سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 64 (آیات 109 سے 115 تک)

وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ ۗ وَلَوْ ءَامَنَ أَهْلُ ٱلْكِتَٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّآ أَذًى ۖ وَإِن يُقَٰتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ ٱلْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوٓا۟ إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ ٱلنَّاسِ وَبَآءُو بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا۟ يَكْفُرُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَيَقْتُلُونَ ٱلْأَنۢبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ ۞ لَيْسُوا۟ سَوَآءً ۗ مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ أُمَّةٌ قَآئِمَةٌ يَتْلُونَ ءَايَٰتِ ٱللَّهِ ءَانَآءَ ٱلَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٰتِ وَأُو۟لَٰٓئِكَ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ وَمَا يَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلْمُتَّقِينَ
64

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillahi ma fee alssamawati wama fee alardi waila Allahi turjaAAu alomooru

اردو ترجمہ

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kuntum khayra ommatin okhrijat lilnnasi tamuroona bialmaAAroofi watanhawna AAani almunkari watuminoona biAllahi walaw amana ahlu alkitabi lakana khayran lahum minhumu almuminoona waaktharuhumu alfasiqoona

ان آیات کے ابتدائی حصہ میں ‘ جماعت مسلمہ کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے اور یہ بوجھ اس لئے ڈالا گیا ہے کہ اللہ نے اس جماعت کو مکرم اور معزز بنایا ہے اور اسے ایسا مقام و مرتبہ دیا گیا ہے ‘ جس پر آج تک کوئی دوسری جماعت فائز نہیں ہوسکی۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

” اب دنیا میں وہ بہتر گروہ تم ہو ‘ انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو ‘ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “

یہاں اخرجت صیغہ ماضی مجہول لایا گیا ہے ۔ اور یہ ایک خاص تعبیر ہے اور قابل توجہ ہے ۔ اس سے اللہ جل کے لطیف دست قدرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ جو اس امت کو باہر نکال رہا ہے اور غیب کے اندھیروں میں سے ‘ اس جماعت کو دھکیل دھکیل کر منصہ شہود پر لایا جارہا ہے ۔ اور اسے اس پردے کے پیچھے سے ظاہر کیا جارہا ہے جس کے پیچھے جھانکنا کسی انسان کا کام نہیں ہے اور نہ انسان اس پردہ غیب کے پیچھے کچھ جانتا ہے ۔ اخرجت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خفیہ اور نامعلوم قوت انہیں آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طور پر متحرک کررہی ہے ۔ یہ عمل یوں ہوتا ہے کہ اچانک اس کائنات کے اسٹیج پر ایک امت نمودار ہوجاتی ہے ۔ اور اس نے ایک اسٹیج پر ایک خاص رول ادا کرنا ہوتا ہے ۔ یہ رول نہایت اہم ہے ۔ اور اس کائنات میں اس کا ایک خاص مقام متعین ہوجاتا ہے ۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ……………” اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے ۔ “ یہ ہے وہ بات جس کا ادراک امت مسلمہ کو اچھی طرح کرلینا چاہئے تاکہ اسے اپنی حقیقی قدر و قیمت کا احساس ہوجائے کہ اسے تو تمام انسانوں کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے تاکہ وہ ہر اول دستے کا کام دے اور اس کو اس کائنات میں قیادت کا مقام حاصل ہو ۔ اس لئے کہ صرف امت ہی نہیں بلکہ وہ بہترین امت ہے ۔ اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر خیر کی قیادت ہو ‘ شر کی قیادت نہ ہو ‘ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اس کی شان قیادت سے فروتر قرار دی گئی ہے کہ وہ دوسری جاہلی امتوں سے ہدایت لے ۔ اس کا فرض تو یہ ہے کہ دوسری جاہلی اقوام کو اپنے خزانہ علم واخلاق سے عطیات دے ۔ اور اس کے ذخائر میں ہمیشہ ایسی اجناس موجود ہونی چاہئیں جنہیں وہ دوسری محروم اقوام وملل کو عطا کرتی رہے ۔ وہ ان اقوام وملل کو صحیح عقائد و تصورات دے ‘ صحیح فکر دے ‘ صحیح نظام حیات دے ‘ صحیح اخلاق دے ‘ صحیح علم ومعرفت عطاکرے ۔ یہ وہ فریضہ ہے جو اس کی اعلیٰ حیثیت کی وجہ سے اس پر عائد ہوتا ہے اور اس پر یہ فریضہ اس کے مقصد وجود کی وجہ سے فرض ہوجاتا ہے ۔ یہ بات اس کے فرائض منصبی میں داخل ہے کہ وہ ہر میدان میں دوسری امم کے لئے ہر اول دستہ رہے ۔ وہ ہمیشہ قیادت کے مقام ومنصب پر رہے اور ہمیشہ مرکز امم ہو۔ لہٰذا اس کے اس منصب کے کچھ آثار ونتائج ہیں ۔ وہ منصب محض دعویٰ سے حاصل نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس امت کے سپرد کیا جاتا ہے جو اس کی اہل ہوا کرتی ہے ‘ وہ اپنے تصورات و افکار کی وجہ سے اور اپنے اعلیٰ نظام حیات کی وجہ سے جب اس کے اہل ہوتی ہے ‘ تب ہی یہ اسے دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ امت کو علمی میدان میں بھی سب امم سے آگے ہونا چاہئے اور ترقی وتعمیر کے اعتبار سے بھی اسے اقوام وملل سے آگے ہونا چاہئے ‘ تاکہ وہ مقام خلافت فی الارض پر فائز ہو اور اپنے آپ کو اس کے لئے اہل ثابت کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ جس نظام حیات کی داعی ہوگی وہ نظام اس سے بہت کچھ کمالات کا مطالبہ کرتا ہے ‘ اور اس سے اس کا اولین مطالبہ یہ ہے کہ وہ ہر میدان میں سب سے آگے رہے اگر وہ اس منصب پر بدستور فائز رہنا چاہتی ہو اور اس کے تقاضوں اور اس کے فرائض کو پورا کرتی ہو ۔

اس امت کے منصب اور مقام کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس زندگی کو شر اور فساد سے پاک کردے اور اس کے پاس اس قدر قوت ہونا چاہئے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے سکے ۔ اس لئے کہ وہ ایک بہترین امت ہے اور لوگوں کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے ۔ اور وہ خیر امت محض اللہ کی جانب سے کسی مجاملت یا خصوصی تعلق محبوبیت کی وجہ سے نہیں بنی ‘ نہ ہی اسے خیر امت اتفاقاً بلا مقصد و ارادہ بنادیا گیا ہے ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس سے ایسے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی ‘ اللہ کے ہاں اعزاز اور شرف ان خام خیالیوں کی بنا پر نہیں ملتا ‘ جن میں یہ اہل کتاب مبتلا ہوگئے تھے اور کہتے تھے نَحنُ اَبنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤہٗ ” ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں ۔ “ ہرگز نہیں ‘ یہ ایک مثبت عمل تھا ‘ منصوبے کے مطابق انسانیت کو برائی سے بچانامقصود تھا ‘ اسے معروف قائم کرنا مطلوب تھا ‘ اور ایمانی تصور حیات کے ساتھ جو دنیا میں معروف ومنکر کی حدوں کو واضح کردے۔

تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ……………” نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دراصل اس بہترین امت کے فرائض ہیں ‘ جن کو لے کر اسے اٹھنا ہے چاہے وہ ان فرائض کی ادائیگی میں تکالیف اٹھانی پڑیں ‘ اس لئے کہ یہ ایک خاردار راستہ ہے ۔ اس میں شر کو چیلنج کرنا ہے ‘ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانا ہے اور معاشرے کو شروفساد کے عوامل واسباب سے بچانا ہے اور یہ سب کام تھکادینے والے کام ہیں ‘ لیکن یہ سب کام ایک صالح معاشرے کے قیام اور بچاؤ کے لئے ضروری ہیں نیز اس کے سوا وہ نقوش جم نہیں سکتے جن کے مطابق اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کو استوار کرنا چاہتے ہیں ۔ “

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ ساتھ پکا مومن ہونا بھی ضروری ہے ‘ اس لئے اسلامی معاشرے میں حسن وقبح کے پیمانے ایمان ہی کے ترازو کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور معروف اور منکر کی صحیح پہچان ہوسکے ۔ اس لئے کہ کسی ایک گروہ کا صالح ہوجانا ہی کافی نہیں ‘ بعض اوقات شر و فساد اس قدر پھیل جاتا ہے کہ معاشرے کی اجتماعی اقدار بدل جاتی ہیں اور ان میں خلل پڑجاتا ہے ۔ اس لئے خیر وشر کے لئے ایک مستحکم تصور کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس میں فضائل اعمال اور رذائل صفات کے اندر اچھی طرح جدائی ہو ‘ معروف منکر سے جدا ہو ‘ اور یہ تصور حیات اصلاح کی کسی مخصوص اسکیم سے علیحدہ ایک دائمی اصول و مبادی پر مبنی ہو۔

اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف ایمان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوسکتے ہیں ‘ یعنی اس کائنات میں صحیح تصور اور اس کائنات کے خالق کے ساتھ اس کا تعلق کے بارے میں صحیح تصور ‘ انسان اور اس کے مقصد وجود کے بارے میں صحیح تصور اور اس کائنات کے اندر انسان کے مقام اور اس کی حیثیت کے بارے میں صحیح تصور ۔ پھر ان صحیح تصورات کے نتیجے میں صحیح اخلاقی اصول وجود میں آتے ہیں ‘ جو خدا خوفی اور اس کی رحمت ورضا کی امیدپر مبنی ہوتے ہیں ‘ اور ان اصولوں کی وجہ سے لوگ ان اخلاقی اصولوں کے قیام پر بخوشی مائل ہوتے ہیں ‘ ان کے دلوں پر اللہ کی حکمرانی ہوتی ہے اور ان کے معاشرے پر اللہ کی شریعت کی حکمرانی ہوتی ہے اور یوں ان اصول وقواعد کی نگہبانی بھی ہوتی رہتی ہے۔

پھر ایمان اس لئے بھی ضروری ہے کہ داعیان خیر ‘ امر کنندگان معروف اور مانعان منکر اس راہ پرخار پر ‘ مشقتیں برداشت کرتے ہوئے ثابت قدمی سے ‘ اس قوت ایمانی کے بل بوتے پر گامزن ہوسکیں ۔ خصوصاً جبکہ ان کا مقابلہ شر کے طاغوتوں سوے ہو اور یہ طاغوت نوجوان بھی ہو اور تنومند بھی ہو ‘ جبکہ وہ خواہشات نفس کے طاغوت کا مقابلہ کررہے ہوں اور یہ خواہش اپنی شدت میں ہو اور خوب جوان ہو ‘ جبکہ وہ گری ہوئی ارواح کا مقابلہ کررہے ہوں جن کے عزائم کند ہوچکے ہوں جن کی شمع امید بجھ چکی ہو اور ایسے حالات میں ان کا زاد راہ صرف ایمانی قوت ہو ‘ ان کا سامان جنگ صرف ایمان ہو اور ان کا تکیہ صرف اللہ پر ہو ‘ ان کی حالت یہ ہو کہ ایمان کے زادراہ کے سواتمام توشے ختم ہوچکے ہوں اور ایمان کے سازوسامان کے سوا تمام سازوسامان ختم ہوچکے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا تمام سہارے ایک ایک کرکے گرچکے ہوں ۔

اس سے پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ اے امت مسلمہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو سر انجام دے ۔ وہاں تو امت پر فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر عائد کیا گیا تھا ۔ اب یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ تم خیر امت ہو ‘ تمہاری صفت و خاصیت یہ ہے کہ تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو ‘ اس میں امت کو یہ اشارہ ہے کہ اگر تمہارے اندر یہ صفت نہ پائی گئی ‘ یا کسی وقت نہ پائی جاتی ہو تو گویا تمہارا حقیقی وجود ہی نہ ہوگا۔ اس لئے کہ انسانی معاشرے میں یہ تمہاری پہچان ہے ۔ تم اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ لے اٹھو گے ‘ تو تم موجود تصور ہوگے اور اگر تم یہ فریضہ ترک کردوگے تو تم معدوم تصور ہوگے ‘ اور گویا صفت ایمان اور اسلام معدوم تصور ہوگی۔

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر امت مسلمہ کے اس فریضے کی طرف صراحت اور اشارات کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے ‘ جس پر بحث ہم ان مقامات پر کریں گے ۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی بار بار اس فریضہ منصبی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ چیدہ چیدہ احادیث یہاں پیش کروں :

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا :” تم میں سے جو بھی منکر کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے زائل کردے ‘ اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان کے ساتھ ‘ اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنے دل کے ساتھ ۔ اور یہ ضعیف ایمان ہے۔ “

حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑگئے ‘ تو انہیں ان کے علماء نے روکا ‘ اور وہ نہ رکے ‘ تو ان کے علماء نے ان سے ہم نشینی کی ‘ ان کے ساتھ کھاتے پیتے ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دلوں کو دوسروں کے دلوں کے ساتھ مارا ‘ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ “ اس کے بعد آپ ﷺ بیٹھ گئے (اور آپ ﷺ تکیہ لگائے تھے ) اور پھر فرمایا :” ہرگز نہیں ! اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ یہاں تک کہ تم انہیں واپس حق کی طرف اچھی طرح پلٹا کر نہ لے آؤ۔ “ لفظ تامروا تعطفوا (موڑو) اور تردوا (یعنی واپس لاؤ) ہے۔ (ابوداؤد ۔ ترمذی)

حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں ‘ فرمایا ‘ رسول اللہ ﷺ نے ” اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تمہیں معروف کا حکم دینا ہوگا اور تمہیں منکر سے روکنا ہوگا ورنہ قریب ہے کہ اللہ ‘ اپنی جانب سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے اور پھر صورت حال یہ ہوجائے کہ تم اسے پکارو گے اور وہ تمہاری پکار کا کوئی جواب تمہیں نہ دے۔ “ (ترمذی)

اور حضرت عرس بن عمیر کندی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب زمین میں کوئی برائی ہورہی ہو ‘ تو جو شخص اس وقت اسے دیکھ رہا ہو ‘ اور اس پر نکیر کررہا ہو تو ایسا ہوگا ‘ جس طرح وہ اس سے غائب ہو ‘ اور جو شخص اس سے غائب ہو لیکن اس پر راضی ہو تو وہ ایسا ہوگا جیسا کہ وہ اسے دیکھ رہاہو۔ (ابوداؤد)

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں کہ فرمایا ‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ شہداء کے سردار ہیں اور وہ شخص شہداء کا سردار ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اسے امر بالمعروف کیا اور اسے منکر سے روکا ٹوکا ‘ اور اس وجہ سے اس نے اس شخص کو قتل کردیا ۔ “ (روایت حاکم)

یہ اور اس کے علاوہ دوسری بیشمار احادیث اسلامی سوسائٹی کی اس خصوصیت کو بیان کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ اسلامی معاشرے میں یہ فریضہ اور اس کی ادائیگی اشد ضروری ہے ۔ اس صفت کی وجہ سے معاشرے کی راہنمائی اور تربیت کا انتظام ہوتا رہتا ہے ‘ اور قرآنی ہدایت کے حکم ہونے کے علاوہ یہ ایک ایسا توشہ ہے جس کی افادیت سے اور اس کی قدر و قیمت سے ہم بالکل غافل ہیں ۔ اس کے بعد اب ہم پہلی آیت کے حصہ آخر کی طرف آتے ہیں ۔

وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ……………” یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو اس کے حق میں بہتر ہوتا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں ۔ “

ان فقروں میں اہل کتاب کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ایمان لے آئیں ۔ ایمان ان کے لئے بہتر ہوگا ‘ اس کی وجہ سے ان کو اس تفرقہ بازی اور ہلاکت سے نجات ملے گی جس میں پڑے ہوئے ہیں ‘ وہ اعتقادی تصورات میں بھی فرقہ واریت میں مبتلا تھے اور ان کی شخصیت مجتمع نہ تھی ‘ اس لئے ان کے اعتقادی تصورات کے اندر اس قدر صلاحیت نہ تھی کہ وہ کسی اجتماعی نظام زندگی کی اساس بن سکیں ۔ اس وجہ سے کہ ان کے اجتماعی نظام ‘ ان کے اپنے عقائد کے علاوہ دوسرے تصورات پر قائم تھے ۔ چناچہ ان کا اجتماعی نظام ہمیشہ لنگڑا ‘ لولا اور ہوا کے اندر معلق نظام رہا۔ اس کی جڑیں کھبی بھی ان معاشرے کے اندر نہ پھیلیں ‘ جس طرح دنیا کے وہ نظام ہوا میں معلق رہتے ہیں جو کسی مکمل اعتقادی اور نظریاتی اساس پر قائم نہیں ہوتے ‘ جن کی تعمیر ایسے نظریہ حیات پر نہیں ہوتی جو اس کائنات کے معمہ کا مکمل حل پیش کرتا ہو ‘ جو وجود انسانی کے مقاصد نہ متعین کرتا ہو ‘ جو اس کائنات میں انسان کا مقام نہ متعین کرتا ہو ‘ اور ایمان لانا ان کے لئے آخرت میں بھی مفید ہے ۔ اس لئے کہ آخرت میں غیر اہل اسلام کا جو برا انجام ہونے والا ہے ‘ اس سے وہ بچ جائیں گے ۔

اس آیت میں صاف صاف اعتراف کیا جاتا ہے کہ ان اہل کتاب میں سے بعض لوگ صالح بھی ہیں ۔ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ……………” ان میں سے بعض اگرچہ مومن ہیں مگر اکثر فاسق ہیں۔ “

اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایمان لائے تھے ‘ اور وہ بہت ہی اچھے مسلمان تھے ۔ مثلا عبداللہ بن سلام ‘ ثعلبہ بن شعبہ اور کعب بن مالک وغیرہ ۔ انہی لوگوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ اگرچہ اس آیت میں اجمالی اشارہ ہے اور دوسری آیت میں تفصیلی اشارہ ہے ۔ لیکن ان کی اکثریت دین اسلام سے منکر رہی ۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے اس عہد کو توڑا جو اللہ نے نبیوں سے لیا تھا کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے نبی پر ایمان لائے گا ‘ جو اس کے بعد مبعوث ہوگا ‘ اور اس کی نصرت کرے گا ۔ وہ دین اسلام کے نافرمان اس طرح قرار پائے کہ انہوں نے نبی آخرالزمان کے بھیجنے کے سلسلے میں اللہ کے ارادہ اور حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ‘ محض اس لئے کہ یہ رسول بنی اسرائیل کے قبیلے سے نہ تھا ‘ اور انہوں نے اس رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کی آخری شریعت کے مطابق اپنی زندگی کے فیصلے کرانے کے اعزاز سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھا ‘ حالانکہ اللہ کا ارادہ اور فرمان یہ تھا کہ تمام انسانیت اس شریعت کے مطابق زندگی بسر کرے ۔

اہل ایمان میں سے بعض لوگ چونکہ بدستور مدینہ کے اہل یہود کے ساتھ روابط قائم کئے ہوئے تھے اور اس وقت تک مدینہ طیبہ میں یہودی ایک برتر قوت تھے ‘ وہ ایک عسکری قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی قوت بھی تھے اور اہل اسلام میں بعض لوگ ان کی اس حیثیت کو تسلیم بھی کرتے تھے ‘ اس لئے قرآن کریم نے یہ ضروری سمجھا کہ ان نافرمانوں کو اس حیثیت پر تنقید کرکے مسلمانوں کو ان کی مرعوبیت سے نکالاجائے اور ان کے کفر ‘ نافرمانی اور ان کے جرائم کی وجہ سے ان کی حیثیت میں جو کمی واقع ہوئی ہے ‘ اس کا اظہار کیا جائے ۔ نیز جس طرح وہ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت اور خواری مسلط کردی تھی یہاں اسے واضح طور پر ریکارڈ کردیا گیا ۔

اردو ترجمہ

یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lan yadurrookum illa athan wain yuqatilookum yuwallookumu aladbara thumma la yunsaroona

ان آیات میں اللہ مومنین کو فتح ونصرت کی ضمانت دیتے ہیں ‘ اور آخرکار ان کی سلامتی کی بھی صریح ضمانت دیتے ہیں ‘ جب بھی وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں آمنا سامنا کریں گے یہ ضمانت ان کے لئے موجود ہوگی بشرطیکہ وہ اپنے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور اپنے رب پر یقین کریں۔

لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الأدْبَارَ ثُمَّ لا يُنْصَرُونَ……………” یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے زیادہ سے زیادہ بس ستاسکتے ہیں ‘ اگر یہ تم سے لڑیں تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے ‘ پھر ایسے بےبس ہوں گے کہ کہیں سے ان کو مدد نہ ملے گی ۔ “

اس لئے وہ دعوت اسلامی کو کوئی حقیقی ضرر نہیں پہنچاسکتے ‘ نہ وہ جماعت مسلمہ کی تشکیل میں کوئی اثر اندازی کرسکتے ہیں اور نہ وہ دعوت اسلامی کو اس کرہ ارض سے ختم کرسکتے ہیں ۔ ہاں جماعت مسلمہ کے ساتھ جب ان کا تصادم ہوتا ہے تو وہ اذیت دے سکتے ہیں ‘ وہ اس قسم کے عارضی دکھ دے سکتے ہیں جو مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جب وہ مسلمانوں کے ساتھ میدان جنگ میں مقابل ہوں گے تو ان کے لئے شکست لکھی ہوئی ہے اور آخر کار وہ شکست کھائیں گے ‘ ان کی قسمت میں مسلمانوں کے برخلاف کوئی نصرت نہیں ہے ۔ ان کو مسلمانوں کے مقابلے میں کوئی مددگار ملے گا اور نہ وہ مسلمانوں کی زد سے بچ سکیں گے ۔ اور یہ اس لئے ہے کہ ان پر ذلت کی زد پڑگئی ہے اور اس کا یہ انجام بد لکھ دیا گیا ہے ‘ اس لئے وہ جس سرزمین میں بھی ہوں گے وہ ذلیل ہوکر رہیں گے ‘ وہ یا تو اللہ کی ذمہ داری میں رہیں گے اور یا مسلمانوں کی ذمہ داری میں رہیں گے ۔ جب وہ مسلمانوں کی ذمہ داری میں داخل ہوں گے تو ان کا مال اور ان کی جان محفوظ ہوگی ماسوائے اس کے کہ ان کے خلاف کوئی حق ثابت ہوچکا ہو ‘ یوں انہیں امن اور اطمینان نصیب ہوگا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہودیوں کو صحیح امن مسلمانوں کی ذمہ داری کے اندر نصیب ہوا ہے۔ لیکن یہود اس قدر نمک حرام ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مسلمانوں سے زیادہ اور کسی کے ساتھ دشمنی نہیں رکھتے ۔” وہ اللہ کا غضب لے کر لوئے ہیں ۔ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ یعنی گویا وہ دربدر ہوئے ‘ مارے مارے پھرتے رہے اور آخر کار اللہ کے غضب کا سامان سروں پر اٹھائے ہوئے لوٹے۔ “ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ……………” ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ۔ “ ان کے ضمیر اور شعور میں محتاجی کا احساس رچ بس گیا ہے ۔

ان آیات کے نزول کے بعد یہ تمام واقعات یہودیوں کی تاریخ میں انہیں پیش آئے ‘ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان جو معرکے پیش ہوئے ان میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت سے سرفراز کیا ‘ جب تک مسلمانوں نے اپنے دین اور اپنے نظام حیات اور اپنے نظریہ حیات کو اپنے سینے سے لگائے رکھا ‘ اور اپنی زندگیوں میں اسلامی نظام حیات قائم رکھا ‘ تو ان کے اعداء کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے ذلت اور خواری کو لکھ دیا۔ الا یہ کہ مسلمانوں کے عہد وذمہ داری کی وجہ سے انہیں چین نصیب ہوا یا یہ کہ خود مسلمانوں نے اسلامی نظام حیات کو ترک کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔

اردو ترجمہ

یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Duribat AAalayhimu alththillatu ayna ma thuqifoo illa bihablin mina Allahi wahablin mina alnnasi wabaoo bighadabin mina Allahi waduribat AAalayhimu almaskanatu thalika biannahum kanoo yakfuroona biayati Allahi wayaqtuloona alanbiyaa bighayri haqqin thalika bima AAasaw wakanoo yaAAtadoona

قرآن کریم اس بات کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ ان لوگوں کی قسمت میں ذلت اور خواری کیوں لکھ دی گئی ؟ اس کا سبب کیا ہے ؟ تو سبب دراصل ایک عام سبب ہے ‘ جس کے آثارونتائج ہر قوم پر منطبق ہوسکتے ہیں ۔ چاہے وہ دین کے معاملے میں جس قدر اونچے دعوے کرتی ہو۔ ان کی ذلت و خواری کا سبب اللہ کی نافرمانی اور ظلم تھا۔

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ

” اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا ۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام تھا۔ “

لہٰذا اللہ کی آیات کا سرے سے انکار کردینا اپنی زندگیوں میں انہیں نافذنہ کرنا اور ان کے مطابق اپنا نظام عدالت نہ چلانا اور انبیاء کو ناحق قتل کرنا ‘ اور ان لوگوں کو قتل کرنا جو لوگوں میں داعیان عدل ہوں جیسا کہ اس سورت کی دوسری آیت میں وارد ہے ۔ یعنی صرف نافرمانی اور ظلم کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور شکست ‘ ذلت اور خواری ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ۔ اور یہی وہ اسباب ہیں جو آج کل اس کرہ ارض پر مسلمانوں کی بگڑی ہوئی منحرف نسل کے اندر مکمل طور پر پائے جاتے ہیں ‘ وہ نسل جو اپنے اوپر لفظ اسلام کا اطلاق غلط طور پر کررہی ہے ‘ اور یہی اسباب آج وہ اللہ کے سامنے اپنے کردار کے آئینہ میں ‘ پیش کررہے ہیں ‘ اس لئے اللہ کی جانب سے بھی آج ان کے ساتھ بعینہ وہی سلوک کیا جارہا ہے جو اللہ نے ان ہی اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ کبھی کیا تھا ‘ یعنی آج شکست ‘ ذلت اور خواری ان کا مقدر بن چکی ہے ۔ جب آج ان میں سے کوئی پوچھتا کہ ہم اس کرہ ارض پر غالب کیوں نہیں ہورہے ‘ حالانکہ ہم مسلمان ہیں ؟ تو یہ سوال کرنے سے پہلے اسے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اسلام ہے کیا ؟ اور مسلمان ہوتے کون ہیں ؟ پھر وہ یہ سوال کرے ۔

بہرحال رسول ﷺ کے وقت اہل کتاب میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے ۔ اگرچہ تھوڑے تھے ‘ یہ ضروری تھا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جاتا ۔ اس لئے آیت بالا کے بیان کردہ کلیہ میں استثناء کی گئی ۔ بتایا گیا کہ وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ‘ ان میں سے اچھے مومن بھی پیدا ہوئے ہیں ۔ اور ان کا تعلق باللہ بعینہ ایک اچھے مسلمان اور صادق مسلمان کی طرح ہے۔ اس لئے جو اس جزا کے مستحق ہوں گے ‘ جس کے سچے اہل ایمان مستحق ہوئے ۔

اردو ترجمہ

مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysoo sawaan min ahli alkitabi ommatun qaimatun yatloona ayati Allahi anaa allayli wahum yasjudoona

یہ اہل کتاب مومنین کی ایک روشن تصویر ہے ۔ ان میں سے بعض لوگوں نے سچائی کے ساتھ ایمان قبول کیا اور یہ ایمان ان کے دلوں میں گہرائی تک اتر گیا ۔ پھر یہ ایمان پوری طرح کامل اور شامل تھا ۔ یہ لوگ اسلامی صفوں میں شامل ہوگئے اور دین اسلام کے محافظ بن گئے ۔ اللہ اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ۔ انہوں نے ایمان کے تقاضے پورے کئے ‘ اور جس امت کا وہ جزء بن گئے تھے ‘ اس کی اساسی خصوصیت کے مطابق کام شروع کردیا ‘ یعنی یہ خصوصیت کہ وہ خیر امت ہے ۔ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر کاربند ہوگئے ‘ اس سے پہلے بھھی ان کے نفوس خیر طلب تھے ‘ انہوں نے بھلائی کے میدان میں ایک دوسرے کی مسابقت کی ۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھے ۔ اس لئے عالم بالا سے ان کے حق میں یہ شہادت نازل ہوئی کہ یہ لوگ یقیناً صالحین میں ہیں ۔ اور ان کے ساتھ یہ سچا وعدہ کیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی حق نہ مارا جائے گا ۔ نہ ہی ان کا کوئی حق روکا جائے گا۔ اور یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اللہ کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ متقین میں سے ہیں ۔

یہ ایک تصویر ہے جو یہاں اس لئے دکھائی جارہی ہے کہ جن لوگوں کی یہ خواہش ہو کہ وہ اپنے حق میں یہ شہادت قلمبند کرالیں وہ اسے اس روشن افق پر دیکھیں اور اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کریں ۔

یہ تو ایک محاذ ہے ‘ دوسری جانب کافر ہیں ‘ وہ کافر جنہیں ان کی دولت کچھ فائدہ نہیں دے رہی ہے ۔ جن کے لئے ان کی اولاد بھی مفید نہیں ہے ۔ پھر دنیا میں انہوں نے جو کچھ بھی خرچ کیا وہ ان کے لئے مفید نہیں ہے ۔ قیامت کے دن اس انفاق کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ انفاق بھلائی کے اس خط مستقیم کے ساتھ جڑا ہو انہیں ہے ‘ جو اللہ نے کھینچا ہے ۔ یعنی وہ بھلائی جو ایمان اور اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ہو ‘ جس کا تصور واضح ہو ‘ جس کا ہدف مستقل ہو اور جن کی راہ اللہ تک جاری ہو ‘ ورنہ پھر بھلائی کا ایک عارضی جذبہ کبھی کبھار پیدا ہوجائے گا مگر وہ مستقل نہ ہوگا ‘ اور وہ ایک ایسا جھکاؤ ہوگا جس کے رخ کو معمولی آندھی پھیرسکے گی ۔ وہ کسی واضح ‘ قابل فہم اور ٹھوس بنیاد پر نہ ہوگا نہ اس کا کسی مکمل اور جامع اور سیدھے نظام حیات سے ربط ہوگا۔

اردو ترجمہ

اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri wayamuroona bialmaAAroofi wayanhawna AAani almunkari wayusariAAoona fee alkhayrati waolaika mina alssaliheena

اردو ترجمہ

اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی نا قدری نہ کی جائے گی، اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yafAAaloo min khayrin falan yukfaroohu waAllahu AAaleemun bialmuttaqeena
64