نوامیس فطرت اور انسانی تاریخ میں سنت الٰہیہ کی طرف اشارے کے بعد لوگوں کو پکارا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے ان واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں۔ هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ……………” یہ لوگوں کے لئے ایک صرف اور صریح تنبیہ ہے ۔ جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لئے ہدایت ونصیحت ۔ “ یہ تمام انسانوں کے لئے ایک بیان ہے ۔ پس یہ انسانیت کے لئے ایک دور رس انقلاب ہے اور لوگ اس انقلاب سے اس وقت تک بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک یہ بیان نہ کیا جائے ۔ لیکن اس بیان سے استفادہ صرف ایک خاص گروہ ہی کرسکے گا ۔ صرف یہی لوگ عبرت ونصیحت حاصل کرسکیں گے ۔ صرف یہی لوگ بہرہ ور ہوں گے ۔ کون المتقون۔
یہ حقیقت ہے کہ کلمہ ہدایت کو شرف قبولیت صرف دل مومن بخشتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ ہدایت کے لئے ہر وقت کھلا ہوتا ہے اور فصیح وبلیغ نصیحت سے استفادہ متقی دل ہی کرسکتا ہے ‘ جو ہر وقت کلمہ ہدایت سنتے ہی دھڑکنے لگتا ہے اور قبولیت کے لئے آمادہ ہوتا ہے ۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ صرف حق و باطل کا علم کسی کو فائدہ دے یا ہدایت وضلالت کا صرف علم مفید ہو۔ سچائی اپنی فطرت کے اعتبار سے اس قدر واضح ہوتی ہے کہ اس کے لئے وہ کسی طویل کلام وبیان کی محتاج ہی نہیں ہوتی ۔ دراصل جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ قبول حق کا داعیہ ہوتا ہے اور لوگوں کو حق کے قبول کرنے کا راستہ معلوم نہیں ہوتا۔ سچائی کی رغبت اور اس کے قبول کرنے کے راستے صرف اس صورت میں مل سکتے ہیں جب کوئی دل ایمان ویقین سے بھرجائے اور ایمان اس وقت محفوظ رہتا ہے جب اس کی پشت پر تقویٰ اور اللہ خوفی موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس قسم کی تاکیدیں کی گئی ہیں کہ اس کتاب میں جو سچائی ‘ جو ہدایت ‘ جو روشنی ‘ جو وعظ اور جو عبرت آموز باتیں بیان کی گئی ہیں وہ مومنین اور متقین ہی کے مفید مطلب ہیں ۔ اس لئے کہ ایمان اور تقویٰ دل کے دریچے ہدایت ‘ روشنی اور عبرت ونصیحت کے لئے کھول دیتے ہیں ۔ صرف ایمان وتقویٰ کے بل بوتے پر ہی ایک انسان راہ حق کی تکالیف برداشت کرسکتا ہے ۔ یہ اصلی بات ہے اور اس مسئلے کی یہی حقیقت ہے ۔ صرف علم اور معلومات کے ساتھ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کئی ایسے لوگ دیکھے جاسکتے ہیں کہ وہ حق کے علم ومعرفت کی ایک بڑی تعداد رکھتے ہوئے بھی باطل کے پرستار ہوتے ہیں اور اس میں گم گشتہ ہوتے ہیں ۔ محض اس لئے کہ ان کی نفسانی خواہشات ان پر قابو پائے ہوئے ہوتی ہیں جن کے مقابلے میں علم ومعرفت بےبس ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ وہ ان مشکلات کو دیکھ کر گھبراجاتے ہیں جو حاملین حق اور داعیان حق کا ہمیشہ استقبال کرتی ہیں۔