سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 71 (آیات 158 سے 165 تک)

وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى ٱللَّهِ تُحْشَرُونَ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّوا۟ مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ إِن يَنصُرْكُمُ ٱللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا ٱلَّذِى يَنصُرُكُم مِّنۢ بَعْدِهِۦ ۗ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَمَا كَانَ لِنَبِىٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ أَفَمَنِ ٱتَّبَعَ رِضْوَٰنَ ٱللَّهِ كَمَنۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَمَأْوَىٰهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ هُمْ دَرَجَٰتٌ عِندَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ بَصِيرٌۢ بِمَا يَعْمَلُونَ لَقَدْ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا۟ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَٰلٍ مُّبِينٍ أَوَلَمَّآ أَصَٰبَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
71

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور خواہ تم مرو یا مارے جاؤ بہر حال تم سب کو سمٹ کر جانا اللہ ہی کی طرف ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walain muttum aw qutiltum laila Allahi tuhsharoona

اردو ترجمہ

(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabima rahmatin mina Allahi linta lahum walaw kunta faththan ghaleetha alqalbi lainfaddoo min hawlika faoAAfu AAanhum waistaghfir lahum washawirhum fee alamri faitha AAazamta fatawakkal AAala Allahi inna Allaha yuhibbu almutawakkileena

اس پیراگراف کا موضوع اور محور حقیقت نبوت اور ذات نبوی ہے ۔ اور اس محور کے متعلقہ حقائق کو اس میں لیا گیا ہے ۔ اس میں نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے اصول چھوٹی چھوٹی عبارتوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ کی رحمت کو مجسم کرکے نبی ﷺ کے اخلاق اور طرز عمل کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ آپ کی ذات کریمہ نہایت ہی مہربان ‘ نہایت ہی رحم دل ‘ نہایت ہی نرم اور نہایت ہی سہل شکل میں پیش کی گئی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ لوگ پروانوں کی طرح ان کے اردگرد جمع ہوتے ہیں ۔ آپ کے اردگرد ہر وقت ایک بڑی تعداد جمع رہتی ہے ۔ پھر اس محفل میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ اس جماعت کا قیام جس کے نظام کے تحت ہے وہ اصول شوریٰ پر قائم ہے ۔

حکم دیا جاتا ہے کہ یہ جماعت باہم مشورہ کرکے فیصلے کرے ‘ اگرچہ اس مشورے کے تحت ہونے والے فیصلوں کے نتائج تلخ ہوں۔ پھر شوریٰ کے اصول کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ دانشمندی اور شوریٰ کے ذریعے فیصلے کئے جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے ۔ اور یہ عمل فیصلہ کن ہو ۔ اور شوریٰ اور عزم کے بعد پھر توکل کرکے کام کیا جائے ۔ جب منصوبہ تیارہوجائے ‘ اس پر شوریٰ ہوجائے اور پھر اس فیصلہ کن عمل اور اس کا اجراء (Execution) شروع ہوجائے اور اس کے لئے ہر قسم کا انتظام ہوجائے ‘ تو پھر توکل علی اللہ کا مرحلہ آتا ہے اور پھر قدرت الٰہیہ اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔ پھر مسلمان اپنا کام اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اس لئے کہ تمام امور میں حقیقی فاعل اور حقیقی متصرف تو صرف اللہ کی ذات ہے ۔ حقیقی تصرف اس کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا ۔ تمام نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ ان امور کے ساتھ ساتھ پھر یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت بہت ہی بڑا جرم ہے ۔ اس سے طمع اور لالچ کا اظہار ہوتا ہے۔ جماعت کے اندر افراتفری پیدا ہوتی ہے ۔ اس پیراگراف میں بتایا جاتا ہے جو شخص اللہ کی رضامندی کے لئے کام کرتا ہے اور جو اللہ کی نافرمانی اور غضب کی راہ پر ہے ان دونوں میں بڑا فرق و امتیاز ہے ۔ دونوں کی اقدار اور ترجیحات میں فرق ہوتا ہے ۔ دونوں کے پیمانہ نفع ونقصان میں فرق ہوتا ہے ۔ آخر میں اہل اسلام اور اہل دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ نبی ﷺ کی رسالت تمہارے لئے بڑی نعمت ہے اور تم پر ایک عظیم احسان ہے اور معمولی اموال غنیمت جس کے لئے تم دوڑتے ہو اس قیمتی اثاثہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ نیز اس عظیم خزانے کے حصول کے لئے وہ مصائب کچھ نہیں جو تم پر آئے ہیں ۔ یہ عظیم دولت تو عظیم قربانی کا تقاضا کرتی ہے ۔

ہدایات ومعانی کی یہ فوج ہے جو چند فقروں اور آیات میں دریا کو کوزے میں بند کرکے پیش کردی گئی ہے ۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بڑے نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ اور اہم امور میں ان سے مشورہ کیا کرو ۔ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “

یہاں روئے سخن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے ۔ لیکن یہ بات رسول کی قوم کی کچھ کمزوریوں کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہے کہ پہلے وہ مدینہ سے باہر نکلنے میں بڑے پرجوش تھے ۔ اس کے بعد ان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا ۔ پورے لشکر کا ایک تہائی حصہ تو جنگ سے پہلے ہی واپس ہوگیا۔ اس کے بعد تیراندازوں نے رسول ﷺ کے حکم کی مخالفت کی ۔ انہوں نے مال غنیمت دیکھ کر کمزوری کا مظاہرہ کیا ۔ پھر جب رسول ﷺ کے قتل کی جھوٹی خبر عام ہوگئی تو یہ لوگ کمزور پڑگئے اور الٹے پاؤں پھرگئے ۔ اور ہزیمت قبول کرلی ۔ رسول ﷺ ایک قلیل تعداد کے ساتھ جم گئے ‘ زخم پر زخم آتے رہے اور ساتھی چھوڑگئے ۔ پھر آپ نیچے سے پکارتے ہیں لیکن وہ بھاگے چلے جارہے تھے اور کسی کی طرف ان کی توجہ ہی نہ ہورہی تھی ۔ اس صورت حال میں روئے سخن آپ ﷺ کی طرف ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو تسلی دیتا ہے اور مسلمانوں کو یہ شعور واحساس دیا جاتا ہے کہ ان پر اللہ کا کس قدر عظیم انعام ہے ۔ رسول ﷺ اور مسلمانوں دونوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ یہ مجسم خلق کریم اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے کہ وہ اس کے محور کے اردگرد جمع ہورہے ہیں ۔ اس طرح رسول ﷺ کے دل میں پوشیدہ جذبات رحمت کو جوش میں لایا جاتا ہے اور آپ صبر کرکے ان کی وہ تمام لغزشیں معاف فرماتے ہیں اور دوسری طرف ان کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس رؤف رحیم نبی کی صورت میں ان پر کس قدر انعام ہوا ہے ۔ اور رسول ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان کے لئے عفو و درگزر کا سوال کریں ۔ اور یہ کہ حسب سابق ان کے ساتھ مشورہ کرتے رہیں اور یہ نہ ہو کہ احد میں مشورے کے نتیجے میں جو معرکہ ہوا اور اس میں جو نامطلوب نتائج نکلے ‘ اس کی وجہ سے باہم شوریٰ جیسے اہم کام کو بند کردیں۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ……………” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تنگ خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ “

یہ اللہ کی رحمت تھی جو رسول ﷺ کے بھی شامل حال تھی اور آپ کو ان کے لئے رحیم وشفیق اور نرم خو بنادیا اور خود ان کے لئے بھی رحمت تھی کہ آپ نے بوجہ نرمی مزاج ان سے باز پرس نہ کی ۔ اگر آپ سنگ دل ہوتے ‘ تنگ مزاج ہوتے تو یہ جمعیت منتشر ہوجاتی ‘ لوگوں کے خیالات آپ کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوتے ۔ عوام الناس کو تو ایک پر شفقت بارگاہ درکار ہوتی ہے ‘ جہاں ان کے ساتھ نہایت رعایتی برتاؤ کیا جاتا ہو ‘ جہاں خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا جاتا ہو ‘ جہاں سے انہیں محبت ملتی ہو ‘ جہاں ان کی غلطیوں ‘ کمزوریوں اور نقائص سے درگزر کیا جاتا ہو ۔ جہاں قائد اتنے بڑے دل کا مالک ہو کہ وہ انہیں سب کچھ دے رہا ہو ‘ لیکن ان سے کچھ نہ لے رہا ہو ‘ جہاں قائد اپنے پیروکاروں کی مشکلات اپنے سر لیتا ہو لیکن ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتاہو ‘ اور جہاں پیروکاروں کو ہمیشہ رعایت ‘ اہمیت ‘ خندہ پیشانی ‘ نرمی اور محبت اور رضامندی ملتی ہو اور رسول اکرم کا دل ایسا ہی دل تھا اور آپ کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ بعینہ ایسا تھا۔ کبھی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی پہ غصہ نہیں ہوئے ‘ کبھی بھی انسانی کمزوری کی وجہ سے آپ نے تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ کبھی آپ نے اس دنیا کے مفادات میں سے کسی مفاد کو ‘ اپنی ذات کے لئے مخصوص نہیں کیا ۔ بلکہ آپ کو جو کچھ بھی ملا آپ نے کھلے ہاتھوں سب کچھ ان پر تقسیم کردیا ۔ غرض آپ کے صبر ‘ حلم ‘ ہمدردی ‘ محبت اور شرافت نے ہمیشہ انہیں ڈھانپے رکھا ۔ اور ان میں سے جس نے بھی رسول ﷺ کے ساتھ یکجا زندگی کے کچھ ایام بسرکئے یا آپ کو محض ایک نظر ہی دیکھ لیا وہ آپ ﷺ کا گرویدہ ہوگیا۔ اس لئے ذات باری نے آپ کو ایک عظیم اور رحیم وکریم شخصیت عطافرمائی تھی ۔ اور یہ سب کچھ آپ ﷺ پر بھی اللہ کی رحمت تھی اور دوسرے پہلو سے آپ کی امت پر بھی کرم تھا۔

اس کرم کو یاد دلاکر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو وہ اصولی بات بتاتے ہیں جس پر آئندہ جماعت مسلمہ کی تنظیم ہونا مطلوب تھی وہ یہ کہفَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” اور ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ یہ ایک قطعی نص ہے اور تاکیدی ہے ۔” ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ اسلام یہ اصول نظام حکومت میں لازم قرار دیتا ہے ۔ اگرچہ اس نظام حکومت میں ہیڈآف اسٹیٹ محمد ﷺ ہوں۔ یہ قطعی نص اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی کہ اسلامی نظام مملکت میں شوریٰ ایک اساسی اصول (Principle) ہے۔ اس کے سوا اسلام کا نظام مملکت قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ رہی یہ کہ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہو ‘ شوریٰ کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے ‘ تو یہ ایسے امور ہیں جن کی صورت اور شکل مختلف ہوسکتی ہے۔ ہر علاقے کے حالات کے مطابق مختلف شکل و صورت میں شوریٰ قائم کی جاسکتی ہے ۔ ہر وہ شکل و صورت جس کے ذریعہ شوریٰ کے مقاصد پورے ہوسکیں ۔ یہ نہ ہو کہ محض ایک دکھاوا ہو ۔ جس صورت اور جس شکل میں صحیح اغراض پورے ہوں وہی اسلامی ہوگی۔

یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ جب یہ آیت اتری تھی تو اس سے پہلے مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوگیا تھا اور شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے احد کی جنگ لڑی گئی اور جس کے تلخ نتائج برآمد ہوئے ۔ اس شوریٰ کے انعقاد کی وجہ سے پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ اسلامی صفوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ‘ آراء مختلف ہوئیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمان مدینہ میں پناہ لیتے ہوئے لڑیں ۔ جب دشمن حملہ کرے تو تنگ گلیوں کے اندر اسے آلیاجائے لیکن اس کے مقابلے میں ایک پرجوش گروہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ ان اختلافی آراء ہی کی وجہ سے لشکر اسلام میں تفرقہ ہوگیا اور عبداللہ بن ابی بن السلول کو موقع مل گیا کہ وہ ایک تہائی لشکر کو لے کر واپس ہوجائے ۔ یہ اس وقت ہوا جب دشمن دروازے پر کھڑا تھا۔ یہ ایک بڑا حادثہ تھا ‘ اور اسلامی صفوں میں بظاہر بڑی دراڑ تھی ۔ پھر اس شوریٰ کے نتیجے میں جو فوجی منصوبہ تیار ہوا ‘ وہ عملاً ظاہر ہوگیا کہ وہ کوئی محفوظ جنگی اسکیم نہ تھی ۔ خود جنگی نقطہ نظر سے ۔ اس لئے کہ مدینہ کی دفاعی تاریخ سے یہ منصوبہ مختلف تھا جیسا کہ عبداللہ ابن ابی ابن السلول نے اس مجلس میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بتائی تھی کہ وہ جب بھی مدینہ کے اندر لڑے ہیں کامیاب رہے ہیں اور غزوہ احزاب میں خود مسلمانوں نے بھی جنگ احد کی اسکیم کی تصحیح کرتے ہوئے مدینہ کے اندر لڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ کامیاب بھی رہے ۔ انہوں نے خندق کھودی ۔ دشمن کے مقابلے میں باہر نہ نکلے ۔ اس لئے کہ جنگ احد میں انہوں نے جو تجربہ حاصل کیا تھا اس کا یہی تقاضا تھا۔

خود رسول اللہ ﷺ کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے نتائج خطرناک ہوں گے ۔ آپ کے پاس رویائے صادقہ کے ذریعے بھی کچھ اشارات آچکے تھے ۔ آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ کے خواب بالکل سچے ہوتے ہیں ۔ آپ نے اس کی یہ تاویل پہلے سے کردی تھی کہ آپ کے خاندان میں سے کوئی شہید ہونے والا ہے اور آپ کے ساتھی بھی شہادت پانے والے ہیں ۔ نیز آپ کے خوابوں کی تعبیر کرتے ہوئے مدینہ کو محفوظ ڈھال قرار دیا تھا۔ ان حالات میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ آپ مجلس شوریٰ کے فیصلے کو ویٹو کردیتے لیکن آپ نے بادل ناخواستہ اس فیصلے کو نافذ (Execute) کیا۔ حالانکہ اس کے پیچھے جو مشکلات جو قربانیاں اور جو نقصانات پوشیدہ تھے ‘ انہیں آپ کی پیغمبرانہ بصیرت دیکھ رہی تھی ۔ اس لئے کہ اصول شوریٰ کی بنیاد رکھی جارہی تھی ‘ جماعت کو تعلیم دی جارہی تھی ‘ اور یہ امور ان وقتی خساروں سے زیادہ اہم تھے ۔

حق تو یہ تھا کہ کم ازکم معرکہ احد کے بعد اصول شوریٰ کو ترک کردیا جاتا ۔ کیونکہ اس شوریٰ کی وجہ سے اختلاف ہوئے ‘ اسلامی صفوں میں انتشارپیدا ہوا۔ اور یہ انتشار مشکل حالات میں ہوا۔ اور معرکے کے بعد خوفناک نتائج سامنے آگئے ۔ لیکن اسلام نے ایک امت کو برپا کرنا تھا ‘ اس کی تربیت کرنی تھی ‘ اسے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا تھا ‘ اور اللہ تعالیٰ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی قوم کی بہترین تربیت اور اس کو ایک ہدایت یافتہ بنانے کے لئے صرف اصول شوریٰ پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ اسے شوریٰ کے نتائج برداشت کرنے کے لئے بھی تیار کرنا تھا۔ اس سے غلطیاں سرزد کرانی تھیں ‘ چاہے وہ جس قدر عظیم ہوں تاکہ آئندہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں آگے بڑھے ‘ چاہے یہ نتائج کتنے ہی تلخ ہوں ‘ وہ اپنی تصحیح کرسکے ۔ اور اپنی آراء کے نتائج ‘ اچھے یابرے بھگت سکے ۔ اس لئے کہ جب تک اس سے غلطی سرزد نہ ہوگی ‘ وہ درستی کر ہی نہیں سکتی ۔ اگر کسی نقصان کے نتیجے میں ایک ایسی امت وجود میں آتی ہے ‘ جو تجربہ کار ‘ فہیم اور نتائج کو برداشت کرنے والی ہو تو ان نقصانات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ اور اگر کسی قوم کے نقصانات غلطیوں اور لغزشوں کو محدود کردیا جائے لیکن اسے تجربات سے بھی محروم کردیاجائے تو یہ امت اسی طرح ناتجربہ کار رہے گی جس طرح بچہ ناتجربہ کار رہتا ہے۔ وہ ایک ایک قدم پر نگران کے تحت ہوتا ہے ۔ اس حالت میں بچے کی طرح اس قوم کو مادی نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اور مادی مفادات بھی اسے دستیاب نہیں ہوسکتے ‘ نفسیاتی لحاظ سے اس قوم کو خسارہ ہوتا ہے ‘ اس کے باوجود کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اس کی تربیت ناقص ہوتی ہے اور عملی زندگی کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ اور اس کی مثال اس بچے کی سی ہوتی ہے جسے کوئی چیز ہاتھ میں نہیں دی جاتی۔

اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی قوم تیار کرے جو ایک تجربہ کار قوم ہو۔ اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اسے بشریت کی ہدایت یافتہ قیادت کے لئے تیار کیا جائے ۔ اس لئے یہ ضروری تھا کہ یہ امت ایک بالغ امت ہو اور اس کی عملی زندگی میں اسے گرنے پڑنے سے بچانے کے لئے کوئی مددگار نہ دیا جائے تاکہ وہ تجربہ کار ہو۔ اور یہ تجربہ اسے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں حاصل ہو۔ اور آپ کی نگرانی میں ہو۔ اگر ایک بالغ النظر قیادت کی وجہ سے یہ مناسب ہوتاق کہ اب شوریٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اور امت کی تربیت ضروری نہ ہوتی اور خطرناک واقعات میں اس کے ساتھ مشورے اور اس کی آراء پر چلنے کی ضرورت نہ ہوتی مثلاً معرکہ احد جیسے مراحل میں ‘ کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا ‘ اس وقت امت مسلمہ ایک نوخیز امت تھی ‘ ہر طرف سے خطرات میں گھری ہوئی تھی ‘ دشمن چار سوگھات میں تھے ۔ اس لئے ایسے حالات میں اگر مناسب ہوتا کہ بالغ نظر قیادت سب فیصلے خود کرتی اور اسے حق بھی تھا اور ایسے حالات میں شوریٰ کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ حالات خطرناک تھے ‘ اور پھر اس وقت حضرت محمد ﷺ بھی موجود تھے اور وحی بھی آرہی تھی تو ایسے حالات میں امت کو حق شوریٰ سے محروم کیا جاسکتا تھا ۔ اور خصوصاً ان حالات میں جبکہ احد میں تمام ترتلخ واقعات شوریٰ ہی کی وجہ سے ظاہر ہوئے ‘ حالانکہ اس وقت یہ امت نہایت ہی خطرناک اور ہنگامی حالات سے گزررہی تھی لیکن رسول ﷺ کے وجود مبارک کے باوجود ‘ وحی الٰہی کے آنے اور آتے رہنے کے باوجود ‘ اور اس قسم کے تلخ نتائج شوریٰ ظہور پذیر ہونے کے باوجود اور خطرناک اور ہنگامی حالات موجودہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حق شوریٰ کو ختم نہ فرمایا۔ چاہے جس قدر نقصان ہوجائے ‘ چاہے اسلامی افواج میں جس قدر اختلاف وافتراق پیدا ہوجائے ‘ چاہے اس کے جس قدر تلخ نتائج ظہور پذیر کیوں نہ ہوں ‘ چاہے مدینہ کے اردگرد کے حالات اس نوخیز امت کے لئے بہت خطرناک اور ہنگامی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور ایک بالغ اور تجربہ کار امت کے بروئے کار لانے کے مقصد عظیم کے مقابلے میں ضروری واقعات ہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ عملاً امت تجربہ کار ہو ‘ اچھی یا غلط رائے کے نتائج ہضم کرنے کے اہل ہو ۔ کسی رائے اور عمل کے نتائج کا ادراک کرسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوئی : فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ‘ ان کو شریک مشورہ رکھو۔ “

فیصلہ یہ کیا گیا کہ خطرناک ترین حالات میں بھی اس اصول ‘ اصول مشورہ کا بحال رکھنا ضروری ہے ۔ اور احد جیسے حالات میں اور ان کے بعد جیسے حالات میں بھی اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ کے لئے کوئی بہانہ نہ بنائے کہ چونکہ مشورہ کے بعد بعض برے نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں اس لئے ہم اس اصول کو ساقط کرتے ہیں ۔ مثلاً احد کے حالات اس کی بہترین مثال ہیں ۔ کہ دشمن دروازے پر دستک دے رہا تھا لیکن مشورہ بھی جاری تھا۔ اس لئے ایک بالغ النظر امت تب ہی پیدا ہوسکتی ہے جب اصول مشورہ لازمی ہو ‘ اور پوری قوم کی بالغ النظری وہ قیمتی مقصد ہے جس کے لئے چھوٹے بڑے خسارے برداشت کئے جاسکتے ہیں ۔

لیکن اسلامی نظام کی سیاسی تصویر اور تشکیل اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم اس آیت کے اگلے حصے پر غور نہ کریں۔ یہ بات عیاں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مجلس شوریٰ کے نتیجے ہمیشہ قابل ترجیح اور دانشمندانہ فیصلہ ہوجائے ۔ آخرکارفیصلہ یہی ہوگا کہ کسی ایک بات پر توکل علی اللہ کرکے عمل شروع کردیاجائے۔ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ……………” اور جب کوئی آخری فیصلہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “

شوریٰ کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف آراء سامنے آجائیں اور مجلس میں جو آراء پیش ہوں ان سے ایک کو قبول کرلیا جائے ۔ جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو اس وقت شوریٰ کا کام ختم ہوجاتا ہے اور اب فیصلے کے نفاذ (Execution) کا دور شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس تنقیدی مرحلے کے لئے بڑے پختہ عزم اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے ۔ اس مرحلے پر اللہ پر بھروسے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور معاملہ اب اللہ کے ہاں چلا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر کے سپرد ہوجاتا ہے ۔ اب یہ اللہ کی مشیئت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ اور نتائج ظاہر کرتی ہے ۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ نے اپنے ربانی انداز میں شوریٰ کا سبق پڑھایا۔ امت کو دکھایا کہ اظہار رائے کا انداز کیا ہوتا ہے اور فیصلے کے بعد اس کے نتائج کو کس طرح برداشت کیا جاتا ہے خصوصاً خطرناک حالات میں ۔ اسی طرح رسول ﷺ نے امت کے فیصلے ‘ کسی شورائی فیصلے کی تنفیذ کے سلسلے میں بھی سبق دیا۔ اور توکل علی اللہ کا انداز بھی سکھایا۔ اور اپنے آپ کو تن بتقدیر اللہ کے حوالے کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ۔ حالانکہ واقعات کے رونما ہونے کا آپ کو اچھی طرح اندازہ تھا۔ واقعات کا رخ آپ کے علم میں تھا لیکن آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے فیصلے کی تنفیذ فرمادی ۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور زرہ اور خود زیب تن فرمائی ۔ اور آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں ؟ آپ اور آپ کے صحابہ کو کن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہونا ہے ۔ یہاں تک کہ جب باہر لڑنے والے پرجوش لوگوں نے دوبارہ مشورہ دیا اور موقعہ فراہم کردیا کہ فیصلے کو بدل دیاجائے اور نبی ﷺ کے چہرہ مبارک کو پڑھ کر انہوں نے محسوس کرلیا کہ ان کے جوش و خروش نے رسول ﷺ کو باہر لڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ حالانکہ آپ ایسا نہ چاہتے تھے اور انہوں نے دوبارہ اختیار آپ کو دے دیا کہ آپ مدینہ کے اندر لڑیں یا باہرلڑیں تو آپ نے اس پر دوبارہ غور کرنے کے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ آپ انہیں ایک سبق دینا چاہتے تھے ۔ آپ شوریٰ (Parliament) کے فیصلوں کی مثال قائم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ چاہتے تھے کہ جب فیصلہ پختہ اور آخری ہوجائے تو پھر دوبارہ غور کے بجائے اس کا نفاذ چاہئے ۔ اللہ پر توکل کرنا چاہئے جو ہو ‘ سو ہو۔ آپ یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ شوریٰ کا ایک ہی وقت ہوتا ہے ۔ فیصلے کے بعد تردد اور ڈانواں ڈول نہیں ہونا چاہئے ۔ دوبارہ غور کرکے از سر نوفیصلہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ اس طرح کوئی بات آخری نہ رہے گی ‘ فیصلے بار بار بدلیں گے اور دوبارہ غور کی اگر مثال قائم ہوجائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہوگا ۔ بس شوریٰ (Parliament) کا فیصلہ ہو اور پھر نفاذ ہو اور توکل علی اللہ ہو اس لئے کہ اسے اللہ پسند کرتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ……………” بیشک اللہ تعالیٰ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔ “

اور وہ صفت جسے اللہ پسند کرتے ہیں اور اس صفت سے متصف لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں تو اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ صفت ان کے اندر بدرجہ کمال پائی جائے اور وہ اس کے لئے بےحد حریص ہوں بلکہ وہ مومنین کی صفت ممتاز ہونی چاہئے ۔ توکل علی اللہ اور سپردم بتومایہ خویش را ‘ اسلامی تصور حیات اور اسلامی زندگی کا خط توازن ہے ۔ اب معاملہ اس کائنات کی عظیم حقیقت کے سپرد ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ آخری فیصلہ اللہ کے ہاں ہوگا ‘ اب وہ ہوگا جو وہ چاہے ۔

احد کے عظیم تجربات میں سے ایک عظیم تجربہ اور یہ ایک عظیم سبق تھا۔ یہ سبق امت مسلمہ کے لئے ہر اس دور اور ہر زمانے میں ایک قیمتی سرمایہ ہے ۔ یہ صرف ایک دور ہی کی بات نہیں ہے بلکہ ہر دور کے لئے ہے ۔

اردو ترجمہ

اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In yansurkumu Allahu fala ghaliba lakum wain yakhthulkum faman tha allathee yansurukum min baAAdihi waAAala Allahi falyatawakkali almuminoona

حقیقت توکل کو مزید ذہن نشین کرانے کے لئے اور اس کے اصول کو ثابت اور مستحکم کرنے کے لئے اگلی آیت میں ذرا تفصیل سے واضح کرکے اس حقیقت کو ظاہر کیا جاتا ہے کہ حقیقی قوت فاعلہ ذات باری ہے ۔ فتح و کامرانی اور شکست اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے اگر نصرت چاہتے ہو تو اسی سے چاہو اور اگر شکست سے بچنا چاہتے ہو تو اسی کے آگے گڑگڑاؤ۔ اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ ‘ اسی پر بھروسہ کرو ‘ لیکن پوری تیاری کے بعد ‘ نتائج سے بےفکر ہوجاؤ اور نتائج و عواقب اللہ پر چھوڑ دو ۔

إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

” اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں ‘ اور وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو ؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ “

اس کی وجہ سے ایک مومن کا تصور اس بات سے پاک ہوجاتا ہے کہ کوئی چیز اللہ کے سوا کسی اور سے بھی طلب ہوسکتی ہے ۔ ایک مومن کی سوچ براہ راست اس ذات کے ساتھ پیوست ہوجاتی ہے جو اس کائنات میں حقیقتاً متصرف ہے ۔ اس لئے وہ ان تمام کھوٹے خداؤں اور باطل اسباب سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور ان کی حمایت اور نصرت طلب نہیں کرتا ۔ اور وہ اچھے نتائج کے لئے صرف اللہ وحدہٗ پر توکل کرتا ہے ۔ اسی سے توقع کرتا ہے کہ وہ معاملات کو اچھے رخ پر ڈالے گا ‘ اور اپنی حکمت سے درست کرے گا ۔ اس عقیدے کے بعد پھر تقدیر الٰہی کے نتیجے میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ اسے بڑی فراخ دلی سے قبول کرتا ہے ۔ فکر ونظر کا یہ ‘ وہ توازن ہے جسے انسانی فکر نے ‘ صرف اسلام کے زیر سایہ پایا۔

اردو ترجمہ

کسی نبی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ خیانت کر جائے اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہو جائے گا، پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama kana linabiyyin an yaghulla waman yaghlul yati bima ghalla yawma alqiyamati thumma tuwaffa kullu nafsin ma kasabat wahum la yuthlamoona

اس کے بعد بات نبوت اور خصائص نبوت کی طرف چلی جاتی ہے تاکہ اس موضوع کے بعد امانت ودیانت کے بارے میں کچھ ہدایات دی جائیں ‘ مثلاً یہ کہ مال غنیمت میں کسی قسم کی بددیانتی اور چوری سخت معیوب چیز ہے ۔ اور یہ کہ جو شخص بھی اجتماعی امانتوں میں بددیانتی کرے گا وہ اس کا حساب دے گا۔ اور ہر شخص کا حق اسے پورا پورا دیا جائے گا۔

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ

” کسی نبی کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ خیانت کرجائے ……اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا ‘ پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورابدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ “

احد کی پہاڑی اور گھاٹی سے تیراندازوں نے حکم عدولی کرتے ہوئے اپنی جگہ اس لئے چھوڑ دی تھی کہ انہیں یہ خوف دامن گیر ہوگیا تھا کہ شاید بعد میں رسول اللہ ﷺ انہیں کوئی حصہ نہ دیں۔ اس طرح جنگ بدر کے اموال غنیمت میں بعض منافقین نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ غنیمت میں سے کچھ چیزیں غائب ہوگئی ہیں ۔ اور اس سلسلے میں انہیں یہ حیا بھی نہ آئی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا نام لینے سے تو احتراز کریں۔

اس لئے اس آیت میں یہ حکم اور قاطع فیصلہ آگیا کہ حضرت محمد کیا کوئی نبی بھی ہرگز یہ نہیں کرسکتا کہ وہ اموال غنیمت میں سے کوئی چیز ادہر ادہر کردے۔ یعنی مال غنیمت میں سے کوئی چیز علیحدہ رکھ لیں اور یہ کہ وہ بعض فوجیوں کو زیادہ حصہ دیں یا غرض وہ کسی طرح کی کوئی خیانت کریں۔ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ……………” نبی کا یہ کام نہیں کہ وہ مال غنیمت میں کوئی خیانت کرے۔ “

یہ اس کی شان کے خلاف ہے ۔ وہ اس کے مزاج اور طبیعت نبوت کے خلاف ہے۔ وہ اس کے اخلاق کے خلاف ہے کہ ایسا کرے۔ گویا ذات نبوت سے اس فعل کا وقوع ہی ممکن نہیں ہے ۔ یہاں یہ نفی حلت اور حرمت کی نفی نہیں ہے۔ اس لئے کہ نبی کی امانت دار ‘ منصف مزاج اور پاک طبیعت اور مزاج ہی کے خلاف ہے کہ اس سے اس قسم کی کوئی بات وقوع پذیر ہو۔ بعض قرأتوں لفظ یَغُلَّ ہے۔ یعنی مجہول کا فیصلہ آیا ہے ۔ یعنی یہ بات جائز نہیں کہ نبی کے ساتھ خیانت کا برتاؤ کیا جائے ۔ اور اس کے متبعین اس سے کوئی چیز چھپائیں ۔ اس صورت میں یہاں اس بات کی ممانعت ہوگی کہ رسول ﷺ کے ساتھ اس کے پیروکار خیانت نہ کریں اور یہ قرأت آیت کے آخری حصے کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے ۔ حسن بصری (رح) کی تلاوت ایسی ہی تھی ۔

اس کے بعد ان لوگوں کو سخت تنبیہ کی جاتی ہے کہ جس نے خیانت کی مال غنیمت میں یا اور حکومتی اموال میں تو ان کا انجام یہ ہوگا۔

مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ……………” اور جو خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہوجائے گا ‘ پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ “

امام احمد نے ‘ سفیان ‘ زہری ‘ عروہ ‘ ابواحمد ساعدی کی روایت نقل کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص ابن لتبیہ نامی کو زکوٰۃ کا تحصلیدار مقرر فرمایا۔ وہ جب واپس آیا تو کہا یہ مال آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔ اس پر رسول ﷺ ممبرپر کھڑے ہوئے اور یہ تقریر فرمائی :” ان تحصیلداروں کا کیا حال ہے کہ ہم انہیں کام پر لگاتے ہیں اور واپس آکر وہ کہتا ہے کہ یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھا اور انتطار کرتا کہ اسے ہدیہ دیا جاتا یا نہیں۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے جو شخص بھی اس مال سے کوئی چیز لے گا ‘ قیامت کے دن وہ اس کے کاندھے پر ہوگی ۔ اونٹ ہوگا اور وہ آواز دے رہا ہوگا ‘ گائے ہوگی اور وہ آواز دے رہی ہوگی اور بکری ہوگی تو بھی وہ ممیا رہی ہوگی ۔ (بخاری مسلم)

اور امام احمد نے اپنی سند کے ذریعہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ ایک دن ہم میں کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے غلول (غنیمت میں سے چوری) کا ذکر کیا ۔ اسے عظیم امر قرار دیا اور اسے بہت ہی بڑا گناہ قراردیا۔ اور فرمایا کہ قیامت کے دن مجھے کوئی ایسا شخص نہ ملے جو آئے اور اس کے کندھوں پر اونٹ ہو اور وہ کہے کہ اے رسول اللہ میری مدد کرو اور میں اسے یہ جواب دوں کہ میں تمہارے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تمہیں پوری طرح پیغام پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے ایسے شخص کو بھی نہ ملوں جس کے کندھوں پر گھوڑا ہو ‘ جو ہنہنارہاہو اور وہ شخص مجھ سے کہے رسول اللہ ﷺ میری امداد کرو اور میں اسے جواب دوں میں تمہارے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں تمہیں پوری طرح تبلیغ کردی تھی اور میں تم میں سے ایسے شخص کو بھی نہ ملوں جس کے کندھوں پر کوئی بےزبان جانور ہو اور وہ کہے رسول اللہ میری امداد کرو اور میں اسے بھی یہ جواب دوں کہ میں اللہ کے ہاں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔ میں نے تمہیں پوری طرح تبلیغ کردی تھی ۔ (بخاری مسلم روایت ابوحیان)

امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عدی ابن عمیرہ الکندی سے روایت کی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اے لوگو ! تم میں سے کوئی شخص ہمارے لئے عامل مقرر ہو اور اس نے اس سے ایک سوئی چرائی یا اس سے زیادہ تو وہ چور ہے اور قیامت کے دن وہ اسے لے کر آئے گا۔ “ اس پر انصار میں سے کالے رنگ کا ایک شخص اٹھا (مجاہد کہتے ہیں کہ وہ سعد ابن عبادہ تھے گویا میں اسے اب بھی دیکھ رہا ہوں ) اور کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں اپنے منصب سے مستعفی ہوتا ہوں آپ اپنا کام سنبھالئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوگیا ہے ؟ تو اس نے رسول ﷺ سے کہا میں نے آپ کو یہ اور یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور میں یہ بات اب بھی کہتا ہوں : جسے ہم نے کسی ڈیوٹی پر لگایا تو اس کو چاہئے کہ وہ کم ہو یا زیادہ لے کر آئے ۔ اسے جو کچھ دیا جائے وہ لے لے ۔ اور جو نہ دیا جائے ‘ رک جائے ۔ (مسلم ابوداؤد)

قرآن کریم کی اس آیت اور ان احادیث نے جماعت مسلمہ کی تربیت میں ایک عظیم کردار ادا کیا ۔ یہاں تک کہ اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ۔ ایک ایسا گروہ تیار ہوا ‘ جو نہایت ہی ایمانتدار ‘ دیانتدار اور اموال حکومت کے بارے میں اس قدر محتاط تھا جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔ اور پوری انسانی تاریخ میں کبھی ایسی جماعت تیار نہیں ہوئی ۔ یوں ہوتا کہ ایک عام مسلمان کے ہاتھ میں مال غنیمت میں سے ایک نہایت ہی قیمتی سامان پڑتا اسے کسی نے دیکھا ہی نہ ہوتا اور وہ اسے لاکر امیر کے حوالے کردیتا۔ اور اس کا نفس اسے ‘ اس کے بارے میں کسی طرح بھی بدراہ نہ کرسکتا تھا ۔ محض اس ڈر سے کہ قیامت کے دن اس کی ملاقات نبی ﷺ سے ہو اور اس کی حالت یہ ہو جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اور یہ کہ وہ قیامت کے دن شرمندہ نہ ہو ۔ جس سے اسے نبی ﷺ نے واضح طور پر خبردار کردیا ہے ۔ غرض مسلمانوں کی زندگی یوں تھی کہ فکرآخرت اور خوف آخرت ان کی زندگی کا عملی جزوہوا کرتے تھے ۔ اس کے اس احساس کا حصہ ہوا کرتے تھے اور ان کے تقویٰ ‘ اللہ خوفی اور غایت درجہ احتیاط کا راز ہی یہی تھا ۔ آخرت کا تصور ان کی زندگی میں ایک زندہ تصور تھا ‘ خوابیدہ نہ تھا۔ وہ ایک وعدہ فردانہ تھا۔ وہ ان کے یقین کا حصہ تھا جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ تھی ۔ وہ یہ یقین کرتے تھے کہ ہر کسی کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی ظلم نہ ہوگا۔

ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب مسلمان مدائن میں اترے تو انہوں نے مال غنیمت جمع کیا ۔ ایک شخص آیا اور اس کے پاس کوئی چیز تھی اور اس نے اسے خزانچی کے حوالے کیا۔ اس کے ساتھیوں نے کہا ہم نے اس قدر قیمتی چیز کبھی نہیں دیکھی ۔ ہمارے پاس جو بھی سامان جمع ہوا ‘ وہ اس قدر قیمتی نہیں ہے جس قدر یہ قیمتی چیز ہے ۔ تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا تم نے اس سے کچھ لیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں نے کچھ نہیں لیا ہے اور اللہ کی قسم اگر اللہ نہ ہوتا تو میں یہ تمہیں لاکر نہ دیتا۔ تب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک غیر معمولی شخص ہے ۔ خزانچی کے ساتھیوں نے پوچھا تمہارا تعارف کیا ہے ؟ تو اس نے کہا میں اپنا تعارف اس لئے نہیں کرتا کہ تم میری تعریف کرتے پھروگے اور نہ دوسرے لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ میرے اس عمل کی تعریفیں کرتے پھریں ‘ میں صرف اللہ کی تعریف کروں گا اور اس کے ثواب کا امیدوار رہوں گا ۔ ان لوگوں نے اس کا پیچھا کیا اور جب وہ اپنے ساتھیوں میں پہنچا تو انہوں نے دیانت کہا کہ وہ ثابت بن عبدقیس ہے ۔ (طبری ج 4 ۔ ص 16)

حضرت عمر کے دور میں جب اموال غنیمت لائے گئے ‘ جنگ قادسیہ کے بعد کا واقعہ ہے تو ان میں کسریٰ کا وہ تاج بھی تھا جسے وہ ایوان شاہی میں بیٹھ کر پہنتا تھا ۔ یہ بہت ہی قیمتی تھا ۔ حضرت عمر نے اسے دیکھا اور کہا کہ قابل قدر ہیں وہ فوجی جنہوں نے اسے خزانہ میں جمع کیا اور کہا :” جس قوم نے یہ تاج لاکر اپنے امیر کو دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ حد درجہ کے امین ہیں۔ “

یہ تھی مسلمانوں کی اسلامی تربیت ‘ یہ اس قدر عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے کہ اس کی داستانیں افسانے معلوم ہوتے ہیں ۔

اب اموال غنیمت اور اموال غنیمت کے اندر خیانت کی اس بحث کے بعد قرآن کریم اسی مناسبت سے اخلاقی قدروں کا ذکر کرتا ہے۔

” بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضاپر چلنے والا ہو ‘ وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا ہو اور جس کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو ‘ جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ اللہ کے نزدیک دونوں قسم کے آدمیوں میں بدرجہا فرق ہے اور اللہ سب کے اعمال پر نظررکھتا ہے ۔ “

اردو ترجمہ

بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو وہ اُس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا ہو اور جس کا آخری ٹھکانا جہنم ہو جو بدترین ٹھکانا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afamani ittabaAAa ridwana Allahi kaman baa bisakhatin mina Allahi wamawahu jahannamu wabisa almaseeru

یہ وہ دوررس تبدیلی ہے جس کے سائے میں ‘ تربیت پانے والوں کی نظروں میں اموال غنیمت کی کوئی حیثیت نہیں ‘ اس دنیا کے بارے میں سوچنا ہی حقیر ہوجاتا ہے اور قرآن منہاج تربیت کے خطوط میں سے ایک خط ہے ۔ یہ عجیب نقوش ہیں جن پر یہ منہاج انسانی دلوں کی تربیت کرتا ہے۔ ان کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں ‘ ان کے افق ہی بدل جاتے ہیں ۔ اس لئے وہ دوسرے میدانوں کو چھوڑ کر زندگی کے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھتے ہیں۔

أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ……………” بھلایہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضاپر چلنے والا ہو ‘ وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا اور جس کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو ‘ جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ “

یہ ہیں حقیقی اقدار ۔ یہ ہے میدان جس میں امید ہونی چاہئے ۔ یہ ہے وہ میدان جس میں کام ہونا چاہئے اور یہ ہے وہ فیلڈ جس میں کمائی یا خسارے کی بات ہونی چاہئے ۔ اور کس قدر وسیع خلیج ہے اس شخص کے درمیان جو رضامندی باری تعالیٰ کا طلبگار ہو اور اس میں کامیاب بھی ہو اور اس شخص کے درمیان جو راہ غضب پر ہو اور اس میں گھر بھی چکاہو اور جہنم کا مستحق ہوگیا ہو جویقیناً بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔

اردو ترجمہ

اللہ کے نزدیک دونوں قسم کے آدمیوں میں بدرجہا فرق ہے اور اللہ سب کے اعمال پر نظر رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hum darajatun AAinda Allahi waAllahu baseerun bima yaAAmaloona

یہ بھی ایک مقام ہے اور وہ بھی ایک مقام ہے اور ان دونوں مقامات کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے هُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ اللَّهِ……………” یہ درجے ہیں اللہ کے نزدیک۔ “ ہر شخص اپنے مقام تک استحقاق کی بناپر پہنچتا ہے ۔ اس لئے اس معاملے میں نہ کسی پر کوئی ظلم و زیادتی ہے اور نہ بےجا محبت اور طرفداری ہے ۔ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ……………” اور اللہ اپنے بندوں کے اعمال پر نظر رکھتا ہے ۔ “

اردو ترجمہ

درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad manna Allahu AAala almumineena ith baAAatha feehim rasoolan min anfusihim yatloo AAalayhim ayatihi wayuzakkeehim wayuAAallimuhumu alkitaba waalhikmata wain kanoo min qablu lafee dalalin mubeenin

اب یہ پیراگراف اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کی طرف۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کو رسول بناکر دراصل اللہ تعالیٰ نے مکہ مدینہ اور پوری دنیا کے اہل ایمان پر ایک عظیم احسان کیا ہے ۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ رسالت کی اس اسکیم پر غور کریں۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ

” درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ‘ ان کی زندگیوں کو سنوراتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ‘ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔ “

اس پیراگراف کا اختتام حقیقت نبوت محمدیہ پر کرنا ‘ اور آپ کی ذاتی حیثیت ومقام کو یہاں بیان کرنا اور اسے ایک عظیم احسان جتانا ‘ اور آپ اور آپ کی نبوت کا اس امت کی تعمیر وتشکیل میں اہم کردار جتلانا اور اس امت کی تعلیم وتربیت اور اس کی قائدانہ صلاحیت اور کھلی گمراہی سے نکل کر اس کا علم و حکمت اور تزکیہ اور طہارت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جانے کا تذکرہ ان سب امور کے اندر متنوع اور عمیق قرآنی احساسات ہیں جن پر غور ضروری ہے ۔

یہ آیات ابتداً مال غنیمت پر بطور تبصرہ آئی ہیں کہ مال غنیمت کا لالچ ‘ اس سے کسی چیز کے چوری ہونے ‘ اور اس معمولی کام کے اندر بہت زیادہ مشغول ہونے کی وجہ سے تم نے احد کی جیتی ہوئی جنگ ہاری ۔ اور تمہاری فتح شکست میں بدل گئی ۔ اور اس کی وجہ سے مسلمان ملت کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو تم نے دیکھ لیا ۔ اس ریفرنس میں رسالت کے عظیم منصب کے تذکرے اور اس عظیم احسان کے تذکرے جو احساس دلانا مقصود ہے وہ بہت ہی گہرا ہے ۔ اور اس سے قرآن اپنے مخصوص انداز کے ساتھ امت کی تربیت کرنا چاہتا ہے ۔ اس عظیم منصب کے ذکر اور یہ سمجھانے سے کہ یہ کس قدرعظیم احسان ہے تمہارے لئے یہ تاثر اور احساس دینا مطلوب ہے کہ تمام زمین کے اموال غنیمت ‘ تمام کرہ ارض سے چھینا ہوامال اور تمام دنیا کے سامان واسباب ‘ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ قابل ذکر ہی نہیں ہیں ۔ اس عظیم منصب ونعمت کے ہوتے ہوئے ان حقیر چیزوں کے تذکرے سے بھی ایک مسلمان کو حیا آتی ہے بلکہ اس کے بارے میں سوچنا بھی شرمندگی ہے ۔ چہ جائیکہ مسلمانوں میں سے کوئی اس کے اندر دلچسپی لے ۔

پھر یہ فکر انگیز اشارہ اس وقت دیا گیا کہ مسلمانوں کو شکست ہوچکی تھی ‘ وہ رنج والم میں مبتلا تھے اور اس معرکے میں مسلمانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی تھیں ۔ ایسے حالات میں نبوت کے عظیم منصب کے عظیم کام کو سامنے لاکر یہ فکر دلانا مقصود ہے کہ اس نبوت کے ذریعہ تم پر جو احسانات ہوئے ذرا ان پر بھی تو غور کرو ۔ یہ وہ عظیم احسان ہے جو کو دنیا کے تمام دوسرے امور پر ترجیح دی جاسکتی ہے ۔ “

پھر بتایا جاتا ہے کہ اس احسان عظیم کے نتیجے میں ‘ تمہارے اندر جو تبدیلی آئی اس پر بھی ذرا غور کرو ۔ تمہارے اندر اللہ کی آیات پڑھی جارہی ہیں ‘ تمہاری زندگیوں کو سنوارا جارہا ہے ‘ تمہیں کتاب سکھائی جارہی ہے اور پھر دانائی اور حکمت اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ اس سے قبل تم صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔

يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ

” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایک حال سے بذریعہ انقلاب دوسری حالت میں منتقل کردیا گیا تھا ‘ ایک صورت حال تبدیل ہوگئی تھی اور ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی تھی ۔ ایک دور گزر گیا تھا اور ایک نیا دور آگیا تھا ۔ اس لئے امت کو یہ شعور دیا جارہا ہے کہ یہ ایک عظیم انقلاب ہے جو اس امت کے اندر محض اللہ کی قدرت ‘ مشیئت اور فضل و احسان کے ذریعہ برپا کیا جارہا ہے ۔ اور پھر اس امت کے ذریعہ پوری انسانی زندگی کے اندر اس عظیم انقلاب کے برپا کرنے کا آغاز بعث رسالت محمدیہ کے ساتھ ہوا ہے جس نے اس امت کو برپا کیا اور تربیت دی ۔ اس لئے اس عظیم انقلابی قوت کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اموال غنیمت جیسی حقیر چیز کو پیش نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرے ۔ یا وہ معمولی قربانیوں اور رنج والم اور شکست وریخت پر کوئی جزع وفزع کرے ۔ اس لئے کہ اس عظیم انقلاب کی راہ میں یہ چیزیں کچھ بھی نہیں ہیں ۔

جنگ بدر کے واقعات کے بیان کے دوران رسالت محمدیہ کی اہمیت اور عظمت کے بیان میں یہ چند اشارات تھے جسے ہم نے اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد مناسب ہے کہ ہم اس آیت قرآنی پر تفصیل سے روشنی ڈالیں جو حکمت و دانائی کے اشارات سے بھری ہوئی ہے ۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ……………” درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے پیغمبر اٹھایا۔ “……یہ اللہ کا عظیم احسان تھا کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا ۔ پھر یہ دوسرا احسان تھا کہ رسول کریم بھی عربی تھے ۔ خود ان میں سے تھے ‘ اللہ کی جانب سے کسی قوم میں رسول مبعوث کرنا دراصل اس قوم پر اللہ کا محض فضل وکرم ہوتا ہے ۔ یہ خالص احسان اس لئے ہوتا ہے کہ بعثت رسول کے لئے خود اس قوم میں کوئی استحقاق کی بات نہیں ہوتی ۔ اگر ان کا کوئی استحقاق ہوتا تو اس کے لئے کوئی قابل ذکر لوگ ہوتے ‘ لوگوں کے اندر کوئی ایسا گروہ نہیں ہے جس پر یہ عنایت ہورہی ہو ۔ یہ تو محض اللہ کا فضل وکرم ہے کہ ان میں رسول آگیا ‘ جو ان پر آیات الٰہی کی تلاوت کرتا ہے ‘ اللہ کے کلمات سناتا ہے ‘ اور اس کرم عظیم کے لئے ان کے ہاں کوئی سبب یا استحقاق نہ تھا ‘ یہ صرف اور صرف احسان الٰہی ہے۔

اور یہ احسان پھر اس پہلو سے اور زیادہ اور گہرا ہوجاتا ہے کہ یہ رسول خود ان میں سے ان کا ہی بھائی ہے ۔” خود ان میں سے ایک رسول “ کے الفاظ کے اندر نہایت گہرے اشارے ہیں ۔ مومنین اور رسول کے درمیان رابطہ ایک نفس کا ایک نفس کے ساتھ رابطہ ہے ۔ یہ رابطے نہیں ہے کہ ایک فرد ایک قوم کے ساتھ مربوط ہو۔ صرف بات یہ نہ تھی کہ وہ ان میں سے ایک ہے ‘ بلکہ اس سے زیادہ گہرا اور اس سے زیادہ ارفع مفہوم مطلوب ہے ۔ ایمان کی وجہ سے وہ بلند ہوکر رسول سے مربوط ہوجاتے ہیں اور صرف ایمان کی وجہ سے وہ شرف وسربلندی کے اس اونچے مقام تک پہنچ جاتے ہیں اور بیشک اہل ایمان پر یہ عظیم احسان ہے ۔ اس طرح یہ احسان دوچند ہوجاتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ رسول بھیجا گیا اور دوسرا یہ کہ یہ رسول تمہارے اندر موجود ہے اور وہ اس رسول کے پاس موجود ہیں اور دونوں کے درمیان یہ محبوب رابطہ قائم ہے۔

اس کے بعد اس احسان کے عملی آثار ظاہر ہوتے ہیں ۔ ان کی شخصیت میں ‘ ان کی زندگی میں اور پھر ان کی تاریخ میں يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ……………” جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ‘ ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے ‘ اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ۔ “ اب اس احسان کا ظہور بڑے وسیع اور عملی میدان میں ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ ان کی عزت افزائی کی شکل میں یہ احسان عظیم ظاہر ہوتا ہے کہ خود اس نے اپنی جانب سے ‘ اپنے پروگرام کے مطابق رسول بھیجا جو ان سے اللہ کے کلام کے ذریعہ مخاطب ہے اور انہیں اللہ کی آیات سناتا ہے ۔ اگر انسان اللہ کے صرف اسی ایک احسان پر اچھی طرح غور کرے تو وہ اللہ کے خوف سے مدہوش ہوجائے ‘ کانپ اٹھے اور اس کے لئے یہ ممکن بھی نہ رہے کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہوسکے اور فوراً سجدہ شکر بجالائے ۔

اگر وہ یہ سوچے کہ اس پر اللہ کرم کررہا ہے ‘ اس کے ساتھ بات کررہا ہے ‘ اس کو اپنی ذات وصفات کے بارے میں متعارف کر ارہا ہے تاکہ انسان اس کی الوہیت کی ماہیت اور اس کے خصائص کو جان لے ۔ اس کے بعد وہ ذات باری اس سے مخاطب ہورہا ہے اور مخاطب بھی اس انسان اور اللہ کے اس حقیر بندے سے اور خطاب بھی اس بندے کی زندگی کے بارے میں ہو ‘ اس کے دلی سوالات کے جواب دے رہی ہو ‘ اس کی حرکات و سکنات پر بحث ہورہی ہو ‘ اور بات اس پروگرام کی ہورہی ہو جس میں اس حقیر انسان کی زندگی جاوید کا پروگرام مضمر ہے اور اس کی ہدایت کی بات ہورہی ہو ‘ اور یہ ہدایت بھی اس دستور کی طرف دی جارہی ہو جس میں اس کے دل کی پاکیزگی ہے اور اس کے احوال کی بہتری ہے ۔ اور اس کے بعد پھر اسے خوشخبری دی جارہی ہے کہ اگر وہ اس پروگرام پر چلے گا تو وسیع تر جنت میں جگہ پائے گا ‘ کیا اس سے اور کوئی عظیم احسان ہوسکتا ہے ‘ بلکہ یہ خالص فیضان جودوکرم ہے ‘ اور خالص فضل وعطا ہے ۔

اللہ تو غنی بادشاہ ہے ‘ اور انسان کمزور اور محتاج ہے ۔ لیکن یہ غنی بادشاہ اس کمزور اور محتاج سے ہمکلام ہے ۔ وہ اس پر عنایات کی بارش کررہا ہے ‘ اسے دعوت دے رہا ہے ‘ یہ غنی بادشاہ باربار ان فقراء کو پکار رہا ہے اور اپنے جودوکرم کی مسلسل دعوت دے رہا ہے ۔ یہ عظیم کرم ہے ‘ عظیم احسان ہے ‘ عظیم فضل اور عطا ہے جو بےلوث ہے اور اس کے بالمقابل اس کا پورا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے احسان کی وفاداری ممکن ہے ۔

وَيُزَكِّيهِمْ…………” ان کی زندگیاں سنوراتا ہے “ پاک کرتا ہے ‘ بلند کرتا ہے ‘ منقح کرتا ہے اور ان کے دلوں ‘ ان کے تصورات ‘ اور ان کے شعور کو پاک کرتا ہے ۔ وہ ان کے گھرانوں کو پاک کرتا ہے ۔ ان کی عزتوں کو پاک کرتا ہے ‘ اور ان کے باہم روابط کو پاک کرتا ہے ۔ ان کی انفرادی زندگی کو پاک کرتا ہے ‘ ان کے معاشرے کو پاک کرتا ہے اور ان کے ارادوں کو پاک کرتا ہے ۔ ان کو شرک بت پرستی کی گندیوں سے پاک کرتا ہے ۔ ان کو خرافات اور وہم پرستی سے پاک کرتا ہے اور ان کی وجہ سے زندگی کے اندر جو رسم و رواج پاتے ہیں ‘ جو غلط بندگیاں ہوتی ہیں ان سے پاک کرتا ہے ۔ اور شرف انسانیت سے فروتر گھٹیا درجے کی جو حرکات ہوتی ہیں ان سے انسانوں کو پاک کرتا ہے ۔ ان کو جاہلیت کی زندگی کی تمام گندگیوں سے پاک کرتا ہے ۔ نیز ان چیزوں سے پاک کرتا ہے جن سے انسانی شعور اور قومی شعائر ملوث ہوجاتے ہیں اور جن سے زندگی کے معانی ‘ اقدار اور روایات گندی ہوتی ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر جاہلیت اپنے ماحول میں کچھ ناپاکیاں پھیلادیتی ہے ۔ اسی طرح عرب جاہلیت نے بھی بعض گندگیاں پھیلادی تھیں اور ان سب سے اسلام انہیں پاک کررہا تھا۔

اور جاہلیت کی گندگیوں میں سے بعض کا تذکرہ حضرت جعفر بن ابی طالب نے کیا ہے ‘ جب وہ نجاشی کے سامنے اسلام کا تعارف کرا رہے تھے ۔ اور یہ تعارف وہ قریش کے نمائندوں کے سامنے کررہے تھے ۔ جوان مہاجرین کے خلاف مہم پر آئے ہوئے تھے ۔ مطالبہ یہ تھا کہ وہ ان مہاجرین کو ان کے حوالے کردے ۔ حضرت جعفر ؓ فرماتے ہیں :

” شاہ محترم ! ہم جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم تھے ۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے ۔ فحاشی کی تمام حرکات کرتے تھے ۔ صلہ رحمی کے تمام تعلقات کو کاٹتے تھے ۔ پردیسی سے براسلوک کرتے تھے ۔ ہم میں سے طاقتور ضعیفوں کو کھائے جارہا تھا۔ ہماری یہی حالت تھی کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا ۔ ہم اس کے شجرہ نسب کو خوب جانتے ہیں ‘ اس کی سچائی ‘ اس کی امانت ودیانت سے بھی خوب واقف ہیں اور اس کی عفت مآبی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ہمیں ایک اللہ کی طرف بلایا کہ ہم اسے ایک ہی جانیں ‘ صرف اسی کی بندگی کریں ۔ اور اس کے علاوہ ہم اور ہمارے آباء و اجداد جن پتھروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے ان کو جوأ اپنے گلے سے اتار دیں۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ سچی بات کرو ‘ امانت میں خیانت نہ کرو ‘ صلہ رحمی کرو ‘ پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھو ‘ حرام امور کا ارتکاب نہ کرو ‘ قتل نہ کرو ‘ فحاشی سے اس نے ہمیں منع کیا ‘ جھوٹی بات سے منع کیا ‘ یتیم کا مال کھانے سے منع کیا ‘ پاکدامن عورتوں پر بہتان لگانے سے منع کیا اور اس نے حکم دیا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ ادا کرو اور روزے رکھو۔ “

اور ان گندگیوں میں سے ایک گندگی وہ تھی جس کا تذکرہ حضرت عائشہ ؓ عنہانے کیا ہے ۔ وہ جاہلیت کے زمانے میں مرد وزن کے تعلق جنسیت کا نقشہ روایت بخاری کے مطابق یوں کھینچتی ہیں :” جاہلیت میں نکاح کی چار اقسام مروج تھیں ۔ ایک تو وہ نکاح تھا ‘ جو آج کل ہمارے درمیان مروج ہے کہ ایک شخص دوسرے کی لڑکی کا پیغام دیتا ‘ مہر مقرر ہوتا اور پھر نکاح ہوجاتا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ جب کسی شخص کی عورت ایام ماہواری سے پاک ہوجاتی تو وہ کہتا فلاں کے پاس جاؤ اور اس کے ساتھ تعلقات زن وشو قائم کرو ۔ اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس وقت تک مباشرت نہ کرتا جب تک اس کا حمل واضح نہ ہوجاتا ۔ یعنی جس شخص کے پاس اس نے اسے بھیجا تھا اس کے نطفے سے ۔ اور جب حمل واضح ہوجاتا تو پھر خاوند اس کے ساتھ تعلقات جنسیت قائم کرلیتا اگر چاہتا ۔ یہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ اس شخص سے اچھی نسل پیدا ہو۔ اسے نکاح استبضاع کہا جاتا تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کہ دس افراد سے کم لوگ جمع ہوتے اور وہ ایک ہی عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرلیتے ۔ ہر ایک اس کے پاس جاتا ‘ جب حمل ہوجاتا اور بچہ پیدا ہوجاتا اور کچھ شب وروز گزرجاتے تو وہ ان سب کو بلاتی ۔ ہر ایک کو لازماً آنا پڑتا ۔ وہ آتے اور اس کے ہاں اجتماع ہوتا ۔ وہ کہتی تمہیں تو بات کا پتہ ہی ہے ۔ اب بچہ پیدا ہوگیا ہے ۔ اے فلاں یہ بچہ تمہارا ہے اور وہ جس کے نام سے چاہتی اس کا نام رکھ دیتی ۔ تو یہ اس کا بچہ ہوجاتا۔ اور وہ شخص انکار نہ کرسکتا۔ چوتھانکاح ہوں ہوتا کہ بہت سے لوگ ایک عورت کے پاس جاتے ۔ یہ عورت کسی کو بھی منع نہ کرتی ‘ جو بھی چاہتا اس کے پاس جاتا ۔ ان میں سے اگر کوئی حاملہ ہوجاتی اور حمل وضع ہوجاتا تو یہ سب لوگ اس کے ہاں جمع ہوتے ۔ قیافہ دانوں کو بلایا جاتا۔ یہ قیافہ دان جس کے بارے میں چاہتے ‘ بچے کو اس کے ساتھ ملادیتے ۔ وہ اسے لیتا ‘ اس کا وہ بیٹا تصور ہوتا اور ازروئے قانون وہ اس کا انکار نہ کرسکتا ۔ “

اب ذرا غورکیجئے کہ اس بہیمانہ گرے ہوئے جنسی ضوابط پر کیا کسی مزید تبصرے کی ضرورت ہے ۔ یہ کافی ہے کہ ہم ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچیں کہ وہ اپنی بیوی کو کسی کے پاس ایک اچھا بچہ پیدا کرنے کے لئے بھیجتا ہے ۔ جس طرح اونٹنی ‘ ایک گھوڑی اور ایک مادہ مویشی کو اچھا بچہ لانے کے لئے بھیجا جاتا ہے تاکہ بہترین نسل کشی ہو۔

رہی جسم فروشی کی چوتھی صورت تو وہ جسم فروشی کی ایک ایسی صورت ہے جس میں بچے کو کسی کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس میں وہ عار محسوس نہیں کرتے اور نہ اس سے رکتے ہیں ۔

اور تیسری صورت بھی ویسی ہی ہے جس سے عربوں کو اسلام نے پاک کیا اور اگر اسلام نہ آتا تو وہ کانوں تک اس گندگی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔

جنسی تعلقات میں یہ گندگی عربوں میں محض اس لئے پھیلی ہوئی تھی کہ ان کا نقطہ نظر عورت کے بارے میں نہایت ہی گرا ہوا تھا ‘ ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :

” جاہلیت کے دور میں عورتوں پر بےحد ظلم ہوتا تھا۔ اور ان کے حقوق مارے جاتے تھے ۔ اس کی دولت لوٹی جاتی تھی۔ اسے میراث سے محروم کردیا جاتا تھا۔ اور اگر اسے طلاق ہوجاتی یا اس کا خاوند فوت ہوجاتا تو اسے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی ۔ اور وہ اسی طرح میراث میں ملا کرتی تھی جس طرح مویشی اور سامان میراث کے طور پر ملا کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے ۔ اگر کسی کا باپ فوت ہوجاتا تو وہ اس کی منکوحہ کا سب سے پہلامستحق ہوجاتا ‘ وہ اگر چاہتا تو اسے اپنے نکاح میں لے لیتا ‘ چاہتا تو اسے اس وقت تک بند رکھتا جب تک وہ اسے فدیہ نہ دلاتی یا مر نہ جاتی تاکہ یہ اس کی تمام مملوکات پر قابض ہوجاتا۔ عطا ابن رباح کہتے ہیں اہل جاہلیت کا رواج یہ تھا کہ جب کوئی مرد فوت ہوجاتا اور اس کی بیوی رہ جاتی تو اسے روک لیا جاتا یہاں تک کہ کوئی بچہ بالغ ہوتا اور یہ اس کے حوالے کردی جاتی ۔

سدی نے کہا کہ جاہلیت میں جب باپ اور بھائی فوت ہوجاتے یا لڑکا فوت ہوتا اور اس کے پیچھے بیوہ رہ جاتی تو اگر کوئی وارث جلدی سے اس بیوہ پر کپڑا ڈال دیتا تو وہ اس کی ہوجاتی اور وہ اسی سابقہ مہر کے عوض اس کے ساتھ نکاح کرلیتا یا وہ اسے کسی کے نکاح میں دے دیتا لیکن اس کے مہر کا حق دار وہ شخص ہوتا ۔ اور اگر بیوی خاوند کے مرتے ہی اپنے میکے بھاگ جاتی تو آزاد تصور ہوتی ۔ جاہلیت میں عورت کے ساتھ اس کے حقوق کے بارے میں سخت عدم توازن تھا۔ خاوند اس کے حقوق تلف کرسکتا تھا ‘ جبکہ وہ خاوند کی حق تلفی کرنے پر قادر نہ تھی ۔ اس کا مہر اس سے چھین لیا جاتا۔ اور اسے نقصان پہنچانے کے لئے روکے رکھا جاتا۔ خاوند تو اس کے ساتھ براسلوک کرتا ‘ اس سے اعراض بھی کرتا اور بعض اوقات اسے معلق کرکے چھوڑ دیا جاتا۔ کھانے پینے کی چیزوں سے بعض چیزیں مردوں کے لئے مخصوص تھیں اور عورتوں پر وہ حرام تھیں ۔ مرد کے لئے اجازت تھی کہ وہ جس قدر عورتوں سے نکاح کرتا ‘ نکاح کرسکتا تھا۔

لڑکیوں کو اس قدربرا سمجھا جاتا کہ انہیں زندہ درگور کردیا جاتا ۔ ہشیم ابن عدی نے المیدانی کی روایت کے مطابق لکھا ہے کہ تمام قبائل عرب میں زندہ درگور کرنے کا رواج تھا ‘ ہاں ایک شخص اگر اس پر عمل نہ کرتا تو دس نہ کرتے ۔ اسلام آیا تو اس وقت عربوں کے اندر زندہ درگور کرنے کے بارے میں مختلف آراء اور طریقے پائے جاتے تھے ۔ بعض لوگ بہت غیرت مند ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے ۔ اور ان کی وجہ سے وہ اپنی شرمندگی چھپاتے ۔ بعض لوگ ایسے تھے جو سبز آنکھوں والی لڑکیوں کو دفن کرتے یا سیاہ فام کو زندہ درگور کردیتے یا برص زدہ کو دفن کردیتے یالنگڑی کو دفن کردیتے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ ان صفات کو بہت ہی بدشگون سمجھتے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو فقر وفاقہ کے خطرات کی وجہ سے اولاد کو قتل کرتے ۔

بعض اوقات وہ اپنی لڑکیوں کو بڑی سنگدلی کے ساتھ قتل کرتے یا زندہ درگور کرتے ۔ مثلاً کبھی ایسا ہوتا کہ والد موجود نہ ہوتا ‘ سفر میں ہوتا ‘ یا کوئی اور مصروفیات ہوتیں تولڑ کی کو زندہ درگور کرنے کا موقعہ نہ ملتا ‘ وہ بڑی ہوجاتی وہ سمجھتی کہ اسے قتل کیا جاتا ہے ۔ بعض لوگوں نے خود اپنی کہانیاں بیان کی ہیں جو خون کے آنسو رلاتی ہیں ۔ بعض لوگ لڑکیوں کو پہاڑ کی چوٹی سے گرادیتے ۔

ان گندگیوں میں سے ایک گندگی ‘ اور سب سے بڑی گندگی ‘ شرک تھی ۔ پھر شرک کی بھی گری ہوئی شکل یعنی بت پرستی عربوں میں عام تھی ۔ استاد ندوی اس کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں :” عرب بت پرستی اور بتوں کی پوجا کی بدترین صورتوں میں مبتلا تھے ۔ ہر قبیلہ بلکہ ہر درے کا ایک بت ہوا کرتا تھا ۔ بلکہ ہر خاندان کا ایک بت ہوا کرتا تھا ۔ کلبی کہتے ہیں ۔ مکہ کے ہر گھرانے کا اپنا بت ہوتا تھا جسے وہ پوجتے تھے ۔ جب کوئی سفر پر جاتا تو جانے سے پہلے آخری کام یہ کرتا کہ وہ اس سے تبرک حاصل کرتا۔ اور جب گھر لوٹتا تو سب سے پہلے اس کی پوجا کرتا۔ عرب بتوں کی پوجا کے اندر اس قدر غلو کرگئے تھے ۔ بعض نے اپنے بت خانے بنارکھے تھے ۔ بعض کا اپنا علیحدہ ایک ہی بت ہوتا تھا۔ اگر کوئی بت خانہ نہ بناسکتا تھا اور اپنا بت بھی نہ بناسکتا تو وہ خانہ کعبہ کے سامنے ایک پتھر کھڑا کردیتایا کسی اور جگہ کھڑا کردیتا ‘ اس کا طواف کرتاجس طرح وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتا تھا۔ اور ایسے بتوں کو وہ انصاب کہتے تھے ۔ خانہ کعبہ کے اندر ‘ حالانکہ کعبہ صرف اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر ہوا تھا ‘ اس کے صحن کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے ۔ بتوں کی پوجا سے آگے بڑھ کر انہوں نے بتدریج پتھروں کی پوجاشروع کردی تھی ۔ امام بخاری نے ابورجاء عطاردی سے روایت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پتھروں کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ اگر ہمیں کوئی اچھا پتھر ملتا تو پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرا لے لیتے ۔ اگر پتھر نہ ملتا تو ہم مٹی کا ایک ڈھیلا لے لیتے اس بکری کو دوہتے۔ اس کے بعد اس کا طواف کرتے ۔ کلبی کہتے ہیں۔ اگر کوئی سفر کرتا اور کسی جگہ اترتا تو چار پتھر لیتا ۔ ان میں سے دیکھتا کہ سب سے اچھا کون سا ہے تو اسے اپنا رب بنالیتا اور بقیہ تین کو چولہے کے تین پتھر بنالیتا ۔ اور جب وہ اپنی منزل چھوڑتا تو اس پتھر کو بھی چھوڑدیتا۔

عرب بھی دوسری قوموں کی طرح ‘ ملائکہ اور جنوں کی پوجا کرتے ۔ اسی طرح وہ ستاروں کی پوجا بھی کرتے ۔ چناچہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے اور انہیں اللہ کے ہاں سفارشی بناتے۔ ان کی عبادت بھی کرتے اور ان کے وسیلہ سے اللہ کے ہاں اپروچ (تقرب حاصل) کرتے ۔ اسی طرح انہوں نے جنوں کو بھی شریک خدا کیا ہوا تھا۔ ان کی قدرت اور تاثیر کے وہ قائل تھے ‘ بلکہ ان کی عبادت بھی کیا کرتے تھے ۔ کلبی کہتا ہے قبیلہ خزاعہ کا بنوملیح قبیلہ جنوں کی پوجا کرتا تھا ۔ صاعد کہتے ہیں کہ حمیر سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ کنانہ چاند کے پجاری تھے ۔ “ (دیکھئے ماذاحرالمسلمون۔ ندوی ص 34)

بت پرستی کے اس ابتدائی تصور کے ملاحظہ سے بسہولت معلوم ہوجاتا ہے کہ اس بت پرستی کی وجہ سے عربوں کے دل و دماغ اور ان کے تصورات اور ان کی عملی زندگی کے اندر کس قدر وسیع گندگی پھیلی ہوئی تھی ۔ اور یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ کس قدر عظیم انقلاب تھا جو اسلام نے عرب معاشرے کے اندر برپا کیا ۔ ان کی زندگی کو کس قدر پاک کیا گیا ‘ ان کے تصورات کی کس قدر تطہیر کی گئی ۔ اور ان کو اخلاقی اور اجتماعی گندگیوں سے کس قدر پاک کیا گیا ‘ حالانکہ یہ تصورات اور یہ انفرادی اور اجتماعی گندگیاں ان کے لئے ایک قسم کے مفاخر تھے اور وہ اپنے اشعار اور اپنے میلوں اور بازاروں میں ان پر لمبی لمبی فخریہ تقریریں کیا کرتے تھے ۔ مثلاً شراب نوشی ‘ قمار بازی ‘ قبائل کے اندر چھوٹے چھوٹے انتقام ‘ ان کے نزدیک عظیم فضائل اخلاق تھے ۔ اور یہ لوگ ان کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھ سکتے تھے ۔

رہی جنگ تو وہ ان کے لئے نہایت ہی معمولی بات تھی ۔ خونریزی ان کے لئے روز مرہ کا کام تھا۔ ایک معمولی حادثہ بھی خونریزی کا باعث بن جاتا ۔ قبیلہ بکر اور تغلب کے درمیان جنگ ہوئی اور چالیس سال تک ہوتی رہی ۔ اس جنگ میں عظیم خونریزی ہوئی ۔ جنگ یوں شروع ہوئی کہ کلیب رئیس معد نے تیر مارا اور بسوس بنت منقذ کی اونٹنی کے تھنوں میں لگا۔ خون اور دودھ مل گئے ۔ جس اس ابن مرہ نے کلیب کو قتل کردیا ۔ اس بکر اور تغلب قبائل کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اور جس طرح مہلہل برادر کلیب نے کہا ہے ” اس جنگ نے زندگی کو فنا کردیا۔ ماؤں کو رلادیا۔ بچوں کو یتیم کردیا۔ اس قدر آنسوب ہے کہ رکنے کا نام نہ لیا اور اس قدر لوگ مارے گئے کہ دفن نہ ہوسکے ۔ اور جنگ داحس کا بھی حال ایسا ہی تھا ۔ قیس ابن زہیر کے گھوڑے کا نام داحس تھا ۔ قیس ابن زہیر اور حذیفہ ابن بدر کے درمیان ہونے والے شرطیہ مقابلے میں داحس آگے تھا ۔ ایک شخص جو اسد قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اس نے اس کے آگے رکاوٹ ڈالی اور حذیفہ آگے نکل گیا ۔ اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا اور اس طرح اسے الجھادیا ۔ اور دوسرے گھوڑے آگے نکل گئے ۔ اس کے بعد مقاتلہ شروع ہوگیا ‘ پھر بدلے پر بدلہ لیا جاتا رہا ۔ قبیلوں نے اپنے افراد کی نصرت کی ۔ اس میں لوگ مارے گئے ‘ قید ہوئے اور ہزاروں افراد کام آئے۔ “

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کی زندگی میں ‘ عظیم اور بلند مقاصد کی کوئی اہمیت نہ تھی ‘ اگر ان کے ہاں کوئی بلند نصب العین ہوتا تو وہ ان گھٹیا سرگرمیوں میں مشغول ہونے کا وقت ہی نہ پاتے ۔ ان کی زندگی کا کوئی پیغام نہ تھا ‘ انسانوں کی بھلائی کا کوئی منصوبہ ان کے پیش نظر نہ تھا ۔ اس دنیا میں ان کے پاس کوئی بلند انسانی پروگرام نہ تھا کہ وہ زندگی کی ان بےقیمت اور گھٹیا سرگرمیوں میں مشغول نہ ہوتے۔ نیز ان کے پاس کوئی ایسا نظریہ حیات بھی نہ تھا جو انہیں ان اجتماعی مذموم گندگیوں سے باز رکھتا ۔ اگر لوگوں تک الٰہی نظریہ حیات نہ پہنچاہو تو پھر ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں ؟ ان کا تصور حیات کیا ہوتا ہے ؟ اور ان کے اخلاق کیا ہوتے ہیں ؟

جاہلیت بہرحال جاہلیت ہوتی ہے ۔ اور ہر جاہلیت کی گندگیاں اور غلط کاریاں الگ ہوتی ہیں۔ ہر زمان ومکان میں ان کے لئے الگ مواقع رہے ہیں ۔ جب لوگوں کے دل الٰہی نظریہ ٔ حیات سے خالی ہوجائیں اور ان پر خدائی فکر کی حکمرانی نہ رہے ‘ جب لوگ الٰہی شریعت سے آزاد ہوجائیں تو خدائی نظریہ حیات پر مبنی ہوتی ہے ‘ تو ان کی زندگی پر جاہلیت کی حکمرانی ہوتی ہے اور وہ جاہلیت کی مختلف صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ آج ہمارے دور میں جس جاہلیت نے انسانیت کو کانوں تک گندگی میں ڈبودیا ہے وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے زمانہ قدیم کی عرب جاہلیت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ اور نہ ان جاہلیتوں سے مختلف ہے جو اس وقت اس دنیا کے اطراف واکناف میں مروج تھیں اور جن سے انسانیت کو اسلام نے نجات دی تھی ۔

آج دنیا ایک عظیم گندگی میں زندگی بسر کررہی ہے اس کی صحافت کو دیکھیں ‘ اس کی فلموں کو دیکھیں ‘ اس کے لباس کی نمائشوں کو دیکھیں ‘ اس کے مقابلہائے حسن کو دیکھیں ‘ اس کی رقص گاہوں کو دیکھیں ‘ اس کے حماموں کو دیکھیں ‘ اس کے نشر و اشاعت کے اداروں کو دیکھیں ‘ پھر ننگے گوشت اور ہیجان انگیز طور طریقوں کو دیکھیں ‘ ادب وفن میں اس کی بیماررمزیت کو دیکھیں اور ذرائع اشاعت کے اندر اس کے گھٹیا اشاروں کو دیکھیں تو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ گندگی کی دلدل میں گرفتار اور بیمار ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معیشت پر ظالمانہ سودی نظام کی گرفت ہے ۔ افرط زر اور دولت جمع کرنے اور اسے بڑھانے کے لئے غیر اخلاقی ذرائع کا استعمال عام ہے ۔ اور قانون کے سایہ اور لباس کے اندر عوام کو لوٹا جارہا ہے ۔ اس کے ساتھ اخلاقی بےراہ روی اس قدر عام ہوگئی ہے جس کی لپیٹ میں ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر نظام آرہا ہے بلکہ ہر انسانی سوسائٹی پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ان تمام امور پر غور کرنے سے یہ فیصلہ کرنا بہت ہی سہل ہوجاتا ہے کہ اس جدید جاہلیت کے زیر سایہ انسانیت ہلاکت خیز بیماری کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

انسان انسانیت کو کھائے جارہا ہے ۔ اس کی آدمیت تحلیل ہورہی ہے ‘ وہ حیوان کے پیچھے بھاگ رہی ہے ۔ سانس پھولا ہوا ہے ۔ وہ ایسی چیزوں کی دلدادہ ہوگئی ہے جو حیوانیت کو جگارہی ہیں ۔ اور انسان عالم حیوانات کی طرف اتررہا ہے لیکن حیوان کو دیکھیں تو وہ اس انسان سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ کیونکہ وہ ضابطہ فطرت کے اندر جکڑا ہوا ہے اور ضابطہ اس قدر مضبوط ہے کہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑتا۔ نہ اس قدر گندہ ہوتا ہے جس طرح انسان اس وقت گندہ ہوجاتا ہے جب وہ عقیدے اور نظریہ اور نظریاتی نظام کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اور پھر سے اس جاہلیت میں داخل ہوجاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے نجات دی ہے ۔ اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ کرتے ہوئے اسے اپنا خصوصی انعام قرار دیتے ہیں ۔

وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ……………” ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ۔ “ اس آیت میں جن لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے وہ ان پڑھ اور جاہل تھے ۔ وہ لکھنا نہ جانتے تھے ۔ عقل اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے بھی امی اور جاہل تھے ۔ ابواب علم میں سے کسی باب میں بھی ‘ اس وقت کے عالمی معیار علم و ثقافت کے مطابق کچھ درک نہ رکھتے تھے ‘ نہ ان کی زندگی کے کچھ بلند مقاصد تھے ‘ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کسی بھی شعبے میں عالمی وقعت رکھتے ہوں ‘ لیکن اچانک اسلامی نظریہ حیات آتا ہے ‘ وہ دنیا کے استاد بن جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا کے حکیم بن گئے ۔ وہ ایک نظریاتی نظام زندگی کے حامل بن گئے ‘ جس کے اندر نظام فکر ، نظام اجتماع اور زندگی کی تنظیم کا پورانظام موجود تھا۔ اور جس نے اپنے دور میں پوری انسانیت کو اس وقت کی جاہلیت سے نجات دی۔ اور اب ہمارے دور میں بھی جدید جاہلیت سے اس جدید بشریت کو ‘ انشاء اللہ وہی نجات دے گی ۔ اس لئے کہ ہماری اس جدید جاہلیت میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن سے جاہلیت قدیمہ مرکب تھی ۔ اخلاقی اعتبار سے بھی ‘ اجتماعی اعتبار سے بھی ‘ انسانی زندگی کے اہداف کے اعتبار سے بھی اور اعلیٰ مقاصد کے اعتبار سے بھی ۔ اس کے باوجود کہ جدید انسانیت نے علم ومعرفت کے میدان میں بڑی بڑی پیش قدمیاں کی ہیں اور صنعتی میدان میں اس نے ریکارڈ پیداوار دکھائی ہے ۔ اور زندگی کی بہترین سہولیات فراہم کی ہیں لیکن یہ انسانیت بدستور جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے ۔

وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ……………” اگرچہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔ “ اعتقادات و تصورات کے اعتبار سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ زندگی کے مفاہیم اور قدروں کے اعتبار سے بھی ڈوبے ہوئے تھے اور مقاصد اور زندگی کی سمت کے اعتبار سے بھی راہ گم کئے ہوئے تھے ۔ اپنی عادات واطوار کے اعتبار سے بھی ‘ اپنے نظم ونسق کے اعتبار سے بھی ‘ اپنے اجتماعی نظام اور اپنے اخلاقی نظام کے اعتبار سے بھی گمراہ تھے ۔

وہ عرب جو اس آیت کے مخاطبین اولین تھے ‘ وہ اچھی طرح ‘ بغیر کسی شک وشبہ کے اپنے ماضی اور حال ماضی کے رنگ ڈھنگ سے واقف تھے ‘ یہ ماضی انہیں خوب یاد تھا۔ اور وہ انقلاب جو اسلام کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں نمودار ہوگیا تھا وہ ان کی نظروں کے سامنے برپا ہوا تھا ‘ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اسلامی نظریہ حیات کے بغیر ان کی زندگی میں اس قدر عظیم انقلاب برپانہ ہوسکتا تھا ‘ جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔

وہ یہ جانتے تھے کہ یہ اسلام اور صرف اسلام تھا جس نے انہیں قبائلی طور طریقوں سے نکالا ‘ قبائلی ترجیحات ان کے ذہن سے نکال دیں ‘ قبائلی انتقام کے دلدل سے انہیں نکالا ‘ صرف اس لئے نہیں کہ بس وہ ایک عظیم قوم بن جائیں بلکہ وہ اچانک بغیر کسی ابتدائی تیاریوں کے ‘ بغیر کسی طویل زمانی منصوبے کے اچانک ‘ ایسی قوم کی شکل اختیار کرلیں جو انسانیت کی قیادت کررہی ہو ‘ وہ انسانیت کے لئے نقشہ حیات تیار کررہی ہو ‘ اس کے لئے زندگی کا منہاج تیار کررہی ہو ‘ اس کی اجتماعی نظم بندی کررہی ہو ‘ ایسی صورت میں کہ اس کی کوئی سابقہ مثال ان کے سامنے نہ ہو اور پوری انسانی تاریخ میں بھی جس کی کوئی مثال نہ ہو۔

وہ علی وجہ البصیرت اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ اسلام اور صرف اسلام نے انہیں قومی تشخص بخشا ہے ۔ انہیں ایک سیاسی وجود بخشا ہے اور ایک بین الاقوامی حیثیت دی ہے ۔ اور سب سے پہلے اور سب سے اہم یہ کہ انہیں ایک انسانی حیثیت عطا کی ہے ‘ جس نے ان کی انسانیت ‘ ان کی آدمیت اور اکرام انسانیت کو بلند کیا بلکہ ان کے پورے نظام حیات کو شرف انسانیت کی اساس پر منظم کیا ۔ اور یہ تکریم ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بطور ہدیہ اور بطور احسان عطا ہوئی ۔ اور اس کے بعد انہوں نے اس تکریم انسانیت کی بارش پوری انسانیت پر کردی ۔ انہوں نے پوری انسانیت کو سکھایا کہ انسان کا اکرام کس طرح کیا جاتا ہے ؟ کس طرح اسے اللہ کی تکریم کے ساتھ اشرف المخلوقات قراردیا جاتا ہے ۔ اور انسان کو یہ شرف عطا کرنے میں ان کے سامنے نہ جزیرۃ العرب میں کوئی مثال تھی اور نہ ہی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں کوئی مثال تھی ۔ اس سے پہلے اصول شوریٰ پر ہم جو بحث کر آئے ہیں ‘ وہ اس نظام اور شرافت انسانیت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو تھا ‘ جس کے اندر وہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ان پر غیر معمولی انعام تھا۔

وہ اس بات کا اچھی طرح ادراک کئے ہوئے تھے کہ یہ اسلام اور صرف اسلام ہے جس نے انہیں ایک پیغام عطا کیا اور اب وہ اس پیغام کو تمام دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ‘ وہ انسانیت کو ایک نظریہ حیات دے رہے ہیں ۔ وہ انسانی زندگی کے لئے انہیں ایک راہ دکھا رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانی برادری کے اس وسیع کھیت میں اگر کوئی قوم زندہ رہ سکتی ہے تو وہ وہی قوم ہوگی جس کے پاس کوئی پیغام ہو ‘ جس کے پاس زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ حیات ہو اور وہ اس کے ذریعہ انسانیت کو آگے بڑھارہی ہو۔

یہ اسلام تھا ‘ اس کا تصور کائنات تھا ‘ زندگی کے بارے میں اس کی آراء تھیں ‘ معاشرے کے لئے اس کا اجتماعی اور قانونی نظام تھا ‘ حیات انسانی کے لئے اس کی مخصوص تنظیم تھی اور اس کا مثالی مثبت اور واقعیت پسند نظام زندگی تھا جس کے زیر سایہ انسان کو خوشحالی نصیب ہوئی ۔ اسلام اپنی ان خصوصیات کے ساتھ ایک شخصی راہداری تھی جس کے ذریعہ وہ آگے بڑھے اور انہیں انسانیت نے پہچانا ‘ ان کا احترام کیا اور انہیں انسانیت کی قیادت سپرد کی ۔

آج ہو یا کل ان کے پاس یہی راہداری ہے ۔ اس کے سوا اقوام عالم میں ان کی کوئی اور شناخت ہی نہیں ہے ۔ ان کے لئے اب صرف یہی راستہ ہے انسانیت انہیں پہچانے اور ان کی عزت کرے یا پھر وہ اس پیغام کو چھوڑدیں اور دوبارہ مہمل زندگی بسر کریں۔ جس طرح کہ وہ اسلام سے پہلے تھے ‘ کوئی انہیں جانتا ہی نہ تھا اور نہ انہیں کوئی مانتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ انسانیت کو اسلامی نظام زندگی کا پیغام نہیں دینا چاہتے تو اور وہ کون ساپیغام ہے جو دنیا کو دینا چاہتے ہیں ۔ کیا وہ دنیا کو فنون ‘ آداب اور سائنس میں کچھ دینا چاہتے ہیں ؟ ان میدانوں میں تو دنیا ان سے کہیں آگے نکل گئی ہے ۔ ان فروعی علوم وثقافتوں کے میدان کے اندر انسانیت پہلے سے مالامال ہوگئی ہے ۔ نہ اسے کسی مزید چیز کی ضرورت ہے اور نہ اسے انتظار ہے کہ اس میدان میں عرب اسے کچھ دیں گے۔

کیا عرب دنیا کو صنعتی میدان میں کچھ اعجوبہ دینا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ اقوام عالم کے ہاں صنعت نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ اس کے مقابلے میں بڑے بڑے گردن فراز جھک گئے ہیں ‘ انہوں نے صنعتی مصنوعات کے بازار بھر دیئے ہیں اور ہمارے ہاں جو صنعتی پیداوار ہوتی ہے اسے زیرسایہ (OverShade) کردیا ہے ۔ عرب کے مقابلے میں بےزمار قومیں آگے ہیں ‘ اس میدان میں ۔ اور اس میدان میں ان کے ہاتھ میں زمام قیادت پہلے سے موجود ہے ۔

کیا عرب دنیا کو اجتماعی مذہب کا کوئی فلسفہ دینا چاہتے ہیں ؟ یا وہ دنیا کو کوئی ایسا اقتصادی اور تنظیمی نظام دینا چاہتے ہیں جو انہوں نے ایجاد کیا ہے ۔ جو ان کی اپنی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہماری دنیا ان دنیاوی فلسفوں ‘ مذاہب اور نظریات سے بھری پڑی ہے اور یہی دنیاوی نظریات ہیں جن کے تحت انسانیت نہایت ہی بدحالی کا وقت گزار رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ عرب اس انسانیت اور اقوام عالم کے سامنے کیا تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے برادری اقوام میں ان کا تعارف ہو ‘ انہیں امتیاز حاصل ہو اور اس میدان میں وہ برتر تصور ہوں ؟

میں کہتا ہوں کہ ان کے پاس پیغام اسلام کے سوا کوئی اور پیغام نہیں ہے ۔ یہی واحد نظام زندگی ہے جس کا پیغام وہ اس دنیا کو دے سکتے ہیں ۔ ان کے پاس اللہ کے اس احسان کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے جس کا احسان انہوں نے مسلمانوں پر کیا ۔ اور اس کے ساتھ انہیں اعزاز بخشا ‘ اور ایک دن اسی پیغام کے ذریعہ انہوں نے پوری انسانیت کو نجات دی تھی ‘ اور آج انسانیت سب سے زیادہ جس میدان میں مفلس ہے ‘ سب سے زیادہ جس کی طرف محتاج ہے وہ یہی پیغام ہے ۔ وہ جہنم کے گڑھے میں گرنے والی ہے ۔ وہ حیرت ‘ قلق اور بےاطمینانی کا شکار ہے ۔

یہ وہ واحد پیغام تھا جسے انہوں نے کبھی انسانیت کو دیا تھا اور اس کے سامنے پوری انسانیت نے سر جھکالیا تھا۔ آج یہی پیغام ہے جو عرب انسانیت کو دے سکتے ہیں اور اس میں انسانیت کی نجات مضمر ہے اور اسی میں اس کی کامیابی کا راز ہے ۔

ہر قوم کے پاس کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے ۔ تمام بڑی اقوام میں سے ہر قوم کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ‘ سب سے بڑی قوم وہ ہوتی ہے جس کا پیغام بڑا ہوتا ہے ‘ بڑی قوم وہ ہوتی ہے جو سب سے بڑانظام دے ۔ اور پھر دنیا میں اس نظام زندگی کے ساتھ منفرد تصور ہوتی ہے اور وہ نظام اس کی شناخت ہوتا ہے۔

عربوں کے پاس یہ پیغام موجود ہے ۔ یہ ہے بھی ان کا اصلی پیغام ۔ دوسری اقوام تو پیغام اسلام میں ان کی شریک حیات ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا شیطان ہے جو انہیں اس عظیم اور قیمتی سرمائے سے محروم کررہا ہے ۔ کون ہے وہ شیطان اسے پہچانو۔

اللہ کا عظیم اور عظیم احسان تھا ‘ اس امت پر ‘ اس پیغام کی وجہ سے ‘ اس رسول کی وجہ سے اور اس کی رسالت کی وجہ سے ہے ۔ اس عظیم احسان سے انہیں صرف شیطان ہی پھیر کر گمراہ کرسکتا ہے حالانکہ ان کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس شیطان کو دھتکاریں اور اس پر سنگ باری کریں۔

اس کے بعد معرکہ احد کے واقعات کے بیان میں بات ایک قدم اور آگے بڑھتی ہے ۔ اور اس پر مزید تبصرہ ہوتا ہے اور نتائج اخذ کئے جاتے ہیں ۔ ان کے تعجب کو پیش کیا جاتا ہے جس کا اظہار وہ ان نتائج کو دیکھ کر کرتے تھے ‘ جو احد میں برآمد ہوئے ۔ وہ ان واقعات کو انہونی تصور کرتے تھے ۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ وہ مسلمان ہیں پھر بھی انہیں شکست ہوئی ۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کے بارے میں ان کا تصور ابھی بہت ہی ابتدائی ہے ۔ ابھی وہ تجربات سے گزر کر فکری اعتبار سے پختہ نہ ہوئے تھے ۔ وہ عملی تربیت سے ابھی نہ گزرے تھے تاکہ وہ اصل صورت حال کے ساتھ اور حقیقی واقعات کے ساتھ وہ برتاؤ کریں اور اس دنیا کے تکوینی قوانین فطرت کا ادراک کریں جن کے مطابق یہاں ہر شخص نے اپنی عملی زندگی بسر کرنی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انہیں کھلے میدانوں میں کھڑاکرکے انہیں صاف صاف بتادیا کہ انہیں جو کچھ درپیش ہوا ‘ وہ خودان کے اپنے افعال کا لازمی نتیجہ تھا ۔ انہوں جو تصرفات اور اقدامات کئے ان کے یہی فطری اور سنت الٰہی کے مطابق نتائج تھے ۔ لیکن قرآن کریم انہیں صرف اس نکتہ پر ہی نہیں چھوڑ دیتا ‘ اس لئے کہ یہ نکتہ اگرچہ حقیقت ہے لیکن یہ انتہائی حقیقت نہیں ہے بلکہ ان اسباب اور اسباب کے قدرتی نتائج کی پشت پر تقدیر الٰہی بھی کام کرتی ہے ۔ قرآن انہیں اس کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے نیز اس سنن الٰہیہ اور قوانین فطریہ کی پشت مشیئت الٰہیہ بھی کام کرتی ہے ۔ یوں قرآن انہیں ان واقعات کی حکمت بتاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کی اس تدبیر کی پشت پر ان کے لئے بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔ اس میں ان کے لئے خیر تھی ۔ اس دعوت کے لئے بہتری تھی جس کی خاطر وہ جدوجہد کررہے ہیں ۔ مقصودیہ تھا کہ وہ اس تجربے سے انہیں زمانہ مابعد کے لئے تیار کرے ۔ ان کے دلوں کو صاف کردے۔ ان کی صفوں کی تطہیر کردے ۔ ان منافقین کو علیحدہ کردیاجائے ‘ جو ان واقعات کے نتیجے میں ننگے ہوگئے ۔ آخر کار تمام امور بہرحال اللہ کی مشیئت کے مطابق ہی سر انجام پاتے ہیں ۔ اس کی تقدیر اور تدبیر کے مطابق ہی ظہور پاتے ہیں ۔ یوں اس تبصرے سے ان کا تصور اور ان کا شعور مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کے نہایت ہی گہرے عمیق اور لطیف بیان واقعات پر ذرا نظر ڈالیں :

اردو ترجمہ

اور یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے د و گنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے اے نبیؐ! اِن سے کہو، یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalamma asabatkum museebatun qad asabtum mithlayha qultum anna hatha qul huwa min AAindi anfusikum inna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لکھ دیا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرے گا ‘ جو اس کا جھنڈا اٹھانے والے ہوں اور جو اس پر پختہ ایمان اور عقیدہ رکھنے والے ہوں ۔ لیکن اس نے اس وعدے کو ایک شرط سے مشروط کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کے مستحق وہ اس وقت ہوں گے جب ان کے دلوں میں حقیقت ایمان اچھی طرح جاگزیں اور مستحکم ہوجائے ۔ اور وہ اپنی تنظیم اور طرزعمل میں ایمان کے تقاضے پورے کررہے ہوں ۔ اور ان کی وسعت اور طاقت کے اندر جو کچھ ہو وہ انہوں نے تیار کیا ہو۔ ان کی طاقت میں جس قدر ممکن ہو وہ جدوجہد کررہے ہوں ۔ یہ ہے سنت الٰہیہ اور سنت الٰہیہ کی کسی کے ساتھ خاص دوستی نہیں ہوتی نہ وہ کسی کی رورعایت کرتی ہے ۔ جب اللہ والے ان امور میں سے کسی میں بھی قصور اور کمی رکھتے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی تقصیرات کے نتائج بھی قبول کریں ۔ اس لئے کہ صرف مومن ہونے سے ان کے لئے ضابطہ سنن الٰہیہ معطل نہ کردیا جائے گا۔ نہ ناموس اعلیٰ باطل ہوجائے گا ۔ وہ تو مسلم ہی تب ہوں گے جب وہ اپنی زندگی کے اندر سنن الٰہیہ کو جاری وساری کردیں ۔ اور اپنی فطرت کو ناموس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ کردیں ۔

لیکن ان کا نفس مسلمان ہونا بھی بیکار نہیں جاتا۔ نہ وہ بےاثر ہوتا ہے۔ ان کا اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ‘ اس کے جھنڈے اٹھانا ‘ اس کی اطاعت کا عزم کرلینا اور اس کے نظام حیات کا التزام کرنا وغیرہ ان امور کا یہ اثر ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان تقصیرات اور ان غلطیوں میں سے خیر اور برکت کا پہلو نکال دے ۔ اگرچہ ان غلطیوں کی وجہ سے وہ چوٹیں کھائیں ‘ قربانیاں دیں اور وقتی طور پر شکست کھالیں ۔ وہ ان غلطیوں سے ان کے تجربے میں اضافہ کرے گا ۔ اس طرح ان کا عقیدہ صاف ہوجائے گا ۔ ان کے دل صاف ہوں گے ۔ ان کی صفوں کی تطہیر ہوگی اور اس طرح آخر کار وہ اس نصرت کے حق دار ہوجائیں گے جس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے ۔ آخری انجام خیر و برکت پر ہوگا ‘ مسلمان اللہ کی بارگاہ سے ‘ اس کی رحمت و عنایت سے دھتکارے نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید زاد راہ سے نوازتا ہے۔ اگرچہ اثنائے راہ میں انہیں تکالیف پہنچیں ‘ مشکلات کا سامنا ہو اور رنج والم سے دوچار ہوں۔

اس وضاحت کے ساتھ اور فیصلہ کن انداز میں اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ سے خطاب فرماتے ہیں ۔ ان کے اس سوالیہ انداز میں اور جو واقعات پیش آئے ‘ ان پر ان کی حیرانی اور پریشانی کا جواب دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان واقعات کا قریبی سبب کیا تھا ؟ نیز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس میں تقدیر الٰہی کے اندر دوررس حکمت کیا پوشیدہ تھی ؟ اور منافقین کو بتایا جاتا ہے کہ موت کا ایک حق راستہ ہے ۔ ڈر سے موت ٹلتی نہیں اور نہ ہی جہاد میں شرکت نہ کرنے سے موت موخر ہوجاتی ہے ۔

” اور تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آپڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی ؟ حالانکہ اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں ان پر پڑچکی ہے ۔ اے نبی ان سے کہو ‘ یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ “

جنگ احد میں مسلمانوں پر جو مصائب آئے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ستر آدمی شہید ہوئے اور زخمی اور مزید مصائب ان کے علاوہ تھے ۔ بہت ہی کڑوادن تھا یہ ان کے لئے ۔ ان پر یہ مصائب نہایت ہی شاق تھے اور ناقابل برداشت تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں ‘ اور ان کے مخالفین اللہ کے دشمن ہیں اور مشرک ہیں اور مسلمان جو اس مصیبت میں مبتلا ہوئے ‘ اس سے پہلے وہ ان دشمنان اسلام کو دوگنا نقصان پہنچاچکے تھے ۔ یہ اشارہ ہے بدر کی طرف وہاں انہوں نے کفار کو نقصان پہنچایا تھا جبکہ وہ اللہ کے حکم پر درست کھڑے تھے ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے احکام پر عمل پیرا تھے ۔ اس سے قبل کہ وہ مال غنیمت کو دیکھ کر بےراہ ہوجائیں ۔ اور اس سے قبل کہ ان کے دلوں میں ایسے خیالات پیدا ہوں جو ایمان کے ساتھ لگا نہیں کھاتے ۔

اللہ انہیں یہ سب باتیں یاد دلاتے ہیں اور ان کے اس حیرانی سے بھرے ہوئے سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اس کا براہ راست سبب تو خود ان کے افعال تھے ۔ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ……………” اے نبی ان سے کہو یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے ۔ “

یہ خود تمہارے نفوس تھے ‘ جن میں خلل آگیا ‘ تم متفرق ہوگئے اور باہم تنازعہ کرنے لگے اور یہ تم ہی تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی شرائط پر عمل نہ کیا ۔ یہ تمہارے ہی نفوس تھے جن میں طمع اور لالچ داخل ہوگئی ‘ اور یہ تم ہی تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی اور آپ کے جنگی منصوبے کو سبوتاژ کیا ۔ پس یہ نتائج جن سے تم دوچار ہوئے اور جنہیں تم انہونی قرار دیتے ہو ‘ اور تم کہتے ہو کہ یہ حالات کیسے پیش آگئے ؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہوا۔ تم پر تو اللہ تعالیٰ کی سنت الٰہیہ کا انطباق ہوا ہے ۔ جب تم نے اپنے آپ کو اس سنت کے سامنے پیش کیا ۔ انسان جب اپنے آپ کو سنت الٰہیہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ سنت اس پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے ۔ یہ شخص مسلم ہو یا مشرک ہو ‘ اس سلسلے میں کسی رورعایت نہ ہوگی ۔ لہٰذا کسی کے اسلام کا کمال یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی سنت کے مطابق ڈھال لے اور وہ یہ کام پہلے ہی کرلے۔

إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ……………” اللہ ہر چز پر قادر ہے ۔ “ اور اس کی قدرت کا ہی یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی سنت کو نافذ فرماتا ہے ۔ وہ اس کائنات میں اپنے ناموس کی کارفرمائی قائم کراتا ہے ۔ اور تمام کام اس کی قدرت اور ارادے کے مطابق چلتے ہیں ۔ اور یہ بھی اس کی قدرت کا تقاضا ہے کہ اس کی سنت معطل نہ ہو ‘ جس پر اس نے اس کائنات اس زندگی اور زندگی کے ان واقعات کو چلایا ہے ۔

71