سورة آل عمران: آیت 159 - فبما رحمة من الله لنت... - اردو

آیت 159 کی تفسیر, سورة آل عمران

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّوا۟ مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ

اردو ترجمہ

(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabima rahmatin mina Allahi linta lahum walaw kunta faththan ghaleetha alqalbi lainfaddoo min hawlika faoAAfu AAanhum waistaghfir lahum washawirhum fee alamri faitha AAazamta fatawakkal AAala Allahi inna Allaha yuhibbu almutawakkileena

آیت 159 کی تفسیر

اس پیراگراف کا موضوع اور محور حقیقت نبوت اور ذات نبوی ہے ۔ اور اس محور کے متعلقہ حقائق کو اس میں لیا گیا ہے ۔ اس میں نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے اصول چھوٹی چھوٹی عبارتوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ کی رحمت کو مجسم کرکے نبی ﷺ کے اخلاق اور طرز عمل کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ آپ کی ذات کریمہ نہایت ہی مہربان ‘ نہایت ہی رحم دل ‘ نہایت ہی نرم اور نہایت ہی سہل شکل میں پیش کی گئی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ لوگ پروانوں کی طرح ان کے اردگرد جمع ہوتے ہیں ۔ آپ کے اردگرد ہر وقت ایک بڑی تعداد جمع رہتی ہے ۔ پھر اس محفل میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ اس جماعت کا قیام جس کے نظام کے تحت ہے وہ اصول شوریٰ پر قائم ہے ۔

حکم دیا جاتا ہے کہ یہ جماعت باہم مشورہ کرکے فیصلے کرے ‘ اگرچہ اس مشورے کے تحت ہونے والے فیصلوں کے نتائج تلخ ہوں۔ پھر شوریٰ کے اصول کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ دانشمندی اور شوریٰ کے ذریعے فیصلے کئے جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے ۔ اور یہ عمل فیصلہ کن ہو ۔ اور شوریٰ اور عزم کے بعد پھر توکل کرکے کام کیا جائے ۔ جب منصوبہ تیارہوجائے ‘ اس پر شوریٰ ہوجائے اور پھر اس فیصلہ کن عمل اور اس کا اجراء (Execution) شروع ہوجائے اور اس کے لئے ہر قسم کا انتظام ہوجائے ‘ تو پھر توکل علی اللہ کا مرحلہ آتا ہے اور پھر قدرت الٰہیہ اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔ پھر مسلمان اپنا کام اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اس لئے کہ تمام امور میں حقیقی فاعل اور حقیقی متصرف تو صرف اللہ کی ذات ہے ۔ حقیقی تصرف اس کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا ۔ تمام نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ ان امور کے ساتھ ساتھ پھر یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت بہت ہی بڑا جرم ہے ۔ اس سے طمع اور لالچ کا اظہار ہوتا ہے۔ جماعت کے اندر افراتفری پیدا ہوتی ہے ۔ اس پیراگراف میں بتایا جاتا ہے جو شخص اللہ کی رضامندی کے لئے کام کرتا ہے اور جو اللہ کی نافرمانی اور غضب کی راہ پر ہے ان دونوں میں بڑا فرق و امتیاز ہے ۔ دونوں کی اقدار اور ترجیحات میں فرق ہوتا ہے ۔ دونوں کے پیمانہ نفع ونقصان میں فرق ہوتا ہے ۔ آخر میں اہل اسلام اور اہل دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ نبی ﷺ کی رسالت تمہارے لئے بڑی نعمت ہے اور تم پر ایک عظیم احسان ہے اور معمولی اموال غنیمت جس کے لئے تم دوڑتے ہو اس قیمتی اثاثہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ نیز اس عظیم خزانے کے حصول کے لئے وہ مصائب کچھ نہیں جو تم پر آئے ہیں ۔ یہ عظیم دولت تو عظیم قربانی کا تقاضا کرتی ہے ۔

ہدایات ومعانی کی یہ فوج ہے جو چند فقروں اور آیات میں دریا کو کوزے میں بند کرکے پیش کردی گئی ہے ۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بڑے نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ اور اہم امور میں ان سے مشورہ کیا کرو ۔ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “

یہاں روئے سخن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے ۔ لیکن یہ بات رسول کی قوم کی کچھ کمزوریوں کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہے کہ پہلے وہ مدینہ سے باہر نکلنے میں بڑے پرجوش تھے ۔ اس کے بعد ان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا ۔ پورے لشکر کا ایک تہائی حصہ تو جنگ سے پہلے ہی واپس ہوگیا۔ اس کے بعد تیراندازوں نے رسول ﷺ کے حکم کی مخالفت کی ۔ انہوں نے مال غنیمت دیکھ کر کمزوری کا مظاہرہ کیا ۔ پھر جب رسول ﷺ کے قتل کی جھوٹی خبر عام ہوگئی تو یہ لوگ کمزور پڑگئے اور الٹے پاؤں پھرگئے ۔ اور ہزیمت قبول کرلی ۔ رسول ﷺ ایک قلیل تعداد کے ساتھ جم گئے ‘ زخم پر زخم آتے رہے اور ساتھی چھوڑگئے ۔ پھر آپ نیچے سے پکارتے ہیں لیکن وہ بھاگے چلے جارہے تھے اور کسی کی طرف ان کی توجہ ہی نہ ہورہی تھی ۔ اس صورت حال میں روئے سخن آپ ﷺ کی طرف ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو تسلی دیتا ہے اور مسلمانوں کو یہ شعور واحساس دیا جاتا ہے کہ ان پر اللہ کا کس قدر عظیم انعام ہے ۔ رسول ﷺ اور مسلمانوں دونوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ یہ مجسم خلق کریم اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے کہ وہ اس کے محور کے اردگرد جمع ہورہے ہیں ۔ اس طرح رسول ﷺ کے دل میں پوشیدہ جذبات رحمت کو جوش میں لایا جاتا ہے اور آپ صبر کرکے ان کی وہ تمام لغزشیں معاف فرماتے ہیں اور دوسری طرف ان کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس رؤف رحیم نبی کی صورت میں ان پر کس قدر انعام ہوا ہے ۔ اور رسول ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان کے لئے عفو و درگزر کا سوال کریں ۔ اور یہ کہ حسب سابق ان کے ساتھ مشورہ کرتے رہیں اور یہ نہ ہو کہ احد میں مشورے کے نتیجے میں جو معرکہ ہوا اور اس میں جو نامطلوب نتائج نکلے ‘ اس کی وجہ سے باہم شوریٰ جیسے اہم کام کو بند کردیں۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ……………” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تنگ خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ “

یہ اللہ کی رحمت تھی جو رسول ﷺ کے بھی شامل حال تھی اور آپ کو ان کے لئے رحیم وشفیق اور نرم خو بنادیا اور خود ان کے لئے بھی رحمت تھی کہ آپ نے بوجہ نرمی مزاج ان سے باز پرس نہ کی ۔ اگر آپ سنگ دل ہوتے ‘ تنگ مزاج ہوتے تو یہ جمعیت منتشر ہوجاتی ‘ لوگوں کے خیالات آپ کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوتے ۔ عوام الناس کو تو ایک پر شفقت بارگاہ درکار ہوتی ہے ‘ جہاں ان کے ساتھ نہایت رعایتی برتاؤ کیا جاتا ہو ‘ جہاں خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا جاتا ہو ‘ جہاں سے انہیں محبت ملتی ہو ‘ جہاں ان کی غلطیوں ‘ کمزوریوں اور نقائص سے درگزر کیا جاتا ہو ۔ جہاں قائد اتنے بڑے دل کا مالک ہو کہ وہ انہیں سب کچھ دے رہا ہو ‘ لیکن ان سے کچھ نہ لے رہا ہو ‘ جہاں قائد اپنے پیروکاروں کی مشکلات اپنے سر لیتا ہو لیکن ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتاہو ‘ اور جہاں پیروکاروں کو ہمیشہ رعایت ‘ اہمیت ‘ خندہ پیشانی ‘ نرمی اور محبت اور رضامندی ملتی ہو اور رسول اکرم کا دل ایسا ہی دل تھا اور آپ کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ بعینہ ایسا تھا۔ کبھی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی پہ غصہ نہیں ہوئے ‘ کبھی بھی انسانی کمزوری کی وجہ سے آپ نے تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ کبھی آپ نے اس دنیا کے مفادات میں سے کسی مفاد کو ‘ اپنی ذات کے لئے مخصوص نہیں کیا ۔ بلکہ آپ کو جو کچھ بھی ملا آپ نے کھلے ہاتھوں سب کچھ ان پر تقسیم کردیا ۔ غرض آپ کے صبر ‘ حلم ‘ ہمدردی ‘ محبت اور شرافت نے ہمیشہ انہیں ڈھانپے رکھا ۔ اور ان میں سے جس نے بھی رسول ﷺ کے ساتھ یکجا زندگی کے کچھ ایام بسرکئے یا آپ کو محض ایک نظر ہی دیکھ لیا وہ آپ ﷺ کا گرویدہ ہوگیا۔ اس لئے ذات باری نے آپ کو ایک عظیم اور رحیم وکریم شخصیت عطافرمائی تھی ۔ اور یہ سب کچھ آپ ﷺ پر بھی اللہ کی رحمت تھی اور دوسرے پہلو سے آپ کی امت پر بھی کرم تھا۔

اس کرم کو یاد دلاکر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو وہ اصولی بات بتاتے ہیں جس پر آئندہ جماعت مسلمہ کی تنظیم ہونا مطلوب تھی وہ یہ کہفَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” اور ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ یہ ایک قطعی نص ہے اور تاکیدی ہے ۔” ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ اسلام یہ اصول نظام حکومت میں لازم قرار دیتا ہے ۔ اگرچہ اس نظام حکومت میں ہیڈآف اسٹیٹ محمد ﷺ ہوں۔ یہ قطعی نص اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی کہ اسلامی نظام مملکت میں شوریٰ ایک اساسی اصول (Principle) ہے۔ اس کے سوا اسلام کا نظام مملکت قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ رہی یہ کہ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہو ‘ شوریٰ کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے ‘ تو یہ ایسے امور ہیں جن کی صورت اور شکل مختلف ہوسکتی ہے۔ ہر علاقے کے حالات کے مطابق مختلف شکل و صورت میں شوریٰ قائم کی جاسکتی ہے ۔ ہر وہ شکل و صورت جس کے ذریعہ شوریٰ کے مقاصد پورے ہوسکیں ۔ یہ نہ ہو کہ محض ایک دکھاوا ہو ۔ جس صورت اور جس شکل میں صحیح اغراض پورے ہوں وہی اسلامی ہوگی۔

یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ جب یہ آیت اتری تھی تو اس سے پہلے مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوگیا تھا اور شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے احد کی جنگ لڑی گئی اور جس کے تلخ نتائج برآمد ہوئے ۔ اس شوریٰ کے انعقاد کی وجہ سے پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ اسلامی صفوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ‘ آراء مختلف ہوئیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمان مدینہ میں پناہ لیتے ہوئے لڑیں ۔ جب دشمن حملہ کرے تو تنگ گلیوں کے اندر اسے آلیاجائے لیکن اس کے مقابلے میں ایک پرجوش گروہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ ان اختلافی آراء ہی کی وجہ سے لشکر اسلام میں تفرقہ ہوگیا اور عبداللہ بن ابی بن السلول کو موقع مل گیا کہ وہ ایک تہائی لشکر کو لے کر واپس ہوجائے ۔ یہ اس وقت ہوا جب دشمن دروازے پر کھڑا تھا۔ یہ ایک بڑا حادثہ تھا ‘ اور اسلامی صفوں میں بظاہر بڑی دراڑ تھی ۔ پھر اس شوریٰ کے نتیجے میں جو فوجی منصوبہ تیار ہوا ‘ وہ عملاً ظاہر ہوگیا کہ وہ کوئی محفوظ جنگی اسکیم نہ تھی ۔ خود جنگی نقطہ نظر سے ۔ اس لئے کہ مدینہ کی دفاعی تاریخ سے یہ منصوبہ مختلف تھا جیسا کہ عبداللہ ابن ابی ابن السلول نے اس مجلس میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بتائی تھی کہ وہ جب بھی مدینہ کے اندر لڑے ہیں کامیاب رہے ہیں اور غزوہ احزاب میں خود مسلمانوں نے بھی جنگ احد کی اسکیم کی تصحیح کرتے ہوئے مدینہ کے اندر لڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ کامیاب بھی رہے ۔ انہوں نے خندق کھودی ۔ دشمن کے مقابلے میں باہر نہ نکلے ۔ اس لئے کہ جنگ احد میں انہوں نے جو تجربہ حاصل کیا تھا اس کا یہی تقاضا تھا۔

خود رسول اللہ ﷺ کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے نتائج خطرناک ہوں گے ۔ آپ کے پاس رویائے صادقہ کے ذریعے بھی کچھ اشارات آچکے تھے ۔ آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ کے خواب بالکل سچے ہوتے ہیں ۔ آپ نے اس کی یہ تاویل پہلے سے کردی تھی کہ آپ کے خاندان میں سے کوئی شہید ہونے والا ہے اور آپ کے ساتھی بھی شہادت پانے والے ہیں ۔ نیز آپ کے خوابوں کی تعبیر کرتے ہوئے مدینہ کو محفوظ ڈھال قرار دیا تھا۔ ان حالات میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ آپ مجلس شوریٰ کے فیصلے کو ویٹو کردیتے لیکن آپ نے بادل ناخواستہ اس فیصلے کو نافذ (Execute) کیا۔ حالانکہ اس کے پیچھے جو مشکلات جو قربانیاں اور جو نقصانات پوشیدہ تھے ‘ انہیں آپ کی پیغمبرانہ بصیرت دیکھ رہی تھی ۔ اس لئے کہ اصول شوریٰ کی بنیاد رکھی جارہی تھی ‘ جماعت کو تعلیم دی جارہی تھی ‘ اور یہ امور ان وقتی خساروں سے زیادہ اہم تھے ۔

حق تو یہ تھا کہ کم ازکم معرکہ احد کے بعد اصول شوریٰ کو ترک کردیا جاتا ۔ کیونکہ اس شوریٰ کی وجہ سے اختلاف ہوئے ‘ اسلامی صفوں میں انتشارپیدا ہوا۔ اور یہ انتشار مشکل حالات میں ہوا۔ اور معرکے کے بعد خوفناک نتائج سامنے آگئے ۔ لیکن اسلام نے ایک امت کو برپا کرنا تھا ‘ اس کی تربیت کرنی تھی ‘ اسے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا تھا ‘ اور اللہ تعالیٰ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی قوم کی بہترین تربیت اور اس کو ایک ہدایت یافتہ بنانے کے لئے صرف اصول شوریٰ پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ اسے شوریٰ کے نتائج برداشت کرنے کے لئے بھی تیار کرنا تھا۔ اس سے غلطیاں سرزد کرانی تھیں ‘ چاہے وہ جس قدر عظیم ہوں تاکہ آئندہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں آگے بڑھے ‘ چاہے یہ نتائج کتنے ہی تلخ ہوں ‘ وہ اپنی تصحیح کرسکے ۔ اور اپنی آراء کے نتائج ‘ اچھے یابرے بھگت سکے ۔ اس لئے کہ جب تک اس سے غلطی سرزد نہ ہوگی ‘ وہ درستی کر ہی نہیں سکتی ۔ اگر کسی نقصان کے نتیجے میں ایک ایسی امت وجود میں آتی ہے ‘ جو تجربہ کار ‘ فہیم اور نتائج کو برداشت کرنے والی ہو تو ان نقصانات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ اور اگر کسی قوم کے نقصانات غلطیوں اور لغزشوں کو محدود کردیا جائے لیکن اسے تجربات سے بھی محروم کردیاجائے تو یہ امت اسی طرح ناتجربہ کار رہے گی جس طرح بچہ ناتجربہ کار رہتا ہے۔ وہ ایک ایک قدم پر نگران کے تحت ہوتا ہے ۔ اس حالت میں بچے کی طرح اس قوم کو مادی نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اور مادی مفادات بھی اسے دستیاب نہیں ہوسکتے ‘ نفسیاتی لحاظ سے اس قوم کو خسارہ ہوتا ہے ‘ اس کے باوجود کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اس کی تربیت ناقص ہوتی ہے اور عملی زندگی کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ اور اس کی مثال اس بچے کی سی ہوتی ہے جسے کوئی چیز ہاتھ میں نہیں دی جاتی۔

اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی قوم تیار کرے جو ایک تجربہ کار قوم ہو۔ اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اسے بشریت کی ہدایت یافتہ قیادت کے لئے تیار کیا جائے ۔ اس لئے یہ ضروری تھا کہ یہ امت ایک بالغ امت ہو اور اس کی عملی زندگی میں اسے گرنے پڑنے سے بچانے کے لئے کوئی مددگار نہ دیا جائے تاکہ وہ تجربہ کار ہو۔ اور یہ تجربہ اسے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں حاصل ہو۔ اور آپ کی نگرانی میں ہو۔ اگر ایک بالغ النظر قیادت کی وجہ سے یہ مناسب ہوتاق کہ اب شوریٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اور امت کی تربیت ضروری نہ ہوتی اور خطرناک واقعات میں اس کے ساتھ مشورے اور اس کی آراء پر چلنے کی ضرورت نہ ہوتی مثلاً معرکہ احد جیسے مراحل میں ‘ کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا ‘ اس وقت امت مسلمہ ایک نوخیز امت تھی ‘ ہر طرف سے خطرات میں گھری ہوئی تھی ‘ دشمن چار سوگھات میں تھے ۔ اس لئے ایسے حالات میں اگر مناسب ہوتا کہ بالغ نظر قیادت سب فیصلے خود کرتی اور اسے حق بھی تھا اور ایسے حالات میں شوریٰ کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ حالات خطرناک تھے ‘ اور پھر اس وقت حضرت محمد ﷺ بھی موجود تھے اور وحی بھی آرہی تھی تو ایسے حالات میں امت کو حق شوریٰ سے محروم کیا جاسکتا تھا ۔ اور خصوصاً ان حالات میں جبکہ احد میں تمام ترتلخ واقعات شوریٰ ہی کی وجہ سے ظاہر ہوئے ‘ حالانکہ اس وقت یہ امت نہایت ہی خطرناک اور ہنگامی حالات سے گزررہی تھی لیکن رسول ﷺ کے وجود مبارک کے باوجود ‘ وحی الٰہی کے آنے اور آتے رہنے کے باوجود ‘ اور اس قسم کے تلخ نتائج شوریٰ ظہور پذیر ہونے کے باوجود اور خطرناک اور ہنگامی حالات موجودہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حق شوریٰ کو ختم نہ فرمایا۔ چاہے جس قدر نقصان ہوجائے ‘ چاہے اسلامی افواج میں جس قدر اختلاف وافتراق پیدا ہوجائے ‘ چاہے اس کے جس قدر تلخ نتائج ظہور پذیر کیوں نہ ہوں ‘ چاہے مدینہ کے اردگرد کے حالات اس نوخیز امت کے لئے بہت خطرناک اور ہنگامی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور ایک بالغ اور تجربہ کار امت کے بروئے کار لانے کے مقصد عظیم کے مقابلے میں ضروری واقعات ہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ عملاً امت تجربہ کار ہو ‘ اچھی یا غلط رائے کے نتائج ہضم کرنے کے اہل ہو ۔ کسی رائے اور عمل کے نتائج کا ادراک کرسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوئی : فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ‘ ان کو شریک مشورہ رکھو۔ “

فیصلہ یہ کیا گیا کہ خطرناک ترین حالات میں بھی اس اصول ‘ اصول مشورہ کا بحال رکھنا ضروری ہے ۔ اور احد جیسے حالات میں اور ان کے بعد جیسے حالات میں بھی اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ کے لئے کوئی بہانہ نہ بنائے کہ چونکہ مشورہ کے بعد بعض برے نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں اس لئے ہم اس اصول کو ساقط کرتے ہیں ۔ مثلاً احد کے حالات اس کی بہترین مثال ہیں ۔ کہ دشمن دروازے پر دستک دے رہا تھا لیکن مشورہ بھی جاری تھا۔ اس لئے ایک بالغ النظر امت تب ہی پیدا ہوسکتی ہے جب اصول مشورہ لازمی ہو ‘ اور پوری قوم کی بالغ النظری وہ قیمتی مقصد ہے جس کے لئے چھوٹے بڑے خسارے برداشت کئے جاسکتے ہیں ۔

لیکن اسلامی نظام کی سیاسی تصویر اور تشکیل اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم اس آیت کے اگلے حصے پر غور نہ کریں۔ یہ بات عیاں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مجلس شوریٰ کے نتیجے ہمیشہ قابل ترجیح اور دانشمندانہ فیصلہ ہوجائے ۔ آخرکارفیصلہ یہی ہوگا کہ کسی ایک بات پر توکل علی اللہ کرکے عمل شروع کردیاجائے۔ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ……………” اور جب کوئی آخری فیصلہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “

شوریٰ کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف آراء سامنے آجائیں اور مجلس میں جو آراء پیش ہوں ان سے ایک کو قبول کرلیا جائے ۔ جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو اس وقت شوریٰ کا کام ختم ہوجاتا ہے اور اب فیصلے کے نفاذ (Execution) کا دور شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس تنقیدی مرحلے کے لئے بڑے پختہ عزم اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے ۔ اس مرحلے پر اللہ پر بھروسے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور معاملہ اب اللہ کے ہاں چلا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر کے سپرد ہوجاتا ہے ۔ اب یہ اللہ کی مشیئت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ اور نتائج ظاہر کرتی ہے ۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ نے اپنے ربانی انداز میں شوریٰ کا سبق پڑھایا۔ امت کو دکھایا کہ اظہار رائے کا انداز کیا ہوتا ہے اور فیصلے کے بعد اس کے نتائج کو کس طرح برداشت کیا جاتا ہے خصوصاً خطرناک حالات میں ۔ اسی طرح رسول ﷺ نے امت کے فیصلے ‘ کسی شورائی فیصلے کی تنفیذ کے سلسلے میں بھی سبق دیا۔ اور توکل علی اللہ کا انداز بھی سکھایا۔ اور اپنے آپ کو تن بتقدیر اللہ کے حوالے کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ۔ حالانکہ واقعات کے رونما ہونے کا آپ کو اچھی طرح اندازہ تھا۔ واقعات کا رخ آپ کے علم میں تھا لیکن آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے فیصلے کی تنفیذ فرمادی ۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور زرہ اور خود زیب تن فرمائی ۔ اور آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں ؟ آپ اور آپ کے صحابہ کو کن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہونا ہے ۔ یہاں تک کہ جب باہر لڑنے والے پرجوش لوگوں نے دوبارہ مشورہ دیا اور موقعہ فراہم کردیا کہ فیصلے کو بدل دیاجائے اور نبی ﷺ کے چہرہ مبارک کو پڑھ کر انہوں نے محسوس کرلیا کہ ان کے جوش و خروش نے رسول ﷺ کو باہر لڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ حالانکہ آپ ایسا نہ چاہتے تھے اور انہوں نے دوبارہ اختیار آپ کو دے دیا کہ آپ مدینہ کے اندر لڑیں یا باہرلڑیں تو آپ نے اس پر دوبارہ غور کرنے کے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ آپ انہیں ایک سبق دینا چاہتے تھے ۔ آپ شوریٰ (Parliament) کے فیصلوں کی مثال قائم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ چاہتے تھے کہ جب فیصلہ پختہ اور آخری ہوجائے تو پھر دوبارہ غور کے بجائے اس کا نفاذ چاہئے ۔ اللہ پر توکل کرنا چاہئے جو ہو ‘ سو ہو۔ آپ یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ شوریٰ کا ایک ہی وقت ہوتا ہے ۔ فیصلے کے بعد تردد اور ڈانواں ڈول نہیں ہونا چاہئے ۔ دوبارہ غور کرکے از سر نوفیصلہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ اس طرح کوئی بات آخری نہ رہے گی ‘ فیصلے بار بار بدلیں گے اور دوبارہ غور کی اگر مثال قائم ہوجائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہوگا ۔ بس شوریٰ (Parliament) کا فیصلہ ہو اور پھر نفاذ ہو اور توکل علی اللہ ہو اس لئے کہ اسے اللہ پسند کرتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ……………” بیشک اللہ تعالیٰ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔ “

اور وہ صفت جسے اللہ پسند کرتے ہیں اور اس صفت سے متصف لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں تو اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ صفت ان کے اندر بدرجہ کمال پائی جائے اور وہ اس کے لئے بےحد حریص ہوں بلکہ وہ مومنین کی صفت ممتاز ہونی چاہئے ۔ توکل علی اللہ اور سپردم بتومایہ خویش را ‘ اسلامی تصور حیات اور اسلامی زندگی کا خط توازن ہے ۔ اب معاملہ اس کائنات کی عظیم حقیقت کے سپرد ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ آخری فیصلہ اللہ کے ہاں ہوگا ‘ اب وہ ہوگا جو وہ چاہے ۔

احد کے عظیم تجربات میں سے ایک عظیم تجربہ اور یہ ایک عظیم سبق تھا۔ یہ سبق امت مسلمہ کے لئے ہر اس دور اور ہر زمانے میں ایک قیمتی سرمایہ ہے ۔ یہ صرف ایک دور ہی کی بات نہیں ہے بلکہ ہر دور کے لئے ہے ۔

آیت 159 فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ ج۔اس سورة مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو ‘ صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں ‘ جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں ‘ ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں ‘ ان کی عزت نفس بھی ہے ‘ لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے ‘ سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں ‘ بلکہ رضاکار volunteers ہیں۔ آنحضور ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ ﷺ ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ r؂ کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی !فَاعْفُ عَنْہُمْ چونکہ بعض صحابہ رض سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا ‘ لہٰذا آنحضور ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ ﷺ ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی ‘ بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط۔مشورے کے بعد جب آپ ﷺ ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔ غزوۂ احد سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے مشورہ کیا تھا ‘ اس وقت کچھ لوگوں کی رائے وہی تھی جو آنحضور ﷺ کی رائے تھی ‘ یعنی مدینہ میں محصور ہو کر جنگ کی جائے۔ لیکن کچھ حضرات نے کہا ہم تو کھلے میدان میں جنگ کرنا چاہتے ہیں ‘ ہمیں تو شہادت کی موت چاہیے تو حضور ﷺ نے ان کی رعایت کی اور باہر نکلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس کے فوراً بعد جب آپ ﷺ حضرت عائشہ رض کے حجرے سے برآمد ہوئے تو خلاف معمول آپ ﷺ نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ اس سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ سخت معاملہ پیش آنے والا ہے۔ چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ حضور ﷺ ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں ‘ جو آپ ﷺ کی رائے ہے آپ اس کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد جنگ کیے بغیر انہیں اتار دے۔ یہ آیت گویا نبی اکرم ﷺ کے طرز عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔

اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کردیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ما صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت (فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ) 4۔ النسآء :155) میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے آیت (عما قلیل) میں اسی طرح یہاں ہے، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم دل ہوا ہے، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں یہ حضور ﷺ کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے آیت (لقد جاء کم) الخ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو امامہ باہلی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ بعض مومن وہ ہیں جن کے لئے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے، (فظاً) سے مراد یہاں سخت کلام ہے۔ کیونکہ اس کے بعد (غلیظ القلب) کا لفظ ہے، یعنی سخت دل، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہوجاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنادیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لئے محبت اور نرمی عطا فرمائی، اور تاکہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی صفوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام سخت دل بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگذر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا، چناچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگذر کر، ان کے لئے استغفار کر، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر، اسی لئے حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرو، اسی لئے حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لئے مشورہ لیا اور صحابہ نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک انعماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ ؑ کے صحابیوں کی طرح کہہ دیں کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے، اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو ؟ اور منذر بن عمرو نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہئے چناچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کرلی جائے ؟ تو حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کرلیا اور مصالحت چھوڑ دی، اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں ؟ تو حضرت صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چناچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانو مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے اور آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی جدائی کے لئے حضرت علی اور حضرت اسامہ سے مشورہ لیا، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی حضور ﷺ صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھی، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت میں حضرت ابوبکر و عمر سے مشورہ کرنے کا حکم ہے (حاکم) یہ دونوں حضور ﷺ کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں (کلبی) مسند احمد میں ہے رسول ﷺ نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہوجائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا، حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا (ابن مردویہ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے، ابو داؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے، امام ترمذی علیہ الرحمہ اسے حسن کہتے ہیں، اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہئے بھلی بات کا مشورہ دے (ابن ماجہ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گذرا ہے کہ آیت (ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ) 3۔ آل عمران :26) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہئے۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں کے کہا شاید رسول اللہ ﷺ نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری (ترمذی) اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے حضور ﷺ پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت (وما کان) اتری، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار ﷺ پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کرسکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپالے اور امت تک نہ پہنچائے۔ یغل کے معنی اور خائن یغل کو " یے " کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں، چناچہ حضرت قتادہ اور حضرت ربیع سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری (ابن جریر) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بابت کچھ سخت وعید ہے چناچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمین دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کرلے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے، بیوی نہ ہو تو کرسکتا ہے، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہوگا، یہ حدیث ابو داؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے، ابن جریر کی حدیث میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہہ دوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تجھے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہوگا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد ﷺ اے محمد ﷺ میں کہوں گا میں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کرچکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہوگا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہہ دوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لئے ہوئے حاضر ہوگا اور کہہ رہا ہو یا محمد ﷺ یا محمد ﷺ میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتاچکا تھا، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے ابن البتیہہ کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی ﷺ منبر پر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے تحفے کا یہ اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہوگا۔ گائے ہے تو بول رہی ہوگی بکری ہے تو چیخ رہی ہوگی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے، ترمذی میں ہے حضرت معاذ بن جبل میں ؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لئے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے حضور ﷺ سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کردینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہوچکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہوگا، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری حضرت سعید بن عبادہ ؓ کھڑے ہو کر کہنے لگے حضور ﷺ میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں، فرمایا کیوں ؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے، یہ حدیث مسلم اور ابو داؤد میں بھی ہے حضرت رافع فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چناچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے۔ (مسند احمد) حضرت عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہوگی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے (مسند احمد) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے، حضرت ابو مسعود انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ ﷺ نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابو مسعود جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو، میں نے کہا حضور ﷺ پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں (ابو داؤد) ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت (ومن یغلل یات بما غل یوم القیامتہ) مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام آنے لگے اور کہنے لگے فاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کرلی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کردو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چناچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کردی، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں، ابن جریر میں ہے کہ ایک دن حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن انیس سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے، ابن جریر میں حضرت سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لئے حضور ﷺ نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو حضرت سعد کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چناچہ حضور ﷺ نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا، مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسلم بن عبدالملک کے ساتھ روم کی جنگ میں حضرت سالم بن عبداللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردار لشکر نے حضرت سالم سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو ، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو ، چناچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا حضرت سالم سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کردو، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے، امام علی بن مدینی اور امام بخاری وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے، امام دارقطنی فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت سالم کا اپنا فتویٰ ہے، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے، حضرت حسن بھی یہی کہتے ہیں حضرت علی فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے، ابوحنیفہ مالک شافعی اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے، امام بخاری فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کردیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا، واللہ اعلم، مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریفوں کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو حضرت ابن مسعود فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ ﷺ کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ ﷺ کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں ؟ امام وکیع بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں، ابو داؤد میں ہے کہ آنحضور ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ حضرت بلال ؓ کو حکم دیتے ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے حضرت بلال کی منادی سنی تھی ؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا ؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا۔ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے مستحق ہونے والے اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہوچکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں، وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت (وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا) 6۔ الانعام :32) ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہوگی۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کرسکیں پوچھ گچھ کرسکیں ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کرسکیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً) 30۔ الروم :21) یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ) 41۔ فصلت :6) کہہ دے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے، اور فرمان ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ) 25۔ الفرقان :20) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے آیت (يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا) 6۔ الانعام :130) یعنی اے جنو اور انسانو کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں، پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے۔ اس رسول ﷺ کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے۔

آیت 159 - سورة آل عمران: (فبما رحمة من الله لنت لهم ۖ ولو كنت فظا غليظ القلب لانفضوا من حولك ۖ فاعف عنهم واستغفر لهم...) - اردو