آیت نمبر 101
اے رب تو نے مجھے بادشاہت بخشی ، اونچا مقام و مرتبہ دیا۔ مال و دولت سے نوازا اور تمام دنیاوی نعمتیں عطا کردیں۔
رب قد اتیتنی من الملک (12 : 101) ” اے رب تو نے مجھے حکومت بخشی “۔ اور پھر تو نے مجھے معاملہ فہمی عطا فرمائی۔
وعلمتنی من تاویل الاحادیث (12 : 101) ” زمین و آسمان بنانے والے “۔ تو نے اس کائنات کو کن فیکون سے تخلیق کیا اور اس کا پورا کنٹرول تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی اس کائنات پر اور اس کے اندر بسنے والوں پر قدرت رکھتا ہے “۔
انت ولی۔۔۔۔۔ الاخرۃ (12 : 101) ” تو ہی دنیا و آخرت میں میرا سر پرست ہے “۔ تو ہی مددگار اور نصرت کرنے والا ہے۔ اے اللہ یہ ہیں تیرے انعامات اور یہ ہیں تیری قدرتیں۔
اب میرے رب میں تجھ سے حکومت طلب نہیں کرتا ، میں تجھ سے صحت طلب نہیں کرتا ، اور میں تجھ سے مال طلب نہیں کرتا۔ رب ذوالجلال ، میں وہ چیز طلب کرتا ہوں جو دیر تک باقی رہنے والی ہے۔
توفنی مسلما والحقنی بالصلحین (12 : 101) ” میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا “۔ یوں حکومت اور جاہ و مرتبت غائب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ملاقات کی خوشیاں اور اہل و عیال اور بھائیوں کا اجتماع نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور اب منظر پر ایک بندہ خدا سامنے آتا ہے ۔ یہ نہایت ہی عاجزی سے دست بدعا ہیں کہ اے رب ، میرے اسلام کو محفوظ کیجیو۔ یہاں تک کہ میں تیرے سامنے مسلم ہو کر آؤں اور یہ کہ مجھے اہل صلاح وتقویٰ کی سوسائٹی میں جگہ دیجئے۔۔۔۔۔ یہ آخری امتحان ہے اور یہ ہے مکمل کامیابی !
٭٭٭
نبوت مل چکی، بادشاہت عطا ہوگئی، دکھ کٹ گئے، ماں باپ اور بھائی سب سے ملاقات ہوگئی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہے کہ جیسے یہ دنیوں نعمتیں تو نے مجھ پر پوری کی ہیں، ان نعمتوں کو آخرت میں پوری فرما، جب بھی موت آئے تو اسلام پر اور تیری فرمانبرداری پر آئے اور میں نیک لوگوں میں ملا دیا جاؤں اور نبیوں اور رسولوں میں صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین بہت ممکن ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی یہ دعا بوقت وفات ہو۔ جیسے کہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ثابت ہے کہ انتقال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلی اٹھائی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ رفیق اعلی میں ملا دے۔ تین مرتبہ آپ نے یہی دعا کی۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی اس دعا کا مقصود یہ ہے کہ جب بھی وفات آئے اسلام پر آئے اور نیکوں میں مل جاؤں۔ یہ نہیں کہ اسی وقت آپ نے یہ دعا اپنی موت کے لئے کی ہو۔ اس کی بالکل وہی مثال ہے جو کوئی کسی کو دعا دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تجھے اسلام پر موت دے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ابھی ہی تجھے موت آجائے۔ یا جیسے ہم مانگتے ہیں کہ اللہ ہمیں تیرے دین پر ہی موت آئے یا ہماری یہی دعا کہ اللہ مجھے اسلام پر مار اور نیک کاروں میں ملا۔ اور اگر یہی مراد ہو کہ واقعی آپ نے اسی وقت موت مانگی تو ممکن ہے کہ یہ بات اس شریعت میں جائز ہو۔ چناچہ قتادہ ؒ کا قول ہے کہ جب آپ کے تمام کام بن گئے، آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں، ملک، مال، عزت، آبرو، خاندان، برادری، بادشاہت سب مل گئے تو آپ کو صالحین کی جماعت میں پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہی سب سے پہلے اس دعا کے مانگنے والے ہیں، ممکن ہے اس سے مراد ابن عباس کی یہ ہو کہ اس دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے۔ جیسے کہ یہ دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے۔ جیسے کہ یہ دعا رب اففرلی ولوالدی سب سے پہلے حضرت نوح ؑ نے مانگی تھی۔ باوجود اس کے بھی اگر یہی کہا جائے کہ حضرت یوسف ؑ نے موت کی ہی دعا کی تھی تو ہم کہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کے دین میں جائز ہو۔ ہمارے ہاں تو سخت ممنوع ہے۔ مسند میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے کوئی کسی سختی اور ضرر سے گھبرا کر موت کی آرزو نہ کرے اگر اسے ایسی ہی تمنا کرنی ضروری ہے تو یوں کہے اے اللہ جب تک میری حیات تیرے علم میں میرے لئے بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں میری موت میرے لئے بہتر ہو، مجھے موت دے دے۔ بخاری مسلم کی اسی حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی کسی سختی کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی اس کی نیکیاں بڑھائے گی اور اگر وہ بد ہے تو بہت ممکن ہے کہ زندگی میں کسی وقت توبہ کی توفیق ہوجائے بلکہ یوں کہے اے اللہ جب تک میرے لئے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ۔ مسند احمد میں ہے ہم ایک مرتبہ حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ہمیں وعظ و نصیحت کی اور ہمارے دل گرما دئے۔ اس وقت ہم میں سب سے زیادہ رونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تھے، روتے ہی روتے ان کی زبان سے نکل گیا کہ کاش کہ میں مرجاتا آپ نے فرمایا سعد میرے سامنے موت کی تمنا کرتے ہو ؟ تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے۔ پھر فرمایا اے سعد اگر تو جنت کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو جس قدر عمر بڑھے گی اور نیکیاں زیادہ ہوں گی، تیرے حق میں بہتر ہے۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز موت کی تمنا نہ کرے نہ اس کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ آئے۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہو کہ اسے اپنے اعمال کا وثوق اور ان پر یقین ہو۔ سنو تم میں سے جو مرتا ہے، اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں۔ مومن کے اعمال اس کی نیکیاں ہی بڑھاتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ یہ حکم اس مصیبت میں ہے جو دنیوی ہو اور اسی کی ذات کے متعلق ہو۔ لیکن اگر فتنہ مذہبی ہو، مصیبت دینی ہو، تو موت کا سوال جائز ہے۔ جیسے کہ فرعون کے جادو گروں نے اس وقت دعا کی تھی جب کہ فرعون انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ کہا تھا کہ اللہ ہم کو صبر عطا کر اور ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے۔ اسی طرح حضرت مریم (علیہا السلام) جب درد زہ سے گھبرا کر کھجور کے تنے تلے گئیں تو بےساختہ منہ سے نکل گیا کہ کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور آج تو لوگوں کی زبان ودل سے بھلا دی گئی ہوتی۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب معلوم ہوا کہ لوگ انہیں زنا کی تہمت لگا رہے ہیں، اس لئے کہ آپ خاوند والی نہ تھیں اور حمل ٹھر گیا تھا۔ پھر بچہ پیدا ہوا تھا اور دنیا نے شور مچایا تھا کہ مریم بڑی بد عورت ہے، نہ ماں بری نہ باپ بدکار۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی مخلصی کردی اور اپنے بندے حضرت عیسیٰ ؑ کو گہوارے میں زبان دی اور مخلوق کو زبردست معجزہ اور ظاہر نشان دکھا دیا صلوات اللہ وسلامہ علیہا ایک حدیث میں ایک لمبی دعا کا ذکر ہے جس میں یہ جملہ بھی ہے کہ اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنہ کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں دو چیزوں کو انسان اپنے حق میں بری جانتا ہے ؛ موت کو بری جانتا ہے اور موت مومن کے لئے فتنے سے بہتر ہے۔ مال کی کمی کو انسان اپنے لئے برائی خیال کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی ہے الغرض دینی فتنوں کے وقت طلب موت جائز ہے۔ چناچہ حضرت علی ؓ نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں جب دیکھا کہ لوگوں کی شرارتیں کسی طرح ختم نہیں ہوتیں اور کسی طرح اتفاق نصیب نہیں ہوتا تو دعا کی کہ الہ العالمین مجھے اب تو اپنی طرف قبض کرلے۔ یہ لوگ مجھ سے اور میں ان سے تنگ آچکا ہوں۔ حضرت امام بخاری ؒ پر بھی جب فتنوں کی زیادتی ہوئی اور دین کا سنبھالنا مشکل ہو پڑا اور امیر خراسان کے ساتھ بڑے معرکے پیش آئے تو آپ نے جناب باری سے دعا کی کہ اللہ اب مجھے اپنے پاس بلا لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ فتنوں کے زمانوں میں انسان قبر کو دیکھ کر کہے گا کاش کہ میں اس جگہ ہوتا کیونکہ فتنوں بلاؤں زلزلوں اور سختیوں نے ہر ایک مفتون کو فتنے میں ڈال رکھا ہوگا۔ ابن جریر میں ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ نے اپنے ان بیٹوں کے لئے جن سے بہت سے قصور سرزد ہوچکے تھے۔ استغفار کیا تو اللہ نے ان کا استغفار قبول کیا اور انہیں بخش دیا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب سارا خاندان مصر میں جمع ہوگیا تو برادران یوسف نے ایک روز آپس میں کہا کہ ہم نے ابا جان کو جتنا ستایا ہے ظاہر ہے ہم نے بھائی یوسف پر جو ظلم توڑے ہیں، ظاہر ہیں۔ اب گویہ دونوں بزرگ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہماری خطا سے درگزر فرما جائیں۔ لیکن کچھ خیال بھی ہے کہ اللہ کے ہاں ہماری کیسی درگت بنے گی ؟ آخر یہ ٹھیری کہ آؤ ابا جی کے پاس چلیں اور ان سے التجائیں کریں۔ چناچہ سب مل کر آپ کے پاس آئے۔ اس وقت حضرت یوسف ؑ بھی باپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آتے ہی انہوں نے بیک زبان کہا کہ حضور ہم آپ کے پاس ایک ایسے اہم امر کے لئے آج آئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اہم کام کے لئے آپ کے پاس نہیں آئے تھے، ابا جی اور اے بھائی صاحب ہم اس وقت ایسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہمارے دل اس قدر کپکپا رہے ہیں کہ آج سے پہلے ہماری ایسی حالت کبھی نہیں ہوئی۔ الغرض کچھ اس طرح نرمی اور لجاجت کی کہ دونوں بزرگوں کا دل بہر آیا ظاہر ہے کہ انبیا کے دلوں میں تمام مخلوق سے زیادہ رحم اور نرمی ہوتی ہے۔ پوچھا کہ آخر تم کیا کہتے ہو اور ایسی تم پر کیا بپتا پڑی ہے ؟ سب نے کہا آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہم نے آپ کو کس قدر ستایا، ہم نے بھائی پر کیسے ظلم وستم ڈھائے ؟ دونوں نے کہا ہاں معلوم ہے پہر ؟ کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ دونوں نے ہماری تقصیر معاف فرما دی ؟ ہاں بالکل درست ہے۔ ہم دل سے معاف کرچکے۔ تب لڑکوں نے کہا، آپ کا معاف کردینا بھی بےسود ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف نہ کر دے۔ پوچھا اچھا پھر مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ جواب دیا یہی کہ آپ ہمارے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، یہاں تک کہ بذریعہ وحی آپ کو معلوم ہوجائے کہ اللہ نے ہمیں بخش دیا تو البتہ ہماری آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آسکتا ہے ورنہ ہم تو دونوں جہاں سے گئے گزرے۔ اس وقت آپ کھڑے ہوگئے، قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے حضرت یوسف ؑ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، بڑے ہی خشوع خضوع سے جناب باری میں گڑگڑا گڑا گڑا کر دعائیں شروع کیں۔ حضرت یعقوب ؑ دعا کرتے تھے اور حضرت یوسف آمین کہتے تھے، کہتے ہیں کہ بیس سال تک دعا مقبول نہ ہوئی۔ آخر بیس سال تک جب کہ بھائیوں کا خون اللہ کے خوف سے خشک ہونے لگا، تب وحی آئی اور قبولیت دعا اور بخشش فرزندان کی بشارت سنائی گئی بلکہ یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تیرے بعد نبوت بھی انہیں ملے گی۔ یہ قول حضرت انس ؓ کا ہے اور اس میں دو راوی ضعیف ہیں یزید رقاشی۔ صالح مری۔ سدی ؒ فرماتے ہیں حضرت یعقوب ؑ نے اپنی موت کے وقت حضرت یوسف ؑ کو وصیت کی کہ مجھے ابراہیم واسحاق کی جگہ میں دفن کرنا۔ چناچہ بعد از انتقال آپ نے یہ وصیت پوری کی اور ملک شام کی زمین میں آپ کے باپ دادا کے پاس دفن کیا۔ علیہم الصلوات والسلام