اس آیت کا انداز تعبیر ایسا ہے کہ اس میں ان عبادات کو بالکل محسوس طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ گویا کچھ لوگ ہیں جو کسی انعامی مقابلے میں ایک مقررہ ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ……………” دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی مغفرت کی طرف جاتی ہے ‘ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأرْضُ……………” دوڑ کر چلو اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے ۔ “ دوڑو ! وہ ہے جنت وہاں ہے مغفرت ! أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ……………” جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ “
اس کے بعد متقین کی صفات بیان کی جاتی ہیں الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ……………” وہ لوگ جو بدحالی اور خوشحالی دونوں میں خرچ کرتے ہیں ۔ “
یعنی وہ انفاق پر ہر وقت ثابت قدمی سے عمل پیرا ہیں ‘ وہ اپنی روش پر رواں دواں ہیں ‘ نہ خوشحالی میں آپے سے باہر ہوتے ہیں اور نہ بدحالی میں نہج سے پیچھے ہٹتے ہیں ۔ خوشحالی انہیں مغرور کرکے غافل نہیں بنادیتی اور بدحالی ان کی گوشمالی کرکے انہیں ان کا نصب العین بھلا نہیں دیتی ۔ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا شعور ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ وہ حرص وہ آذ سے آزاد ہوچکے ہوتے ہیں ۔ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نگرانی کا شعور رکھتے ہیں اور ان کے دل میں اللہ کا خوف ہر وقت زندہ رہتا ہے ۔ نفس انسانی جو اپنے مزاج کے اعتبار سے بخیل ہوتا ہے اور جس کے اندر دولت کی طبعی محبت ہوتی ہے ‘ اسے ہر وقت انفاق فی سبیل اللہ پر قائم رکھنے کے لئے ایک قوی تر جذبے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ جذبہ مال کی محبت سے قوی تر ہونا چاہئے ۔ تاکہ وہ حرص وآز کے فطری بندھن کو توڑ سکے ۔ اور یہ جذبہ صرف اللہ خوف کا جذبہ ہی ہوسکتا ہے ۔ اور یہ کیا ہوتا ہے ؟ یہ ایک نہایت ہی لطیف اور گہرا شعور ہوتا جس کے ساتھ روح اونچی پرواز کرتی ہے ۔ وہ خالص ہوجاتی ہے اور قید وبند سے آزاد ہوجاتی ہے ۔