اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 134 الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ یہاں بھی تقابل ملاحظہ کیجیے کہ سود کے مقابلے میں انفاق کا ذکر ہوا ہے۔وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ درجۂ احسان ہے ‘ جو اسلام اور ایمان کے بعد کا درجہ ہے۔
آیت 135 وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف یہ مضمون سورة النساء میں آئے گا کہ کسی مسلمان شخص سے اگر کوئی خطا ہوجائے اور وہ فوراً توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اللّٰہُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ یعنی ایسا نہیں کہ گناہ پر گناہ کرتے چلے جا رہے ہیں کہ موت آنے پر توبہ کرلیں گے۔ اس وقت کی توبہ توبہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان سے اگر جذبات کی رو میں بہہ کر یا بھول چوک میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ ہوش آنے پر اللہ کے حضور گڑگڑائے ‘ عزم مصمم کرے کہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا ‘ اور پوری پشیمانی کے ساتھ صمیم قلب سے اللہ کی جناب میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
آیت 137 قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے تو راستے میں قوم ثمود کا مسکن بھی آتا تھا اور وہ بستیاں بھی آتی تھیں جن میں کبھی حضرت لوط علیہ السلام نے تبلیغ کی تھی۔ ان کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔
آیت 139 وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پختہ وعدہ ہے کہ تم ہی غالب و سربلند ہو گے ‘ آخری فتح تمہاری ہوگی ‘ بشرطیکہ تم مؤمن ہوئے۔ یہ آیت ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ آج دنیا میں جو ہم ذلیل ہیں ‘ غالب و سربلند نہیں ہیں ‘ تو نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ یہ کہ ہمارے اندر ایمان نہیں ہے ‘ ہم حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں وہ محض ایک موروثی عقیدہ ہے ‘ یقین قلبی اور conviction والا ایمان نہیں ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ امت کے اندر حقیقی ایمان موجود ہو اور پھر بھی وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو۔
آیت 140 اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ط اہل ایمان کو غزوۂ احد میں اتنی بڑی چوٹ پہنچی تھی کہ ستر صحابہ رض ‘ شہید ہوگئے۔ ان میں حضرت حمزہ رض بھی تھے اور مصعب بن عمیر رض بھی۔ انصار کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان جب مدینہ واپس آئے تو ہر گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اس وقت تک میت پر بین کرنے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ عورتیں مرثیے کہہ رہی تھیں ‘ بینَ کر رہی تھیں ‘ ماتم کر رہی تھیں۔ اس حالت میں خود آنحضور ﷺ کی زبان مبارک سے الفاظ نکل گئے : لٰکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِی لَہٗ ! 1 ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والیاں بھی نہیں ہیں ! کیونکہ مدینہ میں حضرت حمزہ رض کی کوئی رشتہ دار خواتین نہیں تھیں۔ حمزہ رض تو مہاجر تھے۔ انصار کے گھرانوں کی خواتین اپنے اپنے مقتولوں پر آنسو بہا رہی تھیں اور بین کر رہی تھیں۔ پھر انصار نے اپنے گھروں سے جا کر خواتین کو حضرت حمزہ رض کی ہمشیرہ حضرت صفیہ رض کے گھر بھیجا کہ وہاں جا کر تعزیت کریں۔ بہرحال دکھ تو محمد ‘ ٌ رسول اللہ ﷺ کو بھی پہنچا ہے۔ آخر آپ ﷺ کے سینے کے اندر ایک حسّاس دل تھا ‘ پتھر کا کوئی ٹکڑا تو نہیں تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرما رہا ہے کہ اتنے غمگین نہ ہو ‘ اتنے ملول نہ ہو ‘ اتنے دل گرفتہ نہ ہو۔ اس وقت اگر تمہیں کوئی چرکالگا ہے تو تمہارے دشمن کو اس جیسا چرکا اس سے پہلے لگ چکا ہے۔ ایک سال پہلے ان کے بھی ستر افراد مارے گئے تھے۔ ّ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ج یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ‘ ہیں۔یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کسی قوم کو ہم ایک سی کیفیت میں نہیں رکھتے۔وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اگر امتحان اور آزمائش نہ آئے ‘ تکلیف نہ آئے ‘ قربانی نہ دینی پڑے ‘ کوئی زک نہ پہنچے تو کیسے پتا چلے کہ حقیقی مؤمن کون ہے ؟ امتحان و آزمائش سے تو پتا چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہا۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے ‘ دیکھنا چاہتا ہے ‘ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کس نے اپنا سب کچھ لگا دیا ؟ کس نے صبر کیا ؟وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ ط۔انہیں اپنی گواہی کے لیے قبول کرلے۔وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے کفار کی مدد کی ہے اور ان کو پسند کیا ہے معاذ اللہ !