سورہ یوسف: آیت 1 - الر ۚ تلك آيات الكتاب... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ یوسف

الٓر ۚ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ

اردو ترجمہ

ا، ل، ر یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflamra tilka ayatu alkitabi almubeenu

آیت 1 کی تفسیر

سورة پر ایک نظر کا بقیہ حصہ :

فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُوا يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (63) قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلا كَمَا أَمِنْتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِنْ قَبْلُ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (64) وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ (65) قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلا أَنْ يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ (66) جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا اباجان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے ۔ لہذا آپ ہمارے بھائی کو

ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ کے کر آئیں ۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں “ باپ نے جواب دیا ” کیا میں اس معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملے میں کرچکا ہوں ؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے “۔ پھر جیسا انہوں نے اپنا سامان کھولا تو ایکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کردیا گیا ہے ۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے ، ” اباجان اور ہمیں کیا چاہئے دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں دے دیا گیا ہے ، بس اب ہم جائیں گے اواپنے اہل و عیال کے لئے رسد لے آئیں گے ، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بار شتر اور زیادہ بھی لائیں گے ۔ اتنے غلے کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہوجائے گا “۔ ان کے باپ نے کہا ” میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم اللہ کے نام سے مجھے کوئی بیان نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرورلے کر آؤگے الا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لئے جاؤ “ﷲجب انہوں نے اس کو اپنے پیمان دے دئیے تو اس نے کہا ” دیکھو ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے “ پھر اس نے کہا ” میرے بچو ، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا ۔ مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچاسکتا ، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہے اسی پر کرے “۔

اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔ ہاں یعقوب کے دل میں جو ایک کھٹک تھی ، اسے دور کرنے کے لئے اس نے اپنی سی کوشش کی ، بےچک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب عالم تھا ، مگر اکثر لوگ معاملے کی حقیقت کو جانتے نہیں “۔ اس کے بعد اس قصے میں ان کا کردار اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ دوسرے صدمے سے دوچار ہوتے ہیں ۔ یہ خدا رسیدہ نبی ہیں اور بےپناہ محبت کرنے والے ہیں۔ یہ اس وقت جب اللہ نے ایک خاص تدبیر کے ذریعے یوسف کے بھائی کو مصر میں رکوا دیا۔ حضرت یعقوب کے بیٹوں میں ایک صاحب جو معتدل شخصیت کے مالک تھے وہ بھی مصر ہی میں رک جاتے ہیں ، ان کی شخصیت کا یہ اعتدال اس پورے قصے میں نمایاں رہا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ میں کن آنکھوں سے باپ کا سامنا کروں یا تو وہ اجازت دیں یا پھر اللہ کوئی اور صورت نکال دے۔

فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُمْ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الأرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ (80) ارْجِعُوا إِلَى أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ (81) وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (82) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (83) وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ (84) قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ (85) قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ (86) يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لا يَيْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (87) جب وہ یوسف سے مایوس ہوگئے تو ایک گوشے

میں جاکر مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ” تم جانتے نہیں کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسف کے معاملے میں جو زیادنی تم کرچکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے ۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دے دیں یا پھر اللہ ہی میرے حق میں فیصلہ فرمادے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ تم جاکر اپنے والد سے کہو کہ ” اباجان ، آپ کے صاحبزادے نے تو چوری کی ہے ، ہم نے اس سے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو کچھ ہمیں معلوم ہے بس وہی ہم بیان کررہے ہیں اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے۔ آپ اس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جہاں ہم تھے۔ اس قافلے سے دریافت کرلیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں “۔۔۔۔ باپ نے یہ داستان سن کر کہا ” دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک اور بڑی بات کو سہل بنادیا ، اچھا اس پر بھی صبر کروں گا۔ اور بخوبی کروں گا ۔ کیا بعید کہ اللہ ان سب کو مجھ سے ملادے ، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں “۔ پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھر کر بیٹھ گیا اور کہتے لگا ” ہائے یوسف “ وہ دل ہی دل میں غم سے گھٹا جارہا تھا۔ اور اس کی آنکھیں سفید پڑگئی تھیں۔ بیٹوں نے کہا ” خدا را آپ تو بس یوسف ہی کو یاد کیے جارہے ہیں ۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ اسکے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا اپنی جا ہلاکت میں ڈالیں گے “۔ اس نے کہا ” میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا ، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ میرے بچو ، جاکر یوسف اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں “۔

یہ ضعیف بوڑھا ، اس قصے کے آخری منظر میں بھی نہایت ہی واقفیت پسند ہے ۔ اس طویل غم نے اسے توڑپھوڑدیا ہے ۔ اب وہ دور سے یوسف کی قمیص کو سونگھ لیتا ہے ، وہ اپنے بیٹوں کی ملامت کا بھی مقابلہ کرتا ہے لیکن اسے جو امید ہے وہ شک نہیں کرتا کہ وہ پوری نہ ہوگی ۔ اسے اپنے رب پر پوراپورا بھروسہ ہے۔

وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لأجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ (94) قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ (95) فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ (96) قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ (97) قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (98) ” جب قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا ” میں یوسف کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ، تم

لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں “۔ گھر کے لوگ بولے ” خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں “۔۔۔ پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یوسف کی قمیص یعقوب کے منہ پر ڈال دی اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی ۔ تب اس نے کہا ” میں تم سے کہتا نہ تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے “۔ سب بول اٹھے ” اباجان آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کی دعا کریں واقعی ہم خطاکار تھے “۔ اس نے کہا ، ” میں اپنے رب سے تمہارے لئے معافی کی درخواست کروں گا ، وہ بڑا معاف کرنے والا اور حیم ہے “۔

یہ ہے وہ شخصیت جس کے خدوخال یکساں ہیں ، جس کا شعور حقیقت پسندانہ ہے ، وہ ہر حالت اور ہر صورت میں ربانی شعور رکھتے ہیں۔ ان کے اندر کوئی طمع کاری نہیں ہے ، ان کی سیرت میں کوئی جھول نہیں ہے اور ان کے معیار اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔

يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ (29) یوسف (علیہ السلام) اس معاملے سے درگزر کر ۔ اور اے عورت

، تو اپنے قصور کی معافی مانگ ، تو ہی اصل میں خطاکار تھی “۔

نیز عورتوں کی چہ میگوئیاں کہ عزیز مصر کی بیوی کیا کررہی ہے اور اس کی جو ابی تدبیر اور دعوت کا انتظام اور ان کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کا حاضر ہونا اور سب کا حیران را جانا اور اس کا یہ تبصرہ :

قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ (32) بیشک میں نے

اسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا ، اگر یہ میرا کہا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا “۔

یہ سوسائٹی جس میں اس قسم کی باتیں آزادانہ ہوتی ہوں ، یہ اونچے طبقے کی سوسائٹی ہوتی ہے ۔ یوسف (علیہ السلام) اس میں بطور غلام پھنسے ہوئے تھے اور اسی میں پل رہے تھے۔ اور عمر کا زمانہ ایسا تھا جسے فتنے اور آزمائش کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔ یہ تھا یوسف (علیہ السلام) کا ایک طویل اور کٹھن امتحان اور اس میں وہ ثابت قدم رہے ۔ وہ اس سے سرخرو ہوکر نکلے ، اور اس سوسائٹی اور اس عمر کی فتنوں کے مقابلے میں کامیاب رہے ، ان کی عمر اور عورت کی عمر کو مدنظر رکھ کر سو چا جائے کہ اس عورت کے ساتھ وہ ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں ، ان سب امور سے یہ اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف نے کس قدر طویل عرصے تک حالات کا مقابلہ کیا۔ اگر یہ واقعہ صرف یہی ایک ہوتا تو وہ بسہولت اس کا مقابلہ کرلیتے اور ان کے لئے مشکل پیش نہ آتی خصوصاً جبکہ مرد مطلوب ہو ، خود طالب نہ ہو ، خصوصاً جبکہ عورت کی خواہش ہو تو مرد اس سے انکار نہیں کرسکتا اور اس واقعہ میں عورت خواہشمند تھی۔

اس تمہید کے بعد اب تشریح آیات ۔

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (23) جس عورت

کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازہ بند کرکے بولی ” آجاؤ “۔

اس بار یہ عورت کھلے بندوں حضرت (علیہ السلام) کو ورغلانے کی کوشش کرتی ہے اور اس میں وہ واضح طور پر آخری مرحلے کے لئے دعوت دیتی ہے ۔ دروازے بند کرنا آخری مرحلے پر ہوا کرتا ہے اور یہ عورت اب اس انتہا تک پہنچ چکی ہے ، جسمانی خواہش کا یہ آخری مرحلہ ہے ۔

وقالت ھیت لک : اور یہ آخری ، واضح اور علانیہ دعو کسی عورت کی طرف سے پہلی مرتبہ نہیں ہوتی ۔ یہ بڑی تمہیدات کے بعد ہوتی ہے ۔ اگر عورت جسمانی خواہش کے اعتبار سے مجبور نہ ہوجائے تو ایسی دعوت وہ ہرگز نہیں دیتی ۔ نوجوان چونکہ ان کے گھر میں رہا تھا ، اس کی جسمانی قوت آہستہ آہستہ مکمل ہوئی تھی اور عورت کی خواہسشات (ھیت لک) کہنے سے قبل کئی مراحل سے گزری ہوگی اور اس آخری مرحلے سے پہلے اس کی کئی اداؤں کا مقابلہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کیا ہوگا۔

قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ یوسف ” نے کہا “ خدا کی پناہ میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں ! ) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے “۔ معاذاللہ ، میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔ میں یہ کیسے کر سکتا ہوں۔

إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ” میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ہے “۔ اس نے مجھے کنویں سے نجات دے کر باعزت جگہ دی اور ایسے اونچے گھرانے میں رکھا۔

إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (23) ” اے ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے “۔ جو حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہیں اور تم جس بات کی دعوت دے رہی ہو یہ تو سراسر حدود اللہ سے تجاوز ہے۔

یہاں قرآن اس بات کی تصریح کرتا ہے اور قطعیت کے ساتھ تصریح کرتا ہے کہ عورت کے اس ورغلانے کے عمل اور دروازے بند کرکے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو علانیہ دعوت گناہ دینے کو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بغیر تامل کے رد کردیا۔ انہوں نے حدودا للہ کو یاد کیا ، اللہ کے انعامات کو یاد کیا جبکہ قرآن نے اس کی دعوت گناہ کو بھی غلیظ الفاظ کے نجائے مہذب الفاظ میں بیان کی یعنی

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ ” وہ اسکی طرف بڑھی اور یوسف (علیہ السلام) بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا “۔

یہ آخری مرحلہ تھا اور تمام مفسرین نے اس ہر طویل کلام کیا ہے ۔ قدیم مفسرین میں سے بعض لوگوں نے اسرائیلیات کا تباع کیا ہے اور اس بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔ ان روایات میں یہ ذکر ہوا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) بھی ایک عام نوجوان کی طرح اس آخری فعل کے ارتکاب پر مائل تھے ، آگے بڑھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو برہان پر برہان کھارہا تھا مگر وہ رک نہ رہے تھے ۔ اس تنہاخانے میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی تصویر ظاہرہوئی اور انہوں نے اپنی انگلی دانتون میں دبا رکھی تھی۔ اور ان کے سامنے ایک ایسی تختی اچانک آگئی جس کے اوپر آیات قرآنی مکتوب تھیں ۔ قرآنی آیات ! جن میں یہ لکھا تھا کہ ایسے کام سے باز آجاؤ، لیکن ، پھر بھی نہ رکے تو اللہ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو بھیجا اور کہا کہ پہنچو میرا بندہ کرنے لگا ہے ۔ وہ آئے اور انہوں نے حضرت یوسف کو سینے میں ایک ضرب لگائی ۔ یہ اور ایسی دوسری روایات جو واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ یہ جعلی اور بناونی ہیں۔ رہے جمہور مفسر ین ، تو انہوں نے یہ کہا ہے کہ عورت نے تو ارادہ گناہ کرلیا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی اس کے بارے میں سوچ لیا ہوتا ، اگر اس پر اللہ کا برہان روشن نہ ہوگیا ہوتا اور پھر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کرلیا۔

سید رشید رضا نے اپنی تفسیر المنار میں جمہور علماء کی اس تفسیر پر رد فرمایا ہے ۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ یہ جابر مالک تھی اور اس نے اسے دعوت گناہ دی اور اسے مارا بیٹا کیونکہ اس نے انکار کرکے اس کی توہین کی تھی اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسکی زیادتی کا جواب دیا ۔ اور اس کے بعد انہوں نے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور اس طرح اس نے اسے پکڑ کر قمیص پھاڑ دی ۔ (ھم) کا مفہوم مارنا اور مارنے کا جواب دینا ایک ایسی تفسیر ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ یہ ایک کوشش سے پاک صاف ثابت کیا ہے ۔ لیکن یہ تفسیر تکلف سے خالی نہیں ہے ۔ اور نہ عربی الفاظ اس کے متحمل ہیں۔

ان نصوص پر غور کرنے کے بعد جو بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس پختہ کار عورت کے ساتھ ایک مکان میں رہ رہے تھے اور ایک طویل عرصے تک رہ رہے تھے۔ علم و حکمت عطا ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی موجود تھے۔

اس آیت سے میں جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس میں آْخری مرحلے کو بیان کیا گیا ہے ۔ اس عورت نے ایک طویل عرصہ ان کو ورغلانے کی سعی کی اور آپ نے انکار کیا ، اس عرصے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) ان مشکل حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور قرآن اس آیت میں آخری مراحل کا ذکر کردیا کہ انہوں نے پاکیز گی اختیار کی اور اللہ کے برہان کو دیکھ لیا ۔ اس کشاکش کو یہاں قرآن مجید نے نہایت ہی مختصر اً بیان کیا ہے اور اسے مختصر جگہ دی ہے ۔ اس کے لئے مناسب اور ضروری الفاظ استعمال کیے ۔ کشاکش کے آغاز اور انجام کو ان الفاظ میں قلم بند کردیا کہ آغاز میں انہوں نے انکار کیا اور انتہا میں انہوں نے براہین الٰہیہ کو دیکھا لیکن ابتدائی اور آخری مرحلے کے درمیان ممکن ہے کہ کمزوری کے لمحات بھی آئے ہوں اور اس طرح حقیقت پسندانہ سچائی اور پاک فضادونوں مکمل ہوں ۔

ان حالات ونصوص کا مطالعہ کرتے وقت میرے ذہن میں میں یہ بات آئی ہے ۔ یہ بات انسانی مزاج اور طیعت کے بھی قریب ہے اور منصب نبوت کے بھی ہم آہنگ ہے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بہر حال انسان تھے اور ایک برگزیدہ انسان تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نفسیاتی میلان ہی رہا ۔ اور جب ان کے اپنے قلب اور ضمیر میں اللہ کا برہان ظاہر ہوا تو ان کا یہ نفسیاتی میلان بھی ختم ہوگیا اور وہ حالت اعتصام اور مکمل انکار کی طرف لوٹ آئے ۔

علامہ زمخشری کشاف میں کہتے ہیں ” سوال یہ ہے کہ ایک نبی کس طرح برائی کا ” ھم “ کرسکتا ہے اور کس طرح وہ ارادہ کرسکتا ہے کہ وہ یہ کام کرے ۔ جواب یہ ہے کہ یہ ایک نفسیاتی میلان تھا ، جوانی کی خواہشات کا دباؤہر انسان پر ہوتا ہے ۔ یہاں اسے ھم اور قصد سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ایسے حالات میں انسان پر سخت دباؤ ہوتا ہے اور عزم اور مدافعت کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے ، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے براہین کے ملاحظے کے بعد اس دباؤ کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ اگر یہ میلان ہی نہ ہوتا اور جسمانی دہاؤنہ ہوتا ، تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اس کام سے رک کر قابل ستائش کس طرح ہوگئے ۔ کیونکہ صبر ، برادشت اور ابتلاپر اجرتب ہی ہے کہ انسان کے اندر قوت اور میلان موجود ہو “۔

y كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ (24) ایسا ہوا ، تاکہ ہم اس سے بدی اور بےحیائی کو دور کردیں ، درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا “۔

اس قصے کرداروں میں جو حقیقت پسندی ، صداقت ، پاکیزگی ، صفائی ہے وہ صرف اس قصے کے کرداروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ یہاں اشخاص کی ایک بڑی تعداد کا ذکر اس قصے میں لایا گیا ہے ، بلکہ اس قصے کے واقعات ، ان کا طرز ادا ، اس کے زمان و مکان اور ظروف و احوال بھی بالکل نیچرل ہیں ، اور حسن و خوبی سے بھی مالا مال ہیں ، جس معاشرے اور سوسائٹی میں یہ واقعات ہو رہے ہیں ، وہ بھی نہایت ہی قدرتی اور بےساختہ ہے۔ اس قصے کی ہر حرکت ہر لفظ اور ہر سوچ اپنے قدرتی وقت اور انداز پر آتی ہے اور ایسی شکل و صورت میں آتی ہے جس کی انسان توقع کرتا ہے اور اس وقت آتی ہے جب اس کے لیے اسٹیج تیار ہوتا ہے۔ ہر حرکت ، ہر بات اور ہر شخصیت ضرورت کے مطابق نمایاں کی گئی ہے۔ اور ضرورت کے مطابق اسے پس منظر میں رکھا گیا ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم کرداروں کے سلسلے میں تفصیل سے بحث کر آئے ہیں۔

اس قصے میں جنسی لمحات بھی آتے ہیں لیکن وہ اس رنگ میں ہیں جس قدر پاکیزہ رنگ میں انسان کے ساتھ مناسب ہیں اور قدرتی ہیں۔ کسی قدرتی اور طبیعی انداز میں نہ کمی کی گئی ہے اور نہ ہی اس میں بےجا مبالغہ ہے۔ ہر بات ، ہر حرکت اور ہر ایکٹ نہایت ہی متناسب قدرتی اور مکمل ہے۔ لیکن جنس کو اس قصے پر حاوی نہیں کیا گیا کہ گویا انسانی اقدار میں ایک جنس اور سیکس ہی اور ہے اور تمام باتوں ، تمام مظاہر اور تمام افعال کو صرف اس محور کے گرد گھماتا ہے جیسا کہ آج کی جاہلیت جدیدہ نے قصص کو انداز میں پیش کیا ہے اور وہ اس کی داعی ہے اور اسے واقعیت کہتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جاہلیت انسان کو بحیثیت انسان مسخ کردیتی ہے ، اسے حیوان بنا دیتی ہے اور یہ کام وہ فنی سچائی اور واقعیت اور حقیقت کے عنوان سے کرتی ہے۔ جاہلیت جب جنسی لمحات کا اظہار کرتی ہے ، وہ ان لمحات کو اس قدر طول دیتی چلی جاتی ہے کہ زمان و مکان اور حرکت میں اسے جنسی لمحات و حرکات ہی نظر آتے ہیں۔ چناچہ انسانی زندگی کو وہ ایک گندا تالاب بنا دیتی ہے جس کی سطح کو وہ خوب مزین کرتی ہے۔ سطح پر پھول تیر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن سطح سے نیچے گندا گٹر ہی ہوتا ہے۔

جاہلیت کی فی الواقعہ اس کام کو واقعیت سمجھ کر کرتی ہے ؟ کیا وہ فی الواقعہ ایک حقیقی تصویر کھینچنا چاہتا ہے ؟ نہیں ، ہر گز نہیں ، نہیں یہ صیہونیوں کے پروٹوکولز کے مطابق سب کچھ ہورہا ہے۔ بین الاقوامی صیہونیت کی اسکیم یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ننگا کرکے ، انسانی اقدار سے محروم کرکے دنیا کو دنیا کو یہ بتایا جائے کہ اعلی اقدار کے حامل صرف یہودی ہیں اور وہی سپر انسان ہیں۔ اس اسکیم کے مطابق یہودیت یہ چاہتی ہے کہ تمام انسانوں کو جنس کے اس گندے تالاب میں گرا دے۔ انسانوں کی تمام بلند اقدار جنس کے اندر محدود ہوجائیں ، ان کی پوری قوت جنسی لذتیت کی نذر ہو ، کیونکہ انسانوں کو تباہ کرنے کا یہ تیر بہدف نسخہ ہے تاکہ تمام انسان عظیم صیہونی مملکت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ انسانی اخلاق کو تو ان لوگوں نے اسی طرح تباہ کیا اور انسانی افکار و عقائد کو انہوں نے سیکولر ازم اور مادیت کے اندر محدود کردیا۔ یہاں تک کہ انسان کو سائنس طریقے سے باور کرایا کہ وہ در اصل حیوان ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے ڈارونزم ، فرائڈ از ، مارکسزم ، سوشلزم اور دوسرے لادینی نظریات دئیے جو سب کے سب بوگس تھے اور ان کو ایک اسکیم کے تحت ایجاد کیا گیا اور رائج کیا گیا تاکہ انان محض حیوان بن جائے اور اسے چارے اور سیکس کے سوا کسی اور قدر کی کوئی پروا نہ ہو۔

۔۔

شخصیات اور واقعات کے بعد اس قصے میں کچھ تاریخی اشارات بھی ہیں کہ یہ کس دور کا واقعہ ہے اور اس قصے میں جن کثیر التعداد کرداروں کو پیش کیا گیا ہے اور ان کی جن خصوصیات کو اس میں قلم بند کیا گیا ہے اور جو عمومی خدوخال بیان کیے گئے ان کا تعلق کس دور سے ہے۔ چناچہ اس قصے کے بعض لمحات قابل غور ہیں اور بعض ایکشن اور اقوال اس طرف راہنمائی کرتے ہیں اور ان سے واضح طور پر اس زمانے کا تعین ہوجاتا ہے۔

٭ جس دور کے ساتھ اس قصے کا تعلق ہے اس دور میں مصر پر خاندان فراعنہ کی حکمرانی نہ تھی۔ یہ " گڈریوں " کے خاندان کا دور تھا ، جس میں حضرت ابراہیم حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب مصر کے پڑوس کنعان میں تھے۔ اس دور میں مصر کے باشندوں میں دین اسلام کے بارے میں قدرے معلومات تھیں۔ اس لیے کہ اس دور کے بادشاہوں کے لیے قرآن نے ملک کا لفظ استعمال کیا ہے اور بعد کے ادوار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں بادشاہ کے لیے فرعون کا لقب استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کس دور میں گزرے تھے۔ یہ گڈریوں " کا دور تھا اور یہ لوگ تیرہویں اور سترہویں خاندان حکمرانان مصر کے درمیان زمانے میں گزرے ہیں۔ مصری اس خاندان کو ہی کو (Heksus ) کہتے ہیں ، اور یہ لقب ان کو اس لیے دیا گیا ہے کہ مصری اس خاندان سے بہت نفرت کرتے تھے۔ ہیکن کا مفہوم قدیم مصری زبان میں خنزیر ہے یا خنزیر کے چرانے والے کے یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ خاندان ڈیڑھ سو سال تک مصر پر حکمران رہا ہے۔

٭اسی دور میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ رہا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دین اسلام کے بنیادی نظریہ یعنی عقیدہ توحید کی طرف دعوت زمانہ قید خانہ ہی سے شروع کردی تھی ، قیدیوں کے سامنے تقریر میں انہوں نے فرمایا کہ یہ میرے آباء و اجداد کا دین ہے۔ حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق ، اور حضرت یعقوب کا۔ جس طرح قرآن کریم نے آپ کی جیل کی تقریر نقل فرمائی ہے اس میں انہوں نے عقیدہ توحید کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔

قَالَ لا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (37) وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ (38) يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ أَمَرَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ (40):" واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں ، اپنے بزرگوں ابراہی ، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائی

درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر ، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے زندان کے ساتھیو بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں "

اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کی یہ ایک جامع تصویر ہے ، اور تمام رسولوں نے اسلام کی یہی تصویر پیش کی ہے۔ اس میں ایک طرف بنیادی عقائد ہیں ، یعنی اللہ پر ایمان ، آخر پر ایمان ، اور اللہ وحدہ کو لاشریک الہ سمجھنا اور اللہ کی مغفرت اس کی تمام صفات کے ذریعے حاصل کرنا کہ وہ واحد اور قہار ہے۔ اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی نہ حاکم اور نہ مقتدر اعلی ہے۔ اس لیے اس عقیدے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے ماننے والا تمام ان ارباب کی نفی کرے جو اللہ کے سوا عوام الناس کو خود اپنا غلام بناتے ہیں اور صرف حکومت الہیہ کا اعلان کردیا جائے کیونکہ اللہ نے حکم ہی یہ دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت اور غلامی نہ کی جائے اور بادشاہت ، حکمرانی اور ربوبیت صرف اللہ کی ہوگی ، حضرت یوسف کے ہاں عبادت کا مفہوم ہی یہ ہے کہ حکومت اور اقتار اعلی اور بندگی اور اطاعت اور قانون اسی کا ہو۔

ان الحکم الا للہ " فرماں روائی صرف اللہ کی ہے "

امر الا تعبدوا الا ایاہ " اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو "

ذالک الدین القیم " یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے " تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسلام کا نہایت ہی جامع اور مانع تعارف کرایا اور خصوصا اس کے نظریاتی اور سیاسی پہلو کو اجاگر کیا۔

اس نظریہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہاتھ میں پورے مصر کا اقتدار آگیا تو انہوں نے دعوت اسلامی کو اسی طرح جامع شکل میں پھیلایا ہوگا اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ذریعے مصر میں مکمل اسلامی نظام پھیل کر نافذ ہوگیا ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ وہ مصر کے حکمران بن گئے تھے۔ بلکہ مصر کے تمام خزانے ان کے ہاتھوں میں دے دئیے گئے تھے اور انہوں نے خشک سالی کے لیے جو ذخائر جمع کر رکھے تھے اور بعد میں وہ وہ خود انہیں تقسیم کر رہے تھے ، ان کے پاس دور دور سے لوگ غلہ خیردنے آتے تھے تو ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہوگا اور اس طرح حقیقی دین اسلام دور دور تک پھیل چکا ہوگا۔ جس طرح خود ان کے بھائی کنعان جیسے دور دراز علاقوں سے غلے کے لیے آگئے تھے۔ اس قصے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خشک سالی کس قدر وسیع تھی۔

نیز اس قصے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کنعان سے دینی نظریات گڈریوں کے دور میں مصر تک پہنچ چکے تھے اور ان کے مشرکانہ نظریات میں کافی اصلاح ہوچکی تھی۔ اس قصے میں مصر کی اعلی طبقات کی خواتین کے اجتماعی کے موقع پر جب انہوں نے حضرت یوسف کو دیکھا تو بےساختہ کہا فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلا مَلَكٌ كَرِيمٌ (31): " جب انہوں نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئیں اور کہا ، ماشاء اللہ یہ بشر نہیں یہ تو ایک معزز فرشتہ ہے۔ اور پھر عزیز مصر اپنی بوعی سے کہتا ہے : " يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ (29): " یوسف اس سے صرف نظر کرو ، اور تو (بیوی سے) اپنے گناہ سے استغفار کر ، بیشک تو ہی غلط کاروں سے تھی "

نیز اس پر امراۃ العزیز کا یہ کلام بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ بھی حضرت یوسف کے عقائد کو تسلیم کر کے مومن ہوگئی تھی اور اس کی اصلاح ہوگئی تھی۔

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (51) ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ (52) وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (53): " عزیز کی بیوی بول اٹھی ، اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے۔ اس سے میری غرض یہ تھی کہ وہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءت نہیں کر رہا۔ نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے ، الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت جو بیشک میرا رب غفور و رحیم ہے "

جب یہ معلوم ہوگیا کہ عقیدہ توحید حضرت یوسف کے برسر اقتدار آنے سے قبل ہی مصر میں پھیل گیا تھا تو ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو نہایت ہی وسیع پیمانے پر یہ عقیدہ پھیل گیا ہوگا اور خاندان گڈریاں کے بعد جب اٹھارویں خاندان کی شکل میں فراعنہ مصر نے دوبارہ حکومت مصر پر قبضہ کرلیا تو اس دور میں تو بنی اسرائیل یہاں پھیل گئے تھے اور دوسرے یہ کہ عقیدہ توحید کو بیہ عروج نصیب تھا پھر فراعنہ نے دوبارہ یہاں بت پرست کو رائج کیا۔

یہاں ایک بات سمجھ آتی ہے اور وہ بھی بہت معقول کہ اقتدار پر قبضے کے بعد فراعنہ نے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم شروع کردیا یہاں تک کہ ان کی نسل کشی پر اتر آئے۔ اس کی سیاسی اور ثقافتی وجوہات یہ تھیں۔ ایک یہ کہ وہ باہر سے آئے اور مصر میں اقتدار پر قابض ہوگئے اور دوسرے یہ کہ انہوں نے مصر میں ثقافتی انقلاب بھی برپا کردیا اور تمام لوگ عقیدہ توحید قبول کرکے اسلام میں داخل ہوگئے ، جب مصریوں نے گڈریوں کو شکست دی تو ساتھ ساتھ ان کے حامیوں بنی اسرائیل کو بھی خوب دبا کے رکھا۔ اگرچہ ثقافتی اور نظریاتی اختلاف اس کا اصلی اور حقیقی سبب تھا۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات اور عقیدہ توحید کا اصلی اثر یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی فرعون نہ ہو اور اقتدار اعلی صرف اللہ کا ہو۔ چناچہ عقیدہ توحید کے ماننے والے تمام فرعونوں اور تمام طاغوتوں کے دشمن ہوتے ہیں۔

جس نکتے کو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔ سورت غافر میں " رجل مومن " کی تقریر بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ تقریر اس شخص نے فرعون موسیٰ کے دربار میں کی تھی اور یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دفاع میں تھی۔ اس وقت فرعون کے دربار میں اس کے تمام حواری موجود تھے اور وہ یہ فصلہ کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ کو قتل کردیں اور وہ قتل محض اس لیے کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ عقیدہ توحید کی تبلیغ کر رہے تھے جس کے نتیجے میں فرعون کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا :

وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ (28) يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الأرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلا مَا أَرَى وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلا سَبِيلَ الرَّشَادِ (29) وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ يَوْمِ الأحْزَابِ (30) مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ (31) وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ (32) يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ (33) وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (34) الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ (35): " ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا چھوڑو مجھے میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا ، یا ملک میں فساد برپا کرے گا " موسیٰ نے کہا : میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے۔ اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص ، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا ، بول اٹھا کیا تم ایک شخص کو اس بنا پر قتل کردوگے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور آ ہی جائیں گے۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو۔ اے میری قوم کے لوگو ، آج تمہیں بادشاہی حاصل ہے اور زمین میں تم غالب ہو ، لیکن اگر خدا کا عذاب ہم پر آگیا تو پھر کون ہے جو ہماری مدد کرسکے گا ، فرعون نے کہا میں تو تم کو وہی رائے دے رہا ہوں ، جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اس راستے کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے۔ اور جو شخص ایمان لایا تھا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ، مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آجائے جو اس سے پہلے بہت سے جتھوں پر آچکا ہے ، جیسا دن قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی قوموں پر آیا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اے قوم مجھے ڈر ہے کہ تم پر فریاد و فغاں کا دن نہ آجائے۔ جب تم ایک دوسرے کو پکاروگے اور بھاگے بھاگے پھروگے مگر اس وقت اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ جسے اللہ بھٹکا دے اسے پھر کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس بینات لے کر آئے تھے مگر تم اس کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف سے شک ہی میں پرے رہے۔ پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تو تم نے کہا اب اس کے بعد اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکی ہوتے ہیں اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو۔ یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔ اسی طرح اللہ ہر متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔

غرض اصل جھگڑا تھا عقیدہ توحید (بایں معنی کہ اللہ واحد ہے ، وہی رب اور حاکم ہے ، اس کی بندگی فرض ہے) اور فرعونیت کے درمیان جو بنت پرستی پر مبنی تھی اور جس میں انسان ، انسان پر حکمران تھا

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ یہ اس کتاب روشن کی آیات ہیں جو اپنا مدعا واضح طور پر بیان کرتی ہے اور کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی۔

تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کردینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے، اس لے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول ﷺ ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا حضور ﷺ کوئی واقعہ بھی بیان ہوجاتا تو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23؀) 39۔ الزمر :23) اتری۔ اور بات بیان ہوئی۔ روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ، اس پر یہ آیتیں اتریں، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر (آیت اللہ نزل الخ،) اتری۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی۔ اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے۔ اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بےنیاز کردینے والا ہے۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کردیں جس میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر حضور ﷺ ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود حضرت موسیٰ ؑ بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کہا کہ بنو قریضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ ؟ آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن ثابت نے کہا کہ اے عمر کیا تم حضور ﷺ کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ اب حضرت عمر کی نگاہ پڑی تو آپ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ﷺ کے رسول ﷺ ہونے پر دل سے رضامند ہیں۔ اب آپ کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ اگر تم میں خود حضرت موسیٰ ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہوجاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں۔ ابو یعلی میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم ؓ کے پاس آیا آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے ؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے ؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا۔ اس نے کہا امیر المومنین میرا کیا قصور ہے ؟ آپ نے فرمایا بیٹھ جا۔ میں بتاتا ہوں پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اسی سورت کی (آیتیں لمن الغافلین) تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیرالمومنین میرا قصور کیا ہے آپ نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں۔ میں کرنے کو تیار ہوں، آپ نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے۔ پھر فرمایا بیٹھ جا، ایک بات سنتا جا۔ میں نے جاکر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لئے ہوئےحضور ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہوگئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے حضور ﷺ کو ناراض کردیا ہے اور منبر نبوی ﷺ کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے۔ اب آپ نے فرمایا لوگو میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں۔ خبردار تم بہک نہ جانا۔ گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میں تو یارسول اللہ ﷺ اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر آپ کے رسول ﷺ ہونے پر دل سے راضی ہوں۔ اب جو ﷺ منبر سے اترے اس کے ایک روای عبدالرحمن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ حضرت سے دریافت کرلیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے۔ یہاں آکر انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں ؟ آپ نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں ؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ۔ میں حضور ﷺ کے زمانے میں خیبر گیا۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھ بہت پسند آئیں۔ میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں۔ میں نے واپس آکر حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید حضور ﷺ کو میرا یہ کام پسند آگیا۔ لاکر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضور ﷺ تو سخت ناراض ہیں۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رواں رواں کھڑا ہوگیا۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں۔ چناچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا۔ یہ سنا کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہوجائے۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے۔ باہر آتے ہی جنگل میں جاکر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کردیں۔ مراسیل ابی داؤد میں بھی حضرت عمر ؓ سے ایسی ہی روایت ہے واللہ اعلم۔

آیت 1 - سورہ یوسف: (الر ۚ تلك آيات الكتاب المبين...) - اردو