سورة آل عمران: آیت 110 - كنتم خير أمة أخرجت للناس... - اردو

آیت 110 کی تفسیر, سورة آل عمران

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ ۗ وَلَوْ ءَامَنَ أَهْلُ ٱلْكِتَٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ

اردو ترجمہ

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kuntum khayra ommatin okhrijat lilnnasi tamuroona bialmaAAroofi watanhawna AAani almunkari watuminoona biAllahi walaw amana ahlu alkitabi lakana khayran lahum minhumu almuminoona waaktharuhumu alfasiqoona

آیت 110 کی تفسیر

ان آیات کے ابتدائی حصہ میں ‘ جماعت مسلمہ کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے اور یہ بوجھ اس لئے ڈالا گیا ہے کہ اللہ نے اس جماعت کو مکرم اور معزز بنایا ہے اور اسے ایسا مقام و مرتبہ دیا گیا ہے ‘ جس پر آج تک کوئی دوسری جماعت فائز نہیں ہوسکی۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

” اب دنیا میں وہ بہتر گروہ تم ہو ‘ انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو ‘ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “

یہاں اخرجت صیغہ ماضی مجہول لایا گیا ہے ۔ اور یہ ایک خاص تعبیر ہے اور قابل توجہ ہے ۔ اس سے اللہ جل کے لطیف دست قدرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ جو اس امت کو باہر نکال رہا ہے اور غیب کے اندھیروں میں سے ‘ اس جماعت کو دھکیل دھکیل کر منصہ شہود پر لایا جارہا ہے ۔ اور اسے اس پردے کے پیچھے سے ظاہر کیا جارہا ہے جس کے پیچھے جھانکنا کسی انسان کا کام نہیں ہے اور نہ انسان اس پردہ غیب کے پیچھے کچھ جانتا ہے ۔ اخرجت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خفیہ اور نامعلوم قوت انہیں آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طور پر متحرک کررہی ہے ۔ یہ عمل یوں ہوتا ہے کہ اچانک اس کائنات کے اسٹیج پر ایک امت نمودار ہوجاتی ہے ۔ اور اس نے ایک اسٹیج پر ایک خاص رول ادا کرنا ہوتا ہے ۔ یہ رول نہایت اہم ہے ۔ اور اس کائنات میں اس کا ایک خاص مقام متعین ہوجاتا ہے ۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ……………” اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے ۔ “ یہ ہے وہ بات جس کا ادراک امت مسلمہ کو اچھی طرح کرلینا چاہئے تاکہ اسے اپنی حقیقی قدر و قیمت کا احساس ہوجائے کہ اسے تو تمام انسانوں کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے تاکہ وہ ہر اول دستے کا کام دے اور اس کو اس کائنات میں قیادت کا مقام حاصل ہو ۔ اس لئے کہ صرف امت ہی نہیں بلکہ وہ بہترین امت ہے ۔ اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر خیر کی قیادت ہو ‘ شر کی قیادت نہ ہو ‘ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اس کی شان قیادت سے فروتر قرار دی گئی ہے کہ وہ دوسری جاہلی امتوں سے ہدایت لے ۔ اس کا فرض تو یہ ہے کہ دوسری جاہلی اقوام کو اپنے خزانہ علم واخلاق سے عطیات دے ۔ اور اس کے ذخائر میں ہمیشہ ایسی اجناس موجود ہونی چاہئیں جنہیں وہ دوسری محروم اقوام وملل کو عطا کرتی رہے ۔ وہ ان اقوام وملل کو صحیح عقائد و تصورات دے ‘ صحیح فکر دے ‘ صحیح نظام حیات دے ‘ صحیح اخلاق دے ‘ صحیح علم ومعرفت عطاکرے ۔ یہ وہ فریضہ ہے جو اس کی اعلیٰ حیثیت کی وجہ سے اس پر عائد ہوتا ہے اور اس پر یہ فریضہ اس کے مقصد وجود کی وجہ سے فرض ہوجاتا ہے ۔ یہ بات اس کے فرائض منصبی میں داخل ہے کہ وہ ہر میدان میں دوسری امم کے لئے ہر اول دستہ رہے ۔ وہ ہمیشہ قیادت کے مقام ومنصب پر رہے اور ہمیشہ مرکز امم ہو۔ لہٰذا اس کے اس منصب کے کچھ آثار ونتائج ہیں ۔ وہ منصب محض دعویٰ سے حاصل نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس امت کے سپرد کیا جاتا ہے جو اس کی اہل ہوا کرتی ہے ‘ وہ اپنے تصورات و افکار کی وجہ سے اور اپنے اعلیٰ نظام حیات کی وجہ سے جب اس کے اہل ہوتی ہے ‘ تب ہی یہ اسے دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ امت کو علمی میدان میں بھی سب امم سے آگے ہونا چاہئے اور ترقی وتعمیر کے اعتبار سے بھی اسے اقوام وملل سے آگے ہونا چاہئے ‘ تاکہ وہ مقام خلافت فی الارض پر فائز ہو اور اپنے آپ کو اس کے لئے اہل ثابت کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ جس نظام حیات کی داعی ہوگی وہ نظام اس سے بہت کچھ کمالات کا مطالبہ کرتا ہے ‘ اور اس سے اس کا اولین مطالبہ یہ ہے کہ وہ ہر میدان میں سب سے آگے رہے اگر وہ اس منصب پر بدستور فائز رہنا چاہتی ہو اور اس کے تقاضوں اور اس کے فرائض کو پورا کرتی ہو ۔

اس امت کے منصب اور مقام کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس زندگی کو شر اور فساد سے پاک کردے اور اس کے پاس اس قدر قوت ہونا چاہئے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے سکے ۔ اس لئے کہ وہ ایک بہترین امت ہے اور لوگوں کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے ۔ اور وہ خیر امت محض اللہ کی جانب سے کسی مجاملت یا خصوصی تعلق محبوبیت کی وجہ سے نہیں بنی ‘ نہ ہی اسے خیر امت اتفاقاً بلا مقصد و ارادہ بنادیا گیا ہے ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس سے ایسے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی ‘ اللہ کے ہاں اعزاز اور شرف ان خام خیالیوں کی بنا پر نہیں ملتا ‘ جن میں یہ اہل کتاب مبتلا ہوگئے تھے اور کہتے تھے نَحنُ اَبنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤہٗ ” ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں ۔ “ ہرگز نہیں ‘ یہ ایک مثبت عمل تھا ‘ منصوبے کے مطابق انسانیت کو برائی سے بچانامقصود تھا ‘ اسے معروف قائم کرنا مطلوب تھا ‘ اور ایمانی تصور حیات کے ساتھ جو دنیا میں معروف ومنکر کی حدوں کو واضح کردے۔

تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ……………” نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دراصل اس بہترین امت کے فرائض ہیں ‘ جن کو لے کر اسے اٹھنا ہے چاہے وہ ان فرائض کی ادائیگی میں تکالیف اٹھانی پڑیں ‘ اس لئے کہ یہ ایک خاردار راستہ ہے ۔ اس میں شر کو چیلنج کرنا ہے ‘ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانا ہے اور معاشرے کو شروفساد کے عوامل واسباب سے بچانا ہے اور یہ سب کام تھکادینے والے کام ہیں ‘ لیکن یہ سب کام ایک صالح معاشرے کے قیام اور بچاؤ کے لئے ضروری ہیں نیز اس کے سوا وہ نقوش جم نہیں سکتے جن کے مطابق اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کو استوار کرنا چاہتے ہیں ۔ “

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ ساتھ پکا مومن ہونا بھی ضروری ہے ‘ اس لئے اسلامی معاشرے میں حسن وقبح کے پیمانے ایمان ہی کے ترازو کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور معروف اور منکر کی صحیح پہچان ہوسکے ۔ اس لئے کہ کسی ایک گروہ کا صالح ہوجانا ہی کافی نہیں ‘ بعض اوقات شر و فساد اس قدر پھیل جاتا ہے کہ معاشرے کی اجتماعی اقدار بدل جاتی ہیں اور ان میں خلل پڑجاتا ہے ۔ اس لئے خیر وشر کے لئے ایک مستحکم تصور کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس میں فضائل اعمال اور رذائل صفات کے اندر اچھی طرح جدائی ہو ‘ معروف منکر سے جدا ہو ‘ اور یہ تصور حیات اصلاح کی کسی مخصوص اسکیم سے علیحدہ ایک دائمی اصول و مبادی پر مبنی ہو۔

اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف ایمان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوسکتے ہیں ‘ یعنی اس کائنات میں صحیح تصور اور اس کائنات کے خالق کے ساتھ اس کا تعلق کے بارے میں صحیح تصور ‘ انسان اور اس کے مقصد وجود کے بارے میں صحیح تصور اور اس کائنات کے اندر انسان کے مقام اور اس کی حیثیت کے بارے میں صحیح تصور ۔ پھر ان صحیح تصورات کے نتیجے میں صحیح اخلاقی اصول وجود میں آتے ہیں ‘ جو خدا خوفی اور اس کی رحمت ورضا کی امیدپر مبنی ہوتے ہیں ‘ اور ان اصولوں کی وجہ سے لوگ ان اخلاقی اصولوں کے قیام پر بخوشی مائل ہوتے ہیں ‘ ان کے دلوں پر اللہ کی حکمرانی ہوتی ہے اور ان کے معاشرے پر اللہ کی شریعت کی حکمرانی ہوتی ہے اور یوں ان اصول وقواعد کی نگہبانی بھی ہوتی رہتی ہے۔

پھر ایمان اس لئے بھی ضروری ہے کہ داعیان خیر ‘ امر کنندگان معروف اور مانعان منکر اس راہ پرخار پر ‘ مشقتیں برداشت کرتے ہوئے ثابت قدمی سے ‘ اس قوت ایمانی کے بل بوتے پر گامزن ہوسکیں ۔ خصوصاً جبکہ ان کا مقابلہ شر کے طاغوتوں سوے ہو اور یہ طاغوت نوجوان بھی ہو اور تنومند بھی ہو ‘ جبکہ وہ خواہشات نفس کے طاغوت کا مقابلہ کررہے ہوں اور یہ خواہش اپنی شدت میں ہو اور خوب جوان ہو ‘ جبکہ وہ گری ہوئی ارواح کا مقابلہ کررہے ہوں جن کے عزائم کند ہوچکے ہوں جن کی شمع امید بجھ چکی ہو اور ایسے حالات میں ان کا زاد راہ صرف ایمانی قوت ہو ‘ ان کا سامان جنگ صرف ایمان ہو اور ان کا تکیہ صرف اللہ پر ہو ‘ ان کی حالت یہ ہو کہ ایمان کے زادراہ کے سواتمام توشے ختم ہوچکے ہوں اور ایمان کے سازوسامان کے سوا تمام سازوسامان ختم ہوچکے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا تمام سہارے ایک ایک کرکے گرچکے ہوں ۔

اس سے پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ اے امت مسلمہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو سر انجام دے ۔ وہاں تو امت پر فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر عائد کیا گیا تھا ۔ اب یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ تم خیر امت ہو ‘ تمہاری صفت و خاصیت یہ ہے کہ تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو ‘ اس میں امت کو یہ اشارہ ہے کہ اگر تمہارے اندر یہ صفت نہ پائی گئی ‘ یا کسی وقت نہ پائی جاتی ہو تو گویا تمہارا حقیقی وجود ہی نہ ہوگا۔ اس لئے کہ انسانی معاشرے میں یہ تمہاری پہچان ہے ۔ تم اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ لے اٹھو گے ‘ تو تم موجود تصور ہوگے اور اگر تم یہ فریضہ ترک کردوگے تو تم معدوم تصور ہوگے ‘ اور گویا صفت ایمان اور اسلام معدوم تصور ہوگی۔

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر امت مسلمہ کے اس فریضے کی طرف صراحت اور اشارات کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے ‘ جس پر بحث ہم ان مقامات پر کریں گے ۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی بار بار اس فریضہ منصبی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ چیدہ چیدہ احادیث یہاں پیش کروں :

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا :” تم میں سے جو بھی منکر کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے زائل کردے ‘ اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان کے ساتھ ‘ اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنے دل کے ساتھ ۔ اور یہ ضعیف ایمان ہے۔ “

حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑگئے ‘ تو انہیں ان کے علماء نے روکا ‘ اور وہ نہ رکے ‘ تو ان کے علماء نے ان سے ہم نشینی کی ‘ ان کے ساتھ کھاتے پیتے ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دلوں کو دوسروں کے دلوں کے ساتھ مارا ‘ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ “ اس کے بعد آپ ﷺ بیٹھ گئے (اور آپ ﷺ تکیہ لگائے تھے ) اور پھر فرمایا :” ہرگز نہیں ! اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ یہاں تک کہ تم انہیں واپس حق کی طرف اچھی طرح پلٹا کر نہ لے آؤ۔ “ لفظ تامروا تعطفوا (موڑو) اور تردوا (یعنی واپس لاؤ) ہے۔ (ابوداؤد ۔ ترمذی)

حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں ‘ فرمایا ‘ رسول اللہ ﷺ نے ” اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تمہیں معروف کا حکم دینا ہوگا اور تمہیں منکر سے روکنا ہوگا ورنہ قریب ہے کہ اللہ ‘ اپنی جانب سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے اور پھر صورت حال یہ ہوجائے کہ تم اسے پکارو گے اور وہ تمہاری پکار کا کوئی جواب تمہیں نہ دے۔ “ (ترمذی)

اور حضرت عرس بن عمیر کندی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب زمین میں کوئی برائی ہورہی ہو ‘ تو جو شخص اس وقت اسے دیکھ رہا ہو ‘ اور اس پر نکیر کررہا ہو تو ایسا ہوگا ‘ جس طرح وہ اس سے غائب ہو ‘ اور جو شخص اس سے غائب ہو لیکن اس پر راضی ہو تو وہ ایسا ہوگا جیسا کہ وہ اسے دیکھ رہاہو۔ (ابوداؤد)

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں کہ فرمایا ‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ شہداء کے سردار ہیں اور وہ شخص شہداء کا سردار ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اسے امر بالمعروف کیا اور اسے منکر سے روکا ٹوکا ‘ اور اس وجہ سے اس نے اس شخص کو قتل کردیا ۔ “ (روایت حاکم)

یہ اور اس کے علاوہ دوسری بیشمار احادیث اسلامی سوسائٹی کی اس خصوصیت کو بیان کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ اسلامی معاشرے میں یہ فریضہ اور اس کی ادائیگی اشد ضروری ہے ۔ اس صفت کی وجہ سے معاشرے کی راہنمائی اور تربیت کا انتظام ہوتا رہتا ہے ‘ اور قرآنی ہدایت کے حکم ہونے کے علاوہ یہ ایک ایسا توشہ ہے جس کی افادیت سے اور اس کی قدر و قیمت سے ہم بالکل غافل ہیں ۔ اس کے بعد اب ہم پہلی آیت کے حصہ آخر کی طرف آتے ہیں ۔

وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ……………” یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو اس کے حق میں بہتر ہوتا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں ۔ “

ان فقروں میں اہل کتاب کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ایمان لے آئیں ۔ ایمان ان کے لئے بہتر ہوگا ‘ اس کی وجہ سے ان کو اس تفرقہ بازی اور ہلاکت سے نجات ملے گی جس میں پڑے ہوئے ہیں ‘ وہ اعتقادی تصورات میں بھی فرقہ واریت میں مبتلا تھے اور ان کی شخصیت مجتمع نہ تھی ‘ اس لئے ان کے اعتقادی تصورات کے اندر اس قدر صلاحیت نہ تھی کہ وہ کسی اجتماعی نظام زندگی کی اساس بن سکیں ۔ اس وجہ سے کہ ان کے اجتماعی نظام ‘ ان کے اپنے عقائد کے علاوہ دوسرے تصورات پر قائم تھے ۔ چناچہ ان کا اجتماعی نظام ہمیشہ لنگڑا ‘ لولا اور ہوا کے اندر معلق نظام رہا۔ اس کی جڑیں کھبی بھی ان معاشرے کے اندر نہ پھیلیں ‘ جس طرح دنیا کے وہ نظام ہوا میں معلق رہتے ہیں جو کسی مکمل اعتقادی اور نظریاتی اساس پر قائم نہیں ہوتے ‘ جن کی تعمیر ایسے نظریہ حیات پر نہیں ہوتی جو اس کائنات کے معمہ کا مکمل حل پیش کرتا ہو ‘ جو وجود انسانی کے مقاصد نہ متعین کرتا ہو ‘ جو اس کائنات میں انسان کا مقام نہ متعین کرتا ہو ‘ اور ایمان لانا ان کے لئے آخرت میں بھی مفید ہے ۔ اس لئے کہ آخرت میں غیر اہل اسلام کا جو برا انجام ہونے والا ہے ‘ اس سے وہ بچ جائیں گے ۔

اس آیت میں صاف صاف اعتراف کیا جاتا ہے کہ ان اہل کتاب میں سے بعض لوگ صالح بھی ہیں ۔ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ……………” ان میں سے بعض اگرچہ مومن ہیں مگر اکثر فاسق ہیں۔ “

اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایمان لائے تھے ‘ اور وہ بہت ہی اچھے مسلمان تھے ۔ مثلا عبداللہ بن سلام ‘ ثعلبہ بن شعبہ اور کعب بن مالک وغیرہ ۔ انہی لوگوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ اگرچہ اس آیت میں اجمالی اشارہ ہے اور دوسری آیت میں تفصیلی اشارہ ہے ۔ لیکن ان کی اکثریت دین اسلام سے منکر رہی ۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے اس عہد کو توڑا جو اللہ نے نبیوں سے لیا تھا کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے نبی پر ایمان لائے گا ‘ جو اس کے بعد مبعوث ہوگا ‘ اور اس کی نصرت کرے گا ۔ وہ دین اسلام کے نافرمان اس طرح قرار پائے کہ انہوں نے نبی آخرالزمان کے بھیجنے کے سلسلے میں اللہ کے ارادہ اور حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ‘ محض اس لئے کہ یہ رسول بنی اسرائیل کے قبیلے سے نہ تھا ‘ اور انہوں نے اس رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کی آخری شریعت کے مطابق اپنی زندگی کے فیصلے کرانے کے اعزاز سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھا ‘ حالانکہ اللہ کا ارادہ اور فرمان یہ تھا کہ تمام انسانیت اس شریعت کے مطابق زندگی بسر کرے ۔

اہل ایمان میں سے بعض لوگ چونکہ بدستور مدینہ کے اہل یہود کے ساتھ روابط قائم کئے ہوئے تھے اور اس وقت تک مدینہ طیبہ میں یہودی ایک برتر قوت تھے ‘ وہ ایک عسکری قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی قوت بھی تھے اور اہل اسلام میں بعض لوگ ان کی اس حیثیت کو تسلیم بھی کرتے تھے ‘ اس لئے قرآن کریم نے یہ ضروری سمجھا کہ ان نافرمانوں کو اس حیثیت پر تنقید کرکے مسلمانوں کو ان کی مرعوبیت سے نکالاجائے اور ان کے کفر ‘ نافرمانی اور ان کے جرائم کی وجہ سے ان کی حیثیت میں جو کمی واقع ہوئی ہے ‘ اس کا اظہار کیا جائے ۔ نیز جس طرح وہ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت اور خواری مسلط کردی تھی یہاں اسے واضح طور پر ریکارڈ کردیا گیا ۔

آیت 110 کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ یہاں امت مسلمہ کی غرض تأسیس بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی یہ پوری امت مسلمہ اس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ امت مسلمہ اپنا مقصد حیات بھول جائے۔ ایسی صورت میں امت میں سے جو بھی جاگ جائیں وہ دوسروں کو جگا کرامت کے اندر ایک امت Ummah within Ummah بنائیں اور مذکورہ بالا تین کام کریں۔ لیکن حقیقت میں تو مجموعی طور پر اس امت مسلمہ کا فرض منصبی ہی یہی ہے۔ قبل ازیں ہم سورة البقرۃ کی آیت 143 میں امت مسلمہ کا فرض منصبی بایں الفاظ پڑھ چکے ہیں : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط سورة آل عمران کی آیت زیر مطالعہ اسی کے ہم وزن اور ہم پلہ آیت ہے۔ فرمایا : تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر قومیں اپنے لیے زندہ رہتی ہیں۔ ان کے پیش نظر اپنی ترقی ‘ اپنی بہتری ‘ اپنی بہبود اور دنیا میں اپنی عزت و عظمت ہوتی ہے ‘ لیکن تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیا گیا ہے : ؂ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے !مسلمان کی زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ‘ کوشش کرنا ہے۔ تمہیں جینا ہے ان کے لیے ‘ وہ جیتے ہیں اپنے لیے۔ تمہیں نکالا گیا ہے ‘ برپا کیا گیا ہے لوگوں کے لیے۔تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِِ ط نبی اکرم ﷺ کے دور میں پوری امت مسلمہ کی یہ کیفیت تھی۔ اور وہ جو پہلے بتایا گیا ہے کہ ایک جماعت وجود میں آئے آیت 104 وہ اس وقت کے لیے ہے جب امت اپنے مقصد وجود کو بھول گئی ہو۔ تو ظاہر بات ہے جن کو ہوش آجائے وہ لوگوں کو جگائیں اور ایک جمعیت فراہم کریں۔وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ ط اس سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اس وقت تک یہودیوں یا نصرانیوں میں سے ایمان لا چکے تھے ‘ اور وہ بھی جن کے اندر بالقوہ potentially ایمان موجود تھا اور اللہ کو معلوم تھا کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد ایمان لے آئیں گے۔وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔وہی معاملہ جو آج امت مسلمہ کا ہوچکا ہے۔ آج امت کی اکثریت کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

سب سے بہتر شخص کون ؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا ؟ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں پر بہتر ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو، اور مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو اور سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچانے والے ہو، ابو لہب کی بیٹی حضرت درہ ؓ فرماتی ہیں ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے کہ حضور ﷺ کونسا شخص بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قاری قرآن ہو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو، سب سے زیادہ اچھائیوں کا حکم کرنے والا سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا سب سے زیادہ رشتے ناتے ملانے والا ہو۔ (مسند احمد) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ساری امت پر مشتمل ہے، بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا، ایک اور روایت میں ہے آیت (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2۔ البقرۃ :143) ہم نے تمہیں بہتر امت بنایا ہے تاہم تم لوگوں پر گواہ بنو، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو، یہ مشہور حدیث ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے، اس امت کی افضلیت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی افضلیت ہے، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹتے والی امت بھی سب سے اعلیٰ و افضل ہے، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے، حضرت علی بن ابو طالب رضلی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں وہ وہ نعمتیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا لوگوں نے پوچھا وہ کیا باتیں ہیں، آپ نے فرمایا میری مدد رعب سے کی گئی ہے میں زمین کی کنجیاں دیا گیا ہوں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، میرے لئے مٹی پاک کی گئی ہے، میری امت سب امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے (مسند احمد) اس حدیث کی اسناد حسن ہے، حضرت ابو الدرداء ؓ فرماتے ہیں میں نے ابو القاسم ﷺ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کرنے والا ہوں جو راحت پر حمدو شکر کریں گے اور مصیبت پر طلب ثواب اور صبر کریں گے حالانکہ انہیں حلم و علم نہ ہوگا آپ نے تعجب سے پوچھا کہ بغیر بردباری اور دور اندیشی اور پختہ علم کے یہ کیسے ممکن ہے ؟ رب العالمین نے فرمایا میں انہیں اپنا حلم و علم عطا فرماؤں گا، میں چاہتا ہوں یہاں پر بعض وہ حدیثیں بھی بیان کر دوں جن کا ذکر یہاں مناسب ہے سنئے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے سب یک رنگ ہونگے، میں نے اپنے رب سے گزارش کی کہ اے اللہ اس تعداد میں اور اضافہ فرما اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار اور بھی، حضرت صدیق اکبر ؓ یہ حدیث بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ پھر تو اس تعداد میں گاؤں اور دیہاتوں والے بلکہ بادیہ نشین بھی آجائیں گے (مسند احمد) حضور ﷺ فرماتے ہیں مجھے میرے رب نے ستر ہزار آدمیوں کو میری امت میں سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دی، حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا حضور ﷺ کچھ اور زیادتی طلب کرتے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو مجھے خوشخبری ملی کے ہر شخص کے ساتھ ستر ستر ہزار کا وعدہ ہوا۔ حضرت عمر نے پھر گزارش کی کہ اللہ کے نبی اور کچھ بھی مانگتے آپ نے فرمایا مانگا تو مجھے اتنی زیادتی اور ملی اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اس طرح، راوی حدیث کہتے ہیں اس طرح جب اللہ تعالیٰ سمیٹے تو اللہ عزوجل ہی جانتا ہے کہ کس قدر مخلوق اس میں آئے گی (فسبحان اللہ وبحمدہ) (مسند احمد) حضرت ثوبان ؓ حمص میں بیمار ہوگئے عبداللہ بن قرط وہاں کے امیر تھے وہ عیادت کو نہ آسکے ایک کلاعی شخص جب آپ کی بیمار پرسی کیلئے گیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ لکھنا جانتے ہو اس نے کہا ہاں فرمایا لکھو یہ خط ثوبان کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کی طرف سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کے خادم ہیں بعد حمد و صلوٰۃ کے واضح ہو کہ اگر حضرت عیسیٰ یا حضرت موسیٰ کا کوئی خادم یہاں ہوتا اور بیمار پڑتا تو تم عیادت کیلئے جاتے پھر کہا یہ خط لے جاؤ اور امیر کو پہنچا دو جب یہ خط امیر حمص کے پاس پہنچا تو گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے یہاں تشریف لائے کچھ دیر بیٹھ کر عیادت کر کے جب جانے کا ارادہ کیا تو حضرت ثوبان نے ان کی چادر پکڑ روکا اور فرمایا ایک حدیث سنتے جائیں میں نے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے سنا ہے آپ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے (مسند احمد) یہ حدیث بھی صحیح ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ایک رات ہم خدمت نبوی میں دیر تک باتیں کرتے رہے پھر صبح جب حاضر خدمت ہوئے تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا سنو آج رات انبیاء اپنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے بعض انبیاء کے ساتھ صرف تین شخص تھے بعض کے ساتھ مختصر سا گروہ بعض کے ساتھ ایک جماعت کسی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا جب موسیٰ ؑ آئے تو ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے مجھے یہ جماعت پسند آئی میں نے پوچھایہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ ؑ ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں میں نے کہا پھر میری امت کہاں ہے جواب ملا اپنی داہنی طرف دیکھو اب جو دیکھتا ہوں تو بیشمار مجمع ہے جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی ہیں اب مجھ سے پوچھا گیا کہو خوش ہو میں نے کہا میرے رب میں راضی ہوگیا، فرمایا گیا سنو ! ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، اب نبی ﷺ نے فرمایا تم پر میرے میں باپ فدا ہوں اگر ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے ہی ہونا اگر یہ نہ ہو سکے تو ان میں سے ہو جو پہاڑیوں کو چھپائے ہوئے تھے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان میں سے ہونا جو آسمان کے کناروں کناروں پر تھے، حضرت عکاش بن محصن نے کھڑے ہو کر کہا حضور ﷺ میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ستر ہزار میں سے کرے آپ نے دعا کی تو ایک دوسرے صحابی نے بھی اٹھ کر یہی گزارش کی تو آپ نے فرمایا تم پر حضرت عکاشہ سبقت کر گئے، ہم اب آپس میں کہنے لگے کہ شاید یہ ستر ہزار لوگ ہوں گے جو اسلام پر ہی پیدا ہوئے ہوں اور پوری عمر میں کبھی اللہ کے ساتھ شرک کیا ہی نہ ہو آپ کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو دم جھاڑا نہیں کراتے آگ کے داغ نہیں لگواتے شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں (مسند احمد) ایک اور سند سے اتنی زیادتی اس میں اور بھی ہے جب میں نے اپنی رضامندی ظاہر کی تو مجھ سے کہا گیا اب اپنی بائیں جانب دیکھو میں نے دیکھا تو بیشمار مجمع ہے جس نے آسمان کے کناروں کو بھی ڈھک لیا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ موسم حج کا یہ واقعہ ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اپنی امت کی یہ کثرت بہت پسند آئی تمام پہاڑیاں اور میدان ان سے پُر تھے (مسند احمد) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عکاشہ کے بعد کھڑے ہونے والے ایک انصاری تھے ؓ (طبرانی) ایک اور روایت میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا ساٹھ لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ جنت میں جائیں گے چمکتے ہوئے چودھویں رات کے چاند جیسے ان کے چہرے ہوں گے۔ (بخاری مسلم طبرانی) حصین بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ سعید بن جیبر کے پاس تھا تو آپ نے دریافت کیا رات کو جو ستارہ ٹوٹا تھا تم میں سے کسی نے دیکھا تھا میں نے کہا ہاں حضرت میں نے دیکھا تھا یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نماز میں تھا بلکہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا تھا حضرت سعید نے پوچھا پھر تم نے کیا کیا میں نے کہا دم کردیا تھا کہا کیوں میں نے کہا حضرت شعبی نے بریدہ بن حصیب کی روایت سے حدیث بیان کی ہے کہ نظربد اور زہریلے جانوروں کا دم جھاڑا کرانا ہے کہنے لگے خیر جسے جو پہنچے اس پر عمل کرے ہمیں تو حضرت ابن عباس نے سنایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت تھی کسی کے ساتھ ایک شخص اور دو شخص اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا اب جو دیکھا کہ ایک بڑی پر جماعت نظر پڑی میں سمجھا یہ تو میری امت ہوگی پھر معلوم ہوا کہ موسیٰ ؑ کی امت ہے مجھ سے کہا گیا آسمان کے کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو وہاں بیشمار لوگ تھے مجھ سے کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بےحساب اور بےعذاب جنت میں جائیں گے یہ حدیث بیان فرما کر حضور ﷺ تو مکان پر چلے گئے اور صحابہ آپس میں کہنے لگے شاید یہ حضور ﷺ کے صحابی ہوں گے کسی نے کہا نہیں اسلام میں پیدا ہونے والے اور اسلام پر ہی مرنے والے ہوں گے وغیرہ وغیرہ آپ تشریف لائے اور پوچھا کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑا کریں نہ کرائیں، نہ داغ لگوائیں نہ شگون لیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں حضرت عکاشہ ؓ نے دعا کی درخواست کی آپ نے دعا کی یا اللہ تو اسے ان میں سے ہی بنا۔ پھر دوسرے شخص نے بھی یہی کہا آپ نے فرمایا عکاشہ آگے بڑھ گئے، یہ حدیث بخاری میں ہے لیکن اس میں دم جھاڑا نہیں کرنے کا لفظ نہیں صحیح مسلم میں یہ لفظ بھی ہے۔ ایک اور مطول حدیث میں ہے کہ پہلی جماعت تو نجات پائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان سے حساب بھی نہ لیا جائے گا پھر ان کے بعد والے سب سے زیادہ روشن ستارے جیسے چمکدار چہرے والے ہوں گے (مسلم) آپ فرماتے ہیں مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے داخل بہشت ہوں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین لپیں اور میرے رب عزوجل کی لپوں سے (کتاب السنن لحافظ ابی بکر بن عاصم) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ستر ہزار کی تعداد سن کر یزید بن اخنس نے کہا حضور ﷺ یہ تو آپ کی امت کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے ہیں تو آپ نے فرمایا ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں اور پھر اللہ نے تین لپیں (ہتھیلیوں کا کشکول) بھر کر اور بھی عطا فرمائے ہیں، اسکی اسناد بھی حسن ہے (کتاب السنن اور ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے رب نے جو عزت اور جلال والا ہے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بلا حساب جنت میں لے جائے گا پھر ایک ایک ہزار کی شفاعت سے ستر ستر ہزار آدمی اور جائیں گے پھر میرا رب اپنے دونوں ہاتھوں سے تین لپیں (دونوں ہاتھوں کی ہھتیلیوں کو ملا کر کٹورا بنانا) بھر کر اور ڈالے گا حضرت عمر نے یہ سن کر خوش ہو کر اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ ان کی شفاعت ان کے باپ دادوں اور بیٹوں اور بیٹیوں اور خاندان و قبیلہ میں ہوگی اللہ کرے میں تو ان میں سے ہوجاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی لپوں میں بھر کر آخر میں جنت میں لے جائے گا (طبرانی) اس حدیث کی سند میں بھی کوئی علت نہیں، واللہ اعلم، کرید میں حضور ﷺ نے ایک حدیث فرمائی جس میں جنت میں یہ بھی فرمایا یہ ستر ہزار جو بلا حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ ان کے آتے آتے تو تم اپنے لئے اور اپنے بال بچوں اور بیویوں کیلئے جنت میں جگہ مقرر کرچکے ہونگے (مسند احمد) اس کی سند میں شرط مسلم پر ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا حضور ﷺ کچھ اور زیادہ کیجئے اسے سن کر حضرت عمر نے فرمایا ابوبکر بس کرو صدیق نے جواب دیا کیوں صاحب اگر ہم سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو آپ کو کیا نقصان ہے حضرت عمر نے فرمایا اگر اللہ چاہے تو ایک ہی ہاتھ میں ساری مخلوق کو جنت میں ڈال دےحضور ﷺ نے فرمایا عمر سچ کہتے ہیں (مسند عبدالرزاق) اسی حدیث کی اور سند سے بھی بیان ہے اس میں تعداد ایک لاکھ آئی ہے (اصبہانی) ایک اور روایت میں ہے کہ جب صحابہ نے ستر ہزار اور پھر ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار پھر اللہ کی لپ بھر کر جنتی بنانا سنا تو کہنے لگے پھر تو اس کی بدنصیبی میں کیا شک رہ گیا جو باوجود اس کے بھی جہنم میں جائے (ابولیلی) اوپر والی حدیث ایک اور سند سے بھی بیان ہوئی ہے اس میں تعداد تین لاکھ کی ہے پھر حضرت عمر نے فرمایا میری امت کے سارے مہاجر تو اس میں آہی جائیں گے پھر باقی تعداد اعرابیوں سے پوری ہوگی (محمد بن سہل) حضرت ابو سعید کہتے ہیں حضور ﷺ کے سامنے حساب کیا گیا تو جملہ تعداد چار کروڑ نوے ہزار ہوئی، ایک اور حسن حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جان محمد ﷺ کی اس کے ہاتھ میں ہے تم ایک اندھیری رات کی طرح بیشمار ایک ساتھ جنت کی طرف بڑھو گے، زمین تم سے پر ہوجائے گی تمام فرشتے پکار اٹھیں گے کہ محمد ﷺ کے ساتھ جو جماعت آئی وہ تمام نبیوں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا صرف میری تابعدار امت اہل جنت کی چوتھائی ہوگی صحابہ نے خوش ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہوجاؤ ہم نے پھر تکبیر کہی پھر فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم آدھوں آدھ ہوجاؤ (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتوں کے چوتھائی ہو ہم نے خوش ہو کر اللہ کی بڑائی بیان کی پھر فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تمام اہل جنت کی تہائی ہو ہم نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے تو امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھوں آدھ ہو گے (بخاری مسلم) طبرانی میں یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا کہتے ہو تم جنتیوں کا چوتھائی حصہ بننا چاہتے ہو کہ چوتھائی جنت تمہارے پاس ہو اور تین اور چوتھائیوں میں تمام امتیں ہوں ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا اچھا تہائی حصہ ہو تو ہم نے کہا یہ بہت ہے فرمایا اگر آدھوں آدھ ہو تو، انہوں نے کہا حضور ﷺ پھر تو بہت ہی زیادہ ہے آپ نے فرمایا سنو ! کل اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہیں جن میں سے اسی صفیں صرف اس میری امت کی ہیں، مسند احمد میں بھی ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ان میں اسی صفیں صرف اس امت کی ہیں یہ حدیث طبرانی ترمذی وغیرہ میں بھی ہے، طبرانی ایک اور روایت میں ہے کہ جب آیت (ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ 39 ۙ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ 40ۭ) 56۔ الواقعہ :39۔ 40) اتری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اہل جنت کی چوتھائی ہو پھر فرمایا بلکہ ثلث ہو پھر فرمایا بلکہ نصف ہو پھر فرمایا دو تہائی ہو (اے وسیع رحمتوں والے اور بےروک نعمتوں والے اللہ ہم تیرا بےانتہا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں ایسے معزز و محترم رسول ﷺ کی امت میں پیدا کیا تیرے سچے رسول ﷺ کی سچی زبان سے تیرے اس بڑھے چڑھے فضل و کرم کا حال سن کر ہم گنہگاروں کے منہ میں پانی بھر آیا، اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اللہ ہماری آس نہ توڑ اور ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما۔ باری تعالیٰ تیری رحمت کی ان گنت اور بیشمار بندوں میں سے اگر ایک قطرہ بھی ہم گنہگاروں پر برس جائے تو ہمارے گناہوں کو دھو ڈالنے اور ہمیں تیری رحمت و رضوان کے لائق بنانے کیلئے کافی ہے، اللہ اس پاک ذکر کے موقعہ پر ہم ہاتھ اٹھا کر دامن پھیلا کر آنسو بہا کر امیدوں بھرے دل سے تیری رحمت کا سہارا لے کر تیرے کرم کا دامن تھام کر تجھ سے بھیک مانگتے ہیں تو قبول فرما اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی اپنی رضامندی کا گھر جنت الفردوس عطا فرما۔ (آمین الہ الحق آمین) صحیح بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہم دنیا میں سب سے آخر آئے اور جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور ان کو کتاب اللہ پہلے ملی ہمیں بعد میں ملی جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کیا ان میں اللہ نے ہمیں صحیح طریق کی توفیق دی، جمعہ کا دن بھی ایسا ہی ہے کہ یہود ہمارے پیچھے ہیں ہفتہ کے دن اور نصرانی ان کے پیچھے اتوار کے دن دار قطنی میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک میں جنت میں داخل نہ ہوجاؤں انبیاء پر دخول جنت حرام ہے اور جب تک میری امت نہ داخل ہو دوسری امتوں پر دخول جنت حرام ہے۔ یہ وہ حدیثیں تھیں جنہیں ہم اس آیت کے تحت وارد کرنا چاہتے تھے فالحمد للہ۔ امت کو بھی چاہئے کہ یہاں اس آیت میں جتنی صفیں ہیں ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم ثابت رہیں یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایمان باللہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اپنے حج میں اس آیت کی تلاوت فرما کر لوگوں سے کہا کہ اگر تم اس آیت کی تعریف میں داخل ہونا چاہتے ہو تو یہ اوصاف بھی اپنے میں پیدا کرو، امام ابن جرید فرماتے، اہل کتاب ان کاموں کو چھوڑ بیٹھے تھے جن کی مذمت کلام اللہ نے کی، فرمایا آیت (كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ) 5۔ المائدہ :79) وہ لوگ برائی کی باتوں سے لوگوں کو روکتے نہ تھے چونکہ مندرجہ بالا آیت میں ایمان داروں کی تعریف و توصیف بیان ہوئی تو اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے، تو فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی میرے نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے تو انہیں بھی یہ فضیلتیں ملتیں لیکن ان میں سے کفرو فسق اور گناہوں پر جمے ہوئے ہیں ہاں کچھ لوگ باایمان بھی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بشارت دیتا ہے کہ تم نہ گھبرانا اللہ تمہیں تمہارے مخالفین پر غالب رکھے گا چناچہ خیبر والے دن اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا اور ان سے پہلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو بھی اللہ نے ذلیل و رسوا کیا، اسی طرح شام کے نصرانی صحابہ کے وقت میں مغلوب ہوئے اور ملک شام ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا اور وہاں ایک حق والی جماعت حضرت عیسیٰ ؑ کے آنے تک حق پر قائم رہے گی، حضرت عیسیٰ آ کر ملت اسلام اور شریعت محمد کے مطابق حکم کریں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ قبول نہ کریں گے صرف اسلام ہی قبول فرمائیں گے پھر فرمایا کہ ان کے اوپر ذلت اور پستی ڈال دی گئی ہاں اللہ کی پناہ کے علاوہ کہیں بھی امن وامان اور عزت نہیں یعنی جزیہ دینا اور مسلم بادشاہ کی اطاعت کرنا قبول کرلیں اور لوگوں کی پناہ یعنی عقد ذمہ مقرر ہوجائے یا کوئی مسلمان امن دے دے اگرچہ کوئی عورت ہو یا کوئی غلام ہو، علماء کا ایک قول یہ بھی ہے، حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ حبل سے مراد ہے جو غضب کے مستحق ہوئے اور مسکینی چپکا دی گئی، ان کے کفر اور انبیاء کے تکبر، حسد، سرکشی وغیرہ کا بدلہ ہے۔ اسی باعث ان پر ذلت پستی اور مسکینی ہمیشہ کیلئے ڈال دی گئی ان کی نافرمانیوں اور تجاوز حق کا یہ بدلہ ہے العیاذ باللہ، ابو داؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ بنی اسرائیل ایک ایک دن میں تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور دن کے آخری حصہ میں اپنے اپنے کاموں پر بازاروں میں لگ جاتے تھے۔

آیت 110 - سورة آل عمران: (كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتؤمنون بالله ۗ ولو آمن أهل الكتاب لكان خيرا لهم...) - اردو