سورہ یونس: آیت 3 - إن ربكم الله الذي خلق... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ یونس

إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

اردو ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna rabbakumu Allahu allathee khalaqa alssamawati waalarda fee sittati ayyamin thumma istawa AAala alAAarshi yudabbiru alamra ma min shafeeAAin illa min baAAdi ithnihi thalikumu Allahu rabbukum faoAAbudoohu afala tathakkaroona

آیت 3 کی تفسیر

ان ربکم اللہ الذی خلق السموت والارض حقیقت ناقابل شک یہ ہے کہ تمہارا مالک وہ اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ آسمان و زمین تمام ممکنات (مخلوقات) کے اصول ہیں (تمام چیزیں بقول فلاسفۂ یونان انہی کی تائید و تأثر سے بنی ہیں۔

فی ستۃ ایام چھ دن میں ‘ یعنی دنیا کے چھ روز کے بقدر مدت میں۔ یوں تو اللہ آن کی آن میں سارے جہان کو پیدا کرسکتا تھا مگر مخلوق کو آہستہ روی اور تدریج کی تعلیم دینے کیلئے اس نے چھ روز میں آسمان و زمین بنائے۔

ثم استوی علی العرش پھر عرش (تخت شاہی) پر وہ قائم ہوا۔ سلف سے خلف تک تمام اہل سنت کا باتفاق عقیدہ ہے کہ اللہ تمام جسمانی صفات اور حدوث کے عوارض سے پاک ہے ‘ لیکن آیت مذکورۃ الصدر اور اسی جیسی دوسری آیات (جن میں صفات جسم کے ساتھ اللہ کا انصاف ظاہر کیا گیا ہے) بظاہر اہل سنت کے مسلک و عقیدے کے خلاف نظر آتی ہیں۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے دو جواب دئیے گئے ہیں :

(1) تاویل کا مسلک اختیار کیا گیا ہے ‘ یعنی ظاہری الفاظ کے وہ (مجازی) معنی لئے گئے ہیں جو شان خداوندی کے مناسب ہیں کیونکہ آیت وَمَا یَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗٓ الاَّ اَللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ میں الراسخوان کا عطف اللّٰہُ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ متشابہات کا صحیح علم اللہ کو اور مضبوط علم رکھنے والوں کو ہی ہے (اس سے معلوم ہوا کہ متشابہات کی حقیقی مراد اور تاویل سے علماء ربانیین بھی واقف ہیں) اس کی تفصیلی بحث سورة آل عمران میں گذر چکی ہے۔ اس توجیہ کی روشنی میں آیت مذکور میں استَوٰی کو بمعنی اِسْتَولٰیقرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عرش جو سب سے اعلیٰ اور بالا مخلوق ہے ‘ جب اللہ اس پر غلبہ رکھتا ہے تو دوسری مخلوق پر اللہ کا تسلط بدرجۂ اولیٰ ظاہر ہے۔ پس ساری مخلوق اس کے زیرتسلط ہے۔ (1) [ استویٰکا معنی استولٰی اور تَسَلَّطَ عربی کلام میں بکثرت آیا ہے۔ کسی شاعر کا ایک شعر ہے ؂

قَدِ اسْتَویٰ بَشَرٌ عَلَی الْعِرَقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفٍ وَدَمٍ مُّھْراقٍ ۔۔ یعنی بشر نے بغیر تلوار چلائے اور خون بہائے عراق پر تسلط کرلیا (مترجم)]

لیکن بغوی نے کہا : استواء کو بمعنی استیلاء وتسلُّط قرار دینا معتزلہ کا قول ہے۔

(2) سلف صالحین کا مسلک ‘ اہل تاویل کے مسلک کے خلاف ہے۔ تمام علماء سلف کا قول ہے کہ اس قسم کی آیات کے ظاہر پر ایمان لانا واجب ہے۔ ان کی تنقیح اور موشگافیوں سے اجتناب لازم ہے۔ ان کی حقیقت کے علم کو اللہ کے سپرد کردینا ضروری ہے۔ اسی بناء پر امام محمد بن حسن نے فرمایا تھا کہ پورب سے پچھم تک تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث میں اللہ کی جو صفات آئی ہیں ‘ ان کو (یونہی) بغیر تشریح و تنقیح و توضیح کے ماننا اور ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو شخص ان کی توضیح کرتا ہے ‘ وہ رسول اللہ (ﷺ) اور اجماع سلف کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اس کا رسول اللہ (ﷺ) کے لائے ہوئے دین اور جماعت مسلمین کے اختیار کردہ مسلک سے تعلق نہیں۔ امام مالک بن انس نے فرمایا : استواء (کا حقیقی ترجمہ) مجہول نہیں (استواء کی) کیفیت معلوم نہیں اور کیفیت استواء کو دریافت کرنا بدعت ہے۔

سلف صالحین ‘ تنزیہ باری تعالیٰ کے قائل تھے ‘ اسی کے ساتھ استواء علی العرش کو (بغیر تاویل کے) مانتے تھے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اللہ آسمان میں یقیناً ہے ‘ زمین میں نہیں۔ رواہ البیہقی۔ اس قول کی نسبت بھی امام ابوحنیفہ کی طرف کی گئی ہے کہ جس نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ میرا رب آسمان میں ہے یا زمین میں ‘ وہ کافر ہوگیا کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی۔ اور عرش آسمانوں کے ادھر ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ بھی آیا ہے کہ جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ‘ وہ کافر ہوگیا۔

امام شافعی نے فرمایا : اللہ اپنے عرش پر اپنے آسمان میں ہے۔ وہ جیسا چاہتا ہے ‘ اپنی مخلوق کے قریب بھی ہوتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ‘ اترتا ہے (یعنی اللہ کا عرش پر ہونا مخلوق کے قریب ہونا اور نیچے اترنا ‘ تینوں قول صحیح ہیں لیکن عرش پر موجود ہونے ‘ مخلوق کے قریب ہونے اور نیچے اترنے کی کیفیت معلوم نہیں) ایسا ہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی مروی ہے۔

اسحاق بن راہویہ کا بیان ہے : تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ اللہ عرش کے اوپر مستوی ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ مزنی ‘ ذہبی ‘ بخاری ‘ ابو داؤد و ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابو یعلی ‘ بیہقی اور دوسرے ائمۂ حدیث کا یہی قول ہے۔ ابو زرعہ رازی کے قول سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسی قول پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ حافظ عثمان بن سعید دارمی نے لکھا ہے کہ تمام مسلمان اس قول پر متفق ہیں کہ اللہ اپنے عرش پر آسمانوں کے اوپر ہے۔ سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : یہ کہنا جائز نہیں کہ جس نے استواء کو پیدا کیا ‘ وہ کیسے مستوی ہو سکتا ہے۔ ہمارے لئے (استواء کو) ماننا اور تسلیم کرنا لازم ہے ‘ کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔ محمد بن جریر طبری نے لکھا ہے : مسلمان کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس کا رب عرش پر مستوی ہے۔ جو اس سے آگے بڑھے گا ‘ وہ نامراد اور خسران مآب ہوگا۔ محمد بن خزیمہ نے کہا : جو شخص اللہ کو عرش پر ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی اور سب مخلوق سے جدا نہیں کہتا وہ کافر ہے ‘ اس سے توبہ کرائی جائے توبہ کرلے تو خیر ‘ ورنہ اس کی گردن مار دی جائے۔

طحاوی نے لکھا ہے کہ عرش و کرسی ویسے ہی ہیں جیسے اللہ نے اپنی کتاب میں ان کو بیان کیا ہے۔ اللہ عرش سے بےنیاز ہے اور عرش کے نیچے والی چیزوں سے بھی۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز سے اوپر ہے۔

شیخ ابو الحسن اشعری بصری نے کتاب ” اختلاف المضلین و مقالات الاسلامیین “ میں اہل سنت اور اصحاب حدیث کا ایک قول لکھا ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ‘ اللہ کے فرشتوں ‘ کتابوں اور پیغمبروں کا ماننا اور جو کلام اللہ کی طرف سے آیا ہے اور جو رسول اللہ (ﷺ) کی صحیح حدیثوں میں مذکور ہے ‘ سب کا اقرار کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی چیز کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ماننا لازم ہے کہ اللہ اپنے عرش پر ہے ‘ جیسا کہ اس نے خود آیت الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرَشِ استَوٰی میں فرمایا ہے اور اللہ کے دو ہاتھ بھی ہیں مگر بغیر کیفیت (مخلوقیہ) کے۔ اس نے خود فرمایا ہے : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۔

ابو نعیم نے حلیہ میں لکھا ہے : ہمارا طریقہ سلف کے طریقے کے موافق ہے جو کتاب اللہ ‘ احادیث رسول اللہ (ﷺ) اور اجماع کے پیرو تھے اور اس بات کا اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ ہمیشہ سے اپنی تمام صفات میں کامل ہے ...... آخر میں ابو نعیم نے کہا : جن احادیث میں اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے ‘ سلف ان کو مانتے تھے اور اللہ کو عرش پر بغیر کسی (مخلوقی) کیفیت اور تشبیہ کے مستوی مانتے تھے اور اس امر کے بھی قائل تھے کہ اللہ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔

ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ اللہ آسمان میں عرش پر سات آسمانوں کے اوپر ہے ‘ جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے۔

خطیب نے کہا : سلف کا مسلک یہ ہے کہ ایسی (متشابہ) آیات کا اقرار کیا جائے اور ان کے ظاہری معنی پر ہی الفاظ کو محمول کیا جائے اور کیفیت و تشبیہ کی نفی کی جائے (یعنی کوئی کیفیت اور تمثیل و تشبیہ نہ بیان کی جائے کہ معنی معلوم ہے مگر معنی کی کیفیت مجہول ہے اور وجہ اللہ یا ید اللہ یا استواء علی العرش کو ہم مخلوق کے چہرے ‘ ہاتھ اور استواء سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔ یہ چیزیں اللہ کی صفات ہیں مگر ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے مناسب ہیں) امام الحرمین نے کہا : عقیدۂ سلف کا اتباع ہی پسندیدہ اعتقاد اور دین اللہ ہے۔ ائمۂ سلف نے تاویل سے اجتناب کیا ہے ‘ الفاظ کے ظاہری معنی کو اختیار کیا ہے اور معانی (کی وضاحت و تفصیل) کو اللہ کے سپرد کیا ہے۔

بغوی نے لکھا ہے : اہل سنت قائل ہیں کہ استواء علی العرش اللہ کی صفت ہے بلاکیف۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ بیضاوی نے لکھا : اس کا مطلب یہ ہے کہ استواء علی العرش اللہ کیلئے ویسا ہے جیسا اس کے مناسب ہے۔ استقرار اور مکانیت کی آمیزش سے پاک ہے۔

ابوبکرعلی بن عیسیٰ شبلی جو اپنے زمانہ کے صوفیاء میں سب سے بڑے عالم تھے ‘ کہتے ہیں : رب آسمان میں ہے ‘ حکم دیتا ہے اور فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری نے اخبار شتّٰی میں لکھا ہے کہ اللہ ساتویں آسمان میں عرش پر ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانی نے غنیۃ الطالبین میں لکھا ہے اور اس موضوع پر بہت تفصیلی بحث کی ہے (جس کا خلاصہ وہی ہے جو علمائے سلف سے منقول ہے کہ معانی معلوم ہیں ‘ کیفیت نامعلوم اور ہر تشبیہ سے پاک) ۔

یہ تمام اقوال ذہبی نے ” کتاب العلو “ میں نقل کئے ہیں۔ صحابہ ‘ تابعین ‘ محدثین ‘ فقہاء اور صوفیہ کی کثیر جماعت (تقریباً کل) کا یہی مسلک ہے۔ میں نے مختصراً سورة الاعراف کی آیت ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّھَارَاور سورة البقرہ کی آیت یَأتِیَھُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِکی تفسیر میں بیان کردیا ہے کہ اصحاب قلوب کے نزدیک ذات باری تعالیٰ کی خصوصی تجلی اور خاص پرتو بعض مخلوق پر پڑتا ہے ‘ وہ مخلوق نورانی لہروں سے نور چیں ہوتی ہے۔ اس سے ذات باری محل حوادث نہیں بن جاتی ‘ نہ خالص مرتبۂ تنزیہ سے اس کا (تشبیہ کی طرف) تنزل ہوتا ہے ‘ بلکہ ممکنات میں ایسا جوہر پیدا ہوجاتا ہے جو پرتو اندوزی کے قابل بن جاتا ہے (امکان و حدوث کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں جلوہ پزیری کی قابلیت بڑھ جاتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔ اس جلوہ پاشی سے وجوب و قدم میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ وجوب سے امکان اور قدم سے حدوث کی طرف ذات واجب و قدیم کا تنزل نہیں جاتا) میں نے سورة البقرہ میں آیت ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوَّاھُنَّ سَبْعَ سَّمٰوٰتٍ کی تفسیر کے ذیل میں اس جلوہ پاشی کی تنقیح کردی ہے جو مؤمن کے دل پر ‘ کعبہ پر اور عرش عظیم پر خصوصیت کے ساتھ ہوتی ہے (یعنی بعض مخلوق تجلئ الٰہی کی خصوصی جو لانگاہ ہے ‘ خصوصیت کے ساتھ وہ جلوۂ خداوندی سے نورچیں ہوتی ہے ‘ اس پر خاص چمکار 1 اور پرتو پڑتا ہے ‘ اس سے جلوہ ریزی اور نور پاشی کرنے والی ذات کا محتاج مکان و زمان اور حامل کیف و کم ہونا لازم نہیں آتا ہے۔ وہ جلوۂ قدیم بےکیف ہے ........ بےمکان ہے ‘ بےزمان ہے اور ہر حادث مقدار و عوارض سے پاک ہے۔

یدبر الامر ہر کام کی (مناسب) تدبیر کرتا ہے۔ یعنی حسب تقاضائے حکمت وہ کائنات کے تمام امور کا فیصلہ کرتا ہے۔ تدبیر کا معنی ہے تمام امور کے ادبار (یعنی انجام) پر نظر رکھ کر کام کرنا تاکہ نتیجہ اچھا نکلے۔

ما من شفیع الا من بعد اذنہ کوئی (کسی کا) سفارشی نہ ہوگا مگر اس کے اذن کے بعد۔ اللہ کی عظمت کا اظہار اس فقرہ میں کیا گیا ہے۔ اس آیت کا نزول نضر بن حارث کے متعلق ہوا جس نے کہا تھا کہ اگر قیامت کا دن ہوا تو لات و عزّٰی میری سفارش کردیں گے (لات و عزّٰی عورت کی شکل کے دو بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی) آیت میں اشارہ ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ضرور ہوگی مگر اللہ کی اجازت کے بعد ہوگی۔

ذلکم اللہ یہ اللہ ہے۔ یعنی وہ ذات جو صفات مذکورہ کا مجموعہ ہے اور صفات مذکورہ کا تقاضۂ الوہیت ہے ‘ وہی ذات اللہ ہے۔

ربکم تمہارا رب ہے۔ یعنی وہی تمہارا رب ہے ‘ اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ یا اس کی صفات میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔

فاعبدوہ پس تم اس کی پوجا کرو۔ یعنی اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ جماد تو الگ رہے ‘ ان میں تو نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں ‘ کسی انسان اور فرشتے کی بھی پوجا نہ کرو۔

افلا تذکرون۔ کیا تم بالکل غور نہیں کرتے کہ غور کرنے سے اتنا سمجھ لو کہ اللہ ہی معبودیت کا مستحق ہے۔ جن کی تم پوجا کرتے ہو ‘ ان میں سے کوئی بھی معبود بننے کے قابل نہیں۔

آیت 3 اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ”یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی چھ دنوں میں“ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ط ”پھر وہ عرش پر متمکن ہوگیا ‘ اور وہ تدبیر کرتا ہے ہر معاملہ کی۔“اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور منصوبہ بندی کے مطابق پوری کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی رح نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ”حجۃ اللہ البالغہ“ کے باب اول میں اللہ تعالیٰ کے تین افعال کے بارے میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے : 1 ابداع creation ex nehilo یعنی کسی چیز کو عدم محض سے وجود بخشنا ‘ 2 خلق ‘ یعنی کسی چیز سے کوئی دوسری چیز بنانا ‘ اور 3 تدبیر ‘ یعنی اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کائناتی نظام کی منصوبہ بندی planning فرمانا۔ مَا مِنْ شَفِیْعٍ الاَّ مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ ط ”نہیں ہے کوئی بھی شفاعت کرنے والا مگر اس کی اجازت کے بعد۔“کوئی اس کا اذن حاصل کیے بغیر اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے آیت الکرسی سورۃ البقرۃ میں بھی شفاعت کے بارے میں اسی نوعیت کا استثناء آچکا ہے۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ”وہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ پس تم اسی کی بندگی کرو۔ تو کیا تم نصیحت اخذ نہیں کرتے !“

تخلیق کائنات کی قرآنی روداد تمام عالم کا رب وہی ہے۔ آسمان و زمین کو صرف چھ دن میں پیدا کردیا ہے۔ یا تو ایسے ہی معمولی دن یا ہر دن یہاں کی گنتی سے ایک ہزار دن کے برابر کا۔ پھر عرش پر وہ مستوی ہوگیا۔ جو سب سے بڑی مخلوق ہے اور ساری مخلوق کی چھت ہے۔ جو سرخ یاقوت کا ہے۔ جو نور سے پیدا شدہ ہے۔ یہ قول غریب ہے۔ وہی تمام مخلوق کا انتظام کرتا ہے اس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں۔ اسے کوئی کام مشغول نہیں کرلیتا۔ وہ سوالات سے اکتا نہیں سکتا۔ مانگنے والوں کی پکار اسے حیران نہیں کرسکتی۔ ہر چھوٹے بڑے کا، ہر کھلے چھپے کا، ہر ظاہر باہر کا، پہاڑوں میں سمندروں میں، آبادیوں میں، ویرانوں میں وہی بندوبست کر رہا ہے۔ ہر جاندار کا روزی رساں وہی ہے۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے، زمین کے اندھیروں کے دانوں کی اس کو خبر ہے، ہر تر و خشک چیز کھلی کتاب میں موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت لشکر کا لشکر مثل عربوں کے جاتا دیکھا گیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا ہم جنات ہیں۔ ہمیں مدینے سے ان آیتوں نے نکالا ہے۔ کوئی نہیں جو اس کی اجازت بغیر سفارش کرسکے۔ آسمان کے فرشتے بھی اس کی اجازت کے بغیر زبان نہیں کھولتے۔ اسی کو شفاعت نفع دیتی ہے جس کے لیے اجازت ہو۔ یہی اللہ تم سب مخلوق کا پالنہار ہے۔ تم اسی کی عبادت میں لگے رہو۔ اسے واحد اور لاشریک مانو۔ مشرکو ! اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے ؟ جو اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہو حالانکہ جانتے ہو کہ خالق مالک وہی اکیلا ہے۔ اس کے وہ خود قائل تھے۔ زمین آسمان اور عرش عظیم کا رب اسی کو مانتے تھے۔

آیت 3 - سورہ یونس: (إن ربكم الله الذي خلق السماوات والأرض في ستة أيام ثم استوى على العرش ۖ يدبر الأمر ۖ ما من...) - اردو