سورة آل عمران: آیت 137 - قد خلت من قبلكم سنن... - اردو

آیت 137 کی تفسیر, سورة آل عمران

قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ

اردو ترجمہ

تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad khalat min qablikum sunanun faseeroo fee alardi faonthuroo kayfa kana AAaqibatu almukaththibeena

آیت 137 کی تفسیر

اس غزوہ میں مسلمانوں نے سخت چوٹ کھائی تھی ۔ وہ ایک بڑی تعداد میں قتل ہوئے تھے اور انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ۔ انہیں عظیم روحانی اور جسمانی اذیت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ ان میں سے ستر صحابی قتل ہوگئے تھے ‘ رسول کریم ﷺ کے دانت مبارک شہید ہوگئے تھے ۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تھا۔ آپ ﷺ کو مشرکین نے گھیرے میں لے کر تنگ کیا اور صحابہ کرام کو گہرے زخم آئے ۔ اس شکت کی وجہ سے اہل اسلام سخت جھنجھوڑ دیئے گئے ۔ اس لئے یہ ایک ایسا صدمہ تھا جو جنگ بدر کی عجیب فتح کے بعد شاید بالکل ہی غیر متوقع تھا ۔ یہاں تک کہ جب اہل اسلام کو یہ حادثہ پیش آیا تو وہ بےساختہ کہنے لگے ‘ یہ سب کچھ کیسے ہوا ‘ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایسے حالات سے دوچار ہوسکتے ہیں ؟

یہاں قرآن کریم اہل ایمان کو اس کرہ ارض پر سنت الٰہی کی طرف متوجہ کرتا ہے ‘ یہاں انہیں وہ اصول یاد دلایا جاتا ہے جس کے مطابق اس کرہ ارض پر واقعات کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ یہ واقعات بالکل انوکھے نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ اس کائنات میں انسانی زندگی کے لئے جو نوامیس فطرت وضع کئے گئے ہیں ‘ یہاں زندگی ان کے مطابق چل رہی ہے ۔ ان سے تخلف بالکل ممکن نہیں ہے اور نہ یہاں واقعات اتفاقیہ بغیر کسی اصول کے وقوع پذیر ہوتے ہیں جبکہ یہ واقعات نوامیس فطرت کے عین مطابق ہوتے ہیں ‘ اگر وہ ان نوامیس فطرت کو پڑھیں ‘ ان کے مغز تک پہنچیں تو انہیں بآسانی وہ حکمت معلوم ہوجائے گی جو ان واقعات کی پش پر تھی ‘ اور پھر انہیں وہ مقاصد بھی واشگاف طور پر نظر آجائیں جو ان واقعات کی تہہ میں پنہاں تھے ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ وہ نظام کس قدر پختہ ہے جس کے مطابق یہ واقعات واحداث ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ نیز ان کی تہہ میں جو حکمت پوشیدہ تھی اس کے بارے میں بھی انہیں اچھی طرح اطمینان ہوجائے اور وہ اچھی طرح معلوم کرلیں کہ گزشتہ واقعات کی روشنی میں ان کے لئے آئندہ لائن کیا ہے ۔ اب اس روشنی کے آجانے کے بعد وہ یہ توقع کریں گے کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لئے ایسے واقعات ہونے چاہئیں اور انہیں فتح اور نصرت حاصل ہونی چاہئے ۔ بغیر اس کے کہ وہ فتح ونصرت کا سامان مہیا کریں ‘ جن میں سے پہلا سبب اللہ اور رسول اللہ اطاعت امر ہے۔

وہ سنت الٰہیہ کیا ہے جس کی طرف سیاق کلام انہیں یہاں متوجہ کررہا ہے ؟ وہ ان لوگوں کا انجام ہے جنہوں نے پوری انسانی تاریخ میں حق کو جھٹلایا ہے اور یہ کہ دنیا میں لوگوں کے شب وروز بدلتے رہتے ہیں ۔ لوگوں کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے تاکہ ان کی روح خالص ہوجائے ۔ ان کی قوت صبر کو آزمایا جاتا ہے اور یہ آزمائش مصائب وشدائد کے پہاڑ توڑ کر کی جاتی ہے ۔ اور یہ کہ جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں آخر کار انہیں فتح نصیب ہوتی ہے اور جو لوگ کفر کا رویہ اختیار کرتے ہیں انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔

ان آیات میں سنن الٰہیہ کے بیان کے درمیان اہل ایمان کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ مشکلات کو انگیز کریں ‘ شدید حالات میں ایک دوسرے کے غم خوار ہوں اور انہیں جو چوٹ لگی ہے ‘ اس پر صبر کریں ‘ اس لئے کہ چوٹ صرف انہیں نہیں آئی بلکہ ان کے دشمنوں نے بھی تو ان کے برابر چوٹ کھائی حالانکہ مومنین ان کے مقابلے میں بلند نظریات کے حاملین ہیں ۔ وہ ان کے مقابلے میں راہ ہدایت پر ہیں اور ان کے مقابلے میں ان کا نظام زندگی زیادہ بہتر ہے ۔ اور ان مشکلات کے بعد انجام کار فتح و کامرانی بھی اہل ایمان کو نصیب ہونے والی ہے ۔

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الأرْضِ فَانْظُروا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (137) هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ

” تم سے پہلے بہت سے دور گزرچکے ہیں ‘ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام وہدایات کو) جھٹلایا ۔ یہ لوگوں کے لئے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لئے ہدایت ونصیحت ۔ “

قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ انسانیت کے حاضر کو اس کے ماضی کے ساتھ جو ڑدیتا ہے ۔ اور ماضی اور حال کو باہم مربوط کرکے انسانیت کے مستقبل کی فکر کرتا ہے ۔ عرب معاشرہ جو قرآن کے مخاطبین اول تھے ان کی زندگی کوئی زندگی نہ تھی ‘ ان کے ہاں کوئی علمی ذخیرہ نہ تھا اور اسلام سے پہلے ان کے ہاں سرمایہ تجربات بھی نہ تھا ‘ تاکہ تحریک اسلامی ان کے سامنے خود ان کے ذخیرہ ثقافت سے کوئی مکمل نمونہ پیش کرتا ۔ یہ تو اسلام اور اسلام کی کتاب قرآن تھی جس نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ اس نے عربوں کو حیات جدید سے نوازا اور ان کو ایک ایسی امت کی شکل دی جس نے ادوار مابعد میں پوری دنیا کی قیادت کی۔

وہ قبائلی نظام معاشرت جس کے سایہ میں عرب زندگی گزار رہے تھے ‘ یہ اس قابل ہی نہ تھا کہ وہ ان کی فکر کو اس قدر وسعت دے دیتا کہ وہ جزیرۃ العرب کی زندگی کے واقعات کو کوئی منطقی ربط دے دیتے چہ جائیکہ وہ اس کرہ ارض میں بسنے والی تمام انسانیت اور اس کے حادثات اور واقعات کے درمیان کوئی منطقی ربط تلاش کرتے اور پورے کرہ ارض کے اندر پیش آنے والے عالمی واقعات اور اس کائنات کے اندر جاری نوامیس فطرت اور ان کے مطابق جاری وساری انسانی زندگی کے اندر ربط کی تلاش کی بارے میں تو وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے ۔

قرآن کریم اور اسلام کے نتیجے میں عربوں کے اندر جو علمی اور ثقافتی انقلاب رونماہوا ‘ وہ ایک دور رس انقلاب ہے ‘ یہ کوئی ایسا انقلاب نہ تھا کہ کسی معاشرے کے اندر تدریج کے ساتھ علمی وثقافتی ترقی کی وجہ سے رونما ہوا اور نہ یہ انقلاب اس وقت کی رائج اور چلتی ہوئی زندگی کے تقاضوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے رونما ہوا۔ بلکہ یہ عظیم انقلاب خالص اسلامی نظریہ حیات کے نتیجے میں رونماہوا بلکہ یہ عقیدہ ان کے لئے یہ تحفہ لایا اور انہیں اٹھاکر اسلامی نظریہ حیات کی سطح تک بلند کیا ۔ اور یہ سب کام اس نظریہ حیات نے صرف ربع صدی کے قلیل عرصہ میں سر انجام دیا ۔ جبکہ عربوں کے ارد گرد بسنے والی ترقی یافتہ اور علمی سرمایہ سے مسلح اقوام افکار عالیہ کے اس مقام تک صدیوں بعد پہنچ پائیں اور کئی نسلیں گزرنے کے بعد ان اقوام نے معلوم کیا کہ اس کائنات کے اندر کچھ قوانین فطرت عمل پیرا ہیں اور یہ ان اٹل فطری نوامیس کے تحت چل رہی ہیں اور جب انہوں نے ان قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کو دریافت کرلیا تو وہ اس حقیقت تک پھر بھی نہ پہنچ سکیں کہ ان اٹل قوانین کے اوپر ایک اٹل مشیئت الٰہیہ بھی ہے جو ان قوانین فطرت کی قید میں بھی مقید نہیں ہے ۔ اور قوانین فطرت کے بعد بھی تمام امور کے اندر اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ رہی امت مسلمہ تو اس نے روز اول سے اس کا یقین حاصل کرلیا تھا۔ اس کائنات کے بارے میں اس کا تصور بہت وسیع ہوگیا تھا ‘ اور اس کے احساس اور شعور کے اندر قوانین فطرت کے ثبات اور اللہ تعالیٰ کی بےقید مشیئت کے اندر ایک توازن قائم ہوچکا تھا۔ اس لئے کہ اس کی عملی زندگی تو قوانین فطرت کے اٹل اصولوں پر قائم تھی لیکن اس کے بعد اسے یہ اطمینان بھی حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت بھی بےقید ہے ۔ فرماتے ہیں :

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ……………” تم سے پہلے بہت سے دور گزرچکے ہیں “ ان ادوار میں نوامیس فطرت کے مطابق رونما ہوئے تو تمہارے دور میں بھی ایسے ہی واقعات رونما ہوں گے ۔ اس لئے امم سابقہ کی تاریخ میں تمہاری جیسی صورتحال سے جو اقوام دوچار تھیں اور ان کے سامنے کچھ حقائق رونما ہوئے تو ایسے ہی نتائج کے لئے تم بھی تیار رہو۔

فَسِيرُوا فِي الأرْضِ……………” زمین میں چل پھر کر دیکھ لو “ اس لئے کہ پورا کرہ ارض ایک سیارہ ہے ۔ اس سیارے میں انسانی زندگی رواں دواں ہے ۔ یہ کرہ ارض اور اس کے اندر زندگی ایک کھلی کتاب ہے ۔ بصارت اور بصیرت دونوں کے لئے اس میں وافر سامان موجود ہے ۔

فَانْظُروا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ……………” دیکھ لو کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام وہدایات کو ) جھٹلایا۔ “ یہ وہ انجام ہے جس کے آثار کرہ ارض پر ہر جگہ قابل مشاہد ہیں ۔ نیز ان کی تاریخ میں وہ آثار و شواہد بعد میں آنے والوں نے ریکارڈ کردیئے ہیں ۔ قرآن کریم نے ان سنن وسیر کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ہاں نقل کیا ہے ۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ان کا ذکر ہے اور بعض جگہ واقعات کی جگہ ‘ ان کا زمانہ اور واقعات کے اشخاص اور کرداروں کا تذکرہ بھی تفصیل سے کیا ہے ۔ جبکہ بعض جگہ صرف اشارات سے کام لیا گیا ہے اور زمان ومکان کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ مجملاً واقعہ بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی ایک اجمالی اشارہ اس انسانی تاریخ کی طرف کیا گیا ہے اور اس سے ایک مجمل اور مجرد طریقہ نکالا گیا ہے ‘ وہ یہ کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے والوں کا جو انجام کل ہوا تھا وہی انجام آج بھی مکذبین کے لئے طے ہوچکا ہے ۔ اور کل بھی ان کا یہی انجام ہوگا۔ یہ اشارہ اس لئے کیا گیا ہے کہ جماعت مسلمہ اپنے انجام کے بارے میں مطمئن اور یکسو ہوجائے اور اس بات سے متنبہ ہوجائے کہ وہ مکذبین کے ساتھ پھسل نہ جائے ۔ اس لئے کہ اس وقت ایسے حالات موجود تھے جن میں اس یقین دہانی کی ضرورت تھی نیز ایسے حالات بھی موجود تھے جن میں مسلمانوں کو لغزش کھانے سے ہوشیار کرنے کی ضرورت تھی ۔ اور آنے والے سیاق کلام میں ان حالات پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے ۔

آیت 137 قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے تو راستے میں قوم ثمود کا مسکن بھی آتا تھا اور وہ بستیاں بھی آتی تھیں جن میں کبھی حضرت لوط علیہ السلام نے تبلیغ کی تھی۔ ان کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔

شہادت اور بشارت چونکہ احد والے دن ستر مسلمان صحابی شہید ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دیندار لوگ مال و جان کا نقصان اٹھاتے رہے لیکن بالآخر غلبہ انہی کا ہوا تم اگلے واقعات پر ایک نگاہ ڈال لو تو یہ راز تم پر کھل جائے گا۔ اس قرآن میں لوگوں کیلئے اگلی امتوں کا بیان بھی ہے اور یہ ہدایت و وعظ بھی ہے۔ یعنی تمہارے دلوں کی ہدایت اور تمہیں برائی بھلائی سے آگاہ کرنے والا یہی قرآن ہے، مسلمانوں کو یہ واقعات یاد دلا کر پھر مزید تسلی کے طور پر فرمایا کہ تم اس جنگ کے نتائج دیکھ کر بددل نہ ہوجانا نہ مغموم بن کر بیٹھ رہنا فتح و نصرت غلبہ اور بلند وبالا مقام بالآخر مومنو تمہارے لئے ہی ہے۔ اگر تمہیں زخم لگے ہیں تمہارے آدمی شہید ہوئے تو اس سے پہلے تمہارے دشمن بھی تو قتل ہوچکے ہیں وہ بھی تو زخم خوردہ ہیں یہ تو چڑھتی ڈھلتی چھاؤں ہے ہاں بھلا وہ ہے جو انجام کار غالب رہے اور یہ ہم نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ یہ بعض مرتبہ شکست بالخصوص اس جنگ احد کی اس لئے تھی کہ ہم صابروں کا اور غیر صابروں کا امتحان کرلیں اور جو مدت سے شہادت کی آرزو رکھتے تھے انہیں کامیاب بنائیں کہ وہ اپنا جان و مال ہماری راہ میں خرچ کریں، اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ جملہ معترضہ بیان کر کے فرمایا یہ اس لئے بھی کہ ایمان والوں کے گناہ اگر ہوں تو دور ہوجائیں اور ان کے درجات بڑھیں اور اس میں کافروں کا مٹانا بھی ہے کیونکہ وہ غالب ہو کر اتر آئیں گے سرکشی اور تکبر میں اور بڑھیں گے اور یہی ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گا اور پھر مر کھپ جائیں گے ان سختیوں اور زلزلوں اور ان آزمائشوں کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جاسکتا جیسے سورة بقرہ میں ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم سے پہلے لوگوں کی جیسی آزمائش ہوئی ایسی تمہاری نہ ہو اور تم جنت میں چلے جاؤ یہ نہیں ہوگا اور جگہ ہے آیت (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ) 29۔ العنکبوت :2) کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم صرف ان کے اس قول پر کہ ہم ایمان لائے انہیں چھوڑ دیں گے اور انکی آزمائش نہ کی جائے گی ؟ یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ جب تک صبر کرنے والے معلوم نہ ہوجائیں یعنی دنیا میں ہی ظہور میں نہ آجائیں تب تک جنت نہیں مل سکتی پھر فرمایا کہ تم اس سے پہلے تو ایسے موقعہ کی آرزو میں تھے کہ تم اپنا صبر اپنی بہادری اور مضبوطی اور استقامت اللہ تعالیٰ کو دکھاؤ اللہ کی راہ میں شہادت پاؤ، لو اب ہم نے تمہیں یہ موقعہ دیا تم بھی اپنی ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ، حدیث شریف میں ہے دشمن کی ملاقات کی آرزو نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب میدان پڑجائے پھر لو ہے کی لاٹ کی طرح جم جاؤ اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے پھر فرمایا کہ تم نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ لیا کہ نیزے تنے ہوئے ہیں تلواریں کھچ رہی ہیں بھالے اچھل رہے ہیں تیر برس رہے ہیں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ادھر ادھر لاشیں گر رہی ہیں۔

آیت 137 - سورة آل عمران: (قد خلت من قبلكم سنن فسيروا في الأرض فانظروا كيف كان عاقبة المكذبين...) - اردو