الٰہی نظریہ حیات نہ پہنچاہو تو پھر ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں ؟ ان کا تصور حیات کیا ہوتا ہے ؟ اور ان کے اخلاق کیا ہوتے ہیں ؟

جاہلیت بہرحال جاہلیت ہوتی ہے ۔ اور ہر جاہلیت کی گندگیاں اور غلط کاریاں الگ ہوتی ہیں۔ ہر زمان ومکان میں ان کے لئے الگ مواقع رہے ہیں ۔ جب لوگوں کے دل الٰہی نظریہ ٔ حیات سے خالی ہوجائیں اور ان پر خدائی فکر کی حکمرانی نہ رہے ‘ جب لوگ الٰہی شریعت سے آزاد ہوجائیں تو خدائی نظریہ حیات پر مبنی ہوتی ہے ‘ تو ان کی زندگی پر جاہلیت کی حکمرانی ہوتی ہے اور وہ جاہلیت کی مختلف صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ آج ہمارے دور میں جس جاہلیت نے انسانیت کو کانوں تک گندگی میں ڈبودیا ہے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے زمانہ قدیم کی عرب جاہلیت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ اور نہ ان جاہلیتوں سے مختلف ہے جو اس وقت اس دنیا کے اطراف واکناف میں مروج تھیں اور جن سے انسانیت کو اسلام نے نجات دی تھی ۔

آج دنیا ایک عظیم گندگی میں زندگی بسر کررہی ہے اس کی صحافت کو دیکھیں ‘ اس کی فلموں کو دیکھیں ‘ اس کے لباس کی نمائشوں کو دیکھیں ‘ اس کے مقابلہائے حسن کو دیکھیں ‘ اس کی رقص گاہوں کو دیکھیں ‘ اس کے حماموں کو دیکھیں ‘ اس کے نشر و اشاعت کے اداروں کو دیکھیں ‘ پھر ننگے گوشت اور ہیجان انگیز طور طریقوں کو دیکھیں ‘ ادب وفن میں اس کی بیماررمزیت کو دیکھیں اور ذرائع اشاعت کے اندر اس کے گھٹیا اشاروں کو دیکھیں تو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ گندگی کی دلدل میں گرفتار اور بیمار ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معیشت پر ظالمانہ سودی نظام کی گرفت ہے ۔ افرط زر اور دولت جمع کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے غیر اخلاقی ذرائع کا استعمال عام ہے ۔ اور قانون کے سایہ اور لباس کے اندر عوام کو لوٹا جارہا ہے ۔ اس کے ساتھ اخلاقی بےراہ روی اس قدر عام ہوگئی ہے جس کی لپیٹ میں ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر نظام آرہا ہے بلکہ ہر انسانی سوسائٹی پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ان تمام امور پر غور کرنے سے یہ فیصلہ کرنا بہت ہی سہل ہوجاتا ہے کہ اس جدید جاہلیت کے زیر سایہ انسانیت ہلاکت خیز بیماری کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

انسان انسانیت کو کھائے جارہا ہے ۔ اس کی آدمیت تحلیل ہورہی ہے ‘ وہ حیوان کے پیچھے بھاگ رہی ہے ۔ سانس پھولا ہوا ہے ۔ وہ ایسی چیزوں کی دلدادہ ہوگئی ہے جو حیوانیت کو جگارہی ہیں ۔ اور انسان عالم حیوانات کی طرف اتررہا ہے لیکن حیوان کو دیکھیں تو وہ اس انسان سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ کیونکہ وہ ضابطہ فطرت کے اندر جکڑا ہوا ہے اور ضابطہ اس قدر مضبوط ہے کہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑتا۔ نہ اس قدر گندہ ہوتا ہے جس طرح انسان اس وقت گندہ ہوجاتا ہے جب وہ عقیدے اور نظریہ اور نظریاتی نظام کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اور پھر سے اس جاہلیت میں داخل ہوجاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دی ہے ۔ اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ کرتے ہوئے اسے اپنا خصوصی انعام قرار دیتے ہیں ۔

وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ……………” ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ۔ “ اس آیت میں جن لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے وہ ان پڑھ اور جاہل تھے ۔ وہ لکھنا نہ جانتے تھے ۔ عقل اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے بھی امی اور جاہل تھے ۔ ابواب علم میں سے کسی باب میں بھی ‘ اس وقت کے عالمی معیار علم و ثقافت کے مطابق کچھ درک نہ رکھتے تھے ‘ نہ ان کی زندگی کے کچھ بلند مقاصد تھے ‘ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی بھی شعبے میں عالمی وقعت رکھتے ہوں ‘ لیکن اچانک اسلامی نظریہ حیات آتا ہے ‘ وہ دنیا کے استاد بن جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا کے حکیم بن گئے ۔ وہ ایک نظریاتی نظام زندگی کے حامل بن گئے ‘ جس کے اندر نظام فکر ، نظام اجتماع اور زندگی کی تنظیم کا پورانظام موجود تھا۔ اور جس نے اپنے دور میں پوری انسانیت کو اس وقت کی جاہلیت سے نجات دی۔ اور اب ہمارے دور میں بھی جدید جاہلیت سے اس جدید بشریت کو ‘ انشاء اللہ وہی نجات دے گی ۔ اس لئے کہ ہماری اس جدید جاہلیت میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن سے جاہلیت قدیمہ مرکب تھی ۔ اخلاقی اعتبار سے بھی ‘ اجتماعی اعتبار سے بھی ‘ انسانی زندگی کے اہداف کے اعتبار سے بھی اور اعلیٰ مقاصد کے اعتبار سے بھی ۔ اس کے باوجود کہ جدید انسانیت نے علم ومعرفت کے میدان میں بڑی بڑی پیش قدمیاں کی ہیں اور صنعتی میدان میں اس نے ریکارڈ پیداوار دکھائی ہے ۔ اور زندگی کی بہترین سہولیات فراہم کی ہیں لیکن یہ انسانیت بدستور جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے ۔

وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ……………” اگرچہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔ “ اعتقادات و تصورات کے اعتبار سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ زندگی کے مفاہیم اور قدروں کے اعتبار سے بھی ڈوبے ہوئے تھے اور مقاصد اور زندگی کی سمت کے اعتبار سے بھی راہ گم کئے ہوئے تھے ۔ اپنی عادات واطوار کے اعتبار سے بھی ‘ اپنے نظم ونسق کے اعتبار سے بھی ‘ اپنے اجتماعی نظام اور اپنے اخلاقی نظام کے اعتبار سے بھی گمراہ تھے ۔

وہ عرب جو اس آیت کے مخاطبین اولین تھے ‘ وہ اچھی طرح ‘ بغیر کسی شک وشبہ کے اپنے ماضی اور حال ماضی کے رنگ ڈھنگ سے واقف تھے ‘ یہ ماضی انہیں خوب یاد تھا۔ اور وہ انقلاب جو اسلام کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں نمودار ہوگیا تھا وہ ان کی نظروں کے سامنے برپا ہوا تھا ‘ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اسلامی نظریہ حیات کے بغیر ان کی زندگی میں اس قدر عظیم انقلاب برپانہ ہوسکتا تھا ‘ جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔

وہ یہ جانتے تھے کہ یہ اسلام اور صرف اسلام تھا جس نے انہیں قبائلی طور طریقوں سے نکالا ‘ قبائلی ترجیحات ان کے ذہن سے نکال دیں ‘ قبائلی انتقام کے دلدل سے انہیں نکالا ‘ صرف اس لئے نہیں کہ بس وہ ایک عظیم قوم بن جائیں بلکہ وہ اچانک بغیر کسی ابتدائی تیاریوں کے ‘ بغیر کسی طویل زمانی منصوبے کے اچانک ‘ ایسی قوم کی شکل اختیار کرلیں جو انسانیت کی قیادت کررہی ہو ‘ وہ انسانیت کے لئے نقشہ حیات تیار کررہی ہو ‘ اس کے لئے زندگی کا منہاج تیار کررہی ہو ‘ اس کی اجتماعی نظم بندی کررہی ہو ‘ ایسی صورت میں کہ اس کی کوئی سابقہ مثال ان کے سامنے نہ ہو اور پوری انسانی تاریخ میں بھی جس کی کوئی مثال نہ ہو۔

وہ علی وجہ البصیرت اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ اسلام اور صرف اسلام نے انہیں قومی تشخص بخشا ہے ۔ انہیں ایک سیاسی وجود بخشا ہے اور ایک بین الاقوامی حیثیت دی ہے ۔ اور سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ کہ انہیں ایک انسانی حیثیت عطا کی ہے ‘ جس نے ان کی انسانیت ‘ ان کی آدمیت اور اکرام انسانیت کو بلند کیا بلکہ ان کے پورے نظام حیات کو شرف انسانیت کی اساس پر منظم کیا ۔ اور یہ تکریم ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بطور ہدیہ اور بطور احسان عطا ہوئی ۔ اور اس کے بعد انہوں نے اس تکریم انسانیت کی بارش پوری انسانیت پر کردی ۔ انہوں نے پوری انسانیت کو سکھایا کہ انسان کا اکرام کس طرح کیا جاتا ہے ؟ کس طرح اسے اللہ کی تکریم کے ساتھ اشرف المخلوقات قراردیا جاتا ہے ۔ اور انسان کو یہ شرف عطا کرنے میں ان کے سامنے نہ جزیرۃ العرب میں کوئی مثال تھی اور نہ ہی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں کوئی مثال تھی ۔ اس سے پہلے اصول شوریٰ پر ہم جو بحث کر آئے ہیں ‘ وہ اس نظام اور شرافت انسانیت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو تھا ‘ جس کے اندر وہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ان پر غیر معمولی انعام تھا۔

وہ اس بات کا اچھی طرح ادراک کئے ہوئے تھے کہ یہ اسلام اور صرف اسلام ہے جس نے انہیں ایک پیغام عطا کیا اور اب وہ اس پیغام کو تمام دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ‘ وہ انسانیت کو ایک نظریہ حیات دے رہے ہیں ۔ وہ انسانی زندگی کے لئے انہیں ایک راہ دکھا رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانی برادری کے اس وسیع کھیت میں اگر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے تو وہ وہی قوم ہوگی جس کے پاس کوئی پیغام ہو ‘ جس کے پاس زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ حیات ہو اور وہ اس کے ذریعہ انسانیت کو آگے بڑھارہی ہو۔

یہ اسلام تھا ‘ اس کا تصور کائنات تھا ‘ زندگی کے بارے میں اس کی آراء تھیں ‘ معاشرے کے لئے اس کا اجتماعی اور قانونی نظام تھا ‘ حیات انسانی کے لئے اس کی مخصوص تنظیم تھی اور اس کا مثالی مثبت اور واقعیت پسند نظام زندگی تھا جس کے زیر سایہ انسان کو خوشحالی نصیب ہوئی ۔ اسلام اپنی ان خصوصیات کے ساتھ ایک شخصی راہداری تھی جس کے ذریعہ وہ آگے بڑھے اور انہیں انسانیت نے پہچانا ‘ ان کا احترام کیا اور انہیں انسانیت کی قیادت سپرد کی ۔

آج ہو یا کل ان کے پاس یہی راہداری ہے ۔ اس کے سوا اقوام عالم میں ان کی کوئی اور شناخت ہی نہیں ہے ۔ ان کے لئے اب صرف یہی راستہ ہے انسانیت انہیں پہچانے اور ان کی عزت کرے یا پھر وہ اس پیغام کو چھوڑدیں اور دوبارہ مہمل زندگی بسر کریں۔ جس طرح کہ وہ اسلام سے پہلے تھے ‘ کوئی انہیں جانتا ہی نہ تھا اور نہ انہیں کوئی مانتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ انسانیت کو اسلامی نظام زندگی کا پیغام نہیں دینا چاہتے تو اور وہ کون ساپیغام ہے جو دنیا کو دینا چاہتے ہیں ۔ کیا وہ دنیا کو فنون ‘ آداب اور سائنس میں کچھ دینا چاہتے ہیں ؟ ان میدانوں میں تو دنیا ان سے کہیں آگے نکل گئی ہے ۔ ان فروعی علوم وثقافتوں کے میدان کے اندر انسانیت پہلے سے مالامال ہوگئی ہے ۔ نہ اسے کسی مزید چیز کی ضرورت ہے اور نہ اسے انتظار ہے کہ اس میدان میں عرب اسے کچھ دیں گے۔

کیا عرب دنیا کو صنعتی میدان میں کچھ اعجوبہ دینا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ اقوام عالم کے ہاں صنعت نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ اس کے مقابلے میں بڑے بڑے گردن فراز جھک گئے ہیں ‘ انہوں نے صنعتی مصنوعات کے بازار بھر دیئے ہیں اور ہمارے ہاں جو صنعتی پیداوار ہوتی ہے اسے زیرسایہ (OverShade) کردیا ہے ۔ عرب کے مقابلے میں بےزمار قومیں آگے ہیں ‘ اس میدان میں ۔ اور اس میدان میں ان کے ہاتھ میں زمام قیادت پہلے سے موجود ہے ۔

کیا عرب دنیا کو اجتماعی مذہب کا کوئی فلسفہ دینا چاہتے ہیں ؟ یا وہ دنیا کو کوئی ایسا اقتصادی اور تنظیمی نظام دینا چاہتے ہیں جو انہوں نے ایجاد کیا ہے ۔ جو ان کی اپنی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہماری دنیا ان دنیاوی فلسفوں ‘ مذاہب اور نظریات سے بھری پڑی ہے اور یہی دنیاوی نظریات ہیں جن کے تحت انسانیت نہایت ہی بدحالی کا وقت گزار رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ عرب اس انسانیت اور اقوام عالم کے سامنے کیا تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے برادری اقوام میں ان کا تعارف ہو ‘ انہیں امتیاز حاصل ہو اور اس میدان میں وہ برتر تصور ہوں ؟

میں کہتا ہوں کہ ان کے پاس پیغام اسلام کے سوا کوئی اور پیغام نہیں ہے ۔ یہی واحد نظام زندگی ہے جس کا پیغام وہ اس دنیا کو دے سکتے ہیں ۔ ان کے پاس اللہ کے اس احسان کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے جس کا احسان انہوں نے مسلمانوں پر کیا ۔ اور اس کے ساتھ انہیں اعزاز بخشا ‘ اور ایک دن اسی پیغام کے ذریعہ انہوں نے پوری انسانیت کو نجات دی تھی ‘ اور آج انسانیت سب سے زیادہ جس میدان میں مفلس ہے ‘ سب سے زیادہ جس کی طرف محتاج ہے وہ یہی پیغام ہے ۔ وہ جہنم کے گڑھے میں گرنے والی ہے ۔ وہ حیرت ‘ قلق اور بےاطمینانی کا شکار ہے ۔

یہ وہ واحد پیغام تھا جسے انہوں نے کبھی انسانیت کو دیا تھا اور اس کے سامنے پوری انسانیت نے سر جھکالیا تھا۔ آج یہی پیغام ہے جو عرب انسانیت کو دے سکتے ہیں اور اس میں انسانیت کی نجات مضمر ہے اور اسی میں اس کی کامیابی کا راز ہے ۔

ہر قوم کے پاس کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے ۔ تمام بڑی اقوام میں سے ہر قوم کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ‘ سب سے بڑی قوم وہ ہوتی ہے جس کا پیغام بڑا ہوتا ہے ‘ بڑی قوم وہ ہوتی ہے جو سب سے بڑانظام دے ۔ اور پھر دنیا میں اس نظام زندگی کے ساتھ منفرد تصور ہوتی ہے اور وہ نظام اس کی شناخت ہوتا ہے۔

عربوں کے پاس یہ پیغام موجود ہے ۔ یہ ہے بھی ان کا اصلی پیغام ۔ دوسری اقوام تو پیغام اسلام میں ان کی شریک حیات ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا شیطان ہے جو انہیں اس عظیم اور قیمتی سرمائے سے محروم کررہا ہے ۔ کون ہے وہ شیطان اسے پہچانو۔

اللہ کا عظیم اور عظیم احسان تھا ‘ اس امت پر ‘ اس پیغام کی وجہ سے ‘ اس رسول کی وجہ سے اور اس کی رسالت کی وجہ سے ہے ۔ اس عظیم احسان سے انہیں صرف شیطان ہی پھیر کر گمراہ کرسکتا ہے حالانکہ ان کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس شیطان کو دھتکاریں اور اس پر سنگ باری کریں۔

اس کے بعد معرکہ احد کے واقعات کے بیان میں بات ایک قدم اور آگے بڑھتی ہے ۔ اور اس پر مزید تبصرہ ہوتا ہے اور نتائج اخذ کئے جاتے ہیں ۔ ان کے تعجب کو پیش کیا جاتا ہے جس کا اظہار وہ ان نتائج کو دیکھ کر کرتے تھے ‘ جو احد میں برآمد ہوئے ۔ وہ ان واقعات کو انہونی تصور کرتے تھے ۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ وہ مسلمان ہیں پھر بھی انہیں شکست ہوئی ۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کے بارے میں ان کا تصور ابھی بہت ہی ابتدائی ہے ۔ ابھی وہ تجربات سے گزر کر فکری اعتبار سے پختہ نہ ہوئے تھے ۔ وہ عملی تربیت سے ابھی نہ گزرے تھے تاکہ وہ اصل صورت حال کے ساتھ اور حقیقی واقعات کے ساتھ وہ برتاؤ کریں اور اس دنیا کے تکوینی قوانین فطرت کا ادراک کریں جن کے مطابق یہاں ہر شخص نے اپنی عملی زندگی بسر کرنی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انہیں کھلے میدانوں میں کھڑاکرکے انہیں صاف صاف بتادیا کہ انہیں جو کچھ درپیش ہوا ‘ وہ خودان کے اپنے افعال کا لازمی نتیجہ تھا ۔ انہوں جو تصرفات اور اقدامات کئے ان کے یہی فطری اور سنت الٰہی کے مطابق نتائج تھے ۔ لیکن قرآن کریم انہیں صرف اس نکتہ پر ہی نہیں چھوڑ دیتا ‘ اس لئے کہ یہ نکتہ اگرچہ حقیقت ہے لیکن یہ انتہائی حقیقت نہیں ہے بلکہ ان اسباب اور اسباب کے قدرتی نتائج کی پشت پر تقدیر الٰہی بھی کام کرتی ہے ۔ قرآن انہیں اس کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے نیز اس سنن الٰہیہ اور قوانین فطریہ کی پشت مشیئت الٰہیہ بھی کام کرتی ہے ۔ یوں قرآن انہیں ان واقعات کی حکمت بتاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کی اس تدبیر کی پشت پر ان کے لئے بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔ اس میں ان کے لئے خیر تھی ۔ اس دعوت کے لئے بہتری تھی جس کی خاطر وہ جدوجہد کررہے ہیں ۔ مقصودیہ تھا کہ وہ اس تجربے سے انہیں زمانہ مابعد کے لئے تیار کرے ۔ ان کے دلوں کو صاف کردے۔ ان کی صفوں کی تطہیر کردے ۔ ان منافقین کو علیحدہ کردیاجائے ‘ جو ان واقعات کے نتیجے میں ننگے ہوگئے ۔ آخر کار تمام امور بہرحال اللہ کی مشیئت کے مطابق ہی سر انجام پاتے ہیں ۔ اس کی تقدیر اور تدبیر کے مطابق ہی ظہور پاتے ہیں ۔ یوں اس تبصرے سے ان کا تصور اور ان کا شعور مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کے نہایت ہی گہرے عمیق اور لطیف بیان واقعات پر ذرا نظر ڈالیں :

آیت 164 لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یعنی ان کی اپنی قوم میں سے۔یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ج یہ انقلاب نبوی ﷺ کے اساسی منہاج کے چار عناصر ہیں ‘ جنہیں قرآن اسی ترتیب سے بیان کرتا ہے : تلاوت آیات ‘ تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں جو ترتیب تھی ‘ اللہ نے اس کو تبدیل کیا ہے۔ اس پر سورة البقرۃ آیت 151 کے ذیل میں گفتگو ہوچکی ہے۔

آیت 164 - سورة آل عمران: (لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا...) - اردو