یہ وہ دوررس تبدیلی ہے جس کے سائے میں ‘ تربیت پانے والوں کی نظروں میں اموال غنیمت کی کوئی حیثیت نہیں ‘ اس دنیا کے بارے میں سوچنا ہی حقیر ہوجاتا ہے اور قرآن منہاج تربیت کے خطوط میں سے ایک خط ہے ۔ یہ عجیب نقوش ہیں جن پر یہ منہاج انسانی دلوں کی تربیت کرتا ہے۔ ان کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں ‘ ان کے افق ہی بدل جاتے ہیں ۔ اس لئے وہ دوسرے میدانوں کو چھوڑ کر زندگی کے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھتے ہیں۔
أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ……………” بھلایہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضاپر چلنے والا ہو ‘ وہ اس شخص کے سے کام کرے جو اللہ کے غضب میں گھر گیا اور جس کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو ‘ جو بدترین ٹھکانہ ہے ۔ “
یہ ہیں حقیقی اقدار ۔ یہ ہے میدان جس میں امید ہونی چاہئے ۔ یہ ہے وہ میدان جس میں کام ہونا چاہئے اور یہ ہے وہ فیلڈ جس میں کمائی یا خسارے کی بات ہونی چاہئے ۔ اور کس قدر وسیع خلیج ہے اس شخص کے درمیان جو رضامندی باری تعالیٰ کا طلبگار ہو اور اس میں کامیاب بھی ہو اور اس شخص کے درمیان جو راہ غضب پر ہو اور اس میں گھر بھی چکاہو اور جہنم کا مستحق ہوگیا ہو جویقیناً بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔