یعنی قرآن کریم کی وحی تمہاری طرف کرکے ہم نے بہترین قصص تم پر نازل کیے اور یہ قصہ پھر تمام قصص سے احسن ہے اور یہ بھی وحی الہی ہے۔
وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ : " ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے) تم بالکل ہی بیخبر تھے " کیونکہ آپ بھی اپنی پوری قوم کی طرح خواندہ نہ تھے ، نہ اس قسم کے موضوعات پر کلام کرتے تھے جن پر قرآن کریم نے بات کی ہے اور قرآن کریم کے موضوعات میں سے ایک موضوع اس قسم کے قصے بھی ہیں جو گہری دانشمندی پر مشتمل ہیں۔
آیت 3 نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ قَصَص ق کی زبر کے ساتھ یہاں بطور مصدر آیا ہے اور اس کے معنی ہیں ”بیان“۔ اگر لفظ قِصَص ق کی زیر کے ساتھ ہوتا تو قصہ کی جمع کے معنی دیتا ‘ اور اس صورت میں اس کا ترجمہ یوں ہوتا کہ ہم آپ کو بہترین قصہ سنا رہے ہیں۔ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ یعنی قرآن میں اس وحی سورت کے نزول سے پہلے آپ اس واقعہ سے واقف نہیں تھے۔